اجماع کا اصول بہت اہم ہے اور اس کا ماننا بہت ضروری ہے۔ اس کے انکار سے دین محفوظ نہیں رہ جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دین کے دو ہی بنیادی مصادر ہیں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اجماع کا اصول اس وقت سامنے آیا جبکہ بدعتی فرقوں نے قرآن مجید کی تفسیر میں طرح طرح کے مناہج اختیار کر کے اللہ کے کلام کو ایک چیستاں بنا دیا۔ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، جبریہ اور روافض وغیرہ کی اپنی اپنی تعبیرات تھیں کہ جن میں قرآن مجید سے استدلال واستنباط کے اصول کو ملحوظ نہیں رکھا جا رہا تھا تو ایسے میں اس امت نے ضروری سمجھا کہ اجماع کا اصول متعارف کروایا جائے ورنہ تو دین کبھی متعین ہی نہیں ہو پائے گا اور ہر کوئی اٹھ کر کچھ بھی دعوی کر دے گا اور اللہ کے دین کے معاملے میں لوگوں پر وہ حجت کبھی بھی قائم نہ ہو سکے گی کہ جس کا تذکرہ قرآن مجید نے اس طرح سے کیا کہ اللہ عزوجل نے تمہیں امت وسط اس لیے بنایا ہے کہ دین کے معاملے میں تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔
ایسے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے اجماع کی اہمیت اور ضرورت پر بہت کھل کر بحث کی کہ دین میں کچھ چیزیں متعین ہیں اور مجمع علیہ ہیں لہذا دین کی کوئی بھی ایسی تعبیر کہ جس میں مجمع علیہ مسائل کا انکار ہو تو اسے سائیڈ پر رکھ دیں کہ وہ گمراہی اور ضلالت ہے۔ ہماری نظر میں یہ ایک انتظامی مسئلہ تھا اور ہر دور کی ضرورت ہے۔ آج بھی قرآنسٹ میں ایسے ہیں جو قرآن مجید سے تین نمازیں ثابت کرتے ہیں، کچھ کے نزدیک دو اور کسی کے نزدیک ایک نماز ہے۔ اب صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سب کے سب پانچ نمازوں کا اہتمام کرنے والے تھے۔ ایسے میں عوامی سطح پر اس قسم کے استدلال کو آپ اسی اصول سے رد کریں گے کہ یہ امت کے مجمع علیہ (agreed upon) فہم کے خلاف ہے کہ تمام امت نے کتاب وسنت سے پانچ نمازیں ہی سمجھی ہیں لہذا اس کے خلاف کوئی بھی قول گمراہی اور ضلالت ہے۔
یہ ممکن نہیں ہے کہ پوری امت سے قرآن مجید کا فہم مخفی رہ گیا ہو۔ لیکن واضح رہے کہ یہاں ہم امت کے اجماعی فہم کے مخالف فہم کی بات کر رہے ہیں کہ وہ جائز نہیں ہے۔ البتہ قرآن مجید کے سلفی فہم میں اپنے فہم قرآن سے اضافی نکات بیان کرنا جو ان کے اجماعی فہم کے مخالف نہ ہوں، تو ہر زبان میں تمام تراجم اور تفاسیر پچھلوں کے الفاظ تو دہراتے نہیں ہیں بلکہ نکتہ رسی کرتے ہیں اور اس میں حرج نہیں ہے کہ یہی اس امت کا عملی اجماع ہے۔ اگر ترجمہ وتفسیر کا معنی ومفہوم اور مقصود صرف سلف ہی کے فہم کو دہرانا تھا تو عربی میں ستر تفاسیر پیدا کرنے کا کیا معنی اور اردو میں سیکنڑوں تفاسیر لکھنے کی کیا ضرورت؟ اس سب کو کیسے جسٹیفائی کر پائیں گے۔ اور سب نے تراجم اور تفاسیر دونوں میں نکتہ رسی کی ہے اور سلف کی تفاسیر پر اضافے کیے ہیں۔
اجماع کی پابندی شرعی کے علاوہ انتظامی مسائل میں بھی ضروری ہے کہ ایک معروف قول کے مطابق صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور ما بعد کے زمانوں کے بہت سے اجماعات انتظامی مسائل کی قبیل سے ہیں جیسا کہ قرآن مجید کو مابین الدفتین ایک مصحف کی صورت میں پبلش کرنا، یا قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق ہی لکھنا، یا قرآن مجید کو اعراب لگانا، یا قرآن مجید کا ترجمہ اس کے اصل متن کے ساتھ ہی پبلش کرنا وغیرہ۔
بعض اہل علم نے خلفائے راشدین کی خلافت پر اجماع کو بھی انتظامی اجماع کی قبیل میں شمار کیا ہے۔ اور اجماع صرف روایت کا نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کی نص پر اجماع ہے کہ فلاں متواتر قراءات قرآن ہیں اور فلاں شاذہ قراءات قرآن نہیں ہیں بلکہ اجماع نص کے فہم پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ “اقیموا الصلوۃ” کا فہم سب کے نزدیک “وجوب صلوۃ” کا ہی ہے یعنی نماز فرض ہے۔ اگرچہ امر کے صیغے میں استحباب کا مفہوم بھی لغتا نکل سکتا ہے اور قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر امر کا صیغہ استحباب بلکہ اباحت کے معنی میں بھی آیا ہے لیکن کسی نے یہاں استحباب یا اباحت مراد نہیں لیا لہذا یہ سلف کا مجمع علیہ فہم ہے کہ جس کا خلاف جائز نہیں ہے۔
جہاں تک اجماع کی دلیل کی بات ہے تو کتاب وسنت سے جو دلائل بیان کیے جاتے ہیں، وہ ظنی الدلالۃ ہیں، قطعی نہیں ہیں۔ البتہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عقلی دلیل کے ساتھ مل کر یہ ظن، قطعیت کے درجے کو پہنچ جاتا ہے اور اجماع کی دلیل قطعی ہو جاتی ہے، یہ بات درست ہے۔ قرآن مجید کی محض آیات کو سوچے سمجھے بغیر پڑھ دینا کافی نہیں ہے بلکہ استدلال ایک باریک فن ہے کہ جس کے لیے بہت مہارت، گہرائی اور رسوخ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے اب محض آیت کی تلاوت یا کتابت ہی استدلال کا مترادف قرار پا گئی ہے، تو وہ تو آپ کوئی بھی آیت کہیں بھی کسی بھی مسئلے کی دلیل کہہ کر لکھ دیں تو کیا وہ دلیل بن جائے گی؟
ایک صاحب کہنے لگے کہ فہم سلف کی حجیت کی دلیل یہ آیت ہے: “وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ ؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا” ترجمہ: جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور سبیل المومنین کے علاوہ رستے کی اتباع کرے تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، جس طرف وہ پھرا، اور ہم اس کا ٹھکانا جہنم بنا دیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ اس آیت میں وہ “سبیل المومنین” سے مراد سلف کا فہم لے رہے تھے۔ لیکن میں نے سوال کیا کہ کیا “خلف” مومنین میں شامل نہیں ہیں؟ اب اس پر وہ خاموش۔ تو سلف اور خلف یعنی اگلے اور پچھلے دونوں مومنین میں شامل ہیں لہذا بعض کو شامل کرنا اور بعض کو نہ کرنا، نص کا غلط فہم ہے۔
پھر قواعد لغویہ عربیہ کے مطابق “ال” یعنی لام استغراق عموم کا صیغہ ہے جو دونوں کو شامل ہے۔ رہی یہ بات ہے کہ “مومنین” کی بات ہے تو علماء کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں کہ اجماع کی تعریف ہی یہ ہے کہ علماء کا اتفاق نہ کہ مومنین کا اتفاق۔ تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ امت کا اجماع، علماء کے تابع ہوتا ہے اور یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ اور رہی یہ بات کہ ہدایت ودلیل کے واضح ہو جانے کے بعد وعید کا انذار ہے تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کا تعلق رسول کی مخالفت سے ہے نہ کہ سبیل المومنین کی اتباع سے۔ رہا یہ اشکال ہے کہ سبیل المومنین کی اتباع، رسول کی اتباع کے ذیل میں بیان ہوئی تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ واو مغایرت کا فائدہ دیتی ہے لہذا یہ دو مختلف مستقل بالذات باتیں ہیں جیسا کہ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ میں ہے۔ وغیر ذلک کثیر۔ ہر اعتراض کا جواب بھی اصول کی کتب میں منقول ہے۔
پھر قرآن مجید نے یہاں “سبیل” کہا ہے، “فہم” نہیں کہا۔ اس لیے امام الحرمین کا رجحان یہی معلوم پڑتا ہے کہ یہ منہاج کا مسئلہ ہے نہ کہ فہم کا۔ یعنی صحابہ کرام یا سلف صالحین کے منہج استدلال سے نہیں نکلنا چاہیے نہ کہ فہم سے۔ ہمارے نزدیک یہ رائے زیادہ بہتر ہے۔ منہج استدلال اور قواعد استنباط میں سلف صالحین کے منہج وطریق کار کی پیروی ضروری ہے البتہ فہم میں ان سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ تو اجماع دو چیزوں میں حجت ہے؛ ایک وہ جو امام شافعی نے کہا کہ مبادیات دین (fundamentals) میں بلکہ فہم کا اجماع ہوتا ہی مبادی میں ہے، فروعات میں ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اس اجماع کے ہونے کا طریق کار بھی یہی ہے کہ نص اپنے معنی کی وضاحت میں اتنی صریح اور قطعی الدلالۃ ہو کہ کسی عالم کو اختلاف کی گنجائش نہ ہو سکے۔ اور دوسرا اجماع سلف صالحین کے منہج استدلال واستنباط میں ہوتا ہے کہ اس سے باہر نہ نکلے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئے اصول حدیث، اصول فقہ اور اصول تفسیر دیے جا سکتے ہیں؟ تو ہماری رائے میں نئے اصول حدیث نہیں دیے جا سکتے، جو موجود ہیں، ان میں سے ایک کی پیروی کی جائے گی کہ دین کی خبر کی تحقیق کے اصول انہی لوگوں کے معتبر ہیں کہ جو اس خبر کے اولین ناقلین بھی ہیں۔ جب ان کی خبر پر ہم نے اعتماد کر لیا تو ان کے نقل روایت کے اصولوں کو کیسے چھوڑ دیں؟ بعض اوقات اصول حدیث میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے تو آپ کسی ایک قول کی طرف دلیل کی بنیاد پر رجوع کر سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں۔ البتہ بالکل نئے اصول حدیث وضع کرنا ایک بدعتی عمل شمار ہو گا اور دین کے اسٹرکچر کو گرا دے گا۔
جہاں تک اصول تفسیر اور اصول فقہ کی بحث ہے تو اس میں ایسا اصول وضع کیا جا سکتا ہے، جو سلف کے اصولوں کے خلاف نہ ہو یعنی اس میں اضافے کا اصلا جواز ہے جبکہ اصول حدیث میں اضافی اصول کا جواز نہیں ہے یا کم از کم ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔ البتہ ہم اس کے قائل ہیں کہ آپ سلف سے ثابت شدہ اصول کی دلیل میں اضافہ کر دیں جیسا کہ خبر واحد کی حجیت پر سلف سے کوئی دلیل منقول نہیں ہو سکی تو آپ نے وہ نقل کر دی۔ تو اس کا جواز ہے۔ اس کی تفصیل ہم کسی اور وقت کے چھوڑ رکھتے ہیں، یہاں اجمالی رائے پر اکتفا کافی ہے۔ نقل دین اور فہم دین ہمارے نزدیک دو مختلف میدان ہیں اور دونوں کے احکام بھی مختلف ہیں۔
جہاں تک مبادیات دین کے علاوہ نص کے فہم کا اجماع ہے تو یہ عموما نہیں ہوتا ہے، بلکہ بہت مشکل امر ہے۔ زیادہ سے زیادہ امام احمد بن حنبل کے قول کے مطابق یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اس مسئلے میں اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اس بات میں کچھ وزن ہے تو وزن ہو سکتا ہے لیکن یہ حجت نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ کسی مسئلے میں صحابہ سے دو اقوال مروی ہوں تو تیسرے قول کا لانا جائز نہیں ہے؟ تو جمہور کا موقف یہی ہے لیکن مرجوح موقف ہے کہ خود سلف نے اس کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ تابعین، اگر کسی مسئلے میں صحابہ کے دو اقوال ہوتے تھے تو تیسرا قول لے آتے تھے۔ لہذا جو تابعین کو سلف میں شمار کرتے ہیں تو ان کے لیے یہ حجت ہے۔ امام زرکشی کے بقول صحابہ کرام میں یہ اختلاف ہوا کہ اگر وضو کے لیے اتنا پانی نہ ہو جو کفایت کر سکے تو کیا تیمم کرے؟ یا جو پانی موجود ہے، وہ استعمال کرے اور پھر تیمم کی طرف جائے؟ اس میں دونوں اقوال صحابہ سے موجود ہیں۔ لیکن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ پانی سے وضو کرے اور وضو کے گرے ہوئے پانی کو کسی برتن میں جمع کر کے اسے پھر سے استعمال میں لے آئے۔ اسے صحابہ میں دو اقوال ہونے کے بعد تیسرے قول کے جواز کی مثال کے طور بیان کیا جاتا ہے۔
امام احمد بن حنبل اگرچہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے جب ان سے سوال ہوا کہ حضرت عمر نے داڑھ میں ایک اونٹ کی دیت اور حضرت امیر معاویہ نے پانچ اونٹ دیت کا فیصلہ کیا تو سعید بن مسیب نے کہا کہ میں تو داڑھ میں دو اونٹ کی دیت کا فیصلہ کروں گا۔ امام صاحب سے کہا گیا کہ کوئی اس بات کو دلیل کے طور پیش کرتا ہے کہ صحابہ کے اختلاف سے نکلنا جائز ہے؟ تو امام صاحب نے اس کا انکار کر دیا اور دلیل یہ دی کہ اگر صحابہ کے اختلاف سے نکل جاو گے تو ان کے اتفاق سے بھی نکل جاو گے۔ لیکن انہوں نے سعید بن مسیب کا انکار نہیں کیا بلکہ صحابہ کے اختلاف سے نکلنے کے قول کا انکار کیا۔ تو امام احمد کے نزدیک بھی یہ ایک انتظامی مسئلہ تھا، کوئی شرعی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ شرعی مسئلہ ہوتا تو سعید بن مسیب کیوں صحابہ کے اختلاف سے نکلتے۔ حنفیہ اور ظاہریہ میں سے ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ صحابہ میں اگر دو قول ہوں تو تیسرے قول کا لانا مطقا جائز ہے۔ اور یہی قول بہتر معلوم ہوتا ہے بشرطیکہ وہ تیسرا قول سلف صالحین کے منہج استدلال واستنباط پر مبنی ہو۔ رہی تفسیر تو اس میں تو تابعین کا صحابہ سے بہت اختلاف مروی ہے۔ عام طور تابعین، صحابہ کے اختلاف سے نکل کر تیسرا قول بھی کر جاتے ہیں۔
کمنت کیجے