Home » کیا امام غزالی کے نزدیک اولیات عقلیہ عقل کی ساخت سے متعلق ہیں؟
شخصیات وافکار فلسفہ

کیا امام غزالی کے نزدیک اولیات عقلیہ عقل کی ساخت سے متعلق ہیں؟

محترم علی محمد رضوی صاحب نے ایک تحریر “امام غزالی کا تصور عقل” کے عنوان سے تحریر کی ہے۔ آپ نے اس میں دعوی کیا ہے کہ امام غزالی (م 505 ھ / 1111 ء ) نے کتاب “احیاء العلوم” میں عقل کے چار معنی بیان کرتے ہوئے جسے “علم ضروری یا اولیات عقلیہ” (جیسے جمع بین النقیضین کا محال ہونا) کہا ہے اس کا تعلق حقیقت کی ساخت سے نہیں بلکہ صرف ذہن کی ساخت سے ہے نیز جسے ممکنات اور محالات کہتے ہیں یہ صرف عقلی کی ساخت سے متعلق ہیں نہ کہ حقیقت سے، عقل خارجی حقائق کو اس طرح مرتب کرتی ہے جس کی اجازت اس کی یہ ساخت دیتی ہے لیکن اس عقلی علم کے حقیقت سے متعلق ہونے کی گارنٹی میسر نہیں۔ اس مقدمے کے ذریعے محترم مصنف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ عقل حقائق کے ادراک میں خود کفیل نہیں اور اس سے گویا وحی کی ضرورت و فوقیت کا پہلو نکلتا ہے۔ آپ کی یہ تحریر قابل قدر کاوش ہے لیکن کہنا پڑتا ہے کہ یہ دونوں دعوے امام غزالی کے مقدمے کی محل نظر تشریح ہے کیونکہ امام صاحب نے اپنی کتب میں صاف الفاظ میں اس کے خلاف بات لکھی ہے۔ فاضل مصنف نے جو نتائج اخذ کئے ہیں اس کے حق میں آپ نے امام صاحب کی کوئی عبارت پیش نہیں کی۔ یہاں ہم امام صاحب کی عبارات کی روشنی میں ان کے اس دعوے پر تبصرہ کریں گے کہ ان اولیات عقلیہ کا تعلق خارج از ذہن نفس الامر (extramental        reality) سے نہیں بلکہ عقل کی ساخت سے ہے۔

امام صاحب نے منطق پر تفصیلی کتاب “معیار العلم” میں استخراجی دلیل یا قیاس کی ساخت پر بحث کی ہے (یہ کتاب آپ نے “تہافت الفلاسفۃ” لکھنے کے بعد لکھی ہے)۔ اس کی ساخت پر بحث کرچکنے کے بعد آپ اس جانب بڑھتے ہیں کہ وہ کونسے قضایا ہیں جنہیں دلیل کے مقدمات میں فی نفسہ یقینی نتیجے کے حصول کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ کہتے ہیں:

وقد تكلمنا على صورة القياس وتركيبه ووجوه تأليفه بما يقنع فلنتكلم في مادته، ومادته هي العلوم، لكن لا كل علم بل العلم التصديقي دون العلم التصوري، وإنما العلم التصوري مادة الحد، والعلم التصديقي هو العلم بنسبة ذوات الحقائق بعضها إلى بعض بالإيجاب أو السلب، ولا كل تصديقي بل التصديقي الصادق في نفسه، ولا كل صادق بل الصادق اليقينيز فرب شيء في نفسه صادق عند الله وليس يقينا عند الناظر فلا يصلح أن يكون عنده مادة للقياس الذي يطلب به استنتاج اليقين، ولا كل يقيني بل اليقيني الكلي، أعني أنه يكون كذلك في كل حال

مفہوم: ہم نے قیاس کی صورت (form        of        deductive        argument)، اس کی ترکیبی اور تالیفی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کردی ہے، اب ہمیں اس کی مادے (content) پر گفتگو کرنی ہے۔ اس کا مادہ علوم ہیں، لیکن یہاں ہر علم مراد نہیں بلکہ تصدیقی علم (judgements) مراد ہے نہ کہ تصوری علم (concepts) اس لئے کہ تصورات کا تعلق حد (تعریف) سے ہے (جہاں ہم ایک شے کو کسی دوسری سے نسبت دئیے بغیر خود اس کی ذات کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جیسے مثلا “دیوار”) جبکہ تصدیق وہ علم ہے جو اشیا کی حقیقتوں کے مابین ثبوتی یا منفی (affirmative        or        negative) نسبت دینے سے حاصل ہوتا ہے (جیسے مثلا “دیوار سفید ہے”، یہاں دیوار کی نسبت سفیدی کی جانب ثابت کی گئی ہے)۔ لیکن ہر تصدیقی قضیہ بھی استخراجی دلیل کا مادہ نہیں بن سکتا بلکہ صرف وہ تصدیقی قضیہ مراد ہے جو فی نفسہٖ صادق (true        in        itself) ہو، اور یہاں ہر قسم کا صادق قضیہ بھی مراد نہیں ہے بلکہ (اپنی ذات کے اعتبار سے) صرف وہ سچا قضیہ مراد ہے جو یقینی (certain) بھی ہو کیونکہ (یہ ممکن ہے کہ) کوئی چیز فی نفسہٖ اللہ کے نزدیک تو یقینی ہو لیکن غور و فکر کرنے والے (انسان) کے لیے یقینی نہ ہو (یعنی انسان کو اس کا علم نہ ہو) اور ایسی بات اس استخراجی دلیل کا مادہ بننے کے قابل نہیں جس کے ذریعے یقین حاصل کرنا مقصود ہو، اور ہر یقینی (certainly        true) قضیہ بھی ایسے قیاس کا مادہ نہیں بن سکتا بلکہ صرف وہ یقینی قضیہ مراد ہے جو کلی ہو، یعنی جو ہر حال میں یقینی رہے۔

امام صاحب بتا رہے ہیں کہ استخراجی منطق کی دلیل کی ساخت واضح کرنے کے بعد اب میں ان قضایا کی نشاندہی کروں گا جو دلیل کے ایسے مقدمات بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں استعمال کرکے استخراجی دلیل سے نفس الامر سے متعلق یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تین باتیں نوٹ کیجئے، امام صاحب ایسے قضایا کی بات کررہے ہیں:

1) جو نفس الامر میں حقیقت ہیں
2) وہ یقینی ہیں
3) اور ہر حال میں حقیقی و یقینی ہیں (یعنی آفاقی ہیں)

پھر امام صاحب ایسے قضایا کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے اولیات عقلیہ کا ذکر کرتے ہیں، جی ہاں وہی جنہیں آپ “احیاء العلوم” میں عقل کا دوسرا معنی کہتے ہیں:

ألأوليات العقلية المحضة وهي قضايا تحدث في الإنسان من جهة قوته العقلية المجردة من غير معنى زائد عليها يوجب التصديق بها (معیار العلم)

مفہوم: اولیاتِ عقلیۃ محضہ (pure        rational        first        principles)، یہ وہ قضایا ہیں جو انسان میں صرف اس کی عقلی قوت کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں، بغیر کسی ایسے اضافی معنی یا پہلو کے جو ان کی تصدیق کو لازم قرار دے (یعنی یہ از خود سچ ہوتے ہیں)

کتاب محک النظر (جو “معیار العلم” کا خلاصہ ہے) میں اسے یوں بیان کیا ہے:

أوليات: واعني بها العقليات المحضة التي اقتضى ذات العقل بمجرد حصولها من غير استعانة بحس التصديرَ بها مثل علم الإنسان بوجود ذاته، وبان الواحد لا يكون قديما حادثا، وأن النقيض إذا صدق أحدهما كذب الآخر، وان الإثنين أكثر من الواحد ونظائره (محک النظر)

مفہوم: اولیات (first        principles) سے میری مراد وہ خالص عقلی (pure        rational) امور ہیں جن کی تصدیق خود عقل نے محض ان کے حاصل شدہ ہونے سے کردی ہے (یعنی وہ ہمارے حال پر دال ہونے کی حیثیت سے ہمیں حاصل ہوتے ہیں)، بغیر کسی حسی تجربے کی ضرورت کے۔ جیسے انسان کا اپنی ذات کے وجود کا علم، یہ کہ ایک چیز بیک وقت قدیم اور حادث نہیں ہوسکتی، یہ کہ جب دو متناقض قضایا میں سے ایک سچا ہو تو دوسرا جھوٹا ہوگا (یعنی جمع بین النقیضین کا محال ہونا)، اور یہ کہ دو ایک سے زیادہ ہوتا ہے، اور اسی طرح کے دیگر قضایا۔

ذرا یہاں “احیاء العلوم” کی عبارت بھی دیکھ لینا چاہئے تاکہ معلوم ہوسکے کہ امام صاحب وہاں عقل کا معنی ذکر کرتے ہوئے انہی قضایا کی بات کررہے ہیں:

الثاني هي العلوم التي تخرج إلى الوجود في ذات الطفل المميز بجواز الجائزات واستحالة المستحيلات كالعلم بأن الاثنين أكثر من الواحد وأن الشخص الواحد لا يكون في مكانين في وقت واحد وهو الذي عناه بعض المتكلمين حيث قال في حد العقل إنه بعض العلوم الضرورية كالعلم بجواز الجائزات واستحالة المستحيلات

مفہوم: عقل کا دوسرا معنی وہ علوم ہیں جو ایک تمیز کرسکنے والے بچے میں ظاہر ہوجاتے ہیں، جیسے جائزات کے جواز اور مستحیلات کے استحاله (possibility        of        possibles        and        impossibility        of        impossibles) کا علم۔ مثلاً یہ علم کہ دو ایک سے زیادہ ہے اور یہ کہ ایک ہی جسم بیک وقت دو مقامات (spaces) پر موجود نہیں ہوسکتا (اس لئے کہ جو دوسرے مقام پر ہوگا وہ لازما الگ جسم ہوگا)۔ یہی وہ علم ہے جس کی طرف بعض متکلمین نے اشارہ کیا جب انہوں نے عقل کی تعریف یوں کی کہ یہ بعض ضروری علوم پر مشتمل ہے جیسے جائزات کے جواز اور مستحیلات کے استحاله کا علم۔

واضح ہوگیا کہ امام صاحب کے نزدیک اولیات ایسے قضایا ہیں جو نفس الامر سے متعلق ہیں نیز وہ یقینی ہیں۔ امام صاحب کی ایسی کوئی تحریر ہماری نظر سے نہیں گزری جس سے فاضل مصنف کا مدعا ثابت ہوتا ہو۔

اولیات عقلیہ سے متعلق امام غزالی کی رائے کی نوعیت کیا ہے، اس پر “المنقذ من الضلال” میں موجود عبارت سے بھی واضح روشنی پڑتی ہے۔ امام صاحب نے اپنے علمی سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے ان اولیات کی اس اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ ان کا علم ناقابل شک حقائق کے طور پر حاصل ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مقصد کے لئے علم کے سب دروازے کھٹکھٹائے اور کوئی کسر نہ چھوڑی یہاں تک کہ سوفسطائیہ کے منہج پر سب ماخذات علم پر اعتراضات وارد کئے، میں نے اولیات عقلیات جنہیں علم ضروری کہتے ہیں ان پر بھی اشکالات وارد کئے یہاں تک کہ میں اپنے حال، نہ کہ قول و نطق، کے اعتبار سے دو ماہ تک سوفسطائیوں جیسا ہوگیا۔ پھر اللہ تعالی نے مجھے اس دلدل سے چھٹکارا دلایا اور اس کی رحمت سے اولیات عقلیات پر میرا اعتماد بحال ہوگیا۔ اس سب تفصیل کے بعد آپ کہتے ہیں کہ یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد طالب علم کو اس بات کی جانب توجہ دلانا ہے کہ حصول علم میں وہ کوئی دقیقہ نہ اٹھا چھوڑے یہاں تک کہ وہ اس شے کی طلب تک جاپہنچے جسے طلب نہیں کیا جاسکتا۔ آپ لکھتے ہیں:

فإن الأوليات ليست مطلوبة فإنها حاضرة، والحاضر إذا طلب نفر واختفى، ومن طلب ما لا يطلب فلا يتهم بالتقصير في طلب ما يطلب

مفہوم: بے شک اولیات عقلیہ کو (کسی دوسری شے سے ثابت کرکے معلوم و) حاصل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ تو علم حضوری و حالی ہے (اور جو حاضر ہو اسے طلب نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تو حاصل شدہ ہوتی ہے)، جو کوئی اس حاصل شدہ کو (دلائل وغیرہ سے) حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا ہے تو حاصل شدہ علم مخفی ہوکر اس سے دور ہوجاتا ہے۔ جس شے کی طلب نہ کی جاسکے اس کی طلب نہ کرنے والے طالب علم کو متہم نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے اس کے لئے جدوجہد نہ کی

مطلب یہ کہ علم ضروری یا اولیات عقلیہ وہ علم ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی کیونکہ وہ حاصل شدہ حال ہے، جیسے کہ میرے ہونے کا علم مجھے میرے ہونے کی وجہ سے حاصل ہے، اس ہونے کے علم کی الگ سے کوئی دلیل نہیں ہوسکتی بجز اس کے کہ میں پایا جاتا ہوں اور اس اضطراری علم کی بنا پر میں جانتا ہوں کہ “پایا جانا” (وجود و ثبوت) اور “نہ پایا جانا” (عدم و نفی) جمع نہیں ہوسکتے، جو کوئی اس پر شک کرتا ہے وہی سوفسطائیت کی وادیوں میں جا پڑتا ہے۔ اس سے بھی واضح ہوا کہ اولیات کو آپ ذہن کی ساخت کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ نفس الامر سے متعلق ایسے حقائق کے طور پر دیکھتے ہیں جو حقیقت بطور حال کے طور پر انسان کو حاصل ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اتنا بنیادی علم ہے کہ علم کے سفر میں اس سے پیچھے جھانکنا ممکن ہی نہیں لہذا اس سے پیچھے نہ جھانکنے والے کو یہ الزام نہیں دیا جاسکتا کہ اس نے طلب علم کی پوی طرح تگ و دو نہ کی یا غور و فکر نہ کیا۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں