یہ ایک قدیم مسئلہ ہے، اکثریت اہل علم کی رائے میں معراج جسم و روح کے ساتھ تھی جبکہ علماء کی ایک قلیل تعدد کے مطابق یہ خواب تھا۔ البتہ اس واقعے کے بیان کے لئے قرآن کا اختیار کردہ انداز بیان اس کے صریح دلائل فراہم کرتا ہے کہ یہ خواب نہیں تھا۔ اس کے درج ذیل قرآئن ہیں:
1) لفظ “سُبْحَانَ”
اس واقعے کے بیان سے متصل اس لفظ کا استعمال بتا رہا ہے کہ یہاں کسی محیر العقول بات کا ذکر ہونے والا ہے اور مخاطب کے ممکنہ شکوک کو رفع کرنے کیلئے کہا گیا کہ جو ذات یہ سب کرانے والی ہے وہ ہر عیب و کمزوری سے مبرا ہے۔ یعنی بلندی چڑھنے والے کی صلاحیت کو نہ دیکھنا کہ وہ اتنی بلندی اس تیزی سے چڑھ سکتا ہے یا نہیں بلکہ بلندی سر کرانے والے کی قدرت پر نظر رکھنا جو ہر کمزوری کے عیب سے پاک ہے۔
2) لفظ ” أَسْرَىٰ”
یہ لفظ رات میں سفر کرنے (یا کرانے) کے معنی میں آتا ہے جو عام طور پر ”جسمانی طور پر لے جانے” کے معنی میں ہوتا ہے، اور اصول لغت کے اعتبار سے اصل معنی کو تب چھوڑا جاتا ہے جب حقیقی معنی لینا متعذر ہوجائیں۔ نیز اگر ‘لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا” کا معاملہ خواب میں تھا تو ”أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى” کی تعبیر اختیار کرنے کی یہاں کوئی جا نہیں، بس ”لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا” کے ارد گرد بات کرنا چاہئے تھی۔ قرآن مجید میں جہاں بھی انبیاء کے خواب کا ذکر ہوا وہاں محض اس بات کے بیان پر اکتفا کیا گیا جو خواب میں نظر آئی یا دکھائی گئی۔ مثلا حضرت ابراھیم علیہ السلام کا خواب ہو یا حضرت یوسف علیہ السلام کا، ہر جگہ انداز بیان یہی ہے کہ انہیں جو خواب میں نظر آیا اسے بس بیان کردیا گیا، کسی جگہ اس قسم کا اھتمامی انداز بیان نظر نہیں آتا کہ “پاک ہے وہ رب جو اپنے بندے کو گھر سے اٹھا کر ایک مقام پر لے گیا تاکہ اسے اپنا بیٹا ذبح ہوتے دکھایا جائے” یا “پاک ہے وہ رب جو اپنے بندے کو ایک میدان میں لے گیا جہاں اس نے دیکھا کہ ستارے اس کے سامنے جھک گئے ہیں” وغیرہ۔ اگر خواب میں مسجد اقصی دکھانے کا ذکر کرنا ہوتا تو یوں بات ہوتی کہ “ہم نے اپنے بندے کو مسجد اقصی دکھائی”۔ الغرض ”أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى” کا اھتمام بتا رہا ہے کہ معاملہ خواب کا نہیں، خواب کے معاملے کو بیان کرنے کیلئے یہ انداز بیان اختیار کرنا بے جوڑ و بے محل معلوم ہوتا ہے اور خدا تعالی سے یہ بعید ہے کہ وہ اپنے کلام میں بے معنی انداز اختیار کرے۔ اگر عام گفتگو میں بھی کوئی شخص خواب کی باتوں کے لئے ایسا پرتکلف و اھتمامی انداز اختیار کرے تو اسے قصہ گو سمجھا جاتا ہے۔
3) لفظ “عبد”
یہ لفظ بھی معراج جسمانی کا ایک قرینہ ہے کہ عبد جب بندے (انسان) کیلئے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد جسم و روح دونوں ہوتے ہیں نہ کہ محض روح۔ قرآن مجید میں بھی یہ لفظ متعدد بار انبیاء و غیر انبیاء کے لئے استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ جسد و روح کے مجموعے کے لئے لایا گیا ہے، مثلا:
* وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ
* وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ
* ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا
* الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا
* فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا
* تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
* وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ
* وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ۚ نِعْمَ الْعَبْدُ
* وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ
* هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ
* أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ
چنانچہ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ سورۃ اسری میں لفظ “عبد” کو محض روحانی معنی پر محمول کردیا جائے۔
– قائلین خواب کی دلیل
اسے خواب قرار دینے والوں کی واحد دلیل سورۃ بنی اسرائیل آیت 60 میں لفظ “رؤیا” کا استعمال ہے جو خواب کے معنی میں بھی آتا ہے۔ لیکن محض اس لفظ کا استعمال ہوجانا اس واقعے کو خواب قرار دینے کی دلیل نہیں ہوسکتا جب تک کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ عربی زبان میں یہ لفظ اس معنی کے لئے حقیقی و قطعی ہے کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ عربی زبان میں یہ لفظ جاگتی کیفیت کے نظارے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آیا:
أَتُضامُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي غَيْرِ سَحابٍ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنَّكُمْ لَا تضامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ
صاحب لسان العرب کہتے ہیں کہ رویة آنکھ و قلب کے نظارے کو کہتے ہیں:
قَالَ ابْنُ سِيدَهْ: الرُّؤْيَةُ النَّظَرُ بالعَيْن والقَلْب
صاحب مقایس اللغة ظلمت کا معنی سمجھاتے ہوئے اس لفظ کے استعمال کی درج ذیل نظیر دیتے ہیں جو آنکھ سے دیکھنے کو رؤیة کہنے پر دال ہے:
هَذَا الْبَابِ مَا حَكَاهُ الْخَلِيلُ مِنْ قَوْلِهِمْ: لَقِيتُهُ أَوَّلَ ذِي ظُلْمَةٍ. قَالَ: وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ سَدَّ بَصَرَكَ فِي الرُّؤْيَةِ
پس معلوم ہوا کہ عربی لغت کے اعتبار سے کسی عبارت میں اس لفظ کا آجانا اسے خواب پر محمول کرنے کی از خود قطعی دلیل نہیں بن سکتی، یہاں تک کہ اس کے لئے کوئی واضح قرینہ پیش کیا جائے لیکن قائلین خواب ایسا قرینہ پیش کرنے کے بجائے اس لفظ ہی کو پیش کردینا کافی سمجھتے ہیں جو کہ ایک غیر تام استدلال ہے۔ پس اس غیر تام استدلال کو بنیاد بنا کر درج بالا تین واضح قرائن کو اس مبھم بنیاد کے تابع نہیں کیا جاسکتا بلکہ معاملہ اس کے برعکس یوں ہے کہ درج بالا واضح قرائن کے پیش نظر لفظ “رؤیا” کو جاگتی کیفیت کے نظارے پر محمول کیا جائے گا۔ الغرض قائلین خواب کا یہ استدلال کمزور ہے اور اسی لئے اس لفظ سے استدلال پر امام رازی (م 606 ھ) نے یہ تبصرہ کرکے بات ختم کی ہے:
وَقَالَ الْأَقَلُّونَ: هَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ قِصَّةَ الْإِسْرَاءِ إِنَّمَا حَصَلَتْ فِي الْمَنَامِ، وَهَذَا الْقَوْلُ ضَعِيفٌ بَاطِلٌ عَلَى مَا قَرَّرْنَاهُ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ
کمنت کیجے