(رچرڈ ڈیوٹ کی کتاب Worldviews کے دوسرے باب کا ملخص ترجمہ)
ترجمہ وتلخیص :شہزاد حسین
عام طور پر یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ حقائق کو اکٹھا کرنا سیدھا سادہ عمل ہے اور سائنس ان حقائق کی توضیح کے لیے نظریات پیش کرتی ہے۔ یہ دونوں تصوّرات سچ، حقیقت اور ان دونوں کا سائنس سے تعلّق میں غلط فہمی کی بنیاد پر جنم لیتا ہے۔ اس اور اگلے باب کا ایک مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ عام طور پر ان معاملات کے بارے میں جو سادہ سا تصوّر کر لیا جاتا ہے، یہ اس سے کئی درجے پیچیدہ ہیں۔
مقدّمہ:
ہمارا نظریہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے اور یہ موقف سچ ہے، جبکہ ارسطو کا یہ موقف کہ سورج زمین کے گرد حرکت کرتا ہے، غلط ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے اس نظریے کو سچ ثابت کرنے کے لیے بے شمار حقائق موجود ہیں، لیکن یاد رہے کہ ارسطوطالیسی ورلڈویو بھی کئی حقائق پر کھڑا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق و باطل اور سچ اور جھوٹ میں امتیاز کیسے کیا جائے گا، یا دوسرے الفاظ میں،سچ کیا ہے؟ اس سوال کا ایک سادہ سا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ جس نظریے پر حقائق کی دلالت ہو تو وہ سچا ہے، جبکہ حقائق کی عدم دلالت کی صورت میں موقف غلط ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقت اور سچ مترادفات کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، لہذا مذکورہ بالا جواب سے دَور لازم آتا ہے اور اس سے ہمارے سوال کے جواب کی جانب کوئی خاطر خواہ رہنمائی نہیں ہوتی۔
مذکورہ بالا سوال کے جواب کے بجاے ہم سچ اور سچائی کی وضاحت کرنا چاہیں گے؛ کیوں کہ ہم اپنے بیشتر نظریات کے بارے میں بغیر کسی تحقیق کے یہی رویّہ رکھتے ہیں کہ وہ سچ ہیں۔ لہذا سب سے پہلے اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ سچ و سچائی کیا ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جب سے فلسفہ و سائنس کی ابتدا ہوئی ہے، یعنی تقریباً دو ہزار سال سے، اس سوال کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود کوئی اتفاقی رائے سامنے نہیں آئی۔ یہاں پر سچائی کے حوالے سے مختصر سی بحث کا فائدہ یہ ہو گا کہ مختلف آرا سے واقفیت پیدا ہو جائے گی۔
سوال کی وضاحت:
جس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ ہے، ‘سچائی کیا ہے؟’، یا ‘وہ کیا شے ہے جو درست نظریات کو درست اور سچا قرار دیتی ہے اور غلط نظریات کو غلط و باطل قرار دیتی ہے؟’، یا ‘ایسی کون سی مشترک صفت ہے جن سے درست نظریات سچے بنتے ہیں اور غلط نظریات باطل بنتے ہیں؟’ یہاں پر اس سوال کی اتنی وضاحت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کو عموماً علمیاتی (Epistemological) سوال کے ساتھ خلط کر دیا جاتا ہے۔ ایپسٹی مولوجی مطالعۂ علم کا نام ہے اور اس علم میں سچائی سے متعلق سوال یوں بنتا ہے کہ ہم سچ کو کس طرح پہچان سکتے ہیں؟ یہ سوال اگرچہ اپنے مقام پر اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہاں پر زیرِ بحث نہیں ہے۔مثال کے طور پر مختلف پھلوں کے درختوں والے جنگل کے بارے میں ایک سوال یہ ہو گا کہ ان درختوں میں سے مالٹے کا درخت کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟ یہ ایپسٹی مولوجیکل سوال ہو گا۔ دوسرا سوال یہ ہو گا کہ مالٹے کے درختوں میں ایسی کون سی مشترک صفت ہے، جو انھیں مالٹوں کا درخت قرار دیتی ہے؟ زیرِ بحث سوال یہی ہے۔
صدیوں سے اس سوال کا جواب دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ آسانی کی غرض سے انھیں دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ پہلی قسم کو سچائی کی کورسپانڈنس (Correspondence) تھیوریز و نظریات کہا جاتا ہے، جب کہ دوسری کو سچائی کی کوہیرنس (Coherence) نظریات کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی نظریات پیش کیے گئے ہیں، لیکن زیادہ تر نظریات کو انھی دو تقسیموں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
نظریہ موافقت (Correspondence):
اس نظریے کے مطابق اگر کوئی موقف حقیقت (Reality) کے موافق و مطابق ہے تو وہ سچا ہے، جبکہ حقیقت کے غیر مطابق ہونے کی صورت میں غلط اور جھوٹا ہے۔ مثال کے طور پر یہ موقف کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے، اس صورت میں سچ ہو سکتا ہے کہ یہ اصل حقیقت کے موافق ہو، ورنہ نہیں۔اس نظریے میں اصل حقیقت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد ایسی معروضی حقیقت ہے جس کا انحصار لوگوں کے ماننے یا نہ ماننے پر نہیں ہے۔
نظریہ ترابط (Coherence):
اس نظریے کے مطابق کوئی موقف یا اعتقاد اس وقت سچا کہلاتا ہے، جب وہ دیگر مواقف اور اعتقادات کے ساتھ ہم آہنگ ہو، ورنہ نہیں۔ مثال کے طور پر ہم نیوٹون کے تصور کائنات کے ساتھ پلے بڑھے ہیں تو ہمارا یہ موقف کہ زمین سورج کے گرد حرکت کرتی ہے، اس لیے سچ ہو گا کہ یہ ہمارے ورلڈویو کے دیگر نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ جبکہ نیوٹونین ورلڈویو کو مانتے ہوئے اگر ہم یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ تمام ستارے و سیارے زمین کے گرد حرکت کرتے ہیں تو یہ موقف غلط ہو گا؛ کیوں کہ یہ دیگر نظریات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔
کوہیرنس (Coherence) تھیوری کی مختلف شکلیں:
جیسے کہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کوہیرنس تھیوری میں سچ و غلط کا انحصار زیرِ بحث شخص یا اشخاص کے دیگر نظریات سے ہم آہنگی پر ہوتا ہے۔ اب جو شخص یا اشخاص موضوعِ بحث ہیں، ان کے اعتبار سے کوہیرنس تھیوری کی بھی مختلف صورتیں سامنے آ سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر سارا نامی لڑکی کے کسی نظریے کو لے کر بات چل رہی ہے کہ آیا وہ نظریہ اس کے دیگر نظریات سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ تو یہاں پر انفرادی سطح پر کوہیرنس تھیوری لاگو کی جا رہی ہے۔ اسے کوہیرنس تھیوری کی انفرادی صورت کہا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں، اگر ایک ورلڈویو کے حاملین گروہ کے بارے میں بحث کی جا رہی ہو یا سائنس دانوں اور ماہرین کے کسی گروہ کو موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہو تو اسے کوہیرنس تھیوری کی اجتماعی صورت کہا جاتا ہے۔
کورسپانڈنس تھیوری کے مسائل و مشکلات:
بہ ظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سچائی کو بیان کرنے کے لیے کورسپانڈنس تھیوری بہترین انتخاب ہے؛ کیوں کہ اس سے بڑھ کر کیا کہا جا سکتا ہے کہ اگر نظریات حقیقت میں اسی طرح ہوں تو وہ سچ ہیں، ورنہ غلط ہیں۔ لیکن اس تھیوری کی اپنی مشکلات ہیں، جنھیں سمجھنا اہم ہے۔یہاں پر کورسپانڈنس تھیوری کے مسائل کو بیان کرنے کے لیے ہم اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر ایک اور تھیوری کو اختصار کے ساتھ ذکر کریں گے، جسے حواسّ کی نمائندگی کا نظریہ (Representational Theory of Perception) کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق انسان اپنے حواس کی مدد سے دنیا کا ایک خاکہ اپنے ذہن میں حاصل کر لیتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر حواس دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔ گویا دنیا کا علم دو طرح کا ہے؛ ایک وہ جو حواس نے ہمارے ذہن میں ڈالا ہے اور دوسرا وہ جو فی الحقیقت موجود ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ہم نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے کہ آیا ہمارے حواسّ نے حقیقی دنیا کی صحیح نمائندگی کی ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ تھیوری درست مان لی جائے تو اس سے کورسپانڈنس تھیوری متاثر ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی دو مختلف وجوہات کا ذکر کیا جائے گا۔
نمائندگی کی درستگی کو پرکھنا:
ہم اپنے حواسّ کے ذریعے حقیقی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں، لیکن ان معلومات کی درستی کو پرکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی آلہ نہیں ہے۔ یہ رائے پیش کی جا سکتی ہے کہ اگر کسی ایک حسّ کی مدد سے معلومات حاصل کی گئی ہیں تو دوسری حسّ کو استعمال کر کے قطعیّت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر پھر بھی احتمال باقی ہو تو تیسری حسّ سے مدد لی جائے گی وغیرہ۔ مثال کے طور پر سامنے ایک چاے کی پیالی موجود ہو تو قوّت باصرہ سے اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ اگر احتمال باقی ہو تو قوّت شامّہ سے مدد لی جائے گی۔ اگر یقین نہ ہو تو قوّت ذائقہ سے شک دور کیا جائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حواسّ کے ذریعے حاصل کردہ علم کی حیثیت تصاویر اور خاکوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، لہذا تاج محل کی ہزاروں تصاویر مل کر بھی یہ یقین پیدا نہیں کر سکتیں کہ فی الحقیقت ایسا کوئی محل موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ ہم اپنے حواسّ کی مدد سے حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے۔
ٹوٹل ریکال سنیریو(Total Recall Scenario):
ٹوٹل ریکال ایک فلم کا نام ہے، جس میں چوبیسویں صدی کے حالات کے بارے میں ایک پیشن گوئی کی گئی ہے کہ اس وقت کی سائنس کتنے اختیارات حاصل کر لے گی۔ مثال کے طور پر اس وقت لوگ بہت مصروف ہوں گے اور ان کے پاس گھومنے پھرنے کا وقت بالکل بھی نہیں ہو گا اور انھیں ذہنی سکون کے حصول لیے چھٹیاں نہیں ملیں گی۔ تو سائنسی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان کے ذہن کو کنٹرول کر کے انھیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ نہایت دل کش اور عمدہ مقام پر تفریح کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے اس احساس کو اتنا یقینی سمجھ رہے ہوں گے کہ حقیقت و غیر حقیقت میں فرق کرنا ان کے لیے نا ممکن ہو گا اور وہ اسے ہی حقیقت تصوّر کریں گے جو انھیں غیر فطری طریقے سے باور کروا جا رہا ہوگا۔ ہمارے ذہنوں کی بھی ایسی صورتِ حال ہو سکتی ہے کہ ہمارے ذہنوں کو کنٹرول کر کے ہمیں دنیا کے بارے میں ایسی معلومات دی جا رہی ہوں جو در حقیقت غلط ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا ذرہ برابر احساس نہ ہو اور ہم درست و غلط میں امتیاز نہ کر سکیں۔
ملاحظہ:
ان مسائل کی وضاحت کرنے کے بعد اگر کوئی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جسے ہم حقیقت سمجھ رہے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے، تو یہ غلطی پر ہے۔ درست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ اور جب حقیقت کے بارے میں علم حاصل نہیں کیا جا سکتا تو کورسپانڈنس تھیوری بھی لازماً متاثر ہو گی؛ کیوں کہ اگر یہ تھیوری درست ہے تو ہم یہ بات کبھی بھی نہیں جان سکتے کہ آیا ہمارے نظریات سچ ہیں یا نہیں۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ہم حقیقت کو کس طرح پہچانیں گے؟ آیا پہچان سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ سب ایپسٹی مولوجی کے سوالات ہیں۔ لیکن ان سوالات کا کورسپانڈنس تھیوری کے ساتھ تعلّق ضرور ہے اور انھی وجوہات کی بنا پر لوگ کورسپانڈنس تھیوری کو راجح قرار نہیں دیتے۔
کوہیرنس تھیوری کے مسائل:
اگر کوہیرنس تھیوری کی انفرادی صورت کی بات کی جائے تو ایک نظریہ میرے دیگر نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے سبب درست ہو گا، لیکن وہی نظریہ عثمان کے دیگر نظریات کی مخالفت کے سبب غلط ہو گا۔ گویا کہ اس تھیوری کے مطابق کسی نظریے کو آفاقی سچائی (Absolute Truth) نہیں کہا جا سکتا، بلکہ سچ و جھوٹ، درست و غلط محض اضافی (Relative) ہو گا۔ اسی طرح کسی نظریے کو دوسرے نظریے کی بہ نسبت بہتر و اولی کہنا بھی درست نہیں ہو گا۔ اسی طرح کوہیرنس تھیوری کی اجتماعی صورتوں میں بھی کئی مشکلات ہیں۔ مثال کے طور پر:
1۔ اس میں اس احتمال کی گنجایش نہیں رہتی کہ گروہ غلطی پر ہو۔ اس بات کو اس مثال کے ذریعے سمجھیے؛ سارا نامی ایک لڑکی ایک اجتماع و گروہ کی رکن ہے اور اس پر کسی جرم کا الزام لگایا گیا ہے۔ سارا کو یقین ہے کہ اس نے یہ جرم نہیں کیا، لیکن گروہ کو اس بات پر مکمل اطمینان حاصل ہو گیا ہے کہ سارا مجرم ہے اور یہی بات ان کے دیگر نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ کوہیرنس تھیوری کی اجتماعی صورت میں اگر یہ گروہ سارا کو سزا دے تو یہ غلطی پر نہیں ہو گا؛ کیوں کہ ان کے نزدیک ‘سارا کا مجرم ہونا’ درست ہے اور سارا اپنے بارے میں یہ خیال کہ ‘وہ بے گناہ ہے’ غلط ہے۔ کوہیرنس تھیوری کے مطابق، اس گروہ نے درست فیصلہ کیا، جب کہ وہ در حقیقت غلط تھا، لیکن گروہ کی غلطی کا احتمال کوہیرنس تھیوری میں نہ ہونے کے سبب کوئی اور فیصلہ کیا جانا ممکن نہیں۔
2۔ اس میں گروہ کے ارکان کا متعیّن طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مغربی سائنس دانوں کا ایک گروہ ہے جو انھی نظریات پر قائم ہے، جو عام طور پر سائنسی دنیا میں مقبول ہیں۔ ان میں ایک بلال نامی سائنس دان ہے، جس نے فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور عملی طور پر گروہ کا حصہ ہے۔ لیکن اس کا نظریہ یہ ہے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسے زیرِ بحث سائنسی گروہ کا حصہ مانا جائے گا یا نہیں؟ ظاہری بات ہے کہ گروہوں کی کوئی متعیّن حدّ بندیاں نہیں کی جا سکتیں۔ یہاں پر کوہیرنس تھیوری کی اجتماعی صورت کی تعریف کو دوبارہ سن لیجیے کہ کوئی نظریہ اس صورت میں سچا ہو گا کہ وہ گروہ کے دیگر نظریات کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ جب گروہ کی حدود متعیّن نہیں ہیں تو خود تھیوری بھی جامع و مانع نہ رہی۔
3۔ گروہوں میں کوئی متفق مجموعۂ نظریات نہیں پائے جاتے۔اگر گروہ کی حدود والے مسئلے کا کوئی حل تلاش کر بھی لیا جائے تو ایک اور مشکل یہ ہے کہ عام طور پر کسی گروہ کے متّفق مجموعۂ نظریات نہیں ہوتے، بلکہ اراکین کی ذہنی سطح میں اختلاف کے سبب نظریات میں کافی فرق ہوتا ہے۔ اب اگر گروہ کے نظریات ہی ایک جیسے نہیں ہیں تو کوہیرنس تھیوری کے مطابق ان کا کسی نظریے کے ساتھ ہم آہنگی کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا۔
فلسفیانہ تاثرات (Philosophical Reflections)؛ ڈیکارٹ:
اگر حواسّ کی نمائندگی کی تھیوری (Theory of Representation) کو درست مان لیا جائے تو ہم کسی بھی نظریے کو آفاقی سچائی قرار نہیں دے سکتے، بل کہ ہر ایک موقف میں غلطی کا احتمال باقی رہے گا۔ آفاقی سچائی کو تلاش کرنے میں جس فلسفی کا نام لیا جاتا ہے، وہ ہیں رینے ڈیکارٹ (1596-1650)۔ ہماری سمجھ کے مطابق انھوں نے ٹوٹل ریکال سینیریو کی بنیاد پر اپنی تلاش شروع کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہم اشیا کو جس طرح سمجھ رہے ہیں، یہ اس طرح بالکل نہ ہوں اور ایک دھوکے باز شیطان ہمارے ذہنوں کے ساتھ کھیل رہا ہو۔ انھوں نے اپنے ہر نظریے کو پرکھنا شروع کر دیا کہ آیا اس میں یقین ہے یا نہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنے تمام نظریات سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن انھیں ایک بات کا یقین ہو گیا کہ ‘میں سوچتا ہوں، لہذا میرا وجود ہے۔’ ایک ضمنی بات یہ ہے کہ ڈیکارٹ سے بہت پہلے سینٹ آگسٹین (354-430) نے بھی اس جیسے نظریات پیش کیے ہیں، لیکن ان نظریات کی ڈیکارٹ کی جانب نسبت معروف ہو گئی ہے۔ بہرحال ڈیکارٹ کا یہ تجربہ نا کام ہو گیا، لیکن انھیں ایک نظریہ ایسا ضرور مل گیا جس میں شک کی گنجایش نہیں کی جا سکتی تھی۔
اختتامیہ:
اس باب کا بنیادی مقصد سچائی کی پیچیدگیوں کو واضح کرنا تھا۔ اسی طرح سچائی کے ان اہم نظریات کا تعارف پیش کرنا، جو تقریباً دو ہزار سال سے بغیر کسی اتفاقِ رائے کے نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں اور اس کے ساتھ ان کے مسائل کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنا۔ پہلے باب کے شروع میں یہ بات ذکر کی گئی تھی کہ سائنس کے بارے میں یہ تصوّر کرنا یہ سائنس سچے نظریات پیش کرتا ہے، اتنا سادہ لوح نہیں ہے۔ امید ہے کہ اس باب کے اختتام پر یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ تصوّر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اگلے ابواب میں ہم مزید پیچیدگیوں کی تفصیل ذکر کریں گے۔
کمنت کیجے