Iconoclasm کا اصل مطلب ہے تصویر کُشی اور خاص طور پر ان تصویروں کو پامال کرنا جو کسی خاص شخصیت یا تصور سے منسلک ہوں۔ مثلاً فراعنہ کے پیروکاروں میں سے کچھ ایسے تھے جنھوں نے کچھ فرعونوں کے بتوں کو تنفر سے توڑا۔ قرون وسطی میں مسیحی مذہب میں بھی مسیحی مقدسین کی تعظیم اور عبادت اور انھیں گرجا گھروں میں آویزاں کرنے کے خلاف اسی طرح کی ایک تحریک اٹھی تھی۔ اسی نسبت سے یہ لفظ عقائد اور تصورات کو توڑنے اور مختلف سماجی تصورات اور مذہبی عقائد کے خلاف کی جانے والی تضحیک کے لیے استعمال ہونے لگا۔
ہمارے ارد گرد سوشل میڈیا کمیونٹی میں متشکک (Agnostic) ملحد(Atheists) اور بت شکن (Iconoclast) لوگ موجود ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ بہت پڑھے لکھے، ذہین اور مطالعہ کے شوقین ہوتے ہیں۔ میں اگر اپنی طالبات کو کسی ادنیٰ درجے میں بھی مختلف طریقے سے پڑھا پا رہی ہوں تو اس کی ایک وجہ ایسی کمیونٹی کے ساتھ انٹریکشن، اور ان سے بہت کچھ براہ راست ہا بالواسطہ سیکھنا بھی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ روابط رکھنے کے ساتھ ساتھ میں Iconoclasm, Agnosticism اور Atheism کی بنیادوں اور ان کے مختلف رویوں اور ان کے طرز ہائے استدلال کے بارے میں بہتر طور پر سوچنے اور سمجھنے کی بھی کوشش کرتی رہتی ہوں۔
آج میں صرف Iconoclasm کے رویہ پر بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں بہت سارے لوگوں کو دیکھتی ہوں جو مذہب کو غلط کہتے ہیں، ہمیشہ دلیل کی بنیاد پر بات کو آگے رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی دوسروں کو بات کرنے کا، کسی بھی چیز کو درست سمجھنے کا حق دیتے ہیں۔ اتفاق نہ کرنے کی صورت میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، لیکن Iconoclasts اور خاص طور پر وہ جو کسی درجے میں میڈیا سے منسلک ہوں، وہ مذہبی تصورات کی توڑ پھوڑ کو ایسے ہی اپنی تحریک کا مقصد بنائے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کسی بھی مذہبی پارٹی یا گروہ کے لوگ مذہبی سیاست اور تصورات کے پرچار کو۔ اگر ان کی پوسٹس کا تقابل کیا جائے تو مذہبی اور آئیکونوکلاسٹ، دونوں ہی ایک جیسے رویہ رکھتے ہیں۔ فرق صرف سمت کا ہوتا ہے۔ اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو Iconoclasm ایک جدید مذہب لگتا ہے جس کا عقیدہ دوسرے عقائد کی پامالی ہے۔
ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو ہر نئی فکر پچھلے افکار کے لئے Iconoclast ہی کا درجہ رکھتی ہے: توحید شرک کے لیے، جمہوریت شہنشاہیت کے لیے وغیرہ وغیرہ۔ انسانیت کا سفر اسی طرح چل رہا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے کچھ تصورات وضع کرتا ہے، ان کے بل پر آگے جاتا ہے، نئی جگہ، نیا زمانہ دریافت کرتا ہے، نئے تصورات بناتا ہے اور ان کے بل پر آگے جانے کے لیے پچھلے تصورات کی عمارت گرا دیتا ہے۔ یہی اس کی ترقی کا راز اور یہی اس کی کامیابیوں کا نسخہ کیمیا ہے۔ اس نئے دور میں یہی طریقہ استعمال کر کے آدم کی اولاد اب مذہب ہی کی نفی کر رہی ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ جیسے پرانی بوسیدہ عمارتوں، یا سفر کو مشکل بنانے والی راستے کی چٹانوں کو بارود اور بلڈوزر کے ذریعے منہدم کیا جاتا ہے، اسی طرح تعفن زدہ سماجی تصورات، غیر متوازن مذہبی عصبیت اور میلانات کو معاشرے میں غیر مؤثر بنانے میں Iconoclasts وہی کردار ادا کرتے ہیں جو مادی دنیا میں بارود اور بلڈوزر کرتے ہیں۔
تاہم دلائل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے مذہبی سوچ کو توڑنے اور ختم کرنے کی کوشش بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس صورتحال میں جب دلیل تو قابل غور ہو، لیکن طریقہ کار میں وہی درشتی اور تضحیک ہو جیسے کچھ مذہبی گروہوں کے طریقے میں ہوتی ہے تو ہم جیسے درمیان کے لوگوں کے لیے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ وہ کیا کریں؟ کیا کسی ایک ہی جانب جھکنا لازم ہے یا کوئی تیسری راہ بھی ہے؟
اس سارے معاملے میں یہ سمجھنا بھی میرے خیال میں ضروری ہے کہ ایمان باللہ و بالآخرۃ اور وہ عمل جو انسان کو انسانیت کا خیرخواہ بنائے رکھے، وہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیونکہ یہ تعلیم دین بھی دیتا ہے اور کسی نہ کسی طور انسان اپنے باطن میں بھی اس کی پہچان رکھتا ہے، اس لیے اس دینی پیغام کو موجودہ تناظر میں کیسے سمجھا جائے؟ اگر یہ پیغام اور اس پر ایمان ان مذہبی عقائد اور رسومات کو بنیاد یا ڈھانچہ فراہم کرنے کا کردار ادا کرتا ہے تو Iconoclasm کے حملے میں یہ بھی تباہ ہو گا اور کوئی نیا تصور پروان چڑھے گا۔ لیکن غور کیا جائے تو معاملہ اس سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔
خدا و آخرت پر ایمان، انسانیت کے ساتھ خیر کا تعلق اور فلاح انسان کا داعیہ، تصوراتِ انسانی کے لیے زمین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس زمین پر کھڑے رہ کر انسان نے ہمیشہ نئے طرز ہائے زندگی وضع کیے ہیں۔ قدیم ترین انسانی تاریخ سے خالق پر ایمان کے شواہد اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ انسان ان بنیادی عقائد اور داعیہ سے کبھی محروم نہیں رہا۔ انھی عقائد کو ساتھ لے کر وہ شکاری سے زمیندار بنا، زمینداری سے صنعت کاری کی طرف گیا اور اب اس جدید دنیا میں نت نئے کارنامے سرانجام دینے میں مگن ہے۔ اس پورے سفر میں اس سے بھول چوک بھی ہوئی ہے۔ وہ بے راہ رو بھی ہوا ہے، ظالم اور غاصب بھی بنا ہے، مگر انھی بنیادی عقائد اور فلاح کے داعیے نے اسے دوبارہ کھڑا ہونے کی جگہ بھی مہیا کی ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے اسی زمین سے وسائل مہیا ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ الحاد اور مذہب سے انکار کے اس دور میں یہی زمین انسان کو دوبارہ کھڑے ہونے کے قابل بنا دے گی اور ان غیر ضروری مذہبی بندشوں سے اسے نجات دے دے گی جس کی انسانیت کو اس دور میں نہ ضرورت ہے نہ انسانیت کے لیے اس میں خیر ہے۔
اس تناظر میں Iconoclasm ایک مفید کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ تاہم اس کے تند و تیز اور بعض معاملات میں شائستگی سے مفقود طرزِ بیان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کا نظریہ کچھ بھی ہو، اسے دوسروں کو مشتعل کرنے والا نہیں ہونا چاہیے اور نہ خود اشتعال میں بہہ کر برا کرنے والا بننا چاہیے۔ اگر تعلیم یافتہ، آزاد خیال طبقہ بھی وہی طریقۂ کار اختیار کرے گا جیسا کہ مذہبی متشدد گروہ کرتا ہے تو دونوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتاہے۔
کمنت کیجے