علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ قرآن نے خود ہی ان مسائل کو بیان کردیا ہے (نوٹ کیجئے کہ غامدی صاحب اصول فقہ کو بھی ناگزیر علم مان رہے ہیں)۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ دلیل حدوث کمزور مقدمات پر مبنی ہے جس کی گویا ضرورت نہیں۔
ان کے اس دعوے پر متعدد طرز پر گفتگو ہوسکتی ہے، سر دست سوال یہ ہے کہ کیا واقعی علم کلام غیر ضروری امور سے بحث کرتا ہے؟ کیا واقعی دلیل حدوث سے مفر ممکن ہے؟ آئیے اسے سمجھنے کے لئے “خدا پر ایمان” سے متعلق خود غامدی صاحب کی دلیل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:۔
“انسان مخلوق ہے، مذہب کا مقدمہ اسی حقیقت کے ادراک سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک وجودی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم جب چاہیں اپنی آنکھوں سے کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کن بے جان عناصر سے ہوتی ہے۔” (“مقامات”: خدا پر ایمان)
اس کے بعد آپ اس عمل کی کچھ تفصیلات بیان کرتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں یوں اور ووں احوال ہوتے ہیں جن کا ہم اب مشاہدہ کرسکتے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان بنا ہوا یعنی مخلوق ہے۔
کیا واقعی ہم انسان کے “بننے” یا “تخلیق” کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسا کہ اس مقدمے میں دعوی کیا گیا ہے؟ درست بات یہ ہے کہ انسان کے بننے کا ہمارا کوئی مشاہدہ نہیں ہے اور نہ ہی “انسان مخلوق ہے” یہ صرف مشاہدے پر مبنی قضیہ ہے۔ انسانی بصری مشاہدہ صرف یہ ہے کہ ہم ایک شے کو ایک حال سے دوسرے حال پر تبدیل ہوتا دیکھتے ہیں، باالفاظ دیگر ہم ایک ایسا حال جو موجود نہیں تھا اسے موجود ہوتا دیکھتے ہیں اور بس۔ متکلمین کی اصطلاح میں کہا جائے تو بات یوں ہے کہ اشیا سے متعلق ہمارا مشاہدہ حدوث کا ہے۔ اس کے بعد ہم بدیہی علم پر مبنی اس قضئے کو بروئے کار لاتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ “جو عدم سے وجود ہو وہ محتاج و ممکن ہوتا ہے” اس لئے کہ عدم از خود وجود کی توجیہہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ یہ قضیہ کہ “انسان محتاج یا ممکن ہے”، یہ صرف مشاہدے سے نہیں آیا بلکہ دو مقدمات پر مبنی استدلال سے حاصل ہوا ہے جہاں ایک بدیہی علم پر مبنی ہے اور دوسرا حسی مشاہدے پر:
الف) انسان پر ایک کے بعد دوسری کیفیت لاحق ہوتی ہے، یعنی اس پر حدوث لاگو ہے۔ یہ قضیہ حس سے حاصل ہوا۔
ب) جس پر حدوث لاگو ہو وہ محتاج و ممکن ہوتا ہے، یہ بدیہی علم پر مبنی ہے۔
ج) انسان محتاج و ممکن ہے۔
یہاں ہم فی الوقت اس بحث کو اگنور کردیتے ہیں کہ “احتیاج” کے حکم کی بنیاد کیا ہے، حدوث یا کچھ اور، نیز اس سوال کو بھی اگنور کردیتے ہیں کہ خود اس بدیہی قضئے (ب) کی حیثیت کیا ہے (یعنی یہ کسی حقیقت سے متعلق ہے یا بقول کانٹ کے نرا خیال ہے)، اور مان لیتے ہیں کہ حدوث کے مشاہدے اور اس بدیہی قضیے کی بنیاد پر انسان کا محتاج و ممکن ہونا ثابت ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا محتاج و ممکن ہونا کبھی مشاہدے میں آسکتا ہے؟ قطعاً نہیں، یہ حکم عقلی ہے۔ معلوم ہوا کہ “انسان مخلوق ہے” تو کجا “انسان محتاج ہے”، یہ بھی مشاہدے میں نہیں آتا اور نہ ہی صرف مشاہدے سے حاصل علم ہے۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد کے بعد اگلا قدم یہ سوال ہے کہ جو محتاج و ممکن ہو کیا وہ مخلوق ہوتا ہے، اگر ہاں تو کس معنی میں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شے محتاج و ممکن ہوتے ہوئے قدیم بھی ہو؟ ممکن کو علت کی احتیاج کس نوع کی ہے، کیا یہ کہ وہ اس کے موجود ہونے کا گراؤنڈ فراہم کرتی ہے یا یہ کہ وہ اس کے عدم سے وجود کی توجیہہ کرتی ہے؟ پھر یہ واضح کرنا بھی لازم ہے کہ “مخلوق ہونے” کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً مسلم فلاسفہ کے نزدیک مخلوق ہونے کا مطلب ایک ایسی وجوبی علت کی احتیاج ہے جس سے کائنات کا صدور بطریق لزوم ہو، یوں ان کے نزدیک کائنات قدیم ہوتے ہوئے بھی مخلوق ہے اور یہی اس کے ممکن ہونے کا مطلب ہے۔ کیا اس دعوے سے کائنات کے مخلوق ہونے اور اس کی علت کے خالق ہونے کا وہ مفہوم ادا ہوجاتا ہے جو قرآن میں بیان ہوا؟ اگر نہیں ہوتا، تو کیا مخلوق ہونے کے مفہوم کا تقاضا یہ کہنا ہے کہ حوداث کا جو سلسلہ ہمارے مشاہدے میں ہے یہ بھی حادث ہے (یعنی عالم عدم سے وجود میں آیا)؟ پھر اس “عدم” کا کیا مطلب ہے؟
ابھی ہم نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ انسان کے انسان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی زید، راشد و صہیب کو جب انسان کہا تو ان کے مابین “انسانیت” نامی مشترک چیز کیا اشتراک معنوی ہے یا اشراک لفظی ہے؟ اگر یہ اشتراک معنوی ہے تو جزیات سے متعلق یہ کلی معنی کہاں متحقق ہیں: خارج میں جزیات سے الگ، خارجی جزیات کے تحت، صرف ذہن میں یا خارج و ذہن دونوں میں، یا “لاوجود و لامعدوم حال” میں؟ پھر یہ مشترک معنوی کلیات بھی کیا جعل جاعل سے ہیں یا حقائق کی طرح ہیں؟ کیا کلیات کسی کے فعل کا اثر ہو سکتی ہیں؟ کیا اس اشترک معنوی یا کلی کو بغیر جعل جاعل مانتے ہوئے “انسان مخلوق ہے” کی تصدیق کا شرعی تقاضا پورا ہوجاتا ہے؟
فی الوقت یہاں مجھے ان سب امور کے جواب سے بحث نہیں کرنا، سوال یہ ہے کہ کیا ان سوالات کو بائے پاس کرکے یہ کہنا کہ “انسان مخلوق ہے” اور “یہ مشاہدے سے معلوم ہوگیا ہے” اور “یہ فطری دعوی ہے” وغیرہ وغیرہ، اس قسم کی گفتگو سے کیا ہم واقعی یہ ثابت کرلیں گے کہ “انسان مخلوق ہے” نیز اس سے متعلق جس بات کی تصدیق کا شرعی تقاضا ہماری طرف متوجہ ہے وہ پورا ہوجاتا ہے؟ یہ سب سوالات باہم ملے ہوئے ہیں اور کسی سنجیدہ علمی منہج میں ان کے جواب سے مفر محال ہے اور علم کلام ان ناگزیر امور پر بحث سے جنم لیتا ہے۔ کیا ان سوالات کے جواب کی نوعیت یہ ہے کہ ان کے جوابات قرآن میں بنے بنائے موجود ہیں یا یہ کہ خطاب کرنے والے نے ان کے پیش نظر بات کی ہے؟ جس کا دعوی ہے کہ خلق کے معنی سے متعلق ان امور کا بنا بنایا جواب آیات میں موجود ہے، وہ ان آیات کو پیش کرسکتا ہے؟ اسی طرح یہ کہنا کہ ان امور میں بحث دین میں مطلوب ہی نہیں کیا یہ کوئی بامعنی بات ہوسکتی ہے جبکہ یہ سوالات “انسان مخلوق ہے” کی تصدیق سے متعلق ہیں؟ لوگوں کو لگتا ہے کہ متکلمین گویا ان بحثوں میں غیر ضروری طور پر پڑے رہے حالانکہ یہ “کائنات کے مخلوق” اور “خدا کے خالق ہونے” کے شرعی مفہوم سے متعلق گفتگو ہے کہ دین کا تقاضا اس حوالے کیا ہے نیز اس ضمن میں کس حد تک اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور کس حد کے بعد “انسان مخلوق ہے” کی تصدیق جاتی رہے گی۔
الغرض زیر بحث مقدمے میں صرف لسانیاتی زور پر انسان کا مخلوق ہونا ثابت کرلیا گیا ہے اور متعدد خالی جگہوں پر مبنی اس استدلال کو “قرآن کے فطری استدلال” کا عنوان بھی دے دیا جاتا ہے۔ اللہ کا کلام ایسی سادہ باتوں سے مبرا ہے۔
سمجھ رکھنا چاہئے کہ علم کلام کو قرآن سے وہی نسبت ہے جو فقہ کو قرآن سے ہے، فرق ہے تو اتنا کہ ایک عملی مسائل سے متعلق علم ہے اور دوسرا علمی و نظری۔ امام ابوحنیفہ نے بہت پہلے اس حقیقت کو یوں بیان کردیا تھا کہ فقہ کی دو اقسام ہیں: فقہ الاکبر اور فقہ الاصغر۔ علم کلام کو فقہ الاکبر کہتے ہیں۔
آگے بڑھتے ہوئے ان کی دلیل کے ایک اور پہلو کو لیتے ہیں۔ دلیل حدوث کو اس بنا پر کمزور قرار دینے کہ اس کا صغری (“عالم حادث ہے”) دلیل کا محتاج ہے نہ کہ بدیہی، اس دلیل کا متبادل فراہم کرتے ہوئے جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“ہر مخلوق کا خالق ہے، انسان مخلوق ہے، لہٰذا انسان کا بھی خالق ہے”
ان کی اس دلیل کا پہلا قضیہ “انسان مخلوق ہے” کا حال ہم پیچھے دیکھ چکے ہیں کہ یہاں وجہ استدلال کو اگنور کرکے سیدھا اسے مشاہداتی چیز کہہ دیا گیا ہے حالانکہ انسان کے خلق کے فعل کا ہم “مشاہدہ” نہیں کرتے، ہمارا مشاہدہ احوال اور ان کی پے درپے تبدیلیوں کا ہے اور بس، جیسے ہم ایک درخت کو حال بحال بڑا ہوتا دیکھتے ہیں۔ اسے حدوث کہتے ہیں۔ اس قضئے کو مشاہداتی فرض کرلینا ہی ان کی اس غلط فہمی کی بنیاد ہے کہ ان کے استدلال کا یہ صغری گویا کسی “بدیہی و فطری” حسی قضیے پر مبنی ہے جو کسی دلیل و تجزئیے کا محتاج نہیں۔ آگے بڑھتے ہیں۔
اس کے بعد انسان کی علت کی نوعیت پر گفتگو کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
“ہم جانتے ہیں کہ خلق کے جس فعل کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے، وہ ارادی ہے اور اُس کے ایک ایک جزو میں بے پایاں قدرت اور بے نظیر علم و حکمت کا ظہور ہوا ہے۔ ہم جس طرح خلق کا انکار نہیں کر سکتے، اُسی طرح فعل کی اِس نوعیت کا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ اِس لیے کہ فعل کی یہ نوعیت بھی اُسی طرح ایک وجودی حقیقت ہے، جس طرح خلق کا فعل ایک وجودی حقیقت ہے۔ ہم جس طرح فعل کا مشاہدہ کرتے ہیں، اُسی طرح اِس حقیقت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، لہٰذا مجبور ہیں کہ اِس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کریں کہ انسان کا خالق صاحب ارادہ ہے، اُس کی قدرت بے پایاں ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ انسان کی عقل اُسے یہاں تک لے آتی ہے۔ نسان کی عقل اُسے یہاں تک لے آتی ہے۔ اِس سفر میں اُس کو خارج سے کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔”
جب انسان کے خلق کے مشاہدے کا قضیہ ہی غلط ہے تو اس پر متفرع یہ جملہ بھلا کیسے بامعنی ہوسکتا ہے کہ “ہم جانتے ہیں کہ خلق کے جس فعل کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے، وہ ارادی ہے ۔۔۔۔۔ ہم جس طرح فعل کا مشاہدہ کرتے ہیں، اُسی طرح اِس حقیقت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، لہٰذا مجبور ہیں کہ اِس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کریں کہ انسان کا خالق صاحب ارادہ ہے، اُس کی قدرت بے پایاں ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ “؟
الغرض یہ پورا استدلال محض خطابی قسم کا لسانیاتی بیان ہے جس میں وجہ استدلال کا ذکر نہیں۔ اشیا ایک حال سے دوسرے حال پر منتقل ہورہی ہے، اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ان کا کوئی ایسا “بنانے” والا ہے جو “فاعل مختار” ہے اور جو قدرت، علم و حکمت سے متصف ہے؟ اس استدلال میں بے شمار خالی جگہیں ہیں، سردست ہم ایک کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
عالم میں ظاہر ہونے والا کوئی واقعہ کسی صاحب اختیار فاعل کے فعل کا اثر ہے یا کسی علت موجبہ کا نتیجہ، اس کا تعین اس سے ہوتا ہے کہ عالم قدیم ہے یا حادث۔ اگر عالم قدیم ہو تو یہ بات کہنے کی بنیاد موجود نہیں کہ کسی فاعل نے ممکن و محتاج کو لاحق عدم و وجود کے مساوی امکان میں سے کسی ایک جانب کو بلا علت اپنے ارادے سے ترجیح دی ہے، یعنی اس کا ارادہ ہی اس ترجیح کی بنیاد ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جو ارسطو کی پیروی میں عالم کو قدیم ماننے والے مسلم فلاسفہ پر امام غزالی کے نقد کی بنیاد تھا۔ عالم اگر قدیم ہو تو قدیم کسی کے اختیاری فعل کا اثر ہونا محال ہے اس لئے کہ وہ ہمیشہ سے موجود ہوتا ہے اور وجود کے لئے کسی فعل کا محتاج نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر فلاسفہ کہا کرتے تھے کہ عالم کو علت کی احتیاج عدم سے وجود کے لئے نہیں بلکہ ازل سے موجود ہونے کے ایسے گراؤنڈ کی ہے جس سے ممکن الوجود بطریق لزوم صادر ہو۔ اسی لئے فلاسفہ کے نزدیک علت کی احتیاج کی بنیاد “حدوث” نہیں بلکہ ایسا امکان ہے جو تقیید (qualification) پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ کچھ گہری بحثیں ہیں جن پر تفصیلی گفتگو پھر سہی۔ نکتے کی بات یہ ہے کہ جب تک عالم کا حادث ہونا ثابت نہ ہوا تب تک اس کا کسی کا فعل ہونا ثابت نہیں ہوتا اور جب تک اس کا فعل ہونا ثابت نہ ہو تب تک اس کی علت کا فاعل مختار یعنی مرید، قدیر و علیم ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم غامدی صاحب عالم کے حدوث و قدم کی بحث کو چھوڑ کر متعدد خالی جگہوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے صرف “انسان مخلوق ہے” سے یہ سب صفات بدون کسی خارجی راہنمائی اخذ کرلینے کے قائل ہیں!
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا غامدی صاحب ثانوی علتوں کے سلاسل کے قائل ہیں یا ہر واقعے کو براہ راست خدا کے فعل کا اثر کہتے ہیں؟ اگر وہ ثانوی علتوں کے قائل ہیں تو ایسے میں ان کے لئے یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ انسان کا حال بحال منتقل ہونا کسی فاعل مختار کا اثر ہے اور ہم انسان کے اس حال بحال انتقال میں کسی علت موجبہ کی تاثیر نہیں بلکہ فاعل مختار کے فعل کے اثر کا مشاہدہ کرتے ہیں؟ ثانوی علتوں کو مان لینے کے بعد ان کے دعوے میں مذکور یہ لنک مزید کمزور ہوجاتا ہے۔
الغرض یہ ہے دلیل حدوث کا وہ متعدد خالی جگہوں پر مبنی متبادل جسے یہ حضرات قرآن کا فطری استدلال وغیرہ بھی فرض کرتے ہیں! علم کلام میں ان ناگزیر خالی جگہوں کو ہی پر کیا گیا ہے۔
کمنت کیجے