Home » کلینڈر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
تاریخ / جغرافیہ تہذیبی مطالعات

کلینڈر کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

ڈاکٹر ساجد علی

پاکستان کے مذہبی علما، جدید تعلیم یافتہ افراد اور عوام جس جوش و خروش سے قمری تقویم کی حمایت اور جس شد ومد سے شمسی تقویم کی مخالفت کرتے ہیں اس پر مجھے ایک بار اپنے طلبہ سے کہنا پڑا تھا کہ ایسے لگتا ہے جیسے چاند اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور سورج شیطان کا کارنامہ ہے۔ چنانچہ جب رمضان کی آمد قریب آتی ہے تو ہم شمسی اور قمری تقویم کے مسائل پر گتھم گتھا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ تقویم کیا ہے اور اس کی انسانوں کو ضرورت کیوں پیش آئی؟ چلیے اس پر کچھ ایران توران کی اڑاتے ہیں۔

ابتدا ہی میں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ تقویم کہیں یا جنتری یا کیلنڈر، یہ سب انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی تقویم آسمان سے کبھی نازل نہیں ہوئی۔ یہ انسانوں کی ہزاروں سال کی سعی و کاوش کا نتیجہ ہیں اور مختلف ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے موجودہ شمسی تقویم تک پہنچے ہیں۔ جیسے جیسے تمدن ترقی کرتا گیا کیلنڈر انسان کی اشد ضرورت بنتا چلا گیا۔

کیلنڈر کی ضرورت صحیح معنوں میں اس وقت پیش آئی جب انسانوں نے زراعت کا آغاز کیا اور گھر بستیاں بنا کر رہنا شروع کیا۔ متمدن زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں تین طبقات وجود میں آ گئے: حکمران، مذہبی اور زراعت پیشہ۔ بہت سے معاشروں میں حکمران اعلیٰ ترین مذہبی پیشوا بھی ہوتا تھا۔ ان تینوں کو کیلنڈر کی ضرورت پیش آئی اگرچہ تینوں کی ضروریات جدا جدا تھیں۔

حکمرانوں کو متعین طور پر یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ نیا سال کب شروع ہو گا اور ٹیکس کب جمع کیا جائے گا۔ مذہبی طبقہ کا مسئلہ تھا مذہبی رسومات، تہواروں، روزوں اور قربانی کے دنوں کا تعین کرنا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر مذہب کا اپنا کیلنڈر ہے جس کے مطابق اس کی مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ زراعت کی ضرورت تھی کہ موسموں کے تغیر و تبدل کا پتہ ہو یعنی کونسا موسم کب شروع ہوگا۔ کب فصل کی کاشت ہو گی، کب اس کی کٹائی ہو گی۔ زراعت پیشہ لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے شمسی کیلنڈر کو بہتر سمجھا گیا کیونکہ موسم ہر برس ایک متعین وقت پر تبدیل ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے فصل بونے اور کاٹنے کا وقت متعین کرنے میں بہت آسانی رہتی ہے۔ ہمارے کسان آج بھی دیسی مہینوں کے کیلنڈر پر عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے خطے کے موسموں کا بہت درست تعین کرتا ہے۔

ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے انسانوں نے اجرام فلکی کی گردش کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ ان اجرام فلکی میں سورج اور چاند خاص اہمیت کے حامل تھے۔ انسانوں کے روزانہ معمولات تو سورج کے طلوع و غروب کے تابع تھے، دن اور رات کا تعین اسی سے ہوتا ہے۔ لیکن مہینے کا آغاز چاند کے طلوع ہونے سے کیا جاتا تھا کیونکہ چاند کی بدلتی ہوئی منازل کا مشاہدہ آسان تھا۔

جتنی بھی قدیم تہذیبیں گزری ہیں ان میں جو بھی کیلنڈر استعمال ہوتے رہے وہ شمسی اور قمری دونوں تقویموں کا مجموعہ ہوتے تھے۔ شمسی کیلنڈر کی مدد سے مہینوں کا تعین کیا جاتا تھا لیکن مذہبی تہواروں کا تعین قمری تقویم سے کیا جاتا تھا۔ ہلال کے ظہور سے مہینوں کا تعین کیا جاتا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ مہینہ کبھی 29 اور کبھی 30 کا ہوتا ہے اور نئے سال کے آغاز کا درست تعین بھی مشکل ہوتا ہے۔

بہر حال کئی ہزار سال کی محنت شاقہ کے بعد لگ بھگ چھ ہزار سال قبل بابل کے ستارہ شناس سال کا دورانیہ 365 دن مقرر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔جس قدیم ترین کیلنڈر کا سراغ ملا ہے وہ اہل مصر کا 4236 قبل مسیح کا ہے۔ اس کیلنڈر میں بارہ مہینے تھے اور ہر مہینہ 30 دن کا تھا۔ اس میں پانچ دنوں کا اضافہ کیا جاتا تھا جن کا تعین روشن ترین ستارے کے ظہور سے کیا جاتا تھا۔

اہل روم جس کیلنڈر کو استعمال کرتے تھے اس میں سال 354 دن کا ہوتا تھا۔ دس دنوں کی کمی کو پورا کرنے کا ایک کافی پیچیدہ نظام تھا۔ اس کے نفاذ کے سات صدیوں پر محیط دورانیہ میں بہت سی غلطیاں رونما ہو چکی تھیں۔ جب جولیس سیزر مسند اقتدار پر فائز ہوا تو وہ محض بادشاہ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین مذہبی عہدے دار بھی تھا۔ اس عہدے کی بنا پر اس نے کیلنڈر کی درستگی کا فیصلہ کیا۔ اس نے مصری ستارہ شناس کے مشورے پر مصری کیلنڈر میں اصلاح کرکے مکمل طور پر شمسی کیلنڈر بنایا جس میں سال کا دورانیہ 365 دن اور چھ گھنٹے مقرر کیا گیا۔ اورحساب کتاب کو درست رکھنے کی خاطر ہر چوتھے برس فروری کے مہینے میں ایک دن کا اضافہ کیا گیا۔

گزشتہ کیلنڈر کے نتیجے میں رونما ہونے والی غلطیوں کو درست کرنے اور کیلنڈر کو موسموں کے مطابق بنانے کے لیے جولیس سیزر نے اعلان کیا کہ 46 قبل مسیح کا سال 445 دن کا ہو گا۔ اس برس کو کچھ لوگوں نے کنفیوژن کا سال کہا لیکن جولیس سیزر نے اسے کنفیوژن کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا۔ اس کی اس خدمت کے پیش نظر جولائی کے مہینے کا نام جولیس سیزر کے نام پر رکھا گیا۔ یہ جولین کیلنڈر کوئی 16 سو سال تک نافذ العمل رہا۔ مسیحی مذہب کے ماننے والوں نے کچھ صدیوں بعد اس کیلنڈر کو اپنایا تھا۔ 1582 میں پوپ گریگوری کے حکم پر جولین کیلنڈر میں اصلاح کی گئی اور نیا کیلنڈر جاری کیا گیا جو اب تک رائج ہے اور گریگورین کیلنڈر کہلاتا ہے۔

ظہور اسلام سے قبل اہل عرب بھی قمری کیلنڈر استعمال کرتے تھے۔ موجوہ ہجری کیلنڈر کے مہینوں کے نام بھی انھوں نے ہی رکھے تھے۔ قمری کیلنڈر جہاں بھی رائج ہوتا تھا اس علاقے کے لوگوں کو ایک مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ قمری سال شمسی سال سے دس گیارہ دن کم ہوتا ہے۔ اگر اس کمی کو پورا نہ کیا جائے تو ہر سال دس دن کم ہونے کی وجہ سے قمری کیلنڈر کا موسموں سے کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ عربی کیلنڈر میں مہینوں کے ناموں کے معنی پیش نظر رکھے جائیں تو صاف ظاہر ہوتا کہ وہ موسموں کی عکاسی کرتے ہیں۔ چنانچہ جہاں جہاں بھی قمری تقویم رائج تھی وہاں یہ رواج بھی تھا کہ کیلنڈر کو موسموں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کے لیے ایک مہینے کا اضافہ کیا جاتا تھا۔ یہودیوں کا بھی یہی رواج تھا۔ عرب اس مہینے کو النسی کہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ عربوں نے نسی کا طریقہ یثرب کے یہودیوں سے سیکھا تھا۔

