Home » درس نظامی: چند مباحث
مدارس اور تعلیم

درس نظامی: چند مباحث

محمد دین جوہر

نوٹ: یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ درسِ نظامی پر ہماری اس گفتگو میں تعلیم اپنے نظری اور عملی پہلوؤں سے زیربحث ہے، اور مذہب پر گفتگو اس سے خارج ہے۔ آغاز ہی میں عرض کرنا چاہوں گا کہ درس نظامی کی عمومی حمایت اور اس کی بنیاد ”فرقہ ورانہ وابستگی“  یا کوئی ”سیاسی وفاداری“ ہے، اور اس کا تعلق کسی تعلیمی یا تہذیبی شعور سے نہیں ہے۔ یہ حمایت خاص تاریخی حالات میں ایک ضروری ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی تھی۔ لیکن ”رد عمل“ کا مسئلہ یہ ہےکہ معترض فکر سے باخبر ہوتا ہے اور نہ اس سے مخاطب، اور مخالف قوت کے مساوی کوئی عمل سامنے نہیں لانے کی سکت بھی نہیں رکھتا۔  ”رد عمل“ کا نتیجہ اپنی فکر اور عمل کی بتدریج کمزوری اور بالآخر خاتمہ ہے۔  اس کی بڑی وجہ ردعمل کا خودآگہی سے خالی ہونا ہے۔ رد کے برعکس، ردِ عمل کو فکری کمک بھی حاصل نہیں ہوتی اس لیے یہ بہت جلد ہانپ کر ختم ہو جاتا ہے، اور متبادل فکر اور عمل کے لیے راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ درس نظامی پر گزشتہ دو سو سال میں ہونے والے اعتراضات اور ان سے جنم لینے والے شکوک و شبہات خود ان لوگوں میں مؤثر ہو گئے ہیں جو اس کے حامی یا وارث ہیں۔ اس لیے انہیں خود اب درسِ نظامی کے کسی ”مناسب بندوبست“ کی بہت جلدی ہے، اور اسے تجربات کہا جاتا ہے اور جن کا خام مال بچے ہیں۔

درس نظامی میں رد و بدل اعتراضات کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ وقت کے ساتھ داخلی طور پر درس نظامی میں تبدیلیاں لائی جاتی رہیں، اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے یہ اپنی اصل حالت میں ویسے بھی باقی نہیں رہا۔ یہ تبدیلیاں عموماً داخلی ”تقاضوں“ کا نتیجہ تھیں۔ یہ تبدیلیاں کیوں لائی گئیں، ان کے مقاصد کیا تھے، پس پردہ فکر کیا تھی، اور ان کا کیا نتیجہ سامنے آیا؟ منتشر معلومات کے علاوہ، تبدیلیوں پر کسی مربوط محاکمے سے میں واقف نہیں ہوں۔ لیکن ان تبدیلیوں سے درسِ نظامی داخلی طور پر بھی سنگین مسائل کا شکار ہو گیا، اور ”عصری تقاضوں“ کا دباؤ بھی کم نہ ہوا۔ درسِ نظامی کی افادیت اب چونکہ اپنے شعبے میں بھی ظاہر نہیں ہو رہی،  اس لیے مذہبی طبقات اس میں خود ہی تبدیلی یا ریڈیکل تبدیلی لا رہے ہیں، جس کی نوعیت تجرباتی ہے۔ اس کا بہت سادہ مطلب یہ ہے کہ معترضین ٹھیک ہی کہتے آئے ہیں اور اب مذہبی لوگوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ موجودہ ثقافتی، معاشی اور سیاسی دباؤ میں درسِ نظامی کا علی حالہٖ باقی رکھنا مفید نہیں۔ لیکن ان تبدیلیوں کا مطلب درس نظامی کا خاتمہ ہی ہے۔

اس سے کوئی بحث نہیں کہ درس نظامی ”عصری تقاضوں“ کے مطابق نہیں ہے، اور اس پر اعتراض اور تبدیلی کا مطالبہ بھی اسی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن آمد استعمار کے ساتھ عین یہی اعتراض خود اسلام پر بھی وارد ہوتا آیا ہے۔ سرسید اور متجددین کے بنا کردہ  ”جدید اسلام” کا بنیادی موقف یہی تھا کہ مذہب کو ”عصری تقاضوں” کے مطابق ہونا چاہیے، اور درس نظامی پر زیادہ تر اعتراضات بھی اسی حلقے سے سامنے آئے ہیں۔ گزارش ہے کہ درس نظامی پر گفتگو کا درست تناظر ”عصری تقاضوں“ کی بجائے بطور مسلمان ہماری چند ”مستقل ضروریات “ ہیں۔ مستقل ضروریات میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ”عصری تقاضوں“ کا بیانیہ اب اس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ ان مستقل ضرورتوں پر بات کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔  دینی روایت، مستقل ضرورتوں اور عصری تقاضوں سے درس نظامی کا تعلق الگ الگ زیر بحث آنا چاہیے۔

بطور مسلمان ہماری یہ ”مستقل ضروریات“ دینی بھی ہیں اور تہذیبی بھی۔ درس نظامی ضروری ابتدائی تعلیم، درکار تعلیمی انتطام اور مطلوبہ تدریس کی تین اہم شرائط پر ان کو بہ تمام و کمال پورا کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ لیکن ان مستقل ضروریات کا کوئی بیان چونکہ موجود نہیں ہے اس لیے درس نظامی کی گفتگو میں ہر قدم مداہنت کا ہے اور ہر گھڑی شکست کی ہے۔ چونکہ دین اب ہمارے سر کا تاج نہیں رہا بلکہ ہمارے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے، اس لیے ہم ”عصری تقاضوں“ کی آڑ میں اسے کاٹنے کے لیے بڑے بڑے پاپڑ بیل رہے ہیں۔ درس نظامی میں کی جانے والی تبدیلیاں انتہائی پست درجہ سکولوں کی پست ترین نقل اور نقالی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ آڑ، جان چھڑانے کے لیے ہوتی ہے، اور عصری تقاضے پورے کرنے کے لیے زندہ ذہن اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔

عرض ہے کہ تعلیم اور علم سے ”ہم عصریت“ کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ درس نظامی سے ہم عصریت یا عصری تقاضوں کا تعلق فی نفسہٖ نصاب کا مسئلہ نہیں ہے، اس کی praxis کا ہے۔ praxis سے ہماری مراد ایسے عمل کی ہے جو کسی قدر یا تصور کے تحقق کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ کوئی بھی praxis ہمعصریت سے خالی نہیں ہو سکتی۔ درس نظامی کے ساتھ جڑی ہوئی ہماری روایتی  praxis کی زبوں حالی سے ہمعصریت کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ ہماری مذہبی praxis کی کمزوری اور تہذیبی افکار سے انقطاع کا نتیجہ یہ نکلا کہ درس نظامی ”عصری تقاضوں“ کے مہلک دباؤ کا شکار ہو گیا، اور بہت جلد سرسید کی تعلیم کی طرح روزگار کا ذریعہ بن گیا۔ یہ عصری تقاضوں سے انہی کی شرائط پر ہم آہنگی ہے۔ تعلیم روزگار کے لیے بھی ہوتی ہے، لیکن مسلمانوں کا موقف یہ رہا ہے کہ صرف روزگار کے لیے نہیں ہوتی۔ اب ”عصری تقاضوں“ کی بات درس نظامی کی بنیاد پر روزگار کے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے ہو رہی ہے یا استعماری قوتوں کے ڈسکورس کو تقویت دینے کے لیے اس کے خاتمے کی تجویز زیر غور ہے۔ روزگار کے امکانات بہتر بنانے کے لیے درس نظامی کو بدلنا بہت زیادہ مضرات رکھتا ہے۔ اگر ”عصری تقاضوں“ کا معروضی تجزیہ کیا جائے یا ان لوگوں ہی سے پوچھ لیا جائے جن کا اوڑھنا بچھونا ”عصری تقاضے“ ہی ہیں، تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ مدرسے کو ختم کر کے اس کی جگہ اسکول بنا دینا زیادہ انسانی اور دیانتدارانہ فیصلہ ہو گا۔

درس نظامی پر بہت باتیں ہو چکی ہیں اور شاید ناچیز کی گزارشات غیر ضروری بھی ہوں۔ لیکن ایک ناکس اور ناقص معلم کی حیثیت سے ایک ضروری امر کی طرف توجہ دلانے کی جسارت کروں گا۔ اگر اخلاص، تقویٰ، دینداری، للہیت، خیرخواہی، تقدس، عقیدت وغیرہ جیسی مذہبی شرائط کو درس نظامی کی بحث سے فی الوقت خارج کر دیا جائے تو کام کی بات ہو سکتی ہے۔ یہ مذہبی شرائط تو ہر مسلمان کے لیے لازم ہیں اور ان کا حصول ہم سب کے لیے ضروری۔ درس نظامی پر گفتگو میں یہ گوشوارہ ایک آڑ کا کام دیتا ہے، جبکہ بحث کا بنیادی ترین حوالہ تعلیمی ہے، اور باقی باتیں اس کے بعد ہونی چاہییں۔

اوریجنل درس نظامی کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک غیرمعمولی نصاب ہے، اور انسانی، دینی اور تہذیبی بصیرت کا شاہکار ہے۔ اس پر ضروری گفتگو کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ اس پر جو تحریریں میری نظر سے گزری ہیں وہ قطعی غیرمتعلق اور اکثر لغو ہیں۔ درس نظامی کے مقاصد کیا تھے، اس کا تعلیمی طریقۂ کار کیا تھا، حصول علم کے لیے اس کی تعلیمی شرائط کیا تھیں، اور کیوں متعین کی گئی تھیں، ایک مذہبی ذہن کی تشکیل کے لیے یہ کون کون سے وسائل بروئے کار لایا تھا، درس نظامی میں عصری تقاضوں کی تفہیم کیونکر ممکن تھی، اس کے پس پردہ متحرک ورلڈ ویو کیا تھا، اس کا اصول تعلیم اور نظریہ علم کیا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر کوئی گفتگو نہیں کرتا۔ ہم نے بحیثیت قوم اور معاشرہ چونکہ درس نظامی سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے، اس لیے عصری تقاضوں کا فاتحانہ زمزمہ ہر وقت بجا کرتا ہے۔

یہ سوال و جواب درس نظامی اور موجودہ صورت حال کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔  آپ نے سوالات جس ترتیب سے اٹھائے ہیں، جوابات بھی اسی ترتیب سے ہیں۔ میں سوالات کی ضروری ایڈٹنگ بھی نہیں کی اور انہیں ویسے ہی رہنے دیا ہے۔ جوابات میں ایک داخلی وحدت تو یقیناً موجود ہے، جبکہ ظاہری طور پر ان میں ترتیب کا فقدان محسوس ہو سکتا ہے۔

سوال: میرے محترم! عرض یہ ہے کہ ”مرحوم“ درس نظامی پر بہت سے اعتراضوں میں سے ایک یہ بهی ہے کہ اس میں نحو کی کتب جو داخلِ نصاب ہیں، جیسے ہدایۃ النحو، کافیہ اور   خاص کر شرح ملا جامی   وغیرہ، وہ ایسے ذہن کی غمازی کرتی ہیں جو بال کی کهال اتارنے کا بہت شوق رکهتا ہے  اور جو بہت ہی فضول ذہنی ورزش کا ذوق رکهتا ہے۔

جواب: گزارش ہے کہ اعتراض ایک عام چیز ہے اور کوئی بھی کر سکتا ہے۔ لیکن کسی بھی شعبے پر اس کے متعلقین اور ماہرین کی طرف سے آنے والا اعتراض مفید، ثقہ اور معتبر ہوتا ہے، اور اس کے جواب میں فکر اور عملی حکمت کے وسائل بروئے کار لانا پڑتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ معترض درس نظامی کے پیچھے کارفرما تصورِ تعلیم سے بے خبر ہے، بلکہ یہ کہ وہ کسی تصور تعلیم سے باخبر نہیں۔ ہر ظاہری کام پر تنقید، اس کے عملی اور نظری پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے۔ درس نظامی کے تحت واقع ہونے والا تعلیمی عمل جامعاتی تھا جو عملی اور نظری پہلوؤں کو لیے ہوئے تھا۔  ایک وقت تھا کہ اس کے مقاصد جن کی حیثیت اب نظری ہے بدیہی تھے اور اسی تعلیمی عمل سے حاصل ہوتے تھے۔ تاریخی حالات کے بدلنے سے ان کا استحضار جاتا رہا، اور جب ان مقاصد کے مرتب اور مبسوط بیان کی ضرورت پڑی تو وہ فراہم نہ ہو سکا۔ ان مقاصد کا حصول اب بدیہی تجربے اور مشاہدے میں بھی نہیں ہے، اور ان کا کوئی نظری بیان بھی موجود نہیں ہے۔ درس نظامی کی نظری تغلیط بھی اب تک مکمل ہو چکی ہے، اور اب جو باقی ماندہ تعلیمی عمل ہے وہ ازخود مہمل نظر آنے لگا ہے۔

اگر لسانی مباحث کا تعلق اہم چیزوں مثلاً انسان کے اعتقادی حقائق یا بنیادی اقدار سے ہو تو بال کی کھال معمولی چیز ہے، اس میں تو بال کی کھال کے خلیے بھی ادھیڑنے پڑتے ہیں۔ ذہنی ادراک و اظہار کی صلاحیت اور اس میں کمال، جزیات اور تفصیل میں جائے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ یہ بات صرف درس نظامی کے حوالے سے نہیں کہی جا رہی، بلکہ علی الاطلاق ہے۔ تعلیم میں یہ ایک فطری اور لابدی امر ہے اور ہر طرح کی تعلیم میں ضروری طور پر شامل ہے۔  جدید سائنس آج  nano precision کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور یہی حال اس کے نظری مباحث کا ہے۔ یہ صورت حال اس لیے ہے کہ جدید سائنسی تعلیم نے اپنے بنیادی قضایا کے تعاقب میں پہلے بال اکھیڑا، پھر اس کی کھال ادھیڑی، پھر کھال کی کھال اور جسدِ بال کو ادھیڑا، پھر خلیے کی کھال ادھیڑی، پھر خلیے کے اندر پرزے کھولے، پھر ان پرزوں میں مالیکیول کو کان سے پکڑ کر لا حاضر کیا، پھر ایٹم کی باری آئی، اور وہاں تک پہنچے جہاں اب ادھیڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ سکنات اور حرکات کا ایک پورا نظام اس عمل میں الگ سے ساتھ ساتھ ہے۔ یہ ہنر ہے، عیب نہیں کیونکہ سائنس شے مرکز ہے۔ اور ہماری روایت میں لفظ کی اہمیت بہت بنیادی ہے، اور اگر اس پر محنت ہونے لگے تو کیا یہ عیب بن جاتا ہے؟

یہ درست ہے کہ ”بال کی کھال“ اتارنے کا کام مواعظ اور روزمرہ زندگی میں قطعی غیر ضروری بلکہ مضر ہے، لیکن تعلیم اور علم میں ضروری ہے۔

گزارش ہے کہ تعلیمی عمل کا مقصد اور فوکس بنیادی طور اجزا ہوتے ہیں، اور علم کلیات کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ تعلیم میں حاصل شدہ جز، علم کے کل سے جڑ کر بامعنی ہو جاتا ہے۔ اگر طالب علم کے پاس جزیات کا علم نہ ہو تو وہ علم کی دہلیز پر رک جاتا ہے کیونکہ وہ کلیات کا علم حاصل کرنے کے لیے ضروری اور مطلوب استعداد سے ابھی بہرہ ور نہیں ہوتا۔ جس چیز کو معترض ”بال کی کھال“ کہہ رہا ہے وہ یہی جزیات کی تعلیم ہے۔ جو ذہن جز سے اوبھ گیا ہو، وہ کل کا سامنا نہیں کر سکتا۔

انسانی ذہن کی فطری ترتیب اور مذہبی شخصیت کی تشکیل کے مطالبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، درس نظامی نے تعلیمی مقاصد کے حصول کے تمام وسائل  فراہم کیے تھے، لیکن ہم ان کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ درس نظامی کو ”جدید“ اور ”عصر حاضر“ کے مطابق بنانے کا جو منصوبہ ہے اس کی بنیاد جہالت اور بددیانتی ہے، اور کچھ نہیں ہے۔ اس منصوبے میں یہ کوشش داخل ہے کہ اہم اور بحث طلب امور کی طرف دھیان نہ جانے پائے۔

محولہ بالا اعتراض اس لیے لغو ہے کہ جز کی تو بات کرتا ہے اور اس جز کو معنی دینے والے کل کو فراموش کر دیتا ہے۔ اس کل کی فراموشگاری سے ہمارے اجزا بھی بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ کل کی فراموشگاری میں ”بال کی کھال“ ادھیڑنا بالکل معیوب ہے، لیکن کل اور جز کی متوازیت میں یہ امرِ مطلوب ہے۔ یہ تو کمال کی بات تھی، اور چونکہ عیب و ہنر کا شعور ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے، اس لیے ہمارے ہنر اگر کہیں باقی ہیں تو عیب ہی شمار ہوتے ہیں۔ یہ اسی تعلیم کا اثر تھا کہ آج سے سو دو سو سال پہلے جو کتابیں لکھی گئیں، وہ اپنے فنی کمال میں بھی حیرت انگیز تھیں۔ آج معجزہ ہائے ہنر اگر ظاہر نہیں ہوتے تو بلا سبب نہیں۔

سوال: جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ مثلاً ایک نحوی عبارت الكلمۃ لفظ وضع لمعنى مفرد پر بلا مبالغہ صوبہ پنجاب کے عام مدارس میں کئی دنوں تک سبق ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ایک مکمل ہفتہ استاد کی تقاریر، اور اگر   صوبہ خیبر پختون خواہ یا بلوچستان اور بعض اور علاقوں میں بهی ایک ہفتہ سے زیادہ۔ 

جواب: یہ اعتراض نصاب پر نہیں، طریقۂ تدریس پر ہے اور اس کی نوعیت بنیادی طور پر ایک اخلاقی مسئلے کی ہے۔ درس نظامی سے جڑی ہوئی ہماری دینی اور تہذیبی praxis کے خاتمے سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ درس نظامی تقویٰ، مکارم الاخلاق اور معاشرتی آداب کی رسومیات میں واقع ہونے والا تدریسی عمل تھا۔

میں یہاں تقویٰ، مکارم الاخلاق اور معاشرتی رسومیات کا ذکر نہیں کرتا، لیکن یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ ناقص تدریس، بدانتظامی، تعلیمی عمل سے بے خبری اور جدید تعلیمی عمل کی پست ترین نقالی کس دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے؟ حضرت نور محمد حقانیؒ اپنے نورانی قاعدے کے مینؤل کی پہلی تختی میں فرماتے ہیں:

جب تک اتنی مشق نہ ہو، آگے نہ پڑھائیں۔ ورنہ وہی مثل صادق آئے گی، آگا دوڑ پیچھا چوڑ۔ اگر کوشش اور محنت سے پڑھا نہیں سکتے تو ناحق بچوں کی عمر اور استعداد برباد نہ کریں۔ اس کا گناہ چوری اور رہزنی سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ مال و اسباب پھر بھی مل سکتا ہے، لیکن گزری ہوئی عمر واپس نہیں آ سکتی، اور بگڑی ہوئی استعداد درست نہیں ہوتی۔ صفحہ نمبر ۶، نورانی قاعدہ مع طریقۂ تعلیم، مؤلفہ حضرت  مولانا نور محمد حقانی رحمۃ اللہ علیہ، دار الفکر، اردو بازار، لاہور، پاکستان۔

اب ذرا اس قول کی روشنی میں درس نظامی کی تدریس کو دیکھنے کی کوشش کریں تو ذہن سن ہو جائے گا اور آنکھیں پتھرا جائیں گی۔

اب یہی فقرہ لیجیے جو آپ نے لکھا ہے۔ عین اسی فقرے پر چند ایک سوالات اور ”مدرسین“ کی قطعی لاعلمی میرے مشاہدے میں ہے۔ ان کو تو خود پتہ نہیں ہوتا کہ اس فقرے کی مراد اور اس کے توسیعی امکانات کیا ہیں؟ تو اگر وہ سال بھر بھی ”پڑھاتے“ رہیں تو کیا فرق پڑے گا؟ یہیں سے لفظ و معنی کی بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ لفظ اور معنی کی ایک نسبت کا بیان ہے۔ آپ نے آگے چل کر خود ہی کہا ہے کہ اس تدریس یا ایسی تدریس کے بعد طالب علم تو اپنی روایت میں عین اسی ڈسپلن کی کوئی کتاب پڑھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس سے ایک چیز مبرہن ہو گئی کہ اس اعتراض کا درس نظامی کے نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ عمل تدریس اور انتظام تدریس سے ہے۔ اور یہی وہ طریقۂِ تدریس ہے جس کی بدولت روایت بھی ہاتھ سے جاتی رہی اور جدیدیت کا شعور بھی پیدا نہ ہوا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ درسِ نظامی کو جدید بنانے کی بات تو ہر کوئی کرتا ہے، لیکن جدید تدریسیات (modern pedagogy) نے جو تعلیمی وسائل پیدا کیے ہیں اور جن کی حیثیت گھوڑے کی بجائے کار میں سفر کرنے جیسی ہے، ان کی بات کوئی نہیں کرتا۔ جدید تدریسیات کے نئے وسائل انتخاب کے بعد بخوبی درس نظامی کی تدریس میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ آپ کا ذکر کردہ مسئلہ بنیادی طور پر اخلاقی اور ضمناً پیشہ ورانہ ہے اور اسے کوئی بھی زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔

درس نظامی پر جتنی بھی گفتگو ہوتی ہے اس میں واحد موضوع نصاب اور اس کی تبدیلی ہے۔ تبدیلی کی اس تجویز کو ”بہتری“، ”عصری ضرورت“ وغیرہ کے عنوان سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ کچھ اس کے حامی ہیں اور کچھ مخالف۔ اس بحث میں ضروری پہلوؤں کا بیان کوئی جگہ نہیں لے پاتا، اور جو فوراً مذہبی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ مدارس میں درس نظامی  کی جگہ اکسفرڈ کا نصاب لگا دیا جائے اور باقی چیزوں کو علی حالہٖ رہنے دیا جائے، یعنی تعلیمی انتظام، بچے کی عمر اور اس کی ذہنی نمو کے مسائل، طریقۂ تدریس، آموزش اور امتحان کے جاری طریقۂ کار کو نہ چھیڑا جائے تو کیا نتائج ہوں گے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس سے کیا بہتری آئے گی اور کون سی چیز بہتر ہو گی؟ ہم اسی سوال کو الٹ دیتے ہیں کہ  کسی جدید اسکول کے نصاب کو چھیڑے بغیر اس کا تعلیمی انتظام، تدریس، آموزش اور امتحان وغیرہ مدارس کی طرز پر بنا دیا جائے تو کیا نتائج نکلیں گے؟ اس پر کوئی غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ درس نظامی پر ساری گفتگو میں دیانت داری اور انسانی ذمہ داری کا قطعی فقدان ہے۔

سوال: چونکہ طالب علم پر برصغیر کی قدیم   تدریسی   روایت کے مطابق کتاب کے حل کرنے پر زیادہ زور لگایا جاتا ہے، اور بے ضرورت احتمالات کو نکال نکال کر زور لگایا جاتا ہے   جس سے مقصودِ اصلی یعنی کتاب کا حل کہیں اور ہی رہ جاتے ہیں، اور طالب علموں کو ذہنی کوفت الگ سے۔

جواب: بھائی صرف بستہ باقی ہے اور اب اسی کا بندوبست ہو رہا ہے۔ یہ بات محل نظر ہے کہ ہمارے ہاں ”برصغیر کی قدیم تدریسی روایت کے مطابق“ جیسی کوئی چیز موجود ہے۔ میں اس اعتراض کو درست نہیں سمجھتا۔ ایسی کوئی شے موجود نہیں ہے۔

لیکن اگر کچھ کہنا ضروری ہے تو عرض ہے کہ یہ اعتراض بھی تدریس پر ہی ہے۔ آج کل متن کی تدریس میں close reading خود ایک آرٹ ہے۔ ہم چونکہ اس سے بے خبر ہیں اس لیے اس طرح کے اعتراضات پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں مطالعہ متن کی روایت anaesthesia کی حالت میں جاری ہے۔ اسے اس حالت سے باہر لانے کی ضرورت ہے۔ متن کی تدریس روزمرہ تجہیز اور تکفین کا عمل بن گیا ہے، اور جو طویل عرصے سے جاری ہے۔ معترض مطالبہ کر رہا ہے کہ اس عمل کو پورا کرو، اور اب عملِ تجہیز و تکفین کرنے والے بھی تدفین کے قائل ہو گئے ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ متن تفہیم، تنمو اور تزئین کا مطالبہ رکھتا ہے کیونکہ یہ بات کسی کو اچھی نہیں لگتی۔

درس نظامی کا اندازہ آج کل اس کے ”فارغ“ لوگوں کو دیکھ کر نہیں لگانا چاہیے۔ اس نصاب کو اس کی اپنی شرائط اور اس کے اپنے تناظر میں  سمجھ کر  کوئی critique سامنے  آنی چاہیے اور جدید نصاب سے اس کا موازنہ ہونا چاہیے۔ ہمیں نہ تنقید کا خوف ہے اور نہ موازنے پر اعتراض ہے۔ لیکن اعتراض موضوع سے متعلق ہونا چاہیے۔ ہاں، یہ اعتراض تو ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ ہم نے درسِ نظامی کو anaesthesia machine کیوں بنا دیا ہے؟ یہ کارنامہ ہم نے تدریس اور امتحان کی اخلاقی بنیادوں کو ختم کر کے سرانجام دیا ہے۔

یہاں ضمناً اس امر کی یاد دہانی ضروری ہے کہ سرسید نے جدید تعلیم سے کوئی تہذیبی مسئلہ حل نہیں کیا تھا، بلکہ ان کی آوردہ تعلیم سیاسی طاقت کی غلام گردشوں کا گردباد اور معاش مرکز تھی۔ جب محکوم مسلم معاشرے میں روٹی ہی مقصد تہذیب اور حاصل حیات بن گئی تو اس کا اثر مدارس پر بھی پڑا، اور وہاں بھی مقاصد اور طریقۂ کار میں تغیر آنے لگا۔ اس سے  ہمیں بحث نہیں کہ مدارس میں بہت خرابیاں ہیں، کیونکہ انسانی عمل نارسائی کا شکار رہتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ مدارس نے انتہائی محدود وسائل اور شدید تہذیبی اور ثقافتی دباؤ میں جس کام کو جاری رکھا وہ غیرمعمولی ہے۔ ہم مدارس سے perpetual sacrfice کا مطالبہ قطعی ناجائز سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے نے جدید تعلیم پر جو وسائل خرچ کیے ہیں اور جو نتائج اس وقت سامنے ہیں، ان کا اگر مدارس سے موازنہ کیا جائے تو مدارس کی قربانیوں کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مدارس کی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری صرف مدارس پر عائد نہیں کی جا سکتی، ہمارا پورا معاشرہ اس کا ذمہ دار ہے۔

سوال: اور حواشی پر زور اتنا زیادہ دیا جاتا ہے متن کا حل کہیں دور جا پڑتا ہے جیسے مثلاً اصول الفقہ کی ایک کتاب ہے التوضیح و التلویح، اس کتاب میں خود التنقیح تین کتب کا خلاصہ ہے اور پهر اس کی شرح جو مصنف نے خود کی ہے یعنی التوضیح، پهر اس پر علامہ تفتازانی کا حاشیہ  اور پھر مزید ایک اور حاشیہ آج کل کی درسی کتب کی زینت ہے اور اس پر بحث ایسی کہ التوضیح کا متن کئی دنوں بعد پڑهنا نصیب ہوتا ہے۔

جواب: یہ سوال بھی التباس کا شکار ہے اور اصلاً تدریسی انتظام (academic management)  کے ناکارہ پن اور اس کے مضر اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مسائل ہماری تدریسی نارسائی سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس سے یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ تدریس اور تدریسی ترتیب میں سنگین مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ جدید تدریسیات میں نصابی کتاب سازی کا تدریس سے براہ راست تعلق ہے۔ تدریس میں تدریسی مواد، طریقۂ تدریس، بچے کی عمر کا تعین ازحد ضروری ہے۔ ”مذہبی، مذہبی“ کا غلغلہ اس قدر ہے کہ ایسی باتیں کوئی سننے کے لیے بھی تیار نہیں کیونکہ اس سے تدریسی کام کا طریقہ اور اس کی کوالٹی زیر بحث آتی ہے جس سے رد عمل پیدا ہوتا ہے۔

ایک اور بڑا مسئلہ تعلیم اور علم کے فرق کو نہ سمجھنے کی ضد سے پیدا ہوا ہے۔ درس نظامی دینی تعلیم کا نصاب نہیں ہے، دینی علوم کے حاصل کرنے کا نصاب ہے۔ دینی تعلیم ہر مسلمان کی ضرورت اور اس پر فرض ہے، لیکن دینی علوم ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور نہ ضرورت، اور نہ ہر مسلمان اس کی اہلیت رکھتا ہے۔ دینی تعلیم ہدایت کی تعلیم ہے جو عام ہے اور دینی علوم عام نہیں خاص ہیں۔ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ مدرسہ تعلیم کی جگہ ہے اور جامعہ علم کا گھر ہے۔ ہم نے یہ فرق بالکل ہی مٹا دیا ہے۔ درس نظامی اصلاً یونی ورسٹی کے نصاب جیسا ہے جس کے لیے ابتدائی تعلیم کی شرائط لازمی اہمیت کی حامل ہیں۔ تمثیلاً عرض ہے کہ ہم یونی ورسٹی کا نصاب سکول کے بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ میں اس امر کا براہ راست مشاہدہ رکھتا ہوں کہ جس طالب علم کی استعداد پنجم یا ششم کا عام نصاب پڑھنے کی بھی نہیں ہے، اسے یونی ورسٹی کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سے کون سا مقصد پورا ہوتا ہے؟

بطور ایک عام مقلد میری دینی تعلیم کی بنیادی ضروریات ”تعلیم الاسلام“ پڑھ کر پوری ہو جاتی ہیں، اور میں دین کے مطابق زندگی گزارنے کی استعداد پیدا کر لیتا ہوں۔ لیکن اگر کہا جائے کہ یہ دینی تعلیم، دینی علوم کی سیڑھی بھی بن گئی تو نہایت افسوسناک ہو گا۔ دینی تعلیم اور دینی علوم کے امتیاز کو باقی رکھنا درس نظامی پر گفتگو کے لیے ضروری ہے۔ دینی علوم کے حصول کے لیے دینی تعلیم قطعی غیرمتعلق چیز ہے۔  دینی تعلیم کا براہ راست تعلق عقائد، عبادات اور سنن مبارکہ سکھانے کرانے سے ہے اور یہ مقصد کئی طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ صرف و نحو، لفظ و معنی کی بحث، جزئی اور کلی کے مسائل، متون کی خواندگی کا اعلیٰ معیار، افکار کی پیچیدہ حرکیات دینی تعلیم میں قطعی عبث، غیر ضروری اور مضر ہیں، لیکن دینی علوم میں مثلاً اصول دین، اصول فقہ وغیرہ میں یہ شرطِ اول ہیں۔

مثلاً کلام الہی ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اور اگر اس میں لفظ و معنی کی بحث چھڑ جائے، اور فرض کیا کہ اس میں باطنی موقف غالب آ جائے تو کیا صورت حال پیدا ہو جائے گی؟ ابھی میں نے افلاطون اور ارسطو کا ذکر نہیں کیا۔ یہ بحث بالکل بھی دینی نہیں ہے، لیکن اس کے نتائج براہ راست دینی ہیں۔ تقویٰ ضروری چیز ہے لیکن اس بحث سے غیر متعلق ہے۔ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ دنیا میں اب باطنی بھی نہیں رہے، اور افلاطون اور ارسطو بھی مر مرا گئے ہیں، علوم کی ضرورت بھی ختم ہو گئی ہے، اہل مغرب قرآن مجید کی غواصی سے سائنس بنا چکے ہیں، اور ان کا معاشرہ بھی قرآنی منشور کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے، لہذا اب ”عصری ضرورت“ کے مطابق تیسیر عمل میں لائی جانی چاہیے تاکہ ہمیں کوئی کام نہ کرنا پڑے۔

موقع کی مناسبت سے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ تعلیم میں سیکولر اور مذہبی کا فرق بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ہماری دینی ضرورت ہے۔ دینی تعلیم مقصود بالذات ہے کیونکہ اس کے مشمولات دینی ہیں اور غیر مبدل ہیں۔ مثلاً عقائد، عبادات، مکارم الاخلاق وغیرہ کی تعلیم مقصود بالذات ہے، ورنہ ہمارے مسلمان ہونے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ جبکہ نظری علوم مقصود بالذات نہیں ہوتے، محض ایک ذریعہ ہیں اور نہایت ضروری ذریعہ ہیں۔ تعلیم ہمیشہ مانعاتی (exclusionary) اصولوں پر قائم ہوتی ہے، اور علم ہمیشہ جامعاتی (inclusionary) اصولوں پر تشکیل پاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کی تعلیم کی شرائط باقی مذہب و ملت کے لوگوں سے قطعی الگ ہوں گی، جبکہ حصول علم کے وسائل اور ذرائع باقی انسانیت کے ساتھ مشترک ہوں گے۔ تعلیم کا اصول عمومِ اشتراک نہیں ہے، جبکہ علم کی بنیادی شرط ہی عمومِ اشتراک ہے۔ دینی تعلیم میں ”عصری تقاضوں“ کا مسئلہ بصیرت اور احتیاط کا متقاضی ہے، اور علم میں لابدی ضرورت ہے۔

اگرچہ بات طویل ہو گئی لیکن ایک اور ضروری بات کا موقع یہی ہے۔ تعلیم میں تدریس اور تذکیر دونوں شامل ہیں۔ تدریس کی بنیاد تفہیم ہے، جبکہ تذکیر کی بنیاد حافظہ ہے۔ دینی تعلیم میں حافظے کو مرکزیت دی جاتی ہے، علوم کے لیے لازمی تعلیم میں تفہیم کو اولیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ تذکیر ہمارے لیے کس قدر اہم ہے۔ کلمے، نماز، دعائیں، اذکار وغیرہ اولاً سمجھنے کے لیے نہیں، یاد کرنے اور عمل کرنے کے لیے ہے۔ یہ بات ہم غیرمذہبی متون کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔ اس پر تفصیل سے پھر کسی موقع پر عرض کروں گا، لیکن ان کی بنیاد پر تعلیمی حکمت عملی اور ترتیب بنانا کچھ مشکل نہیں ہے۔

سوال: علوم عقلی کا ذوق ایسا غالب کہ منطق کی تقریباً ١٥ کتب ہوتی ہیں، اور فلسفہ کی بهی تقریباًً کوئی ١٠ کے قریب کتب اور ان پر کم از کم تین حواشی مستزاد  کہ معاملہ ایک چیستاں کو حل کرنے سے کم نہیں۔ اور مزید یہ کہ اندازِ تدریس ایسا گنجلک کہ ایک متوسط کے لیے بہت ہی تنگی۔ اور یہ کہ علوم عقلی سے ایسے متاثر کہ اگر کوئی عقلی علوم میں کوئی خاص مہارت نہیں رکھتا اگرچہ فن حدیث سے خوب واقف تو بھی اس کی تدریس کم مشہور اور حلقہ تدریس بھی بہت کم۔ 

جواب: درس نظامی میں منطق اور فلسفہ کی کتابیں اس لیے شامل کی گئی تھیں کہ پورا تعلیمی عمل متوازن رہے، جو میں ابھی عرض کرتا ہوں۔ جدید تعلیم کے بنیادی مسئلے کا ذکر یہاں ضروری ہے اور وہ اس میں ”شے“ اور ”صورت“ کا غلبہ اور ان کا مقصودِ واحد ہو جانا ہے۔ جدید تعلیم صرف جز کی تعلیم ہے، یعنی مادی شے اور اس کی حرکیات معلوم کرنے تک محدود ہے۔ جدید تعلیم میں شے اور صورتِ شے تدریس اور عملی کام کا مقصود ہے۔ جدید تعلیم میں نصابی متن ہر لمحہ شے کے طواف میں ہے کیونکہ اس میں لفظ و معنی شے کی شرائط پر ہیں۔  پھر بلیک بورڈ پر شے کی تصویر ہر وقت کھنچتی ہے تاکہ ذہن کی طرح آنکھ صرف صورت ہی کو دیکھنے کا ذریعہ بن جائے۔ اور شے کی پیمائش و مقدار روزانہ بتائی، سکھائی اور پوچھی جاتی ہے۔ پھر لیبارٹری میں عمل کو شے سے متعلق اور اس کے تابع رکھنے کا پورا نظام موجود ہے۔ امتحان کا مطلب ہے کہ اگر ذہن میں شے کا استحضار ناقص رہا تو فیل اور اگر عمل شے کے تابع نہ ہوا تو بھی فیل۔ جدید تعلیم میں بیان اور پریکٹیکل کو متوازن رکھ کر صورت کی حاکمیت قائم کی جاتی ہے۔

لیکن تعلیم کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ جزئی تک محدود رہے تو بچے میں اقدار اور حقائق کا شعور پیدا نہیں ہوتا اور ان کی قبولیت کی استعداد بھی باقی نہیں رکھی جا سکتی۔  اور اگر جزئی کے بغیر، تعلیمی عمل صرف کلیات میں محدود ہو جائے تو طالب علم زندگی کی واقعیت کے ادراک سے محروم رہتا ہے۔ پہلی صورت مذہب سے انسان کے ذہنی تضاد اور تخالف کو مکمل کر دیتی ہے، اور دوسری صورت دنیا سے عملی تضاد اور تخالف کو پورا کر دیتی ہے۔ جز اور کل کا باہم غیر متعلق اور ایک دوسرے کے بغیر شعور میکانکی ہوتا ہے۔ اس وقت مذہبی تعلیم دوسرے مسئلے کا شکار ہے اور  جدید تعلیم پہلے مسئلے کا۔ انسانی ذہن اور شخصیت کی تباہی اس وقت مکمل ہو جاتی ہے جب اسے ”کل“ کی تعلیم ”جز“ کی شرائط پر دی جائے، یا ”جز“ کی تعلیم ”کل“ کی شرائط پر دی جانے لگے۔ ”جدید مذہبی تعلیم“ میں کل تک رسائی چونکہ جز کے بغیر ہے، اس لیے یہ فرد اور معاشرے کے لیے سنگین خطرات رکھتی ہے۔

تفصیل کا یہ موقع نہیں لیکن یہ مختصر گزارش اس لیے ضروری تھی کہ ایمان کی کوئی علمی گفتگو کلیات پر منتہی ہوئے بغیر مکمل نہیں ہو پاتی اور عمل صالح پر کوئی کلام جزیات کے شعور کے بغیر بے معنی ہے۔ درس نظامی نے انسانی ذہن اور عمل میں کل اور جز کے مسئلے کو جس خوبی سے متوازن رکھا وہ حیرت انگیز ہے۔ موجودہ مسئلہ ہماری نادانی، کام چوری اور دنیا داری سے پیدا ہوا ہے، اس کا نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ درس نظامی کی ترتیب فطری طور پر جز سے کل کی طرف سفر ہے۔ ابتدائی درجے میں مجوزہ کتابیں بالکل بجا جز پر حد درجہ زور دیتی ہیں، اور اعلی درجے کی کتب طالب علم کو بجا طور پر کل سے نسبتیں پیدا کرنے کا اہل بناتی ہیں۔ لیکن دونوں سطحوں پر درس نظامی سخت محنت اور جگر کاوی کا لازمی مطالبہ رکھتا ہے۔

سوال: اول ایسے علاقوں میں جہاں حدیث کی منتہی کتاب ہی مشکات ہی ہو  تو ایسے لوگ ہی کم پیدا ہوں گے جو حدیث وغیرہ میں ائمہ میں شمار کیے جائیں جیسا کہ عقلی علوم میں شمار کیے گئے۔ اور اگر مقاصد کو ہی نصاب بنانا درست نہیں تو مشکات کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور پھر مشکات کی بجائے صحاح ستہ زیادہ مناسب نہیں، جس کے نتیجے میں ہند میں حدیث کے ائمہ پیدا ہوئے۔

جواب: میں نے گزارش کی تھی کہ نصاب کی حیثیت ایک ذریعے کی ہے، یہ مقصود کبھی نہیں ہوتا اور نہ بن سکتا ہے۔ اسی تقدیر پر میں بنیادی دینی متون یعنی قرآن مجید یا حدیث شریف کو ”نصاب“ بنانا درست نہیں سمجھتا، بلکہ اسے مضر خیال کرتا ہوں۔ جب درس نظامی کا اصل مقصود ہی ان متون کی باریابی ہے، تو ان کو نصاب بنا دینا چہ معنی دارد؟ ذریعے کو مقصود سمجھنے کی غلطی ہی درس نظامی میں اولین تبدیلی کا باعث بنی تھی، اور اس کے نقصانات ہمارے سامنے ہیں۔ ہماری روایت میں متن صرف مفہوم کا carrier نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حضور رکھتا ہے، خیر و برکت کی نعمت لاتا ہے، قوائے روحانی کو مضبوطی اور صلابت عطا کرتا ہے اور شعور کو دنیاوی ریگزار نہیں بننے دیتا۔ تدریس میں صرف مفہموم زیربحث ہوتا ہے۔ متن سے متعلقہ دوسرے مقاصد تذکیر سے حاصل ہوتے ہیں۔ درس نظامی میں تدریس اور تذکیر کا لحاظ رکھا گیا تھا۔ ہمارے لیے اب تدریس اور تذکیر سب چیستاں بن گئے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اگر تعلیم کے بنیادی مقاصد ہی پورے نہ ہو رہے ہوں تو کسی بھی شعبے میں منتہی ہونے کا سوال بے معنی ہے۔ یہاں تو مبتدیات کا حصول کبریت احمر بن گیا ہے، بڑی مہارتوں کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ باقی حدیث یا کسی اور شعبے میں ”ائمہ“ کا ظہور صرف نصاب سے متعلق نہیں ہوتا۔ اس میں متعلقہ معاشرے کے سیاسی اور معاشی اداروں، فرمانروئی کے اسالیب اور کلچر کی مجموعی حالت کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے۔ ہماری گفتگو میں نصاب تک محدود رہنا مفید ہو گا۔

آپ کے سوال کی تقدیر پر ہمارے ہاں تو سائنس اور ہیومنیٹیز کے ائمہ کثیر تعداد میں پیدا ہونے چاہییں تھے۔ اور یہاں حالت یہ ہے کہ ”پروفیسر“ تو بن جاتے ہیں، اور اپنے مضمون کے بنیادی مباحث ہی کا پتہ نہیں ہوتا۔ طالب علمانہ ضرورتوں کے قضیے نمٹائے بغیر ائمہ سازی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

سوال: اور عربی تو شریعت کو سمجھنے کا بنیادی آلہ ہے۔ پر ادھر عربی ادب کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ادب میں صرف مقامات ہے جو کسی خاص دور کی ادبی صنف کے متعلق ہے۔  اور جس سے صرف عربی الفاظ کی لغت کو ہی معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا جائے تو شاید مصنف مقامات پر ظلم ہے۔ نہ تو جدید عربی ادب سے مانوسیت اور نہ قدیم ادب سے واقفیت۔ اسی لیے تو قدیم درس نظامی میں  ایک دو کے علاوہ کوئی نمایاں ادیب ظاہر نہ ہو سکے، اور عربی تکلم کی مشق تو بالکل ہی نہیں۔

جواب: یہاں کئی سوالات خلط ملط ہو گئے ہیں۔ اس میں کسے کلام ہے کہ عربی دانی شرعی علوم کے حصول میں بنیادی شرط ہے۔ درس نظامی کا ایک مقصد کلاسیکل عربی کی تدریس اور اس میں مہارت تھا، اور اس میں یہ بہت کامیاب رہا۔ مقامات کے حوالے سے آپ نے جو بات کی ہے میں اس سے متفق ہوں۔ درس نظامی کو عربی تکلم کا ذریعہ خیال کرنا بے خبری ہے، اور تکلم کو دینی علوم میں اہمیت دینا بھی نادانی ہے۔ تکلم سماجی، ثقافتی اور معاشی ضرورت تو ہوتی ہے، علمی ضرورت بالکل نہیں ہے۔

میرا خیال ہے کہ جس زمانے میں درس نظامی کا آغاز ہوا، عربی ایک ثقافتی مظہر اور علمی روایت کے طور بھی موجود تھی، صرف نصاب تک محدود نہیں تھی۔ اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ عربی ادب کی استعداد بڑھانے کے لیے نئی کتابوں کو متعارف کرانا ضرورت کے درست ادراک سے مشروط ہے جس کا امکان بہت کم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے درس نظامی کی زبوں حالی سے دھیان فوراً نئی کتابوں کی طرف کیوں جاتا ہے؟  مدارس کے جو اصل مسائل ہیں ان کو کوئی بھی زیربحث نہیں لاتا۔ تدریس اور دینی علوم کے مقاصد پر بات کرنا اب بھی شجر ممنوعہ ہے۔

سوال: اور عقلی علم کے بعد تمام صلاحیتوں کا فقہ میں کھپنا۔ جس کا لازمی نتیجہ فقہ کی جزئیات تک میں تشدد  جو بعض اوقات انتہائی عجب کیفیت اختیار کر لیتا جیسے خواجہ نظام الدین اولیا کے ساتھ مناظرہ میں علما کا خواجہ صاحب کے اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لیے حدیث کے پیش کرنے پر یہ کہنا کہ ہمارے شہر میں فقہ پر عمل کیا جاتا ہے، فقہا کے اقوال کو پیش کیا جاتا ہے۔ اب جہاں حدیث کے فن کی یہ حالت کہ آخری کتاب ہی مشکات سے بڑھ کر کوئی نہ ہو تو دلائل میں تبادلہ فقہی اقوال سے بڑھ کر کس چیز میں ہونا ہے!

جواب: میرے خیال میں یہ سوال اہم ہے، لیکن موضوع زیربحث سے متعلق نہیں۔ یہ ایک دینی مسئلہ ہے اور اس کے لیے علما کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

سوال: مزید یہ کہ جب مقابلہ نئے فلسفے سے ہے تو قدیم فلسفے کو پڑھاتے ہوئے وقت کو گزارنا کون سا مناسب فعل ہے؟ آخر اب جدید فلسفہ کے مقابلے میں مثلاً زمانے کے قدیم ہونے یا عذابِ قبر کے ہونے یا اعمال کا جزوِ ایمان ہونے نہ ہونے سے کیا تعلق ہے؟ اب درس نظامی میں جو بھی عقیدے کی کتاب ہے قدیم فلسفے سے لبریز ہے۔ کم از کم ان کے ساتھ  جدید فلسفہ کے رد کے لیے بھی کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہیے ناں؟

جواب: انتظام تو بھائی کافی سارے ہونے چاہییں، لیکن کرے کون؟ اس میں سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ فلسفۂ جدید، قدیم فلسفے سے دستبردار ہو گئے ہیں؟ اور کیا آج بھی جدید فلسفہ یونانی فلسفے کے بغیر کوئی معنی رکھتا ہے؟ فلسفہ تو دور کی بات ہے جدید ادبی تھیوری پر بھی کوئی گفتگو یونانی فلسفے سے آگہی کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ”مقابلے“ کی خام خیالی سے ہمیں باہر آنا چاہیے۔ ہمارے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہیں کہ ہمیں نہ میدان کا پتہ معلوم ہے، نہ میدان میں اترنے کی ضروریات کا کوئی ادراک ہے، نہ اس بات کہ وہاں کیا گھمسان برپا ہے، نہ اس بات کا کہ ہم میدان کے اندر ہیں یا باہر۔ ہم تو آج کے میدانوں کے تماشائی جیسا شعور بھی نہیں رکھتے۔ مقابلے کی بات محض خودفریبی ہے۔ ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ یہ مقابلہ کب کا ہمارے خلاف فیصل ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ ہماری نااہلی ہے، کوئی اور نہیں ہے۔

ایمان اور عمل صالح کے لیے مذہبی آدمی کو فلسفے یا مابعد الطبیعیاتی علوم کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔  لیکن مذہبی آدمی کو فلسفے سے اعتنا کی ضرورت دو وجوہات سے پڑتی ہے۔ ایک یہ کہ دنیا ایسی چیزوں سے خالی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے جو نہ صرف ”ایمان نما“ ہیں، بلکہ اکثر اوقات ایمان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ ہر وقت موجود اس خطرے سے بچاؤ کے لیے عقیدے کا خود آگاہ اور خود نگر ہونا لازم ہے۔ نظری یا ”فلسفیانہ“ ہونے کا یہی مطلب ہے۔ دوسری وجہ زیادہ اہم ہے کہ قرنِ اول کے تدوینی دور میں روایت کے مختلف شعبوں میں اصول سازی کی ضرورت پیش آئی، جو ایک نظری سرگرمی ہے۔ اسی باعث اصول سازی فلسفیانہ طریقۂ کار سے جزوی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہے۔

مختصراً یہ کہ ہماری دینی روایت میں مختلف علوم جس اصول پر قائم ہوئے ہیں، وہ ہدایت سے متصادم نہیں، بلکہ اس کے ضمن میں ہیں۔ جدید علوم میں اول اصولوں کی حیثیت اصولِ محض کی ہے۔ مثلاً فزکس کا اصل اصول بگ بینگ ہے، حیاتیات میں نظریۂ ارتقا ہے، اور نفسیات میں لاشعور ہے اور ان سب کی حیثیت اصولِ محض (pure principle/theory) کی ہے، اور ان میں سے کوئی بھی rational نہیں ہے۔ ان کے ضمن میں جو بھی علوم تشکیل دیے گئے ہیں ان کی کل معنویت انہی اصولوں سے اخذ ہوتی ہے، مثلاً بگ بینگ کا اصول یہ فرض کرتا ہے کہ مادہ یا کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے۔ اب اس اصول پر قائم ہونے والا علم اور اس کے تحت واقع ہونے والی عقلی کارگزاری جو آخری نتیجہ اخذ کرتی ہے وہ بھی یہی ہوتا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی ہے۔ کسی شعبہ علم میں اصولِ اول قائم کرنا انسانی شعور کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ عقل کی فعلیت کے ضروری ہے۔  اصولِ محض کی حیثیت دراصل ایک وجودی اصول کی ہے اور عقل اس سے آگے سفر نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اصولِ اول ضروری نہیں کہ اصولِ محض ہو۔ اصول محض عقیدے سے مشابہ اور متوازی ہے، اور عقل کا گھر بھی ہے اور منزل بھی۔ جدید علوم میں کسی بنیادی علمی ڈسپلن کا تصور اصولِ محض کے بغیر ممکن نہیں۔ اصول سازی کا عمل انسان کی وجودی اور علمی آٹونومی کا مظہر ہے۔ دینی روایت میں بھی اصول سازی ایک ضروری امر ہے لیکن اس میں ضروری امتیازات صرف اسی صورت میں باقی رکھے جا سکتے ہیں جب ہمیں نظری علوم سے بھی کوئی مضبوط نسبت پیدا ہو چکی ہو۔

اہم بات یہ ہے کہ ہماری تہذیبی روایت میں فلسفہ اپنی پورائی میں حملہ آور ہو کر شکست کھا چکا ہے۔ یہ بات ایک تاریخی واقعہ کے طور پر ظاہر ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف ایک ہی ہے کہ اب دنیا میں ”مذہبی“ ہونے کا اسلامی کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں ہے کیونکہ فلسفہ اور اس کے متولد علوم براہ راست یا بالواسطہ باقی تہذیبوں کی غیرمادی اور مذہبی اساس کو ختم کر چکے ہیں۔  کیا ہم کسی کو یہ مطلب بتانے کی ضروری تیاری اور اس کے لیے مطلوبہ اعتماد رکھتے ہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہوا ہے کہ فلسفے نے وجود کے سوال سے دستبردار ہو کر اسلامی تہذیب کی اس strategic کامیابی کو غیر اہم بنا دیا، اور ایک tactical brilliance کو کام میں لاتے ہوئے اس کامیابی کے نشانات بھی مٹا دیے۔ وجودی سوالات سے دستبرداری کے بعد جدید علم کے  ”حق کی دریافت“ جیسے دعوے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ لیکن اس بنیادی تبدیلی سے فلسفہ اور جدید علم، فطرت کے ان وسائل تک رسائی پانے میں کامیاب ہو گئے جو طاقت اور سرمائے کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

نظری سرگرمی یا فلسفیانہ علوم آج کی دنیا کو سمجھنے اور اس میں راستہ بنانے کے لیے ایک ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کی دنیا میں اجتماعی زندگی کا ہر شعبہ نظام کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔ سیاسی، معاشی، تعلیمی، ابلاغیاتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے نظام وغیرہ  قائم ہونے کی وجہ سے علت و معلول کا بدیہی اور حسی سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اور چیزوں اور واقعات کی باہمی نسبتیں اب نظری ہو گئی ہیں۔ نظری علم اور نظام جڑواں ہیں۔ ہمارے ہاں نظری بحث کا خاتمہ ہو گیا ہے  اور نظام کا شوق بہت بڑھ گیا ہے، اور یہ شوق بہت خطرناک ہے۔ ”اسلامی نظام“ کا شوق بھی اوروں کی کوئی چیز ”دیکھ“ کر پیدا ہوا ہے، کسی نظری شعور کا ثمر نہیں ہے۔

سوال: اور تفسیر میں بیضاوی جو کہ عقلی علوم سے لبالب اور ماثور تفسیری انداز سے بالکل مبرا۔

جواب: یہ دلچسپ بات ہے۔ جدید اثرات کے تحت ہم ماثورات کو بعینہٖ قبول کرنے کی استعداد نہیں رکھتے کیونکہ دینی اعتماد باقی نہیں رہا، اور بچگانہ تشریحات سے ان کو جدید اصول و قضایا سے ”تطابق“ دینے کا جوش بہت ہے۔ دوسری طرف عقلی علوم سے کوئی نسبت تو دور کی بات ہے، ان کا خاتمہ بالخیر ہو گیا ہے، بلکہ ان کے خلاف ماثورات سے دلائل بھی لاتے ہیں۔ یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے علمی وغیرہ نہیں ہے۔

سوال:  اور تمام فنون کی کتب جیسے کہ پہلے عرض کیا تین تین چار چار حواشی سے مزین جیسے عقائد میں امام نجم الدین نسفی کی العقائد اس پر تفتازانی کی شرح، اس پر امام خیالی کا نفیس حاشیہ، اس پر ملا عبد الحکیم کا حاشیہ اس پر ہر پڑھانے والے کی اپنی تشریح۔ متن کا فہم کہاں، حاشیے ہی یاد ہوں گے۔

جواب: اس سوال پر ذرا غور فرمائیں تو فوراً اندازہ ہو جائے گا کہ یہ پھر وہی تدریس اور انتظام تدریس کا مسئلہ ہے۔ اسی سے متعلقہ ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ کتاب سازی، متن کی پیشکاری اور تدریس کا ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ اس سے تعلیمی انتظام میں بہت آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔

دیکھیں، مدرس کا کام سبق پڑھانا ہے، معلم کا کام تعلیم دینا ہے، اور عالم کا کام علم پروری ہے۔ مدرس ایک مضمون کے دو اسباق کی باہمی نسبتوں سے واقف ہوتا ہے، معلم دو الگ مضمونوں کی باہمی نسبتوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ اور عالم تمام مضامین کی باہمی نسبتوں کا عملی اور نظری سطح پر ادراک رکھتا ہے۔ اب ذرا مذہبی تعلیم کو اس سادہ اصول پر دیکھنے کی کوشش کریں۔

سوال: مزید یہ کہ ایک ہی فن کی کئی کتب کئی سال پڑھانے کے بعد اگر اسی فن کی کوئی منتہی کتاب دے دیں تو پریشانی، جیسے کافی عرصہ بلاغت میں مختصر المعانی پڑھانے والے کو شیخ عبد القاہر جرجانی کی دلائل الاعجاز دے دیں تو مسئلہ ہے کیونکہ اس کا کوئی حاشیہ اور شرح موجود نہیں۔ 

جواب: میں اس کا جواب اوپر عرض کر چکا ہوں۔ درس نظامی کا مقصد دینی تعلیم نہیں ہے، دینی علم ہے۔ یہ تو آپ نے بلاغت کی کتاب کا ذکر کیا۔ خاص دینی موضوعات پر اگر کوئی کتاب دے دی جائے تو اس کا حشر بھی یہی ہو گا۔

سوال: اب اس دور میں اگر وہی بقول بعض نری عقلی عیاشی کو سبق میں لے آئیں  تو اب جدید افکار کے ماحول میں ڈوبے ہوئے کو یہ طریقہ تعلیم و تدریس پلے بھی پڑے گا؟

جواب: مجھے معلوم نہیں کہ ”عقلی عیاشی“ سے کیا مراد ہے، کیونکہ یہاں تو کسی کو عقلی غربت بھی حاصل نہیں۔ مجھے تو عقلی عیاشی کرتا ہوا کوئی آدمی اس معاشرے میں کبھی نظر نہیں آیا۔

سوال: کیا جدید دور کے تقاضوں  اور جدیدیت سے متاثر ذہن کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام تعلیم، تدریس اور نصاب میں تبدیلی نہیں لانی چاہیے؟

جواب: اصولاً تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں جتنا کہ اس سوال میں ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے یہ سوال نہیں، جواب ہے۔ مثلاً ”جدید دور کے تقاضے بدل گئے ہیں، جدیدیت کے غلبے سے ذہن متاثر ہیں، یعنی دین سے دور ہو رہے ہیں۔ اس کا سبب نیا نظام تعلیم، جدید تدریس اور نئے نصابات ہیں۔ درس نظامی ان کے مطابق نہیں وغیرہ، وغیرہ“۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اب صرف بستہ باقی ہے، اسی کا بندوبست ہو رہا ہے۔ آپ جس نظام تعلیم، تدریس اور نصاب کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں وہ کہاں ہے اور کون سا ہے، اور اس کا بیان کیا ہے؟

تبدیلی ایک صورت حال سے دوسری صورت حال کی طرف ارادی پیشرفت کا نام ہے۔ اور اس پیشرفت کی سمت موجود اور مطلوب صورت حال کے مفصل نظری نقشے پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان تفصیلات اور ضروری ارادے کے بغیر عصری تقاضوں کا بلڈوزر سب کچھ ویسے ہی صاف کر دیتا ہے، اسے ہماری معاونت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

سوال: یہ ہے کہ درس نظامی میں اکثر بلکہ تقریباً تمام کتب متاخرین کی ہیں، متقدمین کی کوئی کتاب شامل نصاب نہیں۔ حالانکہ متقدمین کی کتب ان سے بہتر ہیں۔ علم و فضل ان کا مقدم، تہذیب اور صاحبِ شریعت کے دور سے زیادہ قربت، اس کے ساتھ علمی شعور، معنویت متاخرین کی بنسبت زیادہ اور اس کے ساتھ سادہ طرز بیان۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے مشکل نہیں کہ بغیر شروح و حواشی کے حل نہ ہوں۔

جواب: یہاں درس نظامی ایک نصاب کے طور پر زیر بحث ہے۔ متقدمین کے زہد و تقویٰ اور عظمتِ کردار سے کسے انکار ہے؟ متقدمین کے نمونے اور فضائل ہماری پیروی اور محبت کے لیے ہیں، نصابی کتب کے انتخاب کا معیار بالکل نہیں ہیں۔ متاخرین کی کتب نصاب میں شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پوری دینی اور علمی روایت تک رسائی کے وسائل فراہم ہو جائیں، اور تاریخی سفر میں جو فنی پہلو علمی روایت کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں، ان میں بھی ضروری تربیت ہو جائے۔ درس نظامی کا مقصد ہی متقدمین سے زندہ تعلق کو باقی رکھنا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ درس نظامی کی کتابیں متاخرین کی ہیں یا متقدمین کی، اس میں جس ضرورت کو سامنے رکھا گیا اور اس کے حصول کے جو ذرائع اختیار کیے گئے، وہ غیرمعمولی ہیں۔ ہر علمی روایت وقت کے ساتھ فطرتاً اور ضرورتاً ٹیکنیکل ہو جاتی ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں خوبی ہے۔ متقدمین اور متاخرین میں اس طرح کے غیرضروری موازنے زیادہ مفید نہیں ہوتے۔

سوال: یہ بات بھی کہ خود درس نظامی کے ساتھ ساتھ ہمارے پرانے نصاب میں ایک تو مشکل کتب، اس کے ساتھ انتہائی دقیق اور کئی جگہ تو بہت مختصر متون شامل کیے گئے۔ تو کیا نصاب میں آسان  مگر جامع کتب نہیں رکھی جا سکتیں؟ جس سے طلبا پر بوجھ بہت زیادہ نہ پڑے۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ انتہائی دقیق کتب لکھ کر ان کی آسانی کے لیے  کتب حواشی سے بھر دی گئیں اور مزید اس کے لیے شروحات لکھ دی گئیں۔ تو کیا ایسی ہی کتب کیوں نہ لکھ دی گئیں تو اگرچہ بہت زیادہ نہیں تو درمیانی حد تک آسان کتب نصاب کے لیے لکھ دی جاتیں۔ اگر طالب علم سے دقت مطلوب تھی تو اتنا شروح و حواشی کی بھر مار چہ معنی دارد؟

جواب: جدید تعلیم اور علوم میں رہتے ہوئے اگر مشکل اور آسان کی حیثیت معلوم ہو جائے تو یہ بحث بھی فیصل ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آسان، آسان کا جو شور ہے وہ کسی اخلاقی، دینی یا علمی ضرورت سے پیدا نہیں ہوا، بلکہ ہمارے ذہن کی شکست کا اظہار ہے۔ زیادہ سخت لیکن درست تر بات یہ ہے کہ ایسے مطالبات ہمارے ذہن کے خاتمے کا اظہار ہیں۔ تیسیر کے مطالبات اس لحاظ سے درست ہیں کہ جب ذہن ہی ختم ہو گیا تو ذہن سے متعلق چیزوں کا باقی رکھنا کیا ضرور ہے؟ اس مطالبے کی ایک اور وجہ تعلیم اور علم کے امتیازات کو ارادی طور پر نظرانداز کرنا اور ان کے وجود ہی سے انکار کرنا ہے۔ تہذیبی ذہن کی نمو میں پیچیدگی ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل ہوتی ہے۔

تیسیر کے مسئلے کو درست پوزیشن پر کھڑے ہو کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کی درست تفہیم نہ ہونے کی خرابی اس قدر ہے کہ اب جہالت کو مذہبی تقدیس حاصل ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کی بنیاد یہ قضیہ ہے کہ دین سادہ ہے۔ دین یقیناً سادہ اور آسان ہے۔ عقائد، احکام اور اقدار اپنے بیان میں بہت سادہ ہیں، فوراً معلوم ہو جاتے ہیں اور عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن امتداد وقت کے ساتھ ایک نئی اور ضروری چیز پیدا ہوئی جسے ”دینی علوم“ کہا جاتا ہے۔ اب بیان یہ ہو گا کہ دین یا دینی ہدایت سادہ ہے، لیکن ”دینی علوم“ پیچیدہ ہیں۔ دینی تعلیم کی بنیاد، طریقے اور مقصود، ہر مرحلے میں تیسیر اصول کے طور پر شامل ہو گی۔ لیکن ”دینی علوم“ سے تیسیر کا اصول لازماً خارج ہو گا، ورنہ ”دینی علوم“ کا قیام اور حصول ممکن نہیں۔  اصول کے بغیر علم کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اور اصول سازی ایک نظری سرگرمی ہے جو تیسیر کا سایہ پڑتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارا یہ موقف رہا ہے کہ  دینی تعلیم بھی ضروری ہے اور ”دینی علوم“ بھی ضروری ہیں، لیکن ان کے تشکیلی اصول باہم یکسر مختلف اور بعض اوقات متضاد ہیں۔

اس میں بحث طلب بات صرف یہ رہ گئی ہے کہ ”دینی علوم“ سے کیا مراد ہے اور کیا وہ ضروری ہیں؟ اس سوال کا حل ہونا اب اشد ضروری ہے۔ اس میں بنیادی قضیہ یہ ہے کہ علم کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں جو وحی اور فزکس، یا وحی اور عمرانیات، یا وحی اور اصول قانون کو بیک وقت شامل ہو۔ وحی لاریب ہے اور علم باریب ہے۔ جو آدمی اس بات کو نہیں سمجھتا، وہ یا تو نادان ہے، یا شیطان ہے۔ ہماری روایت میں منقول اور معقول کی تقسیم اسی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ چونکہ اب ہم اس تقسیم کے بنیادی قضایا کو سمجھنے کی استعداد سے محروم ہو چکے ہیں اس لیے تیسیری لغویات کا عروج ہو گیا ہے۔

ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ”دینی علوم“ نام کی کوئی شے نہیں جیسا کہ ہمارے ہاں یہ مفروضہ بہت عام اور قوی ہے۔ یہ فرض کر لینے کے بعد ہم کسی طور بھی یہ فرض نہیں کر سکتے کہ دنیا کے معاشروں میں بھی کسی قسم کے دیگر علوم موجود نہیں رہے۔ یہ مفروضہ ایک پاگل ہی کا ہو سکتا ہے کہ انسانی معاشرے علم سے خالی ہوتے ہیں۔ اب صرف ایک سوال باقی رہ گیا ہے کہ دینی عقائد، احکام اور اقدار ہیں اور ان کے چاروں طرف ہم عصر علوم ہیں، تو کیا صورت پیدا ہو گی؟ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ دینی عقائد، احکام اور اقدار  کا صفایا ہے، جیسا کہ اس وقت یہ صورت حال تیزی سے سامنے آ رہی ہے۔ اور تیسیر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ”دینی علوم“ کے حصول کا امکان ہی ختم کر دیا جائے۔

تیسیر کا مطلب ہے لفظ کو حسیات اور بدیہیات تک محدود کر دینا۔ جدید عہد میں تعلیم کا مقصد ہے لفظ کو حسیات تک محدود کر دینا، اور جدید علم کا واحد مقصود ہے لفظ کو تجرید کی نوآبادی بنا دینا۔ تیسیر جدیدیت کا وہ اصلاحی ہرکارہ ہے جو اب ہمارے منبر و محراب تک آ پہنچا ہے۔ تیسیری فتوحات کے بعد دینی عمل کو کچھ دیر برقرار رکھا جا سکتا ہے، لیکن دینی ذہن کی تشکیل ناممکن ہے۔ اور دینی ذہن کے خاتمے کے ساتھ دینی عمل کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ انسانی ذہن کا فطری اسلوب کار اور عقلی فعلیت تجریدی (abstract) ہے۔ مغیبات کو تجریدات کا محیط بنا دینا دینی علم کا بڑا مسئلہ ہے، اور صرف اسلامی تہذیب ہی اس سے نبردآزما ہو سکی ہے۔ عقیدے کی شرائط پر تجریدات اور مغیبات کا باہمی تعامل انسانی ذہن کی اعلیٰ ترین فعلیت ہے، جہاں تیسیری ”ذہن“ کا گزر نہیں ہو سکتا۔

یہاں ضمناً ایک ضروری بات کا موقع پیدا ہو گیا ہے۔ معاشرے میں مظاہرِ خیر اور مظاہرِ علم، صرف مظاہر ہی ہیں، یعنی خیر عمل کی اوڑھنی ہے اور علم ذہن کی چادر ہے۔ خیر اور علم دونوں حق اور باطل سے نسبت پیدا کرنے کا یکساں میلان رکھتے ہیں، یعنی خیر اور علم میں حق اور باطل کی بجاآوری کی استعداد یکساں ہے۔ خیر اور علم کے حتمی تعینات حق اور باطل کے تناظر میں طے ہوتے ہیں، فی نفسہٖ ان میں رہتے ہوئے ممکن نہیں ہوتے۔ دینی علوم سے انکار اصلاً باطل ہی کی طرفداری کا موقف ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں باطل سے نسبت رکھنے والے علوم کا غلبہ ہو چکا ہو، دینی تعلیم کی سرگرمی محض خام خیالی ہے۔

سوال: آخر درس نظامی ہی کی کیا ایسی خصوصیت ہے کہ زیادہ سے زیادہ عراق و عجم تک پر اس سے آگے جزیرة العرب کے ساتھ ساتھ مراکش کی القرویین کا، مراکش کے دوسرے علاقوں کے مدارس کا اور تیونس میں زیتونہ کا نصاب مختلف تھا۔ اگر وہاں علمائے ربانیین پیدا ہوئے اسی نصاب سے تو ہم برصغیر میں درس نظامی کی کیا تخصیص؟

جواب: یہ کون کہہ رہا ہے کہ ”علمائے ربانیین پیدا“ کرنے کے لیے درس نظامی ہی ضروری ہے؟  لیکن سوال یہ ہے کہ آیا درس نظامی ”علمائے ربانیین پیدا“ کرنے میں رکاوٹ ہے؟ اور کیا ”علمائے ربانیین“ صرف نصاب کی جمع تفریق سے پیدا ہوتے ہیں؟ ہمارے ہاں نصاب کی بحث پر زور صرف اس لیے ہے کہ نظری ادراک کا خاتمہ ہو گیا ہے، اور صرف حسی اور تیسیری ادراک باقی رہ گیا ہے۔ تسیری ادراک میں درس نظامی کا صرف بستہ ہی نظر آ سکتا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں آ سکتا کہ یہ ہے کس لیے؟ علمائے ربانین کی اگر کوئی فہرست بنائی جائے تو ان کے اذہان کے حاصلات کا گوشوارہ بھی ساتھ لف ہونا چاہیے۔ ان علمائے ربانین کی تعقلاتی پہنائی، عرفانی علویت اور استدلالی کاٹ کو دیکھ لینا بھی مفید ہو سکتا ہے۔

سوال: کیا نصاب اور نظام تعلیم کسی معاشرے یا قوم کے ذہن کی عکاسی، نمائندگی کرتا ہے؟ اور قوم کے ذہن نصاب کی نوعیت سے تبدیل ہوتے ہیں؟ کیا نظام تعلیم بدلتا رہتا ہے؟ اگر نظام نہیں بدلتا تو کیا نصاب ہی تبدیل ہوتا ہے؟ اگر نظام یا نصاب اس وجہ سے بدلتا رہا ہو کہ وقت کے مطابق کچھ نہ کچھ تبدیلی آنی چاہیے تو درس نظامی بھی اس تسلسل کا حصہ تو ضرور بن سکتا ہے؟ 

جواب: یہ بھی عمومی سوالات ہیں، اور اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کروں گا کہ وقت کے ساتھ انسان کی بہت سی ضروریات اور ان کو پورا کرنے کے اسالیب تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔ یعنی تبدیلی مستقبل کی کوکھ سے برآمد ہوتی ہے۔ اس میں کافر و مسلم کی کوئی تفریق نہیں؛ دونوں کے مشاہدے اور تجربے میں ہے۔ لیکن وقت اور تبدیلی کے بارے میں ہمارے اور جدیدیت کے تصورات میں بہت فرق ہے۔ ہم اس تبدیلی میں کچھ ایسی چیزوں کو مستقل رکھنا چاہتے ہیں جن کا تعلق ماضی سے ہے۔ اور جدیدیت کچھ ایسی چیزوں کو مستقل رکھنا چاہتی ہے جن کا تعلق مستقبل سے ہے۔ ہمارا آئیڈیل ماضی میں ہے اور جدیدیت کا مستقبل میں۔ اس لیے تبدیلی کی کوئی بات علی الاطلاق نہیں ہو سکتی، کیونکہ تبدیلی کا طریقۂ کار، سمت اور مقاصد ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔

جدیدیت جس مستقبل پر یقین رکھتی ہے وہ زمانی نہیں ہے، بلکہ یوٹوپیائی اور فرجامی ہے۔ جدیدیت کی تقویم میں ماضی کوئی مستقل چیز نہیں ہے، اور انسان کی عصری ضرورت اور ارادے کے تابع ہے۔ ہمارا ماضی کا تصور جدیدیت کے تصورات سے قطعی مختلف بلکہ قطعی متضاد ہے۔ جدیدیت میں ماضی، مستقبل سے کہیں زیادہ ”بدلتا“ ہے۔ کیا ہم یہ پوزیشن لے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے نزدیک مسلمان ہونے کی معنویت اور غایت تبدیل کی جا سکتی ہے؟ جدیدیت میں ماضی کسی حق کا محتویٰ نہیں ہے، اپنے اندر کوئی قدر نہیں رکھتا، اپنے اندر کوئی اتھارٹی نہیں رکھتا، اپنے اندر کوئی نمونہ نہیں رکھتا۔ ماضی کی زیادہ سے زیادہ یہ حیثیت ضرور ہے کہ اس کی ”کھدائی“ اور ”ادھڑائی“ کر کے اس کے ملبے سے ایسی چیزیں نکالی جائیں جو علم جدید کا استدلالی ایندھن بن سکیں۔ تو کیا ہم یہ پوزیشن لے سکتے ہیں؟ ہمارے لیے ماضی اس سے بالکل مختلف ہے، اور یہی ادراک درسِ نظامی کی تشکیل میں کارفرما تھا، اور وہ ادراک ہے ماضی پر ہم عصر دنیا کو اثرانداز نہ ہونے دینا۔

آپ نے نظام کی بات کی جو ہمارے خیال میں بہت اہم ہے۔  جدید نظام کی تشکیل اصولِ تنظیم پر ہوتی ہے، اور ٹیکنالوجی ہر نظام کا جزو لاینفک ہے۔ اصول/تھیوری اور نظام کی بحث توام ہے۔ اور یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ اصول اور نظام دونوں تاریخی اور انسان کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں، اور دونوں کچھ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ مقاصد کی تبدیلی سے اصول اور نظام دونوں بدل جاتے ہیں، اور جدید معاشروں میں اصول اور نظریے کی ادھڑائی بنائی روز ہوتی ہے۔ اصولِ تنظیم طاقت اور سرمائے کا اصول ہے، کوئی اخلاقی یا مذہبی یا روحانی چیز نہیں ہے۔ ہماری خوش فہمی کے برعکس، نظام ہاتھ میں پکڑ کر یا آنکھوں سے دیکھنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ذہن سے ”دکھائی“ دیتا ہے۔  آج کی دنیا میں طاقت اور سرمائے کا حصول تنظیم اور نظام کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور نظام کا مقصدِ قیام بھی مقداری اہداف کا حصول ہوتا ہے۔ تعلیم میں بھی نظام کچھ مقداری اہداف ہی کو حاصل کر پاتا ہے، جبکہ ہمارے اہداف صرف مقداری نہیں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نظام کی بحث سے پہلے کوئی نظری تناظر بہم کیا جائے۔

سوال: کیا مدارس میں جدید سکول کی تعلیم کا انتظام مناسب ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر اب بہت سے دینی مدارس ایسا کر رہے ہیں تو نتیجتاً کیا ہو سکتا ہے؟

جواب: میرا خیال ہے کہ یہ سوال اہم ہے۔ درس نظامی پر تمام گفتگو چونکہ سیاسی اور فرقہ ورانہ تناظر میں ہوتی ہے، اس لیے تعلیمی تناظر بالکل غائب ہے۔  ایسے اہم سوالات اسی باعث زیر بحث نہیں آ پاتے۔ درس نظامی کو ”مذہبی تعلیم“ کہنا بھی کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔ اس کی حیثیت humanities کے اعلی اور معیاری نصاب سے بہت مشابہ ہے، اور یہی وہ اعتراض تھا جس کی وجہ سے بنیادی مذہبی متون کو اس میں متعارف کرایا گیا۔ درس نظامی اصلاً دینی علوم تک رسائی کا  نصاب ہے۔

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، درس نظامی کی تجہیز اور تکفین تو ہو چکی ہے۔ اب اس کی تدفین جدید تعلیم کے وسیع و عریض نظام کی گود میں ہونے لگی ہے۔ جدید تعلیم کی گود توسیعی مزاج ہے، اور اب مدارس بھی اس میں گرا چاہتے ہیں۔ اس گود میں درس نظامی سسکتی میت کے طور پر اور جدید تعلیم کی فتح کی ٹرافی کے طور پر آئندہ نسلوں کے فخر ومباہات کا ذریعہ رہے گا۔ اس عظیم کامیابی پر میکالے کی روح کے احوال کیا ہوں گے، یہ تو کوئی صاحب کشف ہی بتا سکتا ہے۔ درس نظامی کے وارث اس کا گلا گھونٹ کر اگر اپنے گھر آنگن ہی میں دفن کر دیتے تو زیادہ عزت کی بات تھی۔ جدید تعلیم کا اونٹ بدو کے خیمے میں داخل ہو چکا ہے۔ اور اب درس نظامی کی فکر چھوڑ کر بدو کو اپنی ہی فکر کرنی چاہیے۔

سوال: نصاب اور نظام میں کیا فرق ہے اور کیا فرق رکھنا چاہیے؟ اصل میں پچھلی کئی دہائیوں سے جب تعلیم پر بات ہوتی ہے تو نصاب کی تبدیلی کی طرف تگ و دو ہوتی ہے اور اس کی گواہ ہمارے درمیان لکھی گئی کتب ہیں، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ نصاب کی بات ہی دراصل نظام کی بات ہے۔

جواب: یہ پھر عمومی لیکن اہم سوالات ہیں، اور ان کو فی الوقت مؤخر کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عرض ہے کہ نظام اور سسٹم وغیرہ کی بحث کو یہاں چھیڑنا مفید نہیں ہو گا، اور موضوع بدل جائے گا۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ  نظری علوم اور سسٹم کی بحث توام ہے، اور ایک کے بغیر دوسرے کو زیر بحث لانا کچھ مفید نہیں۔ جیسے ہمارے ہاں ایمان اور عمل صالحہ کا تناظر ہے، یہ تناظر بھی اس سے مشابہ ہے۔ مزید یہ کہ جدید سسٹم اور اعمال صالحہ کی بحث نوعاً ایک ہے، اور ہمارے خیال میں ازحد اہمیت کی حامل ہے۔

میرا مشورہ یہ ہے کہ گھبرائے بغیر اس طرح کے سوالات کے ساتھ تادیر دوستانہ رہنا سیکھیں۔ ابھی سوالات کو منکشف ہونے دیں۔ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ سوال کیا ہوتا ہے۔ کچھ سوالات انسانی شعور کی ضرورتوں کے عکاس ہوتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ وہ پیاسا ہے کہ سرشار؟ کچھ سوالات ذہن کی حرکت اور اس کی سمتِ حرکت سے پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ سوالات شرارت، نفرت، تعصب اور ایجنڈے کا غلاف ہوتے ہیں۔ ایک بات یادر رکھنے کی ہے کہ دنیا میں جواب سب سے زیادہ رسوا ہوتے ہیں، سچا سوال ہمیشہ سرخرو رہتا ہے کیونکہ وہ خالص نیت کا جڑواں ہے۔ سچے سوال کے دیکھنے کو کائنات بھی ٹھہر جاتی ہے۔ پھر یہ کہ سوال صرف ذہنی نہیں ہوتے، اور اگر وہ انسان کی اصلِ وجود سے پھوٹ نکلیں تو کاسۂِ کلام کے محتاج نہیں رہتے۔ یہ عین وہ لمحہ ہے جب خالق کائنات بھی متوجہ ہو جاتا ہے۔ سوال ناقص رہ جائیں تو جواب بھی ادھورے اور بیکار ہوتے ہیں۔ ہم تاریخ کی اندھیری رات میں بے نسب جوابوں کے نرغے میں آئے ہوئے تہذیبی پناہ گزیں ہیں۔ سوال کی نمو کے وقت سب سے بڑا خطرہ نفسی شب خون کا ہوتا ہے۔ اگر یہ کامیاب ہو جائے تو انسان شعور کی آٹونومی سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ سوالات انسانی شعور کی آٹونومی کا پہلا زینہ ہے، جیسے مکارم الاخلاق انسان کی اخلاقی آٹونومی کا مظہر ہے۔ انسان رہنا اسی پیہم جدوجہد کا نام ہے۔

سوال: کیا جیسے متقدمین کے ہاں تمام علوم کے  حلقے لگا کرتے تھے اور کسی کتاب کو چھوڑ کر استاد کی تقریر کو ضبط کر لیا جاتا جسے امالی کہا جاتا اور کتب کی بجائے فنون کی تعلیم ہوتی زیادہ سود مند نہیں؟ کیا جب مستقل طور پر مدارس کی عمارت بنائی گئی جیسے مدرسہ نظامیہ نیشاپور و بغداد تو علما نے اسے برا جانا کہ اب علم کے لیے سیاحت اور سفر کی صعوبتیں اور مجاہدے اور علمی اسفار بہت کم بلکہ ختم ہونے کی حد تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم استاد کو چھوڑ کر آہستہ آہستہ ادارہ کے فضلا کہلانے لگے۔ پر اس کے نتائج بھی خوبصورت ہی نکلے۔ تو اب اگر مدارس کو ایک جدت دے دی جائے تو کیا نامناسب ہے؟

جواب: اس سوال میں جو بنیادی insight ہے میں اس سے متفق ہوں۔ اصل میں استاد اور شاگرد کا تہذیبی تعلق ہی ہمارا پورا نصاب تھا۔ استاد کی نارسائی سے کتاب کا سہارا لینا پڑا۔ ”کتاب یاد ہونے“ اور کسی علم پر دسترس ہونے میں مکمل فرق ہے۔ تعلیمی خرابی کی تمام ذمہ داری صرف نصاب پر یا استاد پر نہیں ڈالی جا سکتی، اور تعلیمی عمل کے دیگر پہلوؤں کا تجزیہ بھی درکار ہے۔ مزید یہ کہ تعلیم میں معاشرتی اور ریاستی ذمہ داری پر گفتگو لازمی طور پر شامل ہونی چاہیے۔

سوال: کیا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ  جدید مفید علوم حاصل کریں جو اس دور میں بہت ضروری  ہیں، پر اثرات سے بچنے کے لیے ان جدید علوم کا اپنا نصاب مرتب کر لیں؟

جواب: میں نے کوشش کی ہے کہ جدید تعلیم یا جدید علوم پر اشد اور پس منظری ضرورت کے علاوہ کوئی بات نہ کروں، تاکہ توجہ ایک ہی موضوع پر مرکوز رہے۔ بہت اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ سائنس کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ زمان و مکاں کے فریم ورک میں رہتے ہوئے شے (object) کو اس کی ساخت اور میکانکس کے تمام پہلوؤں میں مکمل طور پر define کر دینا۔ جدید سائنس نے شے کو اس کے تمام مظاہر میں مکمل طور پر define کر دیا ہے۔ جدید علم، جدید انسان کے جبڑوں اور پنجوں کی طرح ہے جس سے وہ شے کے ”چھتے“ سے چمٹا ہوا ہے۔ اس ”چھتے“ سے وہ سرمائے اور طاقت کا ”شہد“ برآمد کرتا ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر، جدید تعلیم شے (object) سے بچے کی ذہنی اور نفسی نسبتوں کو ابتدائی سطح پر مکمل کر دینے کا نام ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جدید عہد میں سرمائے اور طاقت تک رسائی کا واحد ذریعہ جدید تعلیم ہے کیونکہ جدید سرمایہ اور طاقت دنیا کی منتہائی تجلیل ہے۔ اچھے برے کی بحث میں پڑے بغیر سوال یہ ہے کہ کیا یہ دین کا مقصود ہو سکتا ہے؟ آج کی دنیا میں سرمایہ اور طاقت شرائط بقا ہیں، لیکن دین کا مقصود نہیں ہیں۔ جدید تعلیم اور درس نظامی کی غایات میں ۱۸۰ درجے کا فرق ہے۔ دین، دینی علوم اور دینی مرادات کی کوئی چھوٹی سی پگڈنڈی بھی جدید تعلیم سے ہو کر نہیں گزرتی۔ ہم تو کوئی پرانی چیز بھی سنبھال نہیں سکے، جدید نصاب مرتب کرنے کی صلاحیت کہاں سے لائیں گے؟ نقالی ہم بہت کرتے ہیں، لیکن وہ بھی اتنی پست ہوتی ہے کہ خدا پناہ!

دوسرا اہم تر سوال یہ ہے کہ “مفید” سے کیا مراد ہے؟ درس نظامی کی بحث میں یہ سب سے زیادہ مسئلہ انگیز لفظ ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آج کے دور میں فزکس انسانوں کی ضروریات کو کہیں زیادہ پورا کرتی ہے۔ قرآن شریف کی ٹیوشن پانچ سو روپے ماہانہ اور فزکس دس ہزار ماہانہ ہے۔ یہ تو معاشی فائدے کی بات ہوئی، جو بدیہی ہے۔ سماجی اور اخلاقی فائدے کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ فزکس پڑھانے والے سے وقت لینا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ تعلیمی ضرورت اور کلچر میں وہ معاشرے کے لیے زیادہ ”مفید“ لہذا مصروف ہے۔ تاریخ اور معاشرے نے مذہبی تعلیم یافتہ کو ایک stereotype بنا کر غیر اہم کر دیا ہے، جبکہ جدید ٹیچر عین اسی معاشرے اور تاریخ کے طاقتور مؤثرات میں سے ایک ہے۔ ہمارے لیے ”مفید“ ہونا حق و باطل کے تناظر میں کوئی معنی رکھتا ہے، جو اولاً شعوری اور ذہنی ہے۔ مذہبی تعلیم یافتہ تاریخی اور معاشرتی قوتوں کا شکار ہے اور ”ذہن“ فی نفسہٖ کے خلاف ایک گہرا رد عمل رکھتا ہے۔ ایسی صورت حال میں مفید کا معنی معلوم ہونا اور اس کو طے کرنا ضروری ہے تاکہ صحیح مرادات تک پہنچا جا سکے۔

سوال: کیا اس وقت امت کو جس نصاب و نظام کی ضرورت ہے وہ جدید اور قدیم کا امتزاج کہلائے؟

جواب: مجھے تو ابھی امتزاج کا مفہوم معلوم نہیں ہو سکا، اور جب تک میں اپنی کم علمی کا علاج نہیں کر لیتا اس کا جواب بھی نہیں دے سکتا۔ اتنا ڈر ضرور ہے کہ کہیں یہ کوئی ”حسین امتزاج“ ہی نہ ہو جو سرکس میں بہت نظر آتا ہے۔

سوال: آخر اس وقت کون سے اور کیسے نظام کی ضرورت ہے؟ اس نظام کے عناصر کیا ہوں گے؟

جواب: اگر درسِ نظامی کو تعلیم کے فکری تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے، اور اس میں حکمتِ نظری اور حکمتِ عملی دونوں کو پیش نظر رکھا جائے تو ایسے نظام کی ضرورت اور اس کے خدو خال ازخود واضح ہو جائیں گے۔

سوال: کیا جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کسی حد تک کامیاب ہوئی؟ ان کا نظام کیسا تھا؟

جواب: یہ ایک short-lived لیکن زبردست کوشش تھی اور اپنے تمام بنیادی اہداف میں کامیاب رہی۔ میری ناقص رائے میں ہمارے عہد زوال اور دور غلامی کا یہ واحد ادارہ ہے جس نے بہت وقیع کام کیا ہے، اور اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں اہم ترین اردو کا ذریعہ تعلیم ہونا ہے، یعنی سائنس اور دیگر تمام علوم میں ذریعہ تعلیم اردو ہی تھی۔ اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ کارنامہ ”زبان کا مسئلہ“ حل ہونے کے بعد ممکن ہوا۔

سوال: اب ہمیں اپنا تعلیمی نظام نئے اور جدید طرز میں قدیم کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کرنا ہے یا قدیم کو اسی انداز میں پیش کرنا ہے یا ہجرت الی الخیر القرون کی ضرورت  ہے۔ ہماری تاریخ میں انداز تعلیم متنوع قسم کے رہے، آخر ندوہ اور جامعہ ملیہ، مدرسہ الہیات کانپور  نے کون سا کام نہیں کیا جو ہمیں کرنا چاہیے؟ دیوبند ایک اہم وقت کا ایک اہم تقاضا ضرور تھا ہمیشہ تھامنے کے لیے نہیں تھا۔ اب ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ ان تینوں کے ذریعے جس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی اس کمی کو پورا کرنے کی مکمل یقین دہانی دے۔ مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا میرا خیال نہیں ہمیں دیوبند کے نظام کو چھوڑنے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے  کہ مدارس کی تاسیس کے جو دو مقاصد ہو سکتے ہیں کہ علوم دینیہ کا احیا اور بقا اور دوسرا اسلام کا تہذیبی رنگ  وہ ذمہ داری تو اس نے پوری کی۔ اور مزید یہ کہ  اس وقت مذہب کو بچانے کی جو جیسی کیسی معیار کی کھیپ نکل رہی ہے پھر بھی اپنے اخلاص کے اعتبار سے  نابغہ روزگار ہیں۔

جواب: میرا خیال ہے کہ تعلیم پر اس انداز ہی پر گفتگو ہوتی آئی ہے، اور اس کا جو فائدہ ہوا وہ معلوم ہے۔ ایک ضروری بات یہاں عرض کرنا چاہوں گا کہ استعمار نے ایک نئی چیز متعارف کرائی تھی جو پہلے ہمارے معاشروں میں نہیں تھی، اور جسے Public Instruction (تعلیم عامہ) کہا جاتا ہے، یعنی ہندوستانی معاشرے میں ”تعلیم“ تو تھی، ”تعلیم عامہ“ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہمارے ہاں تعلیم پر جو گفتگو ہوتی آئی ہے اس میں آپ نے اس کا ذکر بھی کبھی نہ سنا ہو گا کہ کس بلا کا نام ہے۔ اس کا سادہ مطلب ہے تعلیم کو جدید ریاست کی سیاسی اور معاشی ترجیحات کے تابع اور سپرد کر دینا۔ یہ موضوع بہت تفصیل کا تقاضا کرتا ہے جو یہاں ممکن نہیں۔ دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے فوراً بعد ایک مدرسے ہی کو دہلی عربی کالج یا قدیم دہلی کالج بنایا گیا تھا۔ یہی معاملہ ہندوؤں کے اداروں کے ساتھ بھی پیش آیا۔ استعماری قبضے کے بعد ان اداروں میں جو مسائل سامنے آنا شروع ہوئے، وہ بنیادی طور پر ”تعلیم“ اور ”تعلیم عامہ“ کی باہم آویزش سے پیدا ہوئے تھے۔ چند دہائیوں بعد لارڈ میکالے نے اپنے منٹ سے عین انہی مسائل کو ”حل“ کیا تھا۔ لارڈ میکالے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ریاست پیسہ دے گی، تو تعلیم مکمل طور پر ریاست کی ترجیحات پر طے ہو گی، یہانتک کہ علم کا معنی، تعلیمی طریقۂ کار اور اس کے مشمولات، اور تعلیم کے مقاصد بھی ریاست ہی طے کرے گی۔ لارڈ میکالے کے مطابق جو علم کوڑی کا بھی نہیں اس کو ان ”اداروں“ میں کیوں جگہ دی جائے، اور ریاست اپنے معاشی وسائل ان پر کیوں خرچ کرے؟ اپنی تعلیمی پالیسی کو جواز دینے کے لیے استعماری ریاست کے اس نمائندے نے مقامی علوم کی تحقیر، تنقیص اور تذلیل سے ان کو delegitmize کر دیا، یعنی ان علوم کا تعین یا رد کسی علمی طریقۂ کار پر مبنی نہیں تھا بلکہ ایک استعماری فرمان تھا۔ میکالے کی بنیادی دلیل معاشی اور سائنسی تھی۔ اس کی یہ دلیل مقامی لوگوں نے بہ جبر و اکراہ تسلیم کر لی، اور آج تک اسی پر کاربند ہیں۔ لیکن وہ ابھی تک اس کی معنویت کو نہیں سمجھ سکے۔ میکالے کی معاشی اور سائنسی دلیل آج کل ”عصری تقاضوں“ کے نقاب میں ظاہر ہوتی ہے۔  ہم تو نہ جانے کب کے گھگھیائے ہوئے ہیں، اس لیے کرتے وہی کچھ ہیں جو میکالے چاہتا تھا کہ ہم کریں۔

ماضی میں تعلیم کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں اور امرا و رؤسا کی ذمہ داری صرف معاشی تھی۔ اس کے علاوہ وہ تعلیمی عمل میں کسی بھی سطح پر کوئی دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔

میکالے کے بعد تعلیم عامہ کے اثرات ہمارے مذہبی مدارس پر بھی بہت گہرے مرتب ہوئے، اور ان کا طریقۂ کار بھی تعلیم عامہ کے ماڈل پر بتدریج ڈھلنے لگا اور جس میں سیاست بازی اور فرقہ پرستی جزو لاینفک کے طور پر شامل رہی۔ میکالے نے ہمارے علوم کو کئی اور دلائل سے بھی رد کیا۔ ہم نے اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے علوم کو عملاً ناکارہ اور ردی ثابت کرنے میں بھرپور تعاون کیا ہے۔

میں سیاست کو ضروری سمجھتا ہوں، لیکن تعلیم کو سیاست اور فرقہ ورانہ سیاست کا ایندھن بنانا درست خیال نہیں کرتا۔ آپ نے اوپر جو ماڈل پیش کیے ہیں، مجھے تو ان کی افادیت سے انکار نہیں لیکن اب تو تجربے سے بھی پتہ چل گیا کہ وہ ہمارے مسئلے کا حل نہیں۔ درس نظامی، دینی تعلیم اور روایتی علوم کے تلازمات جاننے کے لیے فرنگی محل زیادہ بہتر مثال ہے، جہاں بیسیوں صدی تک ہماری علمی روایت کے کئی اجزا اپنی اصلی حالت میں باقی رہے۔

یہاں ڈرتے ڈرے ایک اہم سوال ضرور اٹھانا چاہوں گا۔ یہ بات متفق علیہ ہے کہ سرسید کی تعلیم ہماری دینی اور تہذیبی روایت میں انقطاع عظیم کی نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن سنہ ۱۸۵۷ء کے بعد کیا ہمارے مدارس اور ان کی تعلیم کسی دینی اور تہذیبی روایت کا تسلسل ہے؟  اپنے مشمولات میں اس تعلیم کا سرسید کی تعلیم سے مختلف ہونا تو بدیہی ہے۔ لیکن میری رائے میں تہذیبی روایت کے انقطاع میں دونوں مماثل اور مساوی ہیں۔ اس انقطاع کی نوعیت میں فرق ہے۔  درس نظامی کا کسی بھی productive حالت میں زندہ نہ رہنا اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ درس نظامی رد و بدل کے بعد تبرک کے طور پر مدارس میں رائج ہوا تھا، اور چونکہ اب یہ تبرک سنبھالنا بھی مشکل ہے، اس لیے ”عصری تقاضوں“ کے والہانہ استقبال کی تیاریاں مکمل ہیں۔

آپ نے جن اداروں کا ذکر کیا، ان کی تاسیس، نمو اور ارتقا کو علمی روایت اور تعلیمی تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو بہت دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔  ہماری تعلیمی زبوں حالی اور علمی نسل کشی (genocide) سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی اگر ہم نصف اٹھارھویں صدی کے بعد کے حالات کو نظرانداز کر دیں۔ جنگ آزادی کے بعد جو کچھ سامنے آیا وہ تو محض ثمرات تھے، اور اب وہ بھی اپنے امکانات پورے کر چکے ہیں۔

اس دراز نفسی کا مقصد صرف ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا ہے کہ درس نظامی کا نصاب ہمارے دینی علوم اور طویل تہذیبی روایت کے تسلسل کا نمائندہ تھا، جبکہ سنہ ۱۸۵۷ء کے بعد ہماری مذہبی تعلیم اور مذہبی علوم انقطاع عظیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مابعد جنگِ آزادی ہمارے مذہبی علوم میں کارفرما تصور علم اس سے قطعی مختلف ہے جس پر ہماری طویل علمی روایت کی نمو ہوئی ہے۔ اس طرح جنگ آزادی کے بعد ہمارے مذہبی علوم میں اور درس نظامی میں ایک بہت ہی گہری عدم مطابقت موجود رہی ہے۔ یعنی مابعد جنگ آزادی ہمارے مذہبی علوم اور درس نظامی کا ایک ساتھ موجود رہنا تقریباً ناممکن تھا۔ اور موجودہ صورت حال اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ اہل علم واقف ہیں کہ وہ ٹیکنیکل اور علمی وسائل جو درس نظامی سے فراہم ہوتے ہیں وہ مابعد جنگ آزادی ہمارے مذہبی علوم کی پیداوار اور تشکیل میں کہیں کارفرما نظر نہیں آتے، کیونکہ یہ علوم ایک نئی منہج اور تصور علم سے پیدا ہوئے جو درس نظامی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ ناچیز کی رائے میں درس نظامی کے فراہم کردہ علمی اور فنی وسائل طریقۂ کار کی معمولی تبدیلی کے ساتھ عصر حاضر کے علوم سے روبروئی کی بھی مکمل استعداد رکھتے تھے، جبکہ مابعد جنگ آزادی پیدا ہونے والے علوم اس استعداد سے پیدائشی طور پر خالی تھے۔

سوال: یہ چند نکات پر مشتمل ایک فہرست ہے جس میں اشارتاً بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نصاب کیسا ہونا چاہیے۔ یہ اسلاف کی کتب سے اکٹھا کیا گیا مواد ہے۔

١۔ نصاب میں ایسی کتب داخل کی جائیں کہ ان کے مصنفین و مولفین علم و عمل کے اعتبار سے مسلم ہوں، تقوی کے اعتبار سے شہرت رکھتے ہوں۔

٢۔ کتابیں مختصر ہوں پر جامع ہوں جس سے ٹھوس استعداد بنے۔

٣۔ نہ ہی سہل و سلیس کتب رکھی جائیں کہ طلبا خود ہی مطالعہ سے حل کر سکیں اور استاد کی مدد ہی درکار نہ رہے۔

٤۔ جدید فلسفہ اور سائنس اور تاریخ وغیرہ کی کتب داخل نصاب کی جائیں تو شرط یہ ہے کہ اس کی تعلیم دین کی تعلیم کے تابع ہو۔ اور اگر جدید، کافر فلاسفہ کی کتب ہوں تو تنقیدی انداز میں پڑھایا جائے جیسے پہلے فلاسفہ کی کتب میں شروح و حواشی کے انداز کا طریقہ رہا ہے، اور ایسی اشیا پڑھانے والے بھی اسلامی رنگ میں رنگے ہوں۔ 

جواب: اگر درس نظامی کی بہتری کے لیے ایسی ہی تجویزیں آتی رہیں، تو آخر میں نصاب الف بے پے اور ایک دو تین رہ جائے گا کیونکہ بچوں کو ابتدا میں حروف تہجی اور اعداد کا سیکھنا بھی  بہت مشکل ہوتا ہے۔ آسانی اسی میں ہے ایک متفقہ فیصلے سے تعلیم کو کھیل کود اور علم کو جرم قرار دے دیا جائےاور تعلیمِ شے کو مقصود حیات بنا لیا جائے۔ شے کے ”علم“ میں سہولت یہ ہے کہ لفظ کے بغیر بھی حاصل ہو جاتا ہے، اور ان پڑھ مستری تو آپ نے دیکھے ہی ہوں گے جو اپنے کام میں منتہی ہوتے ہیں۔ مستری ”عصری ضرورت“ کو سب سے بہتر پورا کرتا ہے۔ اور اگر وہ نہ ہو تو پورا ”عصر“ ہی ٹھپ ہو جائے۔ شے کی تعلیم اور ”علم“ میں دل بھی بہت لگتا ہے، آدمی مصروف بھی رہتا ہے اور روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ ہم یہ کیا نصاب وغیرہ کی بحثوں میں الجھ گئے ہیں؟ کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو مذہب، مذہبی تعلیم اور دینی علوم کو ”عصری ضرورت“ سمجھتا ہو گا۔ یہ تو مسلمانوں کی مستقل ضروریات کا مسئلہ ہے اور ان کو پورا کرنے کے لیے ہم نے پست ترین نمونوں کا انتخاب کیا ہے۔ نصاب اور تعلیم کے بارے میں ایسی باتیں کرنے سے بہتر ہے آدمی کوئی وظیفہ کر لے یا خاموش رہے کیونکہ دونوں ثواب کے کام ہیں۔

ایک دفعہ ایک مہتمم سے ملاقات ہوئی، اور ناچیز نے جدیدیت اور جدید تعلیم کے بارے میں کچھ گزارش کرنے کی کوشش کی تو معاملہ انتہائی سنگین ہو گیا اور جو الزامات مجھے سننے پڑے، ان میں ایک یہ تھا کہ آپ جدیدیت کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ مدارس دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند نہ ہو سکیں، اور خود جدید اداروں میں کام کر کے اچھی تنخواہیں لیتے رہیں۔ آپ کو خوف ہے کہ وہ بھی جدید ہو کر اچھی تنخواہیں لینے لگیں گے اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اب کوئی کیا بات کرے؟ تعلیم اور تنخواہ کے ”حسین امتزاج“ سے یہی کچھ برآمد ہوتا ہے۔

سوال: کیا یہ جو وفاق بنا کر اپنے مسالک کے مدارس کو جوڑ دیا گیا ہے اور ان تمام وفاقوں کو بھی آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا کیا فائدہ ہے اور آپ کو اس میں کوئی نقصان بھی نظر آتا ہے۔ امتحانی نظام کسی بھی نظام تعلیم میں کیا حثیت رکھتا ہے اور اس کے فوائد اور ممکنہ نقصان ہیں؟ ہمارے ایک محترم جو کہ ایک صاحب علم آدمی ہیں فرماتے ہیں کہ وفاق کا بننا ایک طرح سے ہماری تہذیبی شکست ہے۔ کیا یہ بات درست ہے معلوم ہوتی ہے آپ کو؟

جواب: آپ کے محترم نے جو کہا سچ کہا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ہاں تعلیم تو تھی، تعلیم عامہ نہیں تھی۔ ہماری شکست کے بعد جو کچھ بچ رہا، ہم نے اسے استعماری تعلیم عامہ کے ماڈل پر ڈھالنے کی بہت بھونڈی کوشش کی اور اس میں ایک بات کا سختی سے خیال رکھا کہ اہلیت، ذہانت اور محنت کا گزر بھی اس میں نہ ہو۔ اس کی جگہ ہم نے خالی تقدیس، لایعنی تجلیل اور مسموم فرقہ واریت کو اعلی مقاصد کے طور پر متعارف کرایا۔ ہم نے جو کیا، اس کے نتائج پا لیے۔ اب بھی اگر وہی کچھ کرنا ہے تو نتائج مختلف کیسے ہوں گے؟

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں