بیسویں صدی کے عرب مؤلفین کی کتب سے اصول فقہ اور فقہ کی تعریفات اخذ کرکے، اور اصول فقہ اور فقہ کے متعلق بنیادی مفروضات ذہن نشین کرکے ، پھر متاخرین کی اصولِ فقہ پر لکھی گئی کتب پڑھنے کے نتیجے میں، اگر حنفی مذہب کے اصولِ فقہ اور فقہ کے متعلق تصورات میں خط ملط واقع ہو، تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔( ویسے ان عرب مؤلفین کے مغالطے درصل مستشرقین کے کام سے متاثر ہونے کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔) اس لیے حنفی مذہب کے اصول فقہ اور فقہ کے سنجیدہ طلبہ سے ہمیشہ میری یہ گزارش ہوتی ہے کہ اصولِ فقہ پر پانچویں صدی ہجری تک، اور فقہ پر چھٹی صدی ہجری تک، لکھی جانے والی کتب پر فوکس کریں اور پھر ان کی روشنی میں بعد کی کتب پڑھیں، تو نہ صرف اصول اور فقہ کا صحیح ذوق حاصل ہوگا، بلکہ متاخرین کے کام سے فائدہ اٹھانے کا صحیح منہج بھی سمجھ میں آجائے گا اور بیسویں صدی کے عرب مؤلفین کے پھیلائے ہوئے مغالطوں سے بھی بچ جائیں گے۔
مثلا آپ قواعدِ فقہیہ پر بیسویں یا اکیسویں صدی عیسوی میں لکھی گئی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، بالعموم آپ کو یہ بحث ملے گی کہ کیا شرعی احکام کے استنباط کےلیے قواعدِ فقہیہ کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟ یا کیا قواعدِ فقہیہ سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ یہ سوال پیدا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اگر قواعدِ فقہیہ سے فقہی حکم کا استنباط ممکن نہ ہو، تو پھر ان قواعد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ قواعدِ فقہیہ پر ضخیم کتب لکھنے والے اصحابِ علم بھی یہ کمزور سا موقف اپنا کر جان چھڑالیتے ہیں کہ یہ قواعد “تعلیمی” یا “تدریسی” نقطۂ نظر سے مفید ہوتے ہیں؟ معاصر اہلِ علم کے کام کو تو ایک طرف رکھیے ، اگر متاخرین، بلکہ دورِ متوسط کے اہلِ علم کی کتب بھی دیکھ لیں، تو ایک عجیب قسم کا معذرت خواہانہ انداز نظر آتا ہے۔ مثلا ابن نجیم حنفی کی الاشباہ والنظائر کو جلال الدین سیوطی شافعی کی الاشباہ والنظائر کے ساتھ ملا کر دیکھ لیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امام جوینی و امام غزالی کے بعد کے شافعی فقہاے کرام کے ہاں آپ کو قواعدِ فقہیہ کے ساتھ بہت زیادہ دلچسپی نظر آئے گی لیکن چونکہ قواعدِ فقہیہ ان کے اصولی نظام میں فٹ نہیں بیٹھتے، اس لیےوہ ایسی بحثوں میں الجھ جاتے ہیں جن کے نتیجے میں استنباطِ احکام میں ان قواعد کی حیثیت بہت کمزور ہوجاتی ہے۔ اس کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قواعدِ فقہیہ کو “دلائلِ تفصیلیہ” نہیں کہا جاسکتا جبکہ ان متاخرین کے نزدیک تو فقہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ شرعی احکام کا وہ علم ہے جو دلائل تفصیلیہ سے حاصل ہوتا ہے! (ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ قاعدہ فقہیہ تبھی کوئی حقیقی وزن رکھتا ہے جب آپ عام کی قطعیت کے قائل ہوں، جبکہ شافعی نظام میں عام ظنی ہوتا ہے۔ اس پہلو پر الگ سے گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ۔)
اس مضمون میں ہم دکھائیں گے کہ فقہ کی تعریف میں دلائلِ تفصیلیہ کی قید لگانے سے قواعدِ فقہیہ کیسے غیر متعلق اور غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس بحث میں جانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ متاخرین کی کتب سے پیدا ہونے والی ایک اور غلط فہمی پر بھی کچھ بات کی جائے۔ یہ غلط فہمی کچھ یوں ہے کہ امام رازی اور دیگر شافعی اصولیین نے اصول فقہ کی تعریف میں دلائلِ اجمالیہ کا ذکر کیا ہے۔ اس سے بعض معاصر اہلِ علم نے یہ فرض کرلیا کہ چونکہ قواعدِ فقہیہ بھی اجمالی دلائل ہیں، اس لیے گویا شافعی اصولیین تصریح کررہے ہیں کہ قواعدِ فقہیہ ان کے اصولِ فقہ میں شامل ہیں۔ یہ غلط غلط فہمی دراصل “اصولِ فقہ” اور “علمِ اصولِ فقہ” میں فرق کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے پہلے اس پر بات ضروری ہے۔
اصولِ فقہ اور علمِ اصولِ فقہ میں فرق
جب حنفی اصولی امام شاشی (م344ھ) فرماتے ہیں کہ:
إِن أصُول الْفِقْه أَرْبَعَة: كتاب الله تَعَالَى، وَسنة رَسُوله، وَإِجْمَاع الْأمة، وَالْقِيَاس (اصول فقہ چار ہیں: اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس کے رسول کی سنت، امت کا اجماع اور قیاس)؛
تو ادنی تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں اصولِ فقہ کی ترکیب اس مفہوم میں استعمال کررہے ہیں، جس مفہوم میں اردو میں “اسلامی قانون کے مآخذ”، یا انگریزی میں Sources of Islamic Law کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ تقریبا اسی مفہوم میں عربی میں أدلة کا لفظ رائج ہے۔ تو گویا شاشی اسلامی قانون کے چار مآخذ (أدلة أربعة): قرآن، سنت، اجماع اور قیاس؛ کو اصولِ فقہ کہہ رہے ہیں۔ (ابھی اس سوال کو نظرانداز کردیں کہ قول الصحابی، استحسان اور ایسے ہی دیگر مآخذ کا ذکر شاشی نے یہاں کیوں نہیں کیا؟)
شاشی کی اس تعریف کے برعکس جب ہم شافعی اصولی قاضی بیضاوی (م685ھ) کی تعریف دیکھتے ہیں، تو وہ کچھ اور کہتی نظر آتی ہے:
أصول الفقه معرفة دلائل الفقه إجمالًا، وكيفية الاستفادة منها، وحال المستفيد (اصولِ فقہ سے مراد فقہ کے اجمالی دلائل ، ان سے استنباط کی کیفیت اور استنباط کرنے والے (مجتہد) کا حال جاننا ہے۔)
یہاں “اجمالی دلائل” سے ہمارے بعض معاصرین اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ شافعی فقہاے کرام صرف تفصیلی دلائل سے ہی نہیں بلکہ اجمالی دلائل سے بھی فقہ مستنبط کرتے ہیں اور اس وجہ سے قواعدِ فقہیہ ان کے نظام میں اسی طرح فٹ ہیں جیسے حنفی نظام میں تھے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اور اس پر آگے تفصیل سے بات کریں گے۔ یہاں سردست یہ نوٹ کیجیے کہ اس سے بنیادی طور پر مراد sources ہیں جو شاشی کی تعریف میں مذکور تھے۔ ان کے ساتھ دو باتوں کا اضافہ ہے: ان sources سے استفادے کی کیفیت اور استفادہ کرنے والے کا حال۔ اول الذکر سے مراد قواعدِ استنباط ہیں، جیسے امر وجوب کےلیے ہے، نہی تحریم کےلیے ہے، عام قطعی ہے وغیرہ۔ ثانی الذکر سے مراد مجتہد کی صفات اور اجتہاد و تقلید پر بحث ہے۔ بیضاوی سے قبل اس سے ملتی جلتی بات امام رازی (م 606ھ) نے بھی کی تھی:
أصول الفقه عبارة عن مجموع طرق الفقه على سبيل الإجمال وكيفية الاستدلال بها وكيفية حال المستدل بها (اصول فقہ عبارت ہے تین چیزوں کے مجموعے سے: اجمالی طور پر فقہ کے راستے، ان سے استدلال کی کیفیت اوران سے استدلال کرنے والے کی کیفیت)۔
اب آگے بڑھنے سے قبل اس بات پر غور ضروری ہے کہ کیا امام رازی اور قاضی بیضاوی فقہ کے اصولوں کا ذکر کررہے ہیں یا اصولِ فقہ ‘بطور علم کی ایک شاخ’ کا اور علم کی اس شاخ کے موضوعات اور محتویات کا؟ امام غزالی (م 505ھ) درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات فقہ کے اصولوں کی توضیح میں نہیں بلکہ علمِ اصولِ فقہ کے موضوعات کے بیان میں ہورہی ہے:
وَأَمَّا الْأُصُولُ فَلَا يُتَعَرَّضُ فِيهَا لِإِحْدَى الْمَسَائِلِ وَلَا عَلَى طَرِيقِ ضَرْبِ الْمِثَالِ، بَلْ يُتَعَرَّضُ فِيهَا لِأَصْلِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَالْإِجْمَاعِ وَلِشَرَائِطِ صِحَّتِهَا وَثُبُوتِهَا ثُمَّ لِوُجُوهِ دَلَالَتِهَا الْجُمَلِيَّةِ إمَّا مِنْ حَيْثُ صِيغَتُهَا أَوْ مَفْهُومُ لَفْظِهَا أَوْ مَجْرَى لَفْظِهَا أَوْ مَعْقُولُ لَفْظِهَا وَهُوَ الْقِيَاسُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُتَعَرَّضَ فِيهَا لِمَسْأَلَةٍ خَاصَّةٍ فَبِهَذَا تُفَارِقُ أُصُولُ الْفِقْهِ فُرُوعَهُ۔
(جہاں تک (علمِ) اصول کا تعلق ہے، تو اس میں خصوصی جزئیات پر بحث نہیں کی جاتی، حتی کہ بطورِ مثال بھی نہیں، بلکہ اس میں کتاب، سنت اور اجماع پر بطورِ ماخذ بحث کی جاتی ہے ، اور ان کےشرائطِ صحت پر، پھر ان کی اجمالی دلالت پر ