کل ڈاکٹر رضوان اسد خان نے اس امکان کا ذکر کیا کہ بعض ادویات کی مدد سے، ڈاکٹر کے مشورے سے اور اس کی نگرانی میں (کیونکہ اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی ہوسکتے ہیں) کنواری لڑکی دودھ پلانے کے قابل ہوسکتی ہے۔
کئی لوگوں نے اس پر سوال کیا کہ ایسی لڑکی اگر کسی بچے کو دودھ پلائے، تو کیا اس سے رضاعت کا رشتہ قائم ہوسکتا ہے؟ فقہاے کرام نے صدیوں پہلے اس امکان کا ذکر کرکے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں:
وَإِذَا نَزَلَ لِلْمَرْأَةِ لَبَنٌ، وَهِيَ بِكْرٌ لَمْ تَتَزَوَّجْ، فَأَرْضَعَتْ شَخْصًا صَغِيرًا ، فَهُوَ رَضَاعٌ
(اگر کسی خاتون کے دودھ اترے، جبکہ وہ کنواری ہو اور اس نے شادی نہ کی ہو، اور اس نے کسی چھوٹے بچے کو دودھ پلایا، تو یہ شرعی رضاعت ہے۔)
امام سرخسی اس حکم کے پیچھے موجود قانونی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لِأَنَّ الْمَعْنَى الَّذِي يَثْبُتُ بِهِ حُرْمَةُ الرَّضَاعِ حُصُولُ شُبْهَةِ الْجُزْئِيَّةِ بَيْنَهُمَا؛ وَاَلَّذِي نَزَلَ لَهَا مِنْ اللَّبَنِ جُزْءٌ مِنْهَا، سَوَاءٌ كَانَتْ ذَاتَ زَوْجٍ أَوْ لَمْ تَكُنْ؛ وَلَبَنُهَا يُغَذِّي الرَّضِيعَ؛ فَتَثْبُتُ بِهِ شُبْهَةُ الْجُزْئِيَّةِ
کیونکہ جس حقیقت کی وجہ سے رضاعت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، وہ بچے اور خاتون کے درمیان جزئیت کا شبہ پیدا ہونا ہے (یعنی یہ شبہ کہ بچے خاتون کا جزو ہے)؛ اور اس خاتون کے جو دودھ اترا ہے وہ یقیناً اس خاتون کا جزو تو ہے، خواہ وہ شوہر والی ہو یا بغیر شوہر کے؛ اور اس کا دودھ اس دودھ پینے والے بچے کی غذا ہے؛ پس جزئیت کا شبہ ثابت ہوجاتا ہے۔)
یہاں البتہ اس بات پر توجہ رہے کہ حرمتِ رضاعت ثابت ہونے کےلیے ضروری ہے کہ بچہ رضاعت کی عمر کا ہو، جو امام ابو حنیفہ کے نزدیک تیس مہینے (ڈھائی قمری سال) تک کی عمر ہے، جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک دو قمری سال اور امام زفر کے نزدیک تین قمری سال ہے۔
نیز دودھ چاہے چھاتی سے لگا کر پلایا جائے، یا دودھ نکال کر پلایا جائے، اور چاہے منہ سے پلایا جائے یا ناک سے، رضاعت کا حکم ثابت ہوگا۔
البتہ یہ یاد رہے کہ جس لڑکی کا دودھ پلایا جارہا ہے، اس کی عمر نو قمری سال سے کم نہ ہو (بِشَرْطِ أَنْ تَكُونَ الْبِكْرُ بَلَغَتْ تِسْعَ سِنِينَ فَأَكْثَرَ؛ أَمَّا لَوْ لَمْ تَبْلُغْ تِسْعَ سِنِينَ فَنَزَلَ لَهَا لَبَنٌ فَأَرْضَعَتْ بِهِ صَبِيًّا، لَمْ يَتَعَلَّقْ بِهِ تَحْرِيمٌ)۔
حنفی فقہاے کرام کے نزدیک رضاعت کی حرمت ایک دفعہ پلانے سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور کم یا زیادہ سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ حرمت کا سبب ہے جو ایک بار سے بھی قائم ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے جواز و عدم جواز کےلیے اصل، یعنی ابتدائی حکم، حرمت کا ہے؛ یعنی اگر سوال یہ ہے کہ فلاں مرد کےلیے فلاں عورت کے ساتھ نکاح جائز ہے یا نہیں، تو جواب یہ ہوگا کہ نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ اس کےلیے حلال ہے۔ چنانچہ جہاں یہ شبہ بھی پیدا ہوا کہ شاید وہ اس کےلیے حلال نہ ہو، تو یہ شبہ بھی نکاح کی حرمت کےلیے کافی ہوتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جسے قانونی اصولوں سے ناواقف سطحیت پسند نہیں سمجھ سکتے۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہ بات صرف حرمتِ رضاعت قائم ہونے کی ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ ایسا کرنا چاہیے یا نہیں، یا اس کے اثرات و عواقب کیا ہوسکتے ہیں اور کیا وہ شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں، تو وہ ایک الگ بحث ہے۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ
کمنت کیجے