موضوع و مباحث کی پیچیدگی کی مناسبت سے یہ تحریر علم کلام کے طلباء کے لئے ہے۔
1) متکلمین پر شیخ کا اعتراض یہ ہے کہ ید و نزول و استوی وغیرہ جیسی صفات خبریہ کے بارے میں متکلمین کا یہ کہنا کہ ان کے حقیقی معنی چونکہ معلوم نہیں لہذا ہم معنی کے علم کو اللہ کی طرح تفویض کرکے خاموشی اختیار کرلیں گے، یہ گویا ان صفات کے علم کو مجہول قرار دے کر صفات باری کے بارے میں تجھیل و تعطیل کا رویہ اختیار کرنا ہے جو درست طرز عمل نہیں۔ اس کا دوسرا حل بعض متکلمین یہ بیان کرتے ہیں کہ ان الفاظ کے مجازی معنی مراد لئے جائیں، لیکن یہ معتزلہ و فلاسفہ کا سا رویہ ہے جس میں نص کے حقیقی معنی کو ترک کرکے مجاز کی طرف جاتے ہیں اور خود اشاعرہ و ماتریدیہ اسے برا کہتے ہیں لیکن صفات خبریہ کے معاملے میں خود ہی اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
2) خود شیخ اس کا یہ حل تجویز کرتے ہیں کہ ان صفات خبریہ کے بارے میں یہ مانا جائے کہ ان کے معنی ہمیں معلوم ہیں البتہ کیفیت وغیرہ معلوم نہیں۔ یعنی ان میں تفویض “معنی ” کی نہیں کرنی بلکہ صرف “کیفیت ” کی کرنی ہے تاکہ صفات باری کے باب میں تجھیل و تعطیل سے بچا جائے، ان الفاظ کے معنی کا اقرار کیا جائے گا کیونکہ وہ ہمیں معلوم ہیں اور ان الفاظ کے معنی وہی ہیں جو عربی لغت میں معروف ہیں۔ اس کے برعکس متکلمین معنی ہی کو غیر معلوم قرار دیتے ہوئے تفویض کا رویہ اختیار ہیں۔ یہ وہ بات ہے جسے شیخ ابن تیمیہ کی رائے کے حامی متکلمین کے مقدمے کے مقابلے میں ان کے موقف کی تردید اور “زیادہ معقول” بھی کہتے ہیں۔
3) ہم یہاں “زیادہ معقولیت کے پیمانے” کی بحث میں نہیں پڑتے اور نہ اس میں کہ شیخ جو فرمارہے ہیں اس میں کہاں اور کیسے الجھاؤ ہے نیز یہ کہ شیخ اور متکلمین کے دلائل کیا ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ شیخ نے اس پر جو انداز بحث اختیار کیا ہے وہ صرف ایک لفظی نزاع کو جنم دیتا ہے، اگرچہ اس پر کتنی ہی طویل کتاب لکھ لی جائے۔
4) اختلاف کی جڑ متکلمین اور شیخ کا نظریہ زبان (لینگویج) ہے۔ متکلمین الفاظ کے معنی کو حقیقت و مجاز کی عمودی تقسیم میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک حقیقی معنی متعذر نہ ہوں یا کوئی قوی قرینہ موجود نہ ہو، الفاظ کے حقیقی معنی ہی مراد لئے جائیں گے، بصورت دیگر مجازی معنی کی طرف جائیں گے۔ اس اعتبار سے متکلمین مثلا لفظ ید کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا حقیقی معنی “جسم کا جزو” ہونا ہے، یعنی اس کے حقیقی معنی میں جزئیت اور جسمیت کا مفہوم شامل ہے۔ البتہ اس کے سوا بھی اس کے کئی معنی ہیں جیسے قدرت، اختیار، عطا کرنا یا ید سے متعلق دیگر فنکشنز وغیرہ۔ حقیقی معنی کے ساتھ یہ مجازی معنی مل کر لفظ کے معنی و مفہوم کو پھیلا دیتے ہیں۔
5) متکلمین کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کے لئے جزئیت و جسمیت ماننا جائز نہیں لہذا اس لفظ ید کے حقیقی معنی مرادنہیں لئے جاسکتے۔ اب اس لفظ (یا صفات خبریہ) سے متعلق دو ہی امکان ہیں:
الف) یا یہ کہا جائے کہ حقیقی معنی کے لحاظ سے “تفویض معنی ” کا رویہ اختیار کرلیا جائے
ب) یا پھر کیفیت کی مجہولیت کے ساتھ مجازی معنی میں سے کوئی معنی مراد سمجھا جائے۔ حقیقی کے بجائے مجازی معنی اختیار کرنے کو وہ تاویل کہتے ہیں۔ متکلمین کے اس انداز بحث کو منسلک شدہ صورت کے دائیں طرف دکھایا گیا ہے جس کی رو سے لفظ ید کے معنی دو الگ خانوں میں منقسم ہیں: حقیقت و مجاز۔
6) شیخ ابن تیمیہ کا نظریہ زبان مختلف ہے۔ آپ کے نزدیک الفاظ کے سب معنی حقیقی معنی ہیں اور کون سے معنی کب مراد لینا ہیں اس کا تعین کلام کے سیاق و اشارات وغیرہ سے ہوتا ہے۔ اس تقسیم کی رو سے حقیقی و مجازی معنی میں ترجیحی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیونکہ یہاں سب معنی افقی (horizontal) طور پر مساوی درجے پر ہیں اور کسی ایک کے ابتداء مراد لئے جانے کی کوئی ڈیفالٹ ترجیحی بنیاد موجود نہیں جیسا کہ متکلمین الفاظ کے معنی کو حقیقت و مجاز کی عمودی (vertical) ترتیب میں رکھتے ہوئے ایک معنی کو بائے ڈیفالٹ ترجیحی معنی کہتے ہیں اور دیگر کو ان کے بعد لاتے ہیں۔
7) اب شیخ کا طریقہ بحث یہ ہے کہ وہ لفظ ید (یا نزول و استوی وغیرہ) کے سب معانی کو حقیقی کہتے ہیں اور سیاق و ذات باری کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ کے پھیلے ہوئے تمام امکانی معنی میں سے کسی ایک کو اختیار کرلیتے ہیں اور اسے وہ اس لفظ کے حقیقی معنی ہی کہتے ہیں، چاہے وہ معنی جسمیت و جزئیت والے معنی سے الگ ہی ہو۔ گویا متکلمین جس معنی کو مجازی کہتے ہیں، شیخ کے نظریہ زبان میں وہ بھی حقیقی ہوتا ہے اور دراصل شیخ متکلمین کی تقسیم کی رو سے عین مجازی معنی مراد لے کر “حقیقی معنی معلوم اور کیفیت مجہول” کا موقف پیدا کرتے ہیں۔ اس صورت حال کو اس شکل کے بائیں جانب دکھایا گیا ہے۔ شیخ کے حامی علماء ید کے معنی پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال دیتے ہیں کہ ید کا مطلب صرف انسانی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک وسیع تصور ہے جس کی رو سے ہر شے کا ہاتھ اس کی شان کے لائق ہوتا ہے، جیسے دروازے کا ید اس کا ھینڈل ہے۔ پس ید کا معنی ہر وجود کے لئے ثابت ہے، ہاں اللہ کے لئے اس کی شان کے لائق ہے ۔ البتہ اللہ کے لئے اس کے وہ معنی قطعا ًمراد نہیں جس میں جزئیت و جسمیت شامل ہے۔ یوں گویا ان علماء کے نزدیک نہ تجہیل معنوی لازم آئی اور نہ ہی تاویل تاہم یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ متکلمین اسے ہی مجازی معنی مراد لینا کہتے ہیں۔
8) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر شیخ کے اس حل میں ایسا کیا ہے جسے “زیادہ معقول” کہا جائے؟ متکلمین کے لفظ مجازی کو حقیقی کہہ دینے کے سواء اس میں نئی بات کیا ہے؟ چنانچہ یہ کوئی جوھری اختلاف نہیں ہے بلکہ نظریہ زبان میں اختلاف کی بنا پر چیزوں کو تقسیم کرنے کے لئے بنائے گئے ذھنی ڈبوں کا اختلاف ہے۔ اس کاوش کو یقیناً “مختلف” تو کہا جاسکتا ہے لیکن اسے متکلمین کے موقف کی تردید ، نص کی بہتر تعبیر نیز “زیادہ معقول” وغیرہ قرار کہنا ناقابل فہم ہے کیونکہ اپنی معنویت کے اعتبار سے دونوں مواقف میں اصولی فرق نہیں۔
اسلام و علیکم،
کیا یہ درست نہیں کے شیخ ابن تیمیہ کا صفت نزول کے متعلق یہ مؤقف ہے کے اللہ کا نزول حقیقی نزول ہے لیکن وہ ان لوازم کی نفی کرتے ہیں جو کسی حادث کے نزول میں ضروری سمجھیں جائیں گے، یہاں پر عقل انسانی اس نوع کے نزول کو سمجھنے سے مکمل طور پر عاری ہے کیونکہ نزول کی جو تعریف ایک انسان جانتا ہے وہ نزول صرف اور صرف حوادث کی حد تک محدود ہے