Home » روایت اور ذہن ِ جدید کی کشمکش (سراج منیر مرحوم کا نقطہ نظر )
اردو کتب تہذیبی مطالعات

روایت اور ذہن ِ جدید کی کشمکش (سراج منیر مرحوم کا نقطہ نظر )

 

سید مطیع مشہدی

چند  سال پہلے ایک کتاب خریدی لیکن اسے باالاستیاب پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ کتاب “ملت ِ اسلامیہ ،تہذیب وتقدیر ” کے نام سےجناب سراج منیرمرحوم کے قلم سے منصہ شہود پر آئی تھی  ۔پی ایچ ڈی کے مقالہ کے مواد کے سلسلے میں کتا بیں دیکھتے ہوئے نگاہ ِ تجسس اس  کتاب پر پڑی۔ فہر ست دیکھی تو کتاب کے چھٹے مضمون کا عنوان “روایت اور ذہن ِ جدید کی کشمکش “دیکھ کر فوراََچونکا کہ یہی موضوع آج کل دماغ میں جگہ بنائے ہوئے ہے اور ہر وقت سو چ کا محور بنا ہوا ہے اور یہی سوال مدرسہ ڈسکور س کے اساسی مباحث میں سے ہے ۔چنانچہ مطالعہ شروع کیا تو ایک نئی دنیا نظروں کے سامنے گھومنے لگی ۔ چند فقر ات پڑھ کر انہیں دوبارہ پڑھتا ،اس لئے کہ ایک تو کافی دقیق فلسفیانہ بحث اور پھر اس پر ٹھہر کر  غور کر تا  تاکہ بات کی کنہ تک پہنچ سکوں ۔مذکورہ مضمون میں مرحوم سراج منیر نے کئی اہم پہلوؤں سے پردے اٹھائے اور روایت اور جدید ذہن کی کشمکش کی اصل وجہ تک پہنچ کر اس کی تشخیص کرنے کی کوشش کی۔ان کی اس کاوش  میں مغرب سے مرعوبیت کا شائبہ تک نہیں ہے ۔اس سلسلے میں مصنف کے افکار و نظریات کا جامع تعارف ان کے مضمون کے اقتباسا ت کی روشنی میں یوں کراجاسکتا ہے ۔

اپنی بات کا آغاز وہ اس طرح کرتے ہیں کہ انسانی تہذیب چونکہ  مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی محو سفر ہے اور اپنے اس سفر کے دوران میں اسے کئی تحدیات کا سا مناکر نا پڑتا ہے ۔ہر دور نئے نئے سوالات اس کے سامنے کھڑے کرتا ہے اور تہذیب ان چیلنجز سے نمٹتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ان کے نزدیک اس ساری تحدیات کا محور ومرکز دراصل ایک ہی بنیادی سوال ہوتا ہے اور اسی کے گرد تمام سوالات گھومتے ہیں ۔اس بنیادی سوال ہی کے بارے میں ایک واضح موقف ہی باقی تمام سوالوں کا جواب مہیا کر دیتا ہے ۔ مفکرین کا اصل کام اسی بنیادی سوال کی تشخیص اور اس کا درست عقلی و منطقی جواب دینا ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

“تہذیب کے ہر مرحلے پر ایک سوال ایساہوتا ہے جس پر زمان و مکان کے ایک محدود تناظر میں پوری انسانی کائنات کی معنویت اور اس کی سمت ِ سفر وابستہ ہوتی ہے ۔اس تناظر میں موجود سارے سوال کسی نہ کسی طور اسی مرکزی مسئلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان ذیلی سوالات کا کوئی فیصلہ کُن جواب یا کم از کم ان کا ایک واضح فہم اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک تہذیبی صورت ِ حال کے مرکزی مسئلے کے بارے میں کوئی بنیادی موقف اختیار نہ کیا جائے ۔”

اس تمہید کے بعد وہ اپنے اسی بیانیے کی روشنی میں آج کا بنیادی سوال تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آج کی تمام  تحدیات میں مر کزی حیثیت رکھتا ہے اور جس کے حل میں دراصل تمام سوالات کے جوابات مضمر ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

“اب اس سوال کو ذرا صاف صاف لفظوں میں بیان کیجئے تو بنیادی انسانی سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی خود سے بلند کسی درجے میں اپنی کوئی معنویت رکھتی ہے ،اوراگر رکھتی ہے تو ابتدا سے لیکر آج تک اس معنویت کی موجودگی کی شکل کیا ہے اور و ہ کس طرح اپنے آپ کو انسانی زندگی کے اوضاع میں ظاہر کرتی ہے ۔اس لئے کہ ظہور ِ مسلسل ہی کا یہ عمل اس تغیر کدے میں ایک نقطہ ثبات فراہم کرتا ہے ۔چنانچہ اب اس سوال کی شکل یہ بنی کہ انسانی معنویت کا مبداء کیا ہے اور اس کے تسلسل کا اصول حرکت کس بنیاد پر تشکیل پاتا ہے ۔اس سوال کا پہلا حصہ اصول کے بارے  میں ہے اور دوسرا طریقہ کار کے بارے میں اور ہمارے زمانے میں اس سوال کو یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ روایت کیا ہے اور انسانی زندگی میں معنویت کو بر قرار رکھنے کے سلسلے میں اس کی اہمیت کیا بنتی ہے ؟یہی ہمار ا بنیادی اور مرکزی سوال ہے اور اس کے روگردانی کرنا ہلاکت خیز سمندر میں ساحل سے پھینکی جانے والی رسی کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے ۔اس سوال سے صرف نظر کرکے ذیلی اور ضمنی نو عیت کے سوالات پر فلسفہ طرازی کرتے رہنا دراصل معنویت کے مرکزی نکتے کو فراموش کرکے اس تسلی دینے والے لامتناہی لفظوں کے انبار میں دبا دینے کی ایک بچگا نہ کو شش ہے ۔”

اس مرکزی سوال کا تعین کرنے کے بعد اس سوال کے بارے میں تین طرح کے مختلف رویے اور ریسپانسز کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی بنیادی غلطی کو واضح کرتے ہیں ۔ان میں پہلا رویہ  ہپیوں ،لذیت پسند فلسفیوں اور کسی درجے میں عملیت پرست فلسفیوں کا ہے دوسر ا رویہ جدید مغرب کا ہے اور تیسرا گروہ نفسیات  دان اور بشریا ت کے ماہرین کا ہے ۔مصنف  کے نزدیک یہ تینوں گروہ روایت اور روایتی فکر سے روگردانی کرتے ہیں بلکہ انہیں روایت دشمن بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلے گروہ کے رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” ایک گروہ تو وہ ہے جس کے لئے انسانی زندگی کی معنویت کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنتی ۔اس گر وہ کارویہ زندگی کی طرف انفعالی ہے یعنی دنیا میں عام طورپر جو بھی رجحان چل رہاہے ،اس کی معنویت کا سوال اٹھائے بغیر اور اپنی ذات کی گہری تہوں سے پیدا ہونے والےسوالات سے بے نیاز ، یہ گرو ہ ایک عالم خواب میں  اسی رو کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے ۔ان کے نزدیک زندگی ایک حیاتیاتی حادثے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور اس محض حیاتیاتی وجود کی معراج یہ ہے کہ وہ اپنے خارج میں موجود کائنات سے ایک خوشگوار حسیاتی ربط رکھے اور بس۔اس گروہ کا سلسلہ نسب ہپیوں سے لے کر لذیت پرست فلسفیوں تک اور ایک الگ سطح پر عملیت پرست فلسفیوں تک پھیلا ہوا ہے ۔”

دوسرا رویہ جدیدمغرب کا سامنے آتا ہے ۔اس گروہ کی بنیادی قدر زندگی کی مادی تعبیر ہے ۔یہ گروہ انسان کی بنیادی حقیقتوں سے بے اعتنائی کارویہ اپنا ئے ہوئے ہے ۔وہ لکھتے ہیں :