اس طول کلام کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں میں رائج ہجری کیلنڈر اصل میں ظہور اسلام سے قبل کا وہی قمری کیلنڈر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی نیا کیلینڈر نہیں بنایا تھا بلکہ واقعہ ہجرت سے گنتی کا آغاز کیا تھا۔ البتہ اسلامی کیلنڈر کی ایک خاصیت جو شاید دینا کے کسی اور کیلنڈر میں نہیں پائی جاتی۔ اس کیلنڈر کا موسموں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کا بس اتنا فائدہ ہوا ہے کہ کرہ شمالی کے مسلمان ساری زندگی گرمیوں کے روزے رکھنے کی صعوبت سے محفوظ ہو گئے ہیں اور شاید اسی لیے نسی سے منع کیا گیا تھا۔ یہ کیلنڈر مذہبی ضروریات کو تو پورا کر سکتا ہے لیکن دیگر دنیوی امور کے لیے باکل ناکارہ ہے۔

اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ آیا قمری کیلنڈر بنایا جا سکتا ہے تو اس کا جواب ظاہر ہے کہ اثبات میں ہے اور یہ کام کوئی ہزار برس قبل کیا جا چکا ہے۔ فاطمی خلافت کے زمانے میں ایک کیلنڈر تیار کیا گیا تھا جس کا دورانیہ تیس سال کا رکھا گیا تھا۔ اس میں انیس سال تو 354 دن کے ہوتے تھے اور گیارہ سال ایک دن کے اضافے کے ساتھ 355 دن کے تھے۔ یہ کیلنڈر اتنا صحیح تھا کہ اس میں ڈھائی ہزار سال میں ایک دن کا فرق نکلتا ہے۔ آج کل ہجری کیلنڈر کی تاریخوں کو شمسی کیلنڈر میں تبدیل کرنے کا کام بالعموم اسی فاطمی کیلنڈر کی مدد سے کیا جاتا ہے۔

نوٹ اس موضوع پر لٹریچربسیار ہے تاہم عام قاری کو اس کتاب میں عام فہم انداز میں بہت معلومات مل سکتی ہیں

  1. G. Richards, Mapping Time : The Calendar        and        Its        History

پس نوشت:

تاریخ انگلستان اور گریگورین کیلنڈر: چند دلچسپ حقائق

جس کیلنڈر کو مسیحی قرار دیا جاتا ہے وہ اصلاً رومن کیلنڈر ہے جو جولیس سیزر کے عہد میں بنا تھا اور اسی وجہ سے جولین کیلنڈر کہلاتا تھا۔ جب رومن بادشاہ نے مسیحیت اختیار کر لی تو اس نے 325 میں نیسیہ کے مقام پر چرچ کونسل کا انعقاد کیا۔ اس وقت مسیحی دنیا نے جولین کیلنڈر کو اپنا لیا تا کہ ایسٹر کی متفقہ تاریخ طے کی جا سکے۔ جولین کیلنڈر کا سال گیارہ منٹ زاید تھا۔ چنانچہ سولھویں صدی تک آتے آتے سال دس دن آگے جا چکا تھا اور ایسٹر کی صحیح تاریخ کا تعین مشکل ہو چکا تھا۔

اس وقت پوپ گریگوری سیزدہم نے کیلنڈر میں اصلاح کا فرمان جاری کیا۔ اس اصلاح کا نتیجہ یہ نکلا کہ سن 1582ء میں اکتوبر کے مہینے سے دس دن منہا کر دیے گئے تاکہ اسے سن 325 کے مطابق کیا جا سکے۔ چونکہ یہ اصلاح رومن کیتھولک چرچ نے کی تھی اس لیے پروٹسٹنٹ مسیحیوں نے اسے اختیار کرنے سے انکار کر دیا۔ انگلستان بھی چونکہ پوپ سے تعلق توڑ چکا تھا اس لیے وہاں بھی گریگورین کیلنڈر کو نہ اختیار کیا گیا۔

جب یورپ میں گریگورین کیلنڈر کا نفاذ ہو گیا تو موافقت پیدا کرنے کی خاطر 1583 میں انگلستان میں بھی اسے نافذ کرنے کا سوچا گیا لیکن بشپ نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کر دیا کہ تمام پروٹسٹنٹ چرچوں کے متفقہ عقیدے کے مطابق روم کا جو پوپ ہے وہ دجال ہے، لہٰذا اس کے کسی اقدام کی پیروی کرنا درست نہیں۔

اس کے بعد 1645 میں پریوی کونسل نے ایک بار پھر کوشش کی کہ اصلاح شدہ کیلنڈر کو اپنا لیا جائے لیکن شاہ پرست آکسفرڈ نے اس کے خلاف رائے دی۔ اسی زمانے میں برطانیہ میں مسیحی “وہابیوں” کو غلبہ حاصل ہو گیا تو انھوں نے بھی کیلنڈر کی اصلاح کا مطالبہ کیا اور اعتراض اٹھایا کہ جولین کیلنڈر میں مہینوں کے نام، مثلاً جنوری، فروری اور دنوں کے نام سنڈے، منڈے وغیرہ چونکہ پیگن نام ہیں اس لیے انھیں تبدیل کیا جائے اور مہینوں کو پہلا مہینہ، دوسرا مہینہ اور دنوں کو پہلا دن، دوسرا دن وغیرہ کہا جائے۔ نیز مذہبی شخصیات کے ایام منانے کا سلسلہ بھی موقوف کر دیا جائے۔ لیکن ان مطالبات کو کسی نے در خور اعتنا نہ جانا۔

سن 1700 میں یہ مسئلہ ایک بار پھر پوری شدت سے سر اٹھانے لگا۔ جولین کیلنڈر میں یہ لیپ کا سال تھا لیکن گریگورین کیلنڈر میں ایسا نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ دونوں کیلنڈروں میں گیارہ دن کا فرق واقع ہو جاتا۔

انگلستان میں اس وقت نئے سال کا آغاز 25 مارچ کو ہوا کرتا تھا۔ جب 1707 میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کا اتحاد ہو گیا تو مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ دونوں میں دو مختلف کیلنڈر رائج ہو گئے۔ ایک ہی ملک کے ایک علاقے میں نیا سال یکم جنوری کو اور دوسرے علاقے میں 25 مارچ کو شروع ہو رہا تھا۔

اس کے بعد کیلنڈر کی اصلاح کے لیے اٹھنے والی بلند ترین آواز لارڈ چیسٹرفیلڈ کی تھی۔ یہ وہی صاحب ہیں جس کا ذکر یوسفی صاحب کی کتاب زرگزشت میں بھی موجود ہے۔ یوسفی صاحب کے انگریز مینیجر نے انھیں لارڈ چیسٹرفیلڈ کے خطوط پڑھنے کا مشورہ ارزاں کیا تھا۔ وہ پیرس میں برطانیہ کا سفیر تھا۔ اسے خطوط میں دو تاریخیں لکھنا پڑتی تھیں۔ چنانچہ اس نے پارلیمنٹ میں اصلاح شدہ کیلنڈر کو اپنانے کی تجویز پیش کی۔ پارلیمنٹ میں مقررین نے انتہا درجے کی احتیاط برتی کہ ان کی تقریروں میں کہیں رومن کیتھولک چرچ کا ذکر نہ آنے پائے اور نہ کوئی دینیاتی سوال اٹھایا جائے۔ بالآخر یہ بل پاس ہو گیا اور 170 برس بعد برطانیہ میں بھی گریگورین کیلنڈر نافذ کر دیا گیا۔ اب چونکہ گیارہ دن کا فرق پڑ چکا تھا اس لیے اس برس ستمبر کے مہینے سے تین سے لے کر تیرہ تک گیارہ دن کم کر دیے گئے۔ انگلینڈ میں 1753 وہ پہلا سال تھا جس کا آغاز یکم جنوری سے ہوا تھا۔

اس کلینڈر کے نفاذ کے بعد ہنگاموں کا برپا ہونا اور اس میں انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی بات بھی مشہور ہوئی تھی۔ یعنی عوام میں یہ خوف پیدا ہوا کہ ان کی زندگیوں کے گیارہ دن کم کر دیے گئے ہیں چنانچہ وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمارے گیارہ دن ہمیں واپس کرو۔ اس کو عام طور پر برطانوی عوام کی حماقت کی درخشندہ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔  البتہ بعض جدید محققین کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی وقوعہ نہیں ہوا تھا، یہ محض افسانہ طرازی ہے۔ البتہ نئے کیلنڈر کا نفاذ اتنا سہل نہ تھا۔ آئندہ کئی دہائیوں تک مذہبی تہواروں اور دیگر ایام منانے کے لیے لوگ دونوں کیلنڈر استعمال کرتے رہے تھے۔

(ماخوذ)

…………………….

ڈاکٹر ساجد علی صاحب پنچاب یونیورسٹی کے شعبہء فلسفہ میں تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں