Home » ریاست و تعلیم : جناب وحید مراد صاحب کی خدمت میں (6)
تعلیم و تعلم شخصیات وافکار

ریاست و تعلیم : جناب وحید مراد صاحب کی خدمت میں (6)

جناب وحید مراد لکھتے ہیں کہ ”اصل مسئلہ ریاست کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے کا نہیں بلکہ اس کی نیت، مقصد اور طرزِ حکمرانی کا ہے۔ اگر ریاست مذہب کو طاقت کا آلہ بنائے تو روحانیت مسخ ہو جاتی ہے لیکن اگر مذہب کو اخلاقی رہنمائی اور روحانی توازن کا سرچشمہ بنائے تو وہی مذہب ریاست کا ضمیر بن جاتا ہے۔
”اسلامی دنیا اور جدید تاریخ دونوں اس امر کی گواہ ہیں کہ مذہب اور ریاست کا رشتہ جامد نہیں بلکہ ارتقائی اور اجتہادی ہے۔ ایران، سوڈان، افغانستان، پاکستان یا عرب ریاستیں ؛ جہاں بھی “شرعی ریاست” کے تجربات کیے گئے وہاں ڈھانچہ جدید ہی رہا، بس اس پر مذہبی لیبل چڑھا دیا گیا۔ نتیجتاً وہ ریاستیں نہ خالص مذہبی بن سکیں نہ مکمل جدید، اور فکری تضاد و عملی الجھن کا شکار رہیں۔ اسلامی دنیا کے لیے درست راستہ مذہبی اقتدار نہیں، بلکہ تطہیر اور جذب کا ہے یعنی جدید ریاست کے اندر مذہبی اخلاقیات کو جذب کر کے اسے طاقت کے بجائے خیرِ عام، عدل اور انسانی وقار کے لیے استعمال کیا جائے۔“
یہ کہنا کہ ”تعلیم عامہ جدید ریاست کا فیصلہ ہے“ یا ”تعلیم عامہ ایک سیاسی فیصلہ ہے“، معنوی اور تفہیمی سطح پر اس لیے مشتبہ نہیں ہو جاتا کہ سیاسی اور معاشی امور پر گفتگو کے لیے ہمارے پاس کوئی علم نہیں ہے، بلکہ سرے سے علمی مباحث ہی کا خاتمہ اس کا سبب ہے۔ اہمیت کے حامل ہر موضوع پر ہماری گفتگو کا طرز یہی ہے اور اس پر داد سخن کے حالات بھی یہی ہیں۔ مثلاً مصنف کا یہ فرمانا کہ ”اصل مسئلہ ریاست کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے کا نہیں بلکہ اس کی نیت، مقصد اور طرزِ حکمرانی کا ہے۔“ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک جدید ریاست کا ہست معلوم نہیں ہے اور بات بھی ضرور کرنی ہے تو پھر ایسی ہی بات ہو گی۔ ہمارے علوم کے تمام شعبوں کی یہی صورت حال ہے۔ مثلاً فزکس پر قرآن مجید کی رو سے بات ہو گی اور قرآن مجید پر سائنس کی رو سے بات ہو گی۔ لیکن فزکس پر فزکس کی شرائط پر بات ممکن نہیں رہ گئی اور قرآن مجید پر دین کے تناظر میں بات کرنا ممکن نہیں رہا۔ فلسفہ لوک ادب کے تناظر میں زیادہ بامعنی ہو گا اور علم الکلام پر بات مابعدالطبیعات کے مفروضوں کے ذریعے ہو گی، مابعد الطبیعات پر گفتگو کے لیے فقہ کو ذریعہ بنایا جائے گا، سائنس غالب کے افکار کی روشنی میں زیربحث لائی جائے گی، اور غالب کے اشعار مارکس کے افکار سے بہتر مفہوم ادا کر پائیں گے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں تفہیم مغرب یا اس کے نئے چولے ادراک عصر حاضر نے ہمارے شعور کی رہی سہی علمی استعداد کو بھی فنا کر دیا ہے۔ جناب وحید مراد جدید ریاست کو تو کہیں ڈھوند نہیں پائے لیکن شکر ہے کہ اس کی نیت کا پتہ چل گیا ہے اور اب ان کے علمی قضایا کا مدار یہی نیت ہے۔
جناب مصنف نے اپنی دردمندی اور نیک نیتی سے امت مسلمہ کے جملہ مسائل کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: ”اسلامی دنیا کے لیے درست راستہ مذہبی اقتدار نہیں، بلکہ تطہیر اور جذب کا ہے یعنی جدید ریاست کے اندر مذہبی اخلاقیات کو جذب کر کے اسے طاقت کے بجائے خیرِ عام، عدل اور انسانی وقار کے لیے استعمال کیا جائے۔“ ابھی تک مجھے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ سیاسی افکار زیر بحث ہیں یا تعلیم عامہ کو نسوار دی جا رہی ہے۔ خدا خدا کر کے جدید ریاست کے اندر سے تطہیر اور جذب نے ظہور کیا تو پتہ چلا کہ تصوف زیر بحث ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید ریاست کے محلول میں تطہیر کا شیرہ کیمیائی اصولوں کے مطابق جذب کیا جائے تو وہ طاقت نہیں رہے گی، بلکہ خیر عام، عدل اور انسانی وقار کا دلپسند شربت بن جائے گا۔ جدید ریاست اور تعلیم عامہ کے تناظر میں بھی جذب کی بہت اہمیت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی اخلاقیات کو عمل انگیز (catalyst) کے طور پر کام میں لایا جائے۔ ممدوح محترم نے جتنے ”اصل“ یا ”حقیقی“ سوال یا مسئلے اٹھائے ہیں ان کا مقصد یہی تھا کہ کہیں زیر بحث موضوع پر بات نہ کرنی پڑ جائے، اور کسی طلسماتی اور موہوم شے کے تعاقب میں رہا جائے۔ ذہن میں کچھ سنسناہٹ ہوتی رہے تو علم کا التباس بھی باقی رکھا جا سکتا ہے، اور مصروفیت بھی چلتی رہتی ہے۔ الحمد للہ، تعلیم عامہ کا غیر اہم مسئلہ زیر بحث ہی نہیں آیا، اور اہم علمی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ جدید عہد کی ام الآلام مذہبی اخلاقیات کی معجون کھا کر اور تطہیر پانے کے بعد جذب میں ہے۔ جب تک جدید ریاست مذہبی اخلاقیات کا جذب نہیں پاتی اس وقت تک خیر عام، عدل اور انسانی وقار حاصل نہیں ہونے کے۔ میں ممدوح محترم سے متفق ہوں کہ جب تک جدید ریاست حالت صحو میں ہے، تعلیم عامہ کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو گا۔ اہم مسئلہ اب یہ ہے کہ مذہبی اخلاقیات کو جدید ریاست میں جذب کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کر لیا جائے۔
ممدوح محترم کا شعبہ بنیادی طور پر تعلیم ہے۔ مجھے اس امر پر کافی حیرت ہے کہ انھوں نے تعلیمی معاملات پر گفتگو کو conclude کرنے کی بجائے علم کے مختلف شعبوں پر بات کرنا شروع کر دی۔ یہ پھر association        of         ideas کا مسئلہ ہے اور ہمارے قومی شعور کی فعلیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ایک صاحب سے ملنے کے لیے حاضر ہوا اور ہم کوئی پانچ چھ گھنٹے ساتھ رہے۔ پہلے پانچ منٹ میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ باقی وقت کیسے گزرے گا۔ میں احباب کی گفتگو میں شریک بھی ہوتا ہوں اور اگر کہیں صرف سامع بننا پڑے تو مجھے اس پر بھی کوئی اضطراب نہیں ہوتا۔ بہرحال، میں ان صاحب کی گفتگو بڑے انہماک سے سنتا رہا، اور جس امر کی انھیں تصدیق مطلوب ہوتی وہ بھی عرض کرتا رہا، اور ساتھ ساتھ تحسین کا فرض بھی ادا کرتا رہا۔ بعض اوقات وہ گفتگو میں تقریباً تیس سیکنڈ کے اندر اندر پانچ سات بڑے لوگوں کے نام لے لیتے، اور میں بھی واہ واہ کر دیتا۔ سفر کے آخری لمحوں میں ان کا جوش اور وفور بہت زیادہ ہو گیا تھا اور انھوں نے ایک ہی سانس میں نطشے، شیخ سعدی، فوکو، علامہ اقبال، ابن خلدون اور وٹگنسٹائن کے نام لیے جیسے کوئی بندہ وظیفہ کر رہا ہو، بالکل مزمل شاہ کی طرح۔ مجھے شرارت سوجھی اور عرض کیا کہ حضور ان ناموں کا اس بات سے کیا تعلق ہے جو آپ فرما رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ علمی تصورات کے باہم ملنے کی ایک منطق ہوتی ہے، اور association        of           ideas کی بات کی۔ میں نے کہا کہ نطشے اور شیخ سعدی کی دوستی اچھی نہ دشمنی، وہ اپنے اپنے گھر میں رہیں تو بہتر۔ اس پر ان کا وفور آتش فشانی ہو گیا، اور ایک گھنٹہ اضافی ان کی بات سننا پڑی۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا جو مسلم ذہن میں association        of         ideas کو بہ تمام و کمال بیان کرتا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق، وہ لطیفہ ہمارے ہاں لکھی جانے والی ایک ہزار کتابوں پر بھاری ہے۔ لیکن مجھے دو افسوس ہیں: ایک یہ کہ میں ان کتابوں کی فہرست یہاں نہیں دے سکتا اور دوسرے یہ کہ وہ لطیفہ سنایا جا سکتا ہے لکھا نہیں جا سکتا۔
میری گزارشات کا جواب دیتے ہوئے جناب وحید مراد اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ ”جدید ریاست کو سرے سے باطل قرار دینا نہ علمی ہے نہ عملی۔ آج کی ریاست دراصل تاریخی ارتقا کا تسلسل ہے اور اسلامی معاشرے اسی دائرے میں رہ کر اپنے اخلاقی و روحانی اصولوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ مذہب اور ریاست کے تعلق کو تصادم کے بجائے تکمیل کے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مذہب کو ریاست پر مسلط کرنے کے بجائے اس کے غیر منظم، روحانی پہلوؤں کے ذریعے ریاست کے اخلاقی شعور کو بیدار کیا جانا چاہیے تاکہ طاقت، انصاف اور رحمت کے درمیان توازن قائم ہو۔
”جہاں مذہب کو اقتدار کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا وہاں مذہب اور ریاست دونوں کو نقصان پہنچا۔ کیونکہ جب مذہب طاقت کا وسیلہ بنتا ہے تو وہ ضمیر کی آزادی چھین جاتی ہے اور ایمان جبر میں بدل جاتا ہے۔ ریاست، مذہب اور تعلیم ؛ تینوں انسان کی اجتماعی زندگی کے بنیادی ستون ہیں۔ اگر تعلیم صرف ریاستی ضرورت پوری کرے تو وہ مفاداتی علم بن جاتی ہے؛ اگر ریاست مذہب کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرے تو اخلاقی زوال آتا ہے؛ اور اگر مذہب علم سے کٹ جائے تو وہ روحانیت کے بجائے جمود پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اصل ضرورت ان تینوں کے باہمی توازن کی ہے ایسا توازن جو طاقت سے زیادہ شعور دے، سماج کو نظم سے زیادہ انصاف دے اور تعلیم کو مقابلے کے بجائے معرفت اور معنویت کا وسیلہ بنائے۔“
ہم بہت دور نکل آئے ہیں، اس لیے یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ جناب وحید مراد میری ایک مختصر گزارش ”تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے“ کا جواب دیتے ہوئے سیرِ انفس و آفاق پہ نکل کھڑے ہوئے ہیں، اور گھر میں ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہر آدمی کو اپنی بات کہنے کا حق ہے اور اس حق پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر مشمولاتِ اظہار سوال گندم جواب چنا کا معاملہ بن جائیں تو پہلے آدمی کو اعتراض کا حق مل جاتا ہے۔ ہمارے مولویوں میں یہ عام بات ہے کہ اگر آپ کوئی علمی بات کریں تو وہ آگے سے نصیحت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ انھیں آپ کی خیرخواہی مطلوب ہوتی ہے بلکہ بھرم رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کہنے کا جبر غالب آ جاتا ہے۔ میں یہ سمجھ نہیں پا رہا کہ یہ پند نامہ میری گزارش کا جواب کیونکر ہو سکتا ہے؟ اگر کسی کی بات محض cue یا trigger کا کام کر رہی ہے تو یہ اخلاقی طور پر بھی مناسب نہیں کیونکہ اس سے وقت بھی ضائع ہوتا اور خلجان بھی بڑھتا ہے۔
مثلاً میں نے یہ بحث تو چھیڑی ہی نہیں کہ جدید ریاست حق ہے یا باطل۔ وہ نہ جانے ادھر کیوں نکل آئے۔ جناب مصنف کا طرز استدلال ملاحظہ فرمائیں: ”جدید ریاست کو سرے سے باطل قرار دینا نہ علمی ہے نہ عملی۔ آج کی ریاست دراصل تاریخی ارتقا کا تسلسل ہے۔“ یعنی اگر ”سرے سے“ ہو ہی نہیں تو کیا پھر علمی یا عملی بات ہو سکتی ہے؟ پھر کیا حق اور باطل کا مسئلہ علمی ہے یا عملی؟ سب سے اہم بات جو انھوں نے کی ہے وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ ان کے ارشاد کے مطابق ریاست دراصل تاریخی ارتقا کا تسلسل ہے اس لیے اس پر حق و باطل کی ججمنٹ دی ہی نہیں جا سکتی۔ وہ ہر وقت ارتقا کو مصلے کی طرح بغل میں رکھتے ہیں اور جہاں کوئی علمی بات ہو وہ اسے بچھا کر مراقب ہو جاتے ہیں، اور ارتقا کا وظیفہ شروع کر دیتے ہیں اور علم کی پیشرفت تیزی سے ہونے لگتی ہے۔
ان کا یہ ارشاد کہ ”مذہب کو ریاست پر مسلط کرنے کے بجائے اس کے غیر منظم، روحانی پہلوؤں کے ذریعے ریاست کے اخلاقی شعور کو بیدار کیا جانا چاہیے تاکہ طاقت، انصاف اور رحمت کے درمیان توازن قائم ہو۔“ صرف اسی کلچر اور علمی روایت میں کیا جا سکتا ہے جو اپنی ہر معنویت سے خالی ہو گئی ہو۔ سننے میں یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں کیونکہ ان میں غیرمنظم روحانی پہلوؤں سے ریاست کے اخلاقی شعور کو بیدار کرنے کی بات ہو رہی ہے جو ایک سائنسی دریافت کی طرح محسوس ہوتی ہے اور آدمی واہ واہ کرتا ہے۔ اس طرح جب ریاست کا اخلاقی شعور بیدار ہو جائے گا تو طاقت، انصاف اور رحمت کا توازن قائم ہو گا۔ مچڑی ہوئی فکر سے اچانک توازن کا نکل آنا انقلاب فرانس کی طرح کا واقعہ لگتا ہے۔ ہمارے حالات تو اب یہ ہیں کہ گھر چلانے مشکل ہیں اور self-perception یہ ہے کہ ایک نئی تہذیب قائم کر کے چلا سکتے ہیں۔ ہمارے علوم کا مزاج یہ ہے کہ سائنسی دریافتوں کو ہر وقت بانس میں چڑھائے رکھتے ہیں اور ہمارے اہل علم سوچتے ہیں کہ علمی ذمہ داری کوئی نئی بات کہنا ہے حالانکہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر ہست کے درست ادراک کو لازم بناتی ہے۔ ہست کے درست ادراک کے بغیر باید کی باتیں شعور کو فنا کر دیتی ہیں۔ ہست کا تاریخی اور سماجی ادراک شعور کی فاعلی حرکت ہے، جبکہ باید ہمارے لیے ایک انفعالی پوزیشن ہے۔ ان میں امتیاز کو باقی نہ رکھنا بھی ہمارے شعور کو کند کر دیتا ہے۔ شعور کی فاعلی حرکت محض اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب یہ ایجنسی رکھتا ہو۔ اس طرح ہم عصر دنیا کا ادراکِ ہست شعور کی بازیافت اور احیا کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ زندہ شعور کا اصل کام ہدایتی باید کو تاریخی ہست میں تبدیل کرنا ہے، اور تاریخ کسی خالی جگہ کا نام نہیں ہے کیونکہ تاریخی قوتیں وہاں ہمیشہ ایک ایسے ہست کو بالجبر قائم رکھتی ہیں جو ہمارے باید کے لیے کوئی جگہ باقی ہی نہیں رہنے دیتا۔ تاریخ میں کوئی بھی تبدیلی شعور اور ارادے کی ایجنسی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی۔ ایجنسی کا حامل شعور تاریخ میں راستہ بتاتا ہے اور وہ اسالیب سجھاتا ہے جو ایجنسی کے حامل ملی ارادے کو باید کے قیام میں معاون ہوتے ہیں۔ ہمارے ممدوح محترم تعلیم عامہ کے زیر بحث مسئلے کو کسی سرے نہ لگانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے لیکن ہر فکر کو پند بنانے میں بہت پرجوش ہیں۔ مرزا غالب نے ملی سطح پر چھائی ہوئی ہماری cognitive         dissonance کو بہت اچھے انداز میں بیان کیا ہے جو ان کی ایک غیرمعمولی epistemic        insight بھی ہے:
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل بچوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
اس کھیل میں ہر وقت الجھے رہنے کی وجہ سے ہمیں تو elephant         in         the         room بھی دکھائی نہیں دیتا تعلیم عامہ اور جدید ریاست تو کہیں بڑے موضوعات ہیں۔ یہ ہمارے علوم کی مجموعی کیفیت ہے۔
ہمارے ممدوح محترم جدید ریاست کو ایسے زیر بحث لا رہے ہیں جیسے کوئی سطح پر تیرتی ویل مچھلی کو جزیرہ سمجھ لے۔ ہمارے پاس جدید ریاست کی بطور ایک entity تفہیم کے علمی وسائل مفقود ہیں اس لیے محترم مصنف اس پر جو بھی خامہ فرسائی فرما رہے ہیں اس پر کچھ کہنا بھی مشکل ہے۔ لیکن ایک بات تو ذہن میں رہنی چاہیے کہ جدید ریاست کے ہر اہلکار کا پروٹوٹائپ اڈولف آئیک مین ہے۔ اس میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ شاید وہ کوئی علمی بات کرنے کی طرف لوٹ آئیں۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں