یوول نوآ ہراری
ہمارے لیے یہ ماننا آسان ہے کہ انسانوں کو ’’برتر’’ اور ’’عام’’ میں تقسیم کرنا محض تخیل کی پیداوار ہے۔ تاہم یہ تصور کہ سارے انسان برابر ہیں، یہ بھی ایک متھ ہی ہے۔ کس مفہوم میں تمام انسان برابر ہیں؟ کیا انسانی تخیل سے باہر، کوئی ایسی معروضی حقیقت موجود ہے جس کی رو سے ہم سب برابر ہیں؟ کیا تمام انسان حیاتیاتی اعتبار سے برابر ہیں؟ آئیے امریکی اعلان آزادی کی مشہور سطروں کا حیاتیاتی زبان میں ترجمہ کر کے دیکھیں:
’’ہم ان سچائیوں کو بدیہی تسلیم کرتے ہیں کہ تمام انسان مساوی پیدا کیے گئے ہیں، یہ کہ ان کے پیدا کرنے والے کی طرف سے انھیں چند حقوق عطا کیے گئے ہیں جن سے انھیں کسی حال میں محروم نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ ان حقوق میں زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کی کوشش شامل ہیں۔’’
حیاتیات کی سائنس کے مطابق انسانوں کو ’’پیدا’’ نہیں کیا گیا۔ وہ ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ اور یقیناً ان کا ارتقا اس طرح نہیں ہوا کہ وہ ’’برابر’’ ٹھہریں۔ برابری کا تصور ’’تخلیق’’ کے عقیدے کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے کہ اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکیوں نے مساوات کا تصور مسیحیت سے لیا جو کہتی ہے کہ ہر شخص کے اندر خدا کی پیدا کردہ ایک روح ہے اور خدا کی نظر میں تمام روحیں برابر ہیں۔ لیکن اگر ہم خدا، تخلیق اور روحوں کے متعلق مسیحی متھس پر یقین نہ کریں تو پھر انسانوں کے برابر ہونے کا سرے سے مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے؟ ارتقا کی بنیاد تو امتیاز پر ہے نہ کہ برابری پر۔ ہر شخص کا ایک الگ جینٹک کوڈ ہے اور وہ پیدائش کے وقت سے ہی مختلف ماحولیاتی عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ مختلف (جسمانی) صلاحیتوں کی صورت میں نکلتا ہے جن کی بدولت (مختلف اشخاص کو)بقا کے مختلف امکانات ملتے ہیں۔ چنانچہ (سب انسان) ’’برابر پیدا کیے گئے’’ کے الفاظ کا ترجمہ (حیاتیاتی زبان) میں یوں ہوگا کہ ’’سب کا ارتقا الگ الگ طریقے سے ہوا ہے۔’’
علم حیاتیات کی رو سے جیسے انسانوں کو پیدا نہیں کیا گیا، اسی طرح کوئی ایسا ’’خالق’’ بھی موجود نہیں جو انھیں کوئی حقوق ’’عطا’’ کر سکے۔ یہاں تو ارتقا کا ایک اندھا بہرا اور کسی قسم کی مقصدیت سے عاری ایک عمل جاری ہے جس کے نتیجے میں افراد پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ’’خالق کی طرف سے عطا کیے گئے (حقوق)’’ کا ترجمہ صرف یہ ہوگا کہ ’’پیدا ہوئے۔’’
اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ حیاتیات میں ’’حقوق’’ نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اس میں صرف اعضاء، صلاحیتوں اور خصوصیات ہوتی ہیں۔ پرندے اڑتے ہیں، اس لیے نہیں کہ انھیں اڑنے کا حق حاصل ہے، بلکہ اس لیے کہ ان کے پر ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی درست نہیں کہ جانداروں کو ان اعضاء، صلاحیتیں اور خصوصیات سے کبھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے کئی چیزیں مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ عین ممکن ہے کہ بالکل ختم ہو جائیں۔ شتر مرغ ایک پرندہ ہے جو (ارتقا کے نتیجے میں) اڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ پس ’’ناقابل تحریم حقوق’’ کا ترجمہ ’’قابل تغیر خصوصیات’’ سے ہونا چاہیے۔
اچھا، وہ خصوصیات کیا ہیں جو ارتقاء سے انسانوں میں پیدا ہوئی ہیں؟ زندگی؟ بالکل درست۔ لیکن آزادی؟ حیاتیات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ مساوات، حقوق اور محدود ذمہ داری کی حامل کمپنیوں کی طرح آزادی بھی ایک تصور ہے جو لوگوں نے ایجاد کیا ہے اور جس کا وجود صرف ان کے ذہنوں میں ہے۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ ایک بے معنی بات ہے کہ جمہوری معاشروں میں انسان آزاد ہیں، جبکہ آمرانہ حکومتوں میں آزاد نہیں ہیں۔ اور ’’خوشی’’ کا کیا معنی ہے؟ اب تک تو حیاتیاتی تحقیق ’’خوشی’’ کی کوئی واضح تعریف پیش کرنے یا اس کی پیمائش کا کوئی معروضی پیمانہ وضع کرنے سے قاصر ہے ۔ بیشتر حیاتیاتی مطالعات صرف ’’لذت’’ کا وجود تسلیم کرتے ہیں جس کی زیادہ آسانی سے تعریف بھی کی جا سکتی ہے اور پیمائش بھی۔ چنانچہ ’’زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کی کوشش’’ کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے ’’زندگی اور لذت کے حصول کی کوشش۔’’
یوں امریکی اعلان آزادی کی مذکورہ سطور کا حیاتیاتی زبان میں ترجمہ یہ بنتا ہے:
’’ہم ان سچائیوں کو بدیہی تسلیم کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کا ارتقا مختلف طریقے سے ہوا ہے، یہ کہ ان کی پیدائش چند مخصوص قابل تغیر خصوصیات کے ساتھ ہوئی ہے، اور یہ کہ ان خصوصیات میں زندگی، اور لذت کے حصول کی کوشش شامل ہیں۔’’
عین ممکن ہے کہ مساوات اور انسانی حقوق کے علمبردار اس طرز استدلال پر سخت ناراض ہو جائیں۔ ان کی طرف سے یہ رد عمل آ سکتا ہے کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ لوگ حیاتیاتی اعتبار سے برابر نہیں ہیں، لیکن اگر ہم یہ مانیں کہ ہم جوہر کے اعتبار سے سب برابر ہیں تو اس سے ہم ایک مستحکم اور خوش حال معاشرہ بنانے کے قابل ہو سکیں گے۔’’ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ وہی چیز ہے جسے میں ’’تخیلاتی نظام’’ کا عنوان دیتا ہوں۔ ہم کسی مخصوص نظام پر یقین اس لیے نہیں رکھتے کہ وہ معروضی طور پر حقیقت ہے، بلکہ اس لیے رکھتے ہیں کہ اس پر یقین رکھنا ہمیں موثر طور پر باہم تعاون کرنے اور ایک بہتر معاشرہ بنانے کے قابل بناتا ہے۔ تخیلاتی نظام کوئی بری سازشیں یا بے فائدہ سراب نظر نہیں ہوتے۔ یہ تو واحد طریقہ ہےجس کے توسط سے بہت بڑی تعداد میں انسان موثر طریقے سے باہم تعاون کر سکتی ہے۔ تاہم یہ ذہن میں رکھیے کہ حمو رابی بھی اپنے اصول درجہ بندی کا دفاع یہی کہہ کر سکتا تھا کہ ’میں جانتا ہوں کہ بالاتر لوگ، عام لوگ اور غلام، یہ کوئی ایسی تقسیم نہیں جس میں لوگ لازمی طور پر بٹے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ مان لیں کہ وہ ایسے ہی ہیں تو اس سے ہم ایک مستحکم اور خوش حال معاشرہ تشکیل دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔’’
Harari, Yuval Noah. Sapiens: A Brief History of Humankind (p. 110). HarperCollins. Kindle Edition.
(ترجمہ: ادارہ)
کمنت کیجے