غیب محض کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے۔ اپنے عمومی مفہوم میں غیب کا معنی وہ معلوم ہے جو حس میں نہ ہو مگر وہ حقیقت ہو۔ حسی علم صرف وہ ہے جو براہ راست حواس میں آئے جیسے یہ آگ، یہ پنکھا وغیرہ۔ ہم چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ استدلالی علم غیب ہے۔ سائنسی علوم کا ایک بڑا حصہ استدلالی ہی ہے، ایک سائنس دان جب مشاہدات کی توجیہ کے لئے نظریات وضع کرتا ہے تو یہ نظریات بھی غیب ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کسی خاص سائنس کا ماہر یہ کہے گا کہ اس نظرئیے کی دلیل کے لئے میرے پاس فلاں حسی دلیل ہے وغیرہ لیکن اس کے باوجود وہ نظریہ غیب ہے۔ اسی اصول پر اہل مذہب بھی کہتے ہیں کہ جن بعض غیبی یعنی استدلالی حقائق کی ہم تصدیق کرتے ہیں (اور جنہیں اصطلاحاً ایمان یا علم بالغیب کہتے ہیں) ان کے لئے ہمارے پاس دلیل ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب حس سے پرے حقیقت کو کہتے ہیں نہ کہ دلیل سے ماورا حقیقت کو۔
غیب کے اس معنی پر ایک اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ قرآن کی رو سے غیب نبی کی خبر سے معلوم ہوتا ہے نیز بعض متکلمین کی عبارات میں بھی لکھا ہے کہ غیب وہ ہے جو نہ علم ضروری ہے نہ حسی اور نہ عقلی۔ ایسے میں یہ بات کیسے درست ہوئی کہ غیب استدلالی علم کو کہا جاسکتا ہے؟
بات کو سمجھنے کے لئے آسان کرلیتے ہیں۔ فرشتے کا وجود غیب ہے لیکن اس کا علم یعنی تصدیق استدلال سے خالی نہیں اگرچہ یہ نبی نے بتایا ہو۔ متعلقہ مقدمات یوں ہیں:
1) الف اپنے دعوی نبوت میں سچا ہے اور ایسا شخص جو خبر دے وہ سچ (حقیقت) ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ مقدمہ دلیل عقلی سے حاصل ہوا (بلکہ یہ متعدد دلائل عقلیہ پر مبنی استدلال سے حاصل ہوا)
2) الف نے خبر دی کہ فرشتے کا وجود ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ مقدمہ خبر سے حاصل ہوا
3) نتیجہ: لہذا فرشتے کا وجود ہے، یعنی یہ حقیقت ہے
دوسرے قضئے کے بغیر یہ علم نہیں ہوسکتا کہ فرشتے موجود ہیں لہذا یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ علم بذریعہ خبر ہے۔ لیکن یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ علم استدلالی ہے کہ صرف دوسرا مقدمہ اس کی تصدیق کے لئے کافی نہیں، اس لئے کہ صرف خبر سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکتی یہاں تک کہ دلیل عقلی کا قضیہ ساتھ ملے۔ اسی لئے امام رازی کہتے ہیں کہ جس دلیل کے دونوں مقدمات دلیل نقلی سے آئیں وہ دلیل مفید علم نہیں اور اسی لئے علم کلام میں کہا جاتا ہے کہ خبر صادق سے ثابت امور استدلالی علم ہے، یعنی انبیا کی اخبار کی تصدیق علم استدلالی کی قبیل سے ہے۔




کمنت کیجے