ڈاکٹر خضر یسین
جس تصور اور عمل کا مبداء ماضی میں ہو اور وہ حال تک جاری ہو، روایت کہلاتا ہے۔ نہیں روایت اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے، وہ خیال یا عمل جس کا آغاز ماضی میں ہوا ہو، حال تک جاری ہو اور مخصوص سماجی گروہ اسے اپنے ابا و اجداد کی تقلید مانتے ہوں اور ماضی قریب یا ماضی بعید میں اس کے اندر پیدا کیے جانے والے حشو و زوائد بالاستمرار شامل ہوتے رہے ہوں، روایت کہلاتا ہے۔ ایسا کوئی خیال یا ایسا کوئی عمل جس میں ابا و اجداد کی تقلیدی اتباع بنیادی اور مرکزی کردار نہ رکھتی ہو، روایت نہیں کہلاتا۔ ایسا تصور و عمل جس کی بنیاد انسان کی دائمی فطرت پر ہو، روایت کبھی نہیں کہلاتا۔ مثلا انسان میں سوچنے سمجھنے کا عمل نہ روایت ہوتا ہے اور نہ ہی روایت کہلاتا ہے۔ لیکن سوچنے سمجھنے کا منہج روایت ہو سکتا ہے۔ جب انسان کی فکر کسی ایسے اصول کی پابند ہو جو خود اصول ہونے میں انسان کی استعداد علمیہ understanding کے بجائے اپنے ماحول اور سماجی دباؤ کا نتیجہ ہو تو ایسا منہج اور اصول منہج روایت بننے کا پوری طرح اہل ہوتا ہے بلکہ روایت اسے ہی کہا جاتا ہے۔ روایت میں شگاف اور دراڑ اس وقت پڑنا شروع ہوتا ہے جب انسان روایت کے منہج اور اصول منہج کی طرف تقلیدی اتباع سے بغاوت کرتے ہوئے ان پر استعداد علمیہ understanding کے دائمی اصول مبادیات اور اصول تعملات Elements and Canons کے ذریعے انتقادی مطالعہ شروع کرتا ہے۔ بعض اوقات یہ تنقید بارآور ثابت ہوتی ہے اور بعض اوقات روایت کے کباڑ خانے کی نذر ہو جاتی ہے۔
روایت کی اصل انسانی ذہن کی استعداد تفہیم و تفہم نہیں ہے بلکہ اس کی اصل انسان کا وہ طبعی مزاج ہے جو ماضی کے ساتھ جڑے رہنے میں آسودگی محسوس کرتا ہے۔ اس آسودگی کو بیشتر انسان اس ذہنی مشقت پر ترجیح دیتے ہیں جو حال کو نسبتا زیادہ آسودہ بنا سکتی ہے۔ چنانچہ انسانوں کی گردنوں میں پڑے ہوئے طوق چاہے ان کی قیمت کچھ ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑ رہی ہو، گلے سے اتار پھینکنے میں ایک نفسیاتی رکاوٹ حائل رہتی ہے۔ مقلد ذہن کبھی ناقد نہیں ہوتا اور نہ کبھی تنقید پسند کرتا ہے۔
انسانی تاریخ کا محتاط مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ انسان نے ایک روایت یا تقلیدی اتباع سے نکلا ہے تو دوسری تقلیدی اتباع یا روایت میں جا رکا ہے تو اسے اپنی کامیابی سمجھا ہے۔ سنی تھا تو شیعہ ہو گیا ہے، شیعہ تھا تو خارجی بن گیا ہے اور خارجی تھا تو شیعہ بن گیا ہے۔ روایت پرستوں کے لیے یہ بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ روایت کے ایک دائرے سے کسی کو نکال کر اپنے دائرہ میں جمع کرا دیں یا کوئی خود ایک دائرہ تقلید سے نکلے اور کسی دوسرے دائرہ تقلید میں پناہ گزیں ہو جائے تو وہ بھی ایک نفسیاتی تسکین سے شادکام ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا کسی دوسرے دائرے میں جانا اس کی تسکین و راحت کا سبب ہے حالانکہ اس کی تسکین کا مبداء وہ نہیں ہوتا جسے وہ سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس تسکین کا سبب پچھلے دائرہ تقلید سے خلاصی ہوتا ہے۔
جو لوگ انقلاب اور تخریب میں فرق کا شعور نہیں رکھتے وہ ایک تقلیدی اتباع سے نکل کر دوسری تقلیدی اتباع میں چلے جانے کو کامیابی اور عقل مندی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف سرکس کا نام بدلا ہوتا ہے ورنہ وہی سدھائے ہوئے شیر ہوتے ہیں اور وہی رنگ ماسٹر ہوتا ہے، جو پہلے تماشا کر چکا ہوتا ہے۔ روایت چونکہ تقلیدی اتباع کے سواء کسی شے کا نام نہیں ہے۔ جہاں کہیں آپ تقلیدی اتباع میں کھڑے ہیں آپ روایت کے دائرہ اثر میں ہیں۔
زبان و بیان ہو یا تفہیم و ایقان، روایت کا لفظ سنتے ہی ہم سب کے ذہن میں ماضی سے حال کی طرف بڑھتا ہوا ایک پیٹرن آف تھاٹ اینڈ پیٹرن آف ایکٹیویٹی رونما ہوتا ہے۔ روایت کے مفہوم و مدلول سے یکسانیت، تقلید اور غیرعقلی اور غیرمنطقی تعصب آپ کبھی الگ نہیں کر سکتے۔ جب تک یہ تین عنوانات بطور صفات قائم رہتے ہیں روایت برقرار رہتی ہے اور جب ان میں سے کوئی ایک غائب ہو جاتی ہے تو روایت روبہ زوال ہو جاتی ہے۔ “تقلید” یکسانیت کی حفاظت کرتی ہے اور “تعصب” تقلید کی حفاظت کرتا ھے۔ ماضی سے عصبیت کا زوال روایت کا زوال ہوتا ہے اور عصبیت سے وابستگی، وفاداری اور جانثاری روایت کو زوال سے محفوظ رکھتی ہے۔
ماضی کے ساتھ عصبیت کی وجہ ضروری نہیں کہ مبنی برحق ہو اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ مبنی بر باطل ہو۔ حق اور باطل روایت کے ساتھ وابستہ عصبیت کی دلچسپی کی چیزیں نہیں ہیں۔ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، روایت کا شعور یا شعور روایت consciousness of surrendering کے لیے قابل التفات سوالات نہیں ہیں۔ روایت جس عصبیت پر کھڑی ہوتی ہے وہ میرا مذہب، میرا وطن، میرا قبیلہ اور میرے آباواجدا جیسے تصورات ہوتے ہیں۔ روایت ایک بار تعصب کی زمین سے پاؤں اٹھا لے تو اپنا وجود منہدم کر لے گی۔
روایت صرف زندہ ہوتی ہے اور مردہ نہیں ہوتی۔ جسے مردہ روایت کہا جاتا ہے وہ صرف کھنڈر ہوتے ہیں، روایت ہوتے ہیں اور نہ کہلاتے ہیں۔ روایت جوئے رواں ہے، رک جائے یا منجمد ہو جائے تو روایت نہیں ہے۔ سماج میں ایسی زندہ، متحرک اور روبہ عمل ایکٹیویٹی جس کا مبداء ماضی میں ہو اور ماضی سے حال تک اپنی یکسانیت نہ گنوا سکے اسے روایت کہا جاتا ہے۔
سماج کے بیشتر طبقات روایت کی صورت میں مروج تصورات اور رسوم و اعمال کے آغاز و غایت سے بالکل بے خبر اور بے نیاز رہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ماضی میں یہ سب کچھ کب، کیوں اور کہاں شروع ہوا ہے اور کب اس نے موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے؟ اس کھوج میں پڑے بغیر وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ باوا آدم بھی یہی کرتے تھے جو ہم کر رہے ہیں اور دنیا کا آخری انسان بھی یہی کچھ کرتے ہوئے اس جہان فانی سے رخصت ہو گا۔
تمام مذہبی طبقات اپنی اپنی فرقہ وارانہ شناخت بھی روایت کی شکل میں محفوظ رکھتے ہیں۔ فرقہ پرست مذہبی ذہنیت روایت کو قائم رکھنے سے اتنی دلچسپی نہیں رکھتی جتنی اپنی فرقہ وارانہ شناختی علامت کو نمایاں رکھنے سے اسے دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ آئے دن اپنی مضبوط شناخت میں ایسی باتیں شامل کرتی رہتی ہے جو اسے اپنے فوری مقابل فرقے سے منفرد کر سکتی ہیں۔
کمنت کیجے