“اس سے ذرا بلند سطح پر وہ نقطہ ہائے نظر ہیں جو زندگی کی مادی تفسیرکرتے ہیں لیکن اسے انفرادی حسیاتی سانچے سے ذرا بلند سطحوں پر دیکھتے ہیں ۔یہ نقطہ نظر عام طور پر انسانی زندگی کی معنویت تاریخی عمل میں تلاش کر تا ہے اور تاریخ کے مختلف مراحل کو انسانی معنویت کے ارتقائی نقشے کے حوالے سے دیکھتا ہے ۔دورجدید کاپورا طرز ِ احساس در اصل اسی نقطہ نظر سے تشکیل پاتا ہے ۔اسی نقطہ نظر کو ہم مغرب جدید کانقطہ نظر کہتے ہیں ۔اس نقطہ نظر کا نہ صر ف یہ کہ روایت کے سوال سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ یہ کہ اس میں روایت کے مسئلے میں ایک سچی نفر ت پائی جاتی ہے ۔یہاں انسانی زندگی کی معنویت کی بنیاد چونکہ تاریخی عمل ،انفرادیت پرستی اور جذباتیت پر رکھی جاتی ہے اس لئے بنیادی طورپر اس نقطہ نظر نےخود کو ایک طویل اور مسلسل تربیت کے ذریعے اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ بنیادی انسانی حیثیتوں کے بارے میں سوالات کو فراموش کرسکے۔ان لوگوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فیصلہ کن طور پر معجزہ یونان سے مسحور ہیں ۔

تیسرے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بظاہر تا ثر یہی بنتا ہے کہ یہ روایت کےساتھ جڑاہوا ہے  اور اپنی فکر کا اظہار روایتی علوم وفنوں کی اصطلاحات ہی میں کرتے دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں روایت کا اتنا ہی بدترین دشمن ہے ۔مزید یہ کہ اس گروہ کے افراد روایت کے مفہوم کوبھی ایک بالکل نئے مفہوم میں پیش کرتے ہیں ۔لکھتے ہیں:

“ان سے آگے بڑھیں تو وہ گر وہ نظر آئے گا جوروایتی علوم و فنون کی اصطلاحوں میں اپنا اظہار کر تا ہے لیکن اپنی بنیاد میں نہ صرف یہ کہ غیر روایتی ہے بلکہ صحیح معنو ں میں روایت دشمن ہے ۔اس گروہ میں بہت سے نفسیات دانوں سے لے کر بشریات کے ماہرین تک اور کندالنی یوگا کے گرو اور شعبدہ باز تک آتے ہیں ۔ ان میں اگر ہمیں ایک طرف کر شنا مورتی جیسے لوگ نظر آتے ہیں تو دوسرے طرف گر دجیف اور آسپنکی جیسے حضر ات ۔ان کے ہاں روایت سے مراد وہ قدیم علوم ہیں جوروایت کے معنویتی تناظر میں تو ایک حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہاں انہیں ایک Neutral تناظر میں رکھ کر ایک بالکل نئی اور گمراہ کن شکل دیدی گئی ہے۔”

ان تینوں گروہوں کے رویوں کی وضاحت کرنے کے بعد روایت کا سوال اٹھانے والوں اور ان تینوں رویوں کے درمیان بنیاد ی فرق کو یوں بیان کرتے ہیں :

“ان تینوں گروہوں کو ہم بنیاد طورپر ناسوتی کہہ سکتے ہیں ۔روایت کا سوال اٹھانے والوں اور ان میں کوئی معمولی اختلاف نہیں بلکہ پورے تصور کائنات کا اختلاف ہے اور ان گفتگو ایسی ہی ہے جیسے وحی کے منکرسے وضو کے مستحبات و سنن پر مناظر ہ کرنا۔اس بات کو حتمی طورپر سمجھ لینا چاہیے کہ روایت کے سوال کا تعلق ایک خاص تصور کائنات سے ہے جو مبداو معاد کے تصورات کے ذریعے آگے بڑھتی ہے ۔جولوگ کائنات کی روحانی تعبیر کے مسئلے پر واضح نہیں وہ اول تو روایت کے سوال کو سمجھنے کے لئے ذہنی طور پر نااہل ہیں اور اگر بالفر ض وہ روایت کا سوال اٹھائیں تو زیادہ سے زیادہ وہ اسے عادتِ جاریہ کے تصور سے مخلوط کر کے رکھ دیں گے۔اس کی ایک بہت واضح مثال ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ کے ہاں ملتی ہے ۔اصل میں روایت کا تسلسل اس کی قدری بنیاد کی تخلیق نہیں کرتا بلکہ اس پورے عالم میں ماورا حقائق اس کے بنیادی اوضاع اور اس کے تسلسل کے اصول ِ حرکت کو متعین کرتے ہیں ۔”

اس ساری گفتکو اورمقدمہ سے یہ بات توواضح ہوتی ہے کہ سراج منیر روایت کو نہایت وسیع تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کےہاں روایت کا تصور ہمارے ہاں پائے جانے والے تصور ِ روایت سے مختلف ہے ۔لیکن  یہاںسوال یہ پیداہوتا ہےکہ ان کے ہاں روایت کا تصور کیا ہے ؟اس نقطے کی وضاحت خود ان کے الفاظ میں ہی دیکھئے :

“نوعِ انسانی کی وحدت اور حققیت ِ مطلقہ کی وحدت میں ایک مسلسل تعلق ہے ۔مختلف ادوار میں  کائنات کے مختلف خطوں میں یہ تعلق مختلف انداز سے ظاہر ہواہے ۔اس میں کہیں نسلی عناصر سے فرق پڑا ہے،کہیں ارضی کیفیات سے لیکن نوع ِ انسانی کی بنیادی وحدت اور حقیقت کی وحدت ،دونوں کی وجہ سے روایت کی اصل تمام دنیا میں واحد ہے ۔اور یہ وہ چیز ہے جسے شیخ عبد الواحد نے التوحید  واحد کے اصول سے تعبیر کیا ہے ۔اس مرکزی اصول نے انعکاسات میں اور انعکاسی مرکزوں کے گرد روئے زمین پر پوری انسانی زندگی اور اس کے مظاہر کا ایک جال بنا ہوا ہے ۔اسے ہم اپنی آسانی کے لئے انسانی کلچر کہہ لیتے ہیں ۔اس اصول کا ظہورزمانی سطح پر ایک تسلسل کو جنم دیتا ہے ۔لہذاانسانی دانش یامظاہرِ وجود کا وہ تسلسل جو متعالی اصول ِ توحید پر اپنی بنیاد رکھتا ہو یعنی اپنے جوہر میں حقیقت ِ مطلقہ سےوابستہ ہو ،اسے ہم وسیع تر معنوں میں روایت کہہ سکتے ہیں ۔اس کے بڑے مظاہر دنیا کے مذاہب ہیں ۔ان مذاہب میں روایت کا وہی حصہ زندہ ہے جو اپنے تسلسل میں اس اصل ِاصول سے مر بوط ہے ۔”

یعنی وہ روایت کو انسانی تناظر میں دیکھتے ہیں اور نوعِ انسانی کی وحدت اور حقیقت ِ مطلقہ کی وحدت کے تسلسل کو روایت کا نام دیتے ہیں ۔ان کے ہاں روایت میں’ حرکت’ کے عنصر کو خاص اہمیت دی گئی ہے ۔اسی تسلسل اور حرکت کو سمجھنے میں دوقسم  کی انتہائیں وجود میں آئیں ۔ بعض کے نزدیک روایت در اصل حرکت کی نفی ہے ، جمود ہے ،ساکن ہو جانا ہے ،جبکہ اس کےردعمل میں دوسری انتہاء یہ سامنے آئی کہ روایت کو حرکت ِ محض کا تسلسل قرار دیا گیا ۔ یوں روایت میں موجود حرکت کے عنصر کو عدم تواز ن کا شکار کر دیا گیا ۔روایت کے حرکی پہلو کو واضح کرتے ہوئے وہ روایت اور جدید  ذہن کے مابین بعد اور اجنبیت کی وجہ اور اس کا ممکنہ حل پیش کرتے ہیں اور روایت کے حرکی پہلو کی فطری پوزیشن پر لوٹ آنے کے امکان پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اس کا امکان ہے اور اگر ہے تو اس کی کیا صورت ہوگی ۔چنانچہ لکھتے ہیں:

“روایت چونکہ ایک زمانی عمل ہے اس لیے اس میں حرکت کا اصول توموجود ہے لیکن وہ حرکت فی البدیہہ نہیں یا مشینی نہیں بلکہ بہت حد تک حقائق ِ اشیاء سےجنم لیتی ہے ۔بے اصول اور بے جہت حرکت یا تو گمراہی پیداکرتی ہے یا زوال۔ مغرب میں قرون ِ وسطیٰ کی تہذیب سے جو ایک انشقاق پایاجاتا ہے اس کا بھی معاملہ اصولی اور بامنزل حرکت اور بے اصول حرکت سے تعلق رکھتا ہے ۔بہر کیف مغرب نے روایت کے مرکز اور اس کے بنیاد ی دھارے سے ایک انداز کی بغاوت کی اور پوری تہذیب کی بنیاد بے منزل اور بہت حد تک اصول نظریہ حرکت پر رکھی ۔اب اس بے اصول حرکت سے ہوتا یہ ہے کہ پورا نظام اور پورا ڈھانچہ اپنے طورپر ایک شکل اختیارکرنا شروع کرتا ہے لیکن اب پورے انسانی وجودسے اس خارجی نظام کی متوازیت میں خلل پڑ جاتا ہے اور اس میں کہیں کوئی خلا رہ جاتا ہے اور کہیں دباؤ حد سے زیادہ بڑھ جاتاہے ۔یہیں سے اجتماعی اور انفرادی روحانی بحران جنم لیتے ہیں جس طرح انفراد ی روحانی اور نفسیاتی بحران اپنی شخصیت کے مر کز سے دور ہٹنے پر پیداہوتا ہے ،اسی طرح اجتماعی بحرا ن روایت کے اصول سے ہٹنے پر۔بہر کیف چونکہ مغرب کی تاریخ نے روایت سے الگ ہوکر ابنارمل تہذیب بنانے کی کوشش کی ہے ،اس لئے اب روایت دانش تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ صورتحال اور اس سے پیدا ہونے والی عدمِ مطابقت کا شعور ہو اور اس کے ساتھ ساتھ مشرق کی زندہ روایتوں کے ساتھ مل کر واپس مر کز کی طرف ،یعنی روایت کے محرک اصول کی طرف مراجعت ہو ۔اصل میں روایت اور ذہن ِ جدید کی کشمکش کی بنیاد اسی ایک سوال پر ہے کہ ایسی مراجعت ممکن ہے؟یا پل کے نیچے سے جو پانی بہہ گیا سو بہہ گیا ۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصل سوال یہی ہے اور اس سوال کے مختلف پہلواصل میں عہد جدید کے پورے بحرا ن ہی کے مختلف پہلو ہیں ۔”

کتاب کے دیگر مضامین بھی روایت اور دانش ِ جدید کے اہم پہلو ؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس بارے میں ان کاموقف اپنی پوری جہات کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔اگر ہم ان بنیادی و اساسی مباحث کو اچھی طرح سمجھ لیں اور مغر بی دانش اور مشرقی روایت کے مابین کشمکش کے بنیاد ی اور مرکزی نقطہ پر توجہ مرکوز کرلیں تو ہمیں اس کےساتھ منسلک دیگر سوالا ت کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوگی ورنہ ہماری مثال اس طبیب کی سی ہوگی جو کسی بیماری کی ایک آدھ علامت دیکھ کر علاج شروع کر دیتا ہے جبکہ اس بیماری کی اصل جڑ ، اس کی وجوہات ، مریض کی عمر اور اس کی مجموعی جسمانی  حالت ، بیماری کے جسم میں پھیلاؤ ، اور اس کے درجات (Stages)کے بارے میں لاعلم ہوتا ہے ۔

سید مطیع الرحمن مشہدی

ڈاکٹر مطیع الرحمن مشہدی نے شعبہ اسلامی فکر وثقافت، گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے ڈاکٹریٹ کی ہے اور گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
mutimashhadi@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں