Home » غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات ومعاملات اور فقہ اسلامی۔1
اسلامی فکری روایت سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون کلام

غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات ومعاملات اور فقہ اسلامی۔1

 

ہندوستان جیسے ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں،غیر مسلموں کےساتھ تعلقات ومعاملات کا مسئلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اورضرورت ہے کہ اس پرفقہ الاقلیات کی روشنی میں غور کرنےاور اس تعلق سے پیداہونے والی پیچیدگیوں کے تدارک کی کوشش کی جائے۔ ملک کے موجودہ ماحول کے پیش نظر اسکی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
اس تعلق سے غوروخوض کاسب سےاہم پہلویہ ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ تعلق وتعامل کا رائج فقہی پیراڈائم’’ ذمہ’’( غیر مسلموں کا ذمی/اسلامی ریاست کا شہری ہونا) کا تصور ہے ۔فقہ اسلامی کے ذخیرے میں اس کی مفصل تعلیمات اپنی تمام ترجزئیات کے ساتھ موجود ہیں کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ تعلق وتعامل کی کیا حدود ہونی چاہئیں؟لیکن موجودہ دور میں اب اس تصور کی معنویت مسلم ممالک میں بھی باقی نہیں رہی۔ اب وہاں بھی انہیں برابر کا شہری ہونے کا حق حاصل ہے۔ ایسے میں ہندوستان اور دوسرے خصوصا مغربی ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں اسی فقہی فریم ورک کے تحت غیر مسلموں کے ساتھ تعلق وتعامل کی حدود طے کرنے اور فتاوی عالمگیری اور فتاوی تاتارخانیہ کے مسائل کو آج کے حالات میں منطبق کرنے کی کوشش کی جائے، یہ بات کسی بھی اصولی زاویے سے معقول نہیں لگتی۔ غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت، ان کے تہواروں پرمبارک باد، تحفے تحائف کا لین دین، ان کی تعزیت یا جنازے میں شرکت وغیرہ ایسے امور ہیں جو ایک مخلوط اور مشترکہ سماج کی اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں۔ان سے کنارہ کشی اور تحفظ کی روش چند درچند غلط فہمیوں پرمنتج ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہورہی ہے۔
مثال کے طور پرپچھلی چنددہائیوں کے درمیان مختلف اداروں اور حلقوں سے شائع ہونے والی فتاوی کی کتابوں کے متعلقہ ابواب یا اس موضوع پرلکھی جانے والی کتابوں کے صفحات پرنگاہ ڈالی جائے ،یہ حقیقت کھل کرسامنے آجائے گی۔
ان کودیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کم وبیش ان تمام مسائل کوجن کاتعلق غیرمسلموں کے ساتھ تعلق وتعامل سے ہے،اسی مذکورہ فریم ورک میں طے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن سے ایک طرف غیر مسلم اذہان میں ہم وطن مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمی کا پیداہونا اور دوسری طرف یہاں آباد مسلمانوں کا اس حوالے سے تنگی وپریشانی میں مبتلا ہونا ناگزیر ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ موالات(دوستی) کا مسئلہ:
غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے ذیل میں سب سے اہم موالات کی بحث ہے۔قرآن میں مختلف مقامات پر شدت کے ساتھ کفارومشرکین اور یہود ونصاری سے موالات یادوستی کی ممانعت کی گئی ہے۔سب سے پہلے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 27میںاس کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے:’’مؤمنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اوردوست ہر گز نہ بنائیں ۔جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ اس آیت کی تشریح میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) لکھتے ہیں:
’’کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:موالات یعنی دوستی،مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی اور مواسات یعنی احسان و نفع رسانی‘‘(بیان القرآن، جلد،۱ص، 217 حضرت تھانوی کے مطابق:’’موالات تو کسی حال میں جائز نہیں …اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے۔ایک دفع ضرر کے واسطے ۔دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے ۔تیسرے اکرام ضیف(مہمان) کے لیے‘‘۔ مفتی محمد شفیع (رح) نے معارف القرآن میں اسی تشریح کو اختیار کیا ہے۔البتہ غیر مسلمین کے ساتھ تعلقات کا ایک چوتھا درجہ ’’معاملات’’ کا انہوں نے اضافہ کیا ہے،جوان کے بقول’’ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے بجزایسی حالت کے کہ ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔مفتی محمد شفیع رح نے موالات کی تعبیر’’ قلبی اور دلی دوستی ومحبت ‘‘سے کی ہے۔(ج،1ص،134 )
مولانا تھانوی رح اور مولانا شفیع رح نے جس موقف کا اظہار کیا ہے،اکثر علما(وہ جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتے ہوں) کا موقف یہی بلکہ اس سے سخت تر رہا ہے۔(مثلا دیکھیے: المحجۃ المؤتمنۃ: مولانا احمد رضا خاں رح)۔
لیکن اس پربہت سے سوالات پید اہوتے ہیں۔جن کو عموما یہ یا اس قبیل کی دوسری آیات کی تشریح میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔پہلا بنیادی سوال تو یہی ہے کہ موالات کا صحیح مفہوم کیا ہے؟دوسرے یہ کہ موالات کے حکم کا تعلق عام حالات سے ہے یا مخصوص اور متعین حالات سے۔دوسرے الفاظ میں متعلقہ آیات میں زمان و مکان کے فرق کے بغیر تمام غیر مسلموںکے ساتھ مسلمانوںکے تعلقات کی عمومی نوعیت کو اصولی سطح پر زیر بحث لایا گیا ہے یا ان میں صرف ایک استثنائی نوعیت کابیان ہے۔مفسرین اورفقہا کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ یہ عمومی نوعیت کا بیان ہے۔ اس کا اطلاق زمان و مکان کے فرق کے بغیر تمام غیرمسلموں پرہوتا ہے۔مسلمانوں کو ان کو اپنا دوست بنانے اور ان کے ساتھ دلی تعلق قائم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ: ان الانسان لا یستقیم لہ اسلام ولو وحد اللہ وترک الشرک، الا بعداوۃ المشرکین و التصریح لہم با لعداوۃ و البغض ۔’’مسلمانوں کا ایمان صحیح ہوہی نہیں سکتا خواہ وہ موحد ہو اور شرک کو ترک کرنے والا ہو ،جب تک کہ وہ مشرکین کے ساتھ عداوت نہ رکھے۔اور ان کے تئیں بغض و عداوت کا اظہار نہ کرے‘‘۔( مجموعۃ التوحید لشیخ الاسلام احمد ابن تیمیۃ وشیخ الاسلام ابن عبد الوہاب،ص،۳۲)
یہاں سیاق کی مناسبت سے مشرکین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ورنہ یہ حکم تمام غیرمسلموں کے لیے عام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موالات کی یہ تشریح، جس کے مطابق غیرمسلموں کے ساتھ دلی دوستی جائز نہیں ہے،(اس موقف کے مطالعے کے لیے اس سلسلے کی دوسری قسط ملاحظہ فرمائیں) انسانی عقل اور فطرت دونوں سے معارض محسوس ہوتی ہے۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ،مثال کے طور پر،اسلام میں اہل کتا ب کی عورتوں سے نکاح کی مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے۔جس پر صحابہ کے وقت سے لے کر آج تک عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔انسان فطری طور پر مجبور ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم بیوی یا ماں سے ’’قلبی دوستی اور دلی محبت’’ کا تعلق قائم کرے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت میں اسلام ایک مسلمان کو اس سے روکتا ہے کہ وہ اپنی غیر مسلم بیوی یا ماں سے دلی محبت قائم کرے؟کیا ایسی صورت میں خوشگوار ازدواجی اور عائلی زندگی کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ مزید براں غیر مسلموں کے ساتھ تعلق وتعامل میں ان کے ساتھ ’’ صرف ظاہری خوش خلقی‘‘ (مدارات) کوروا رکھنا انسانی اخلاقیات کی رو سے کس حدتک درست رویہ ہے؟ اسلام اگر ایک فطری دین ہے تووہ فطرت انسانی کے خلاف کیوں کر جاسکتا ہے؟کیسے یہ ممکن ہے کہ انسان اپنی ماں اور بیوی کےتئیں دلی محبت کوکچل ڈالے ۔
اس معاملے میں زیادہ معقول اور اسلامی اسپرٹ کے مطابق وہ موقف ہے جسے ،مثال کے طور پر، علامہ یوسف قرضاوی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے اختیار کیا ہے۔
یوسف قرضاوی نے لکھا ہے کہ:ان الموادۃ التی نہت عنہا الآیات لیست ہی موادۃ ای مخالف فی الدین انما ہی موادۃ من آذی المسلمین وعاداہم وحاربہم وبلغۃ القرآن :حاد اللہ ورسولہ ۔
’’ وہ ایسے شخص سے دوستی کرنانہیں ہے جس کادین مختلف ہو ،بلکہ ایسے شخص سے دوستی کرنا ہے جومسلمانوں کو ستائے،ان کے ساتھ دشمنی کرے اور قرآن کے الفاظ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہو‘‘( یوسف قرضاوی :من فقہ الدولۃ،ص،196)
یہی موقف مولانا امین احسن اصلاحی نے’’تدبر قرآن‘‘ میں اختیار کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:’’کفار کو دوست اور حلیف بنانا اسی حالت میں ممنوع ہے جب یہ مسلمانوں کے بالمقابل ہو۔اگریہ صورت نہ ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے‘‘۔( تدبر قرآن 2/412) ۔آل عمران کی آیت 28 کی تشریح میں لکھتے ہیں:’’ فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کو اپنا ولی بنائیں لیکن اسی کے ساتھ’’ من دون المؤمنین‘‘ کی قید ہے۔یعنی کافروں کے ساتھ صرف اس قسم کی موالات ناجائز ہے جو مسلمانوں کے بالمقابل اور ان کے مفاد اور مصالح کے خلاف ہو‘‘۔(ص،67)
(جاری)

ڈاکٹر وارث مظہری

وارث مظہری ہمدرد یونی ورسٹی دہلی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دیتے ہیں اور دار العلوم دیوبند کے فضلا کی تنظیم کی طرف سے شائع ہونے والے مجلے ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔
w.mazhari@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں