سید اسد مشہدی
زیر نظر کتاب دراصل ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر صاحب کے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔جو انہوں نے وقتاً فوقتاً قادیانی مسئلہ کے حوالے سے سپردِ قلم کئے تھے۔اس مجموعے سے بہت سے ابہامات دور ہوئے اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا جو یقیناً ان کے موقف کے حوالے سے مذہبی حلقوں سمیت ان کے مخلصین میں موجود تھیں۔
عمار صاحب نے واضح لکھا ہے کہ وہ قادیانی جماعت کو ختم نبوت کی مبتدعانہ تشریح اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی موقف سے علی الرغم پوزیشن اختیار کرنے پر ایک غیر اسلامی گروہ سمجھتے ہیں۔اور ختم نبوت کے اجتماعی و اساسی موقف سے کوئی دانشمند مسلمان نہ انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی خود ساختہ فہم کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
ان کے موقف کا دوسرا نکتہ قادیانی جماعت کے شرعی احکام کی بابت ہے۔اس حوالے سے روایتی مذہبی بیانیہ یہ ہے کہ قادیانی(خصوصاً انکی پہلی نسل)از روئے شرع زندیق،مرتد و واجب القتل ہیں اور ان کے ساتھ سماجی تعامل میں بھی اسی حیثیت کی رعایت رکھی جائے گی۔جبکہ عمار صاحب کا نکتہ نظر یہ ہے کہ علماء نے بحیثیت مجموعی اپنے روایتی موقف (زندقہ،ارتداد و قتل) کے برعکس علامہ اقبال کی جدید سیاسی و اجتہادی تشریح(غیر مسلم اقلیت) کو قبول کیا ہے سو اس کی بنیاد پر ان کے شہری حقوق تسلیم کرنے چاہیے۔اگر علماء کرام قادیانیوں کو ان کی آئینی حیثیت کا پابند کرنا چاہتے ہیں تو علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے آئینی حقوق تسلیم کریں۔
تیسرا نکتہ وہ سماجی تعامل کی بابت ذکر کرتے ہیں۔ان کے نزدیک اس گروہ کا مقاطعہ شرعی حکم نہیں بلکہ ذاتی صوابدید ہے۔سو اگر کوئی ان سے معاملات بیع و شراء رکھتا تو شرع و آئین کی روشنی میں اسے پابند نہیں کیا جا سکتا۔خصوصاً جب اس مقاطعہ سے اجتماعی خلل واقع ہو رہا ہو تو ایسی مقاطعت کو بہتر نہیں سمجھا جا سکتا۔
چوتھے نکتے کے طور پر عمار صاحب کے نزدیک قادیانی ہمارے مدعو ہیں سو ان کے ساتھ داعیانہ کردار کی صورت میں پیش آنا چاہیے۔اور نفرین و تنفر یا بیزاری کے اظہار سے زیادہ دعوت،حکمت و حسن موعظت کے ساتھ انہیں دعوت اسلام دینی چاہئے خصوصاً وہ سادہ لوح مسلمان جو ان کے دام تزویر کا شکار ہو کر اپنی متاعِ دین و دانش لٹا بیٹھے ہیں۔انہیں اپنے رویوں سے دور کرنے کے بجائے رجوع کا آزادانہ ماحول فراہم کیا جائے۔
خلاصۃ البحث یہی کہ علماء کرام اپنے روایتی فقہی استدلال و احکام کی بناء پر اس مسئلے کا تجزیہ کرتے ہیں جبکہ عمار صاحب علامہ اقبال کی تشریح کی روشنی میں اپنا موقف اختیار کرتے ہیں۔اس ضمن میں ان کا یہ سوال درست ہے اگر ارتداد و قتل کے روایتی مذہبی بیانیہ سے برعکس اگر علامہ کی اجتہادی رائے کے مطابق اس جماعت کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کیا گیا ہے تو اس رائے کے نتائج و عواقب کو بھی اسی منہج پر قبول کرنا چاہیے۔نہ کہ روایتی فقہی احکام کے ڈسکورس میں محصور ہو کر احکامات جاری کرنے چاہیے۔
بادی النظر میں یہی معلوم ہو رہا ہے کہ ہم نے قادیانی جماعت کے حوالے سے علامہ کی رائے کو نخواہی بامر مجبوری تسلیم کیا ہے وگرنہ مؤقف و خواہش یہی ہے کہ فقہی احکام کا اجراء ہو۔واللہ اعلم۔
(خاکسار کا ان کے موقف سے اتفاق ضروری نہیں۔یہاں مقصود انکے موقف کی تفہیم ہے)
کمنت کیجے