اقوام متحدہ کے ایک علمی فورم میں محترم غامدی صاحب کے موقف کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب حسن الیاس نے جو گفتگو کی ہے اسے کم از کم افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس موقعے پر چند باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ امت مسلمہ کی حالت اس وقت ایسی ہے کہ گھر میں لوٹ مچی ہو اور آگ بھی بھڑک اٹھے۔ یہی صورت حال اس شعر میں مقلوباً بیان ہوئی ہے:
جب گھر کی آگ بجھی تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے
سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو آگ بجھانے آئے تھے
ایسے حالات میں کیا علم اور کیا مکالمہ! طاقت اور سرمائے کی عالمی حرکیات میں گھرے ہوئے ہمارے اہلِ امر اور اہلِ علم بے بسی اور بے شعوری کی تصویر ہیں، اور جس کو جو سوجھ رہا ہے کر اور کہہ رہا ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارے اہلِ امر کے حالات اہل علم کی بہ نسبت پھر بھی قدرے بہتر ہیں کہ آقائے سرسید کے فیض جاریہ سے انھوں نے غلامی کا سلیقہ سیکھ لیا ہے اور جدید دنیا کی سوجھ بوجھ پیدا کر لی ہے۔ ہمارے اہلِ علم تہذیب اور علم سے بہت آگے گزر چکے ہیں، یہاں تک کہ اب وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں اور یہ غلامی سے کہیں بدتر ہے۔ جناب حسن الیاس کی گفتگو پر اکثر غضب ناک تبصرے بالکل جائز ہیں۔ لیکن ان میں ایک چیز کی کمی ہے کہ وہ محترم غامدی صاحب کے موقف کو حالات حاضرہ سے متعلق کر کے دیکھ رہے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس طرح کے متجددانہ مواقف کم از کم دو صدیاں پرانے ہیں، اور تجدد مخالف طبقات کے فتاویٰ اور غیض و غضب کا نشانہ رہے ہیں لیکن ان کا کوئی علمی جواب نہیں دیا جا سکا۔ شروع سے ہی ان اہلِ مواقف کی رسائی مالکان تک براہ راست رہی ہے۔ بہرحال تجدد مخالف طبقات نے اب تک جس عقل و علم دشمنی پر استقلال کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی ازحد قابل داد ہے۔ جناب حسن الیاس کی طرف سے غز.ہ کو نظرانداز کرنے اور ن.س.ل کشی کا ذکر تک نہ کرنے پر ہمیں جو غصہ آ رہا ہے، اس کا بڑا سبب ہمارے حافظے اور عقل کا بیک وقت خاتمہ ہے کیونکہ جنگ آزادی ستاون میں سامنے آنے والے آقائے سرسید کے موقف اور طرز عمل کو ہم بھول گئے ہیں۔ یہی وہ وفاداری بشرط استواری ہے جس کی گونج ہمیں اقوام متحدہ میں نظر آئی تو ہم بگڑ بیٹھے ہیں۔ بے حافظہ اور بے عقل قوموں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
دین کی درست تعبیر کا نزاع کئی صدیاں پرانا ہے۔ اور استعمار کی آمد اور روایت کے خاتمے سے فوراً بعد کا ہے، اور طا.لبا.ن بھی جائز طور پر اس میں حصہ دار ہیں۔ برصغیر میں تہذیبی زوال کا فکری اعلامیہ دو بڑے مسائل تھے: ایک تحریک وہابیت اور دوسرا تجدد۔ یہ دو ایسے کواڑ بن گئے ہیں جن کے پیچھے ہماری پوری تہذیبی روایت اوجھل ہو گئی ہے۔ استعمار کے غلبے اور اسشتراق کی تباہ کاری کے ہوتے ہوئے یہ ناگزیر تھا کہ مغربی سرمایہ اور طاقت دیگر سازی کے عمل سے مذہب کو بھی instrumentalize اور weaponize کر دے۔ یہ ایک عالمی مظہر تھا اور مغربی استعمار نے ہر غیر مغربی تصور اور عیسائیت سمیت ہر مذہب کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں اس موضوع پر گفتگو کرانے کا مقصد مسلمان اہل علم کے خیالات سے آگہی حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ تصدیق حاصل کرنا ہے کہ یہ منصوبہ اب کہاں تک پہنچا ہے۔ اگرچہ کارپوریٹ علمی صنعت کے روبرو اس بیان حلفی کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کی اپنی معلومات کہیں فزوں تر ہیں۔ ایسی گفتگو کا ایک بڑا مقصد اہل اسلام کو براہ راست پیغام دینا بھی ہوتا ہے کہ دیکھو ہم اسلام پر گفتگو کے معیارات کو کیونکر متعین کر رہے ہیں۔ جناب حسن الیاس کی گفتگو مالکان اقوام متحدہ کے لیے یک گونہ سرخوشی کا یقیناً باعث رہی ہو گی۔
جناب حسن الیاس نے طالبان کو جس طرح نشانہ بنایا اس کو تو سن کر ہی شرم آ رہی تھی۔ لیکن آقائے سرسید جس طرح مجا.ہد.ین جنگ آزادی کو نشانہ بناتے تھے وہ بھی اسی طرح کی چیز ہے۔ میں یہ عرض کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ہمارے تہذیبی حالات ظاہری تبدیلیوں کے باوجود گزشتہ دو صدیوں سے جوں کے توں ہیں۔ ماضی میں آقائے سرسید کے خلاف کہنے کو جو کچھ تھا اب محترم غامدی صاحب کے خلاف بولنے کو بھی وہی کچھ ہے۔ ”وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں“ والی صورت حال مستقل ہے۔ اقوام متحدہ میں انسانی ضمیر کی نمائندگی کا شرف اور بطور انسان پوری دنیا کے سامنے شہا.د.ت (testament) کی ذمہ داری بھی کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے پوری کی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم شعور و عمل کس قدر مسخ ہو چکا ہے کہ ہم گھر میں اور گھر سے باہر کوئی بات کہنے کی انسانی استعداد سے ہی محروم لوگ ہیں۔ کیا ہم کسی بھی درجے میں امت وسط ہونے کی کوئی ذمہ داری پوری کرنے کے قابل رہ گئے ہیں؟ اب تجدد اور روایت کے جھگڑوں سے آگے بڑھ کر خود اپنی انسانیت پر گواہی دینے کا وقت ہے اور ہم اس سے منہ پھیر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے۔
کمنت کیجے