Home » کیا معجزات کو قبول کرنے والے معاشرے غیر تہذیب یافتہ اور جاہل تھے؟
اسلامی فکری روایت کلام

کیا معجزات کو قبول کرنے والے معاشرے غیر تہذیب یافتہ اور جاہل تھے؟

ڈاکٹر تزر حسین 

ڈیوڈ ہیوم نے اپنی کتاب An         Enquiry         Concerning         Human         Understanding میں معجزات پر تنقید کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ معجزات کا حقیقت میں ہونا کئی حوالوں سے محال ہے۔ ہیوم کے تنقید کا ایک پہلو یہ ہے کہ معجزات کو زیادہ تر وحشی اور جاہل معاشروں میں قبول کیا گیا ہے۔ اگر کسی مہذب قوم نے کبھی معجزات کو قبول کیا ہو، تو یہ معلوم ہوگا کہ انہوں نے انہیں اپنے جاہل اور وحشی اجداد سے اسکو حاصل کیا، جنہوں نے انہیں اس کو تقدس اور تعظیم کے ساتھ منتقل کیا، جو ہمیشہ مروجہ عقائد کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کی رائے میں یہ بات معجزات کو حقیقت کے طور پر قبول نہ کرنے کی ایک مضبوط دلیل ہے۔

معجزات کے بارے میں ہیوم نے جو سوال اٹھایا ہے تو کیا یہ کوئی نیا سوال ہے تو اسکا جواب نفی میں ہے۔ بلکہ اسکے قسم کے سوالات اپنے دور کے ملحدین اٹھاتے رہے ہیں اور اج بھی اٹھاتے رہتے ہیں۔ قاضی عبدالجبار (وفات 1025) جو کہ ایک معتزلی عالم ہے اس نے اس مسئلے کو اپنی کتاب “تثبيت دلائل النبوة” میں اسراء کے باب میں موضوع بحث بنایا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں نبی کریم ﷺ کے نبوت کے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ امام ذہبی نے قاضی عبدالجبار کی اس تصنیف کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اسے منفرد قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کتاب جیسی کوئی دوسری کتاب موجود نہیں۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس طرح اہلِ سنت کے ایک جلیل القدر عالم نے ایک معتزلی عالم کی دینی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی علمی کاوشوں کو سراہا ہے۔

اسراء کے باب میں قاضی عبدالجبار نے ابن راوندی سمیت کئی ملاحدہ کے نام لے کر کہا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے لوگوں اپنی کتابوں میں انبیاء پر طعن کیا اور اور یہ دعوی کیا کہ قریش اور عرب کے لوگ جاہل, کند ذہن اور جاہل تھے اور یہ کہ نبی کریم ﷺ نے نعوذباللہ انکو دھوکہ دیا۔ ڈیوڈ ہیوم کے اعتراض کو دیکھیں تو یہ بالکل وہی اعتراض جو کہ ابن راوندی جیسے قدیم ملاحدہ پیش کرتے رہے ہیں اور اج کے دور کے ملاحدہ بھی اکثر انہی کتابوں سے وہی اعتراضات نئے انداز میں دہراتے ہیں۔ اسراء کے باب میں قاضی عبدالجبار کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی یہ دلیل بالکل بے بنیاد ہے کہ عرب یا قریش کے لوگ جاہل اور کند ذہن تھے۔ اسکی دلیل اس نے یہ بیان کی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے یہ دعوی کیا کہ اس نے رات کے حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی کا سفر کیا تو اس پر قریش اور عرب کے لوگوں نے جو سوالات کیے اور اس معاملے کی جس طرح تحقیق کی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قریش اور عرب کے لوگ بالکل بھی جاہل اور کند ذہن نہیں تھے بلکہ انہوں نے اسراء سے متعلق وہ سب سوالات کیے جو عقلی طور پر اس معاملے کی چھان بین کے متعلق ہوسکتے تھے۔

قاضی عبدالجبار نے اسراء کے متعلق تمام واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے اسراء کا واقعہ بیان کیا، تو سب سے پہلے آپ کی چچازاد بہن ام ہانیء نے آپ کو مشورہ دیا کہ اس واقعہ کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کریں، کیونکہ لوگ اسے قبول نہیں کریں گے اور جو لوگ آپ پر ایمان لائےہیں، وہ بھی آپ کا انکار کر دیں گے۔ تاہم، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے یہ واقعہ لوگوں کے سامنے بیان کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے، لہذا میں اس کو بیان کروں گا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ میری بات کی تصدیق کریں گے۔

فقالت له ام هانىء بنت ابي طالب: لا تتحدث بهذا، فو الله لا صدّقك الناس، وليكفرنّ بك من/ آمن بك، وليكذبنّك من صدّقك. فقال صلّى الله عليه وسلم: ان ربي أمرني ان أخبر الناس بذلك وان ابا بكر يصدقني ويشهد لي

اس کے بعد نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور اسراء کے متعلق اپنا دعویٰ قریش کے سامنے رکھا۔ قریش نے کہا کہ اب ہمارے پاس ایک ایسی دلیل آ گئی ہے جس سے نبی کریم ﷺ کا جھوٹ واضح طور پر ثابت ہو جائے گا، کیونکہ قریش اس بات کی کوشش میں تھے کہ کب کوئی ایسی بات سامنے آئے جس سے ہم نبی ﷺ کو جھوٹا ثابت کر سکیں۔ لہٰذا، وہ سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے کیونکہ ان کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں میں عزت و وقار والے شخصیت سمجھے جاتے تھے، قریش کے معاملات سے بخوبی واقف تھے، اور قریش کے لوگ بھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس لیے قریش کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے ابو بکر کو نبی ﷺ کی پیروی سے روک لیا جائے۔

جب قریش ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے کہا: “تمہارے ساتھی نے ایک ایسا جھوٹ بولا ہے جو حد سے آگے بڑھ گیا ہے، اور وہ یہ کہ نبی ﷺ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہیں ایک رات میں بیت المقدس لے جایا گیا۔ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: “اگر انہوں نے یہ کہا ہے تو وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ قریش نے ابو بکر سے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارے قافلے کو بیت المقدس تک پہنچنے میں ایک مہینہ لگتا ہے اور ایک مہینہ واپسی میں لگ جاتا ہے؟

اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس گئے اور آپ سے اس واقعہ کے بارے میں پوچھا، تو نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ کس طرح انہیں ایک رات میں بیت المقدس تک لے جایا گیا اور پھر واپس بھی آ گئے۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے بیت المقدس کے اوصاف کے بارے سوال کیا۔ نبی ﷺ نے بیت المقدس اور اس سے متعلق مقامات کی تفصیل بتائی، جن کے بارے میں عرب لوگ بخوبی آگاہ تھے۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قریش سے کہا: “کیا تم نے سنا کہ نبی ﷺ نے بیت المقدس کے مقامات کا اتنا صحیح نقشہ پیش کیا؟” اور اس کو قریش کے سامنے نبی ﷺ کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔ پھر قریش نے بیت المقدس کے راستے میں اپنے ایک قافلے کے بارے میں سوال کیا، تو نبی ﷺ نے اس قافلے کے تمام احوال بیان کیے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: “جس قافلے کے بارے تم لوگ پوچھ رہے ہو، وہ فلاں وقت پر فلاں گھاٹی سے آئے گا اور جو اونٹ اس قافلے کے آگے ہوگا، اس کا رنگ تک بتا دیا۔ پھر قریش نے دیکھا کہ وہی قافلہ اسی وقت اور اسی اوصاف کے ساتھ اس مقام سے نمودار ہوا جیسا کہ نبی ﷺ نے بیان کیا تھا۔ اسکے علاوہ قریش نے اس قافلے کے حوالے سے جو احوال نبی ﷺ نے بیان کیے تھے، ان کی تصدیق بھی قافلہ والوں سے کر لی۔

ان تمام احوال کا ذکر کرکے قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں کہ اس پورے واقعہ میں جو نشانیاں ہیں ان پر غور کرو تو نبی کی نبوت کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔

فتأمل ما في هذا من الآيات والمعجزات والعلامات الواضحات البينات التي لو لم تكن إلا هذه لكفت وأغنت في الدلالة على نبوته

قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں کہ اگر اسراء کا دعویٰ صرف بغیر کسی دلیل کے محض دعویٰ ہوتا تواس کو نہ نبی کریم ﷺ کے دشمن تسلیم کرتے اور نہ ہی ساتھی۔ کیونکہ صرف دعویٰ کرنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن ہے، جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ بصرہ سے بیت المقدس یا عراق سے ہندوستان ایک رات میں پہنچا اور واپس بھی آ گیا۔ اس کے علاوہ، یہ دعویٰ اگر بغیر کسی ٹھوس دلیل اور ثبوت کے ہوتا، تو کوئی بھی معقول شخص اس طرح کا دعویٰ نہیں کرتا، کیونکہ ایسا دعویٰ کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص اس رسک کو نہیں لے گا کہ وہ ایک ایسی بات کرے جس کے پاس کوئی معقول دلیل اور ثبوت نہ ہو۔

اس کے علاوہ، اسراء کے واقعہ کے حوالے سے نبی کریم ﷺ، قریش اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان جو بات چیت ہوئی، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسراء کا واقعہ قریش کے سامنے ایسے ثابت ہوا کہ اس پر کوئی شک نہیں ہو سکتا، اور قریش نے اس واقعہ کی حقیقت کو پوری طرح تسلیم کیا۔ قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں کہ ام ہانیء کا قول، قریش کا اس واقعہ کے حوالے سے اپنے قافلے کے بارے میں سوالات کرنا، اور قافلے سے متعلق پیش گوئیاں کرنا اور پھر ان کی تصدیق کرنا، یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ قریش نہ تو کم عقل تھے اور نہ ہی جاہل۔ بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کے حالات کے بارے میں عقلمندی سے کام لیتے تھے اور انہوں نے اسراء کے واقعہ کی تحقیق اس انداز میں کی جس طرح کوئی عقل مند شخص کر سکتا تھا۔ لہٰذا قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں کہ اس پر غور کرو کہ قریش نے اس معاملے کی تحقیق بالکل اسی طرح کی جو کہ کوئی بھی عقلمند شخص کرسکتا تھا۔ وانظر كيف قد سألوا عن ذلك مما يمكن العاقل ان يسأل عنه ويتكلم فيه

اس کے علاوہ، ام ہانیء نے اسراء سے متعلق جن خدشات کا ذکر کیا، اس سے ان کی ذہانت کا پتہ چلتا ہے، اور ایسے خدشات کا اظہار کسی بھی عقل مند شخص کی طرف سے متوقع ہو سکتا ہے۔ وانظر الى فطنة ام هانىء بنت ابي طالب وخوفها مما يخاف مثله، وأن هذا الأمر إن لم يقم على الدعوى به حجة لم يصدقه احد

اس لیے، اگر اسراء کا واقعہ نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ نے خود گھڑا ہوتا اور بغیر کسی ثبوت کے محض ایک دعویٰ ہوتا، تو کوئی بھی اس پر یقین نہ کرتا، اور نہ ہی نبی ﷺ اسے قرآن کی آیت کے طور پر قرآن میں شامل کر سکتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ عرب اور قریش جاہل، بیوقوف اور کند ذہن تھے، اور نبی ﷺ نے (نعوذ باللہ) انہیں دھوکہ دیا اور ان کے ساتھ کھیل کھیلا۔

ولكل هؤلاء كتب يطعنون فيها على الانبياء، ويدّعون على قريش والعرب الجهل والبلادة والغباء وان رسول الله صلّى الله عليه وسلم خدعهم وسخر منهم.

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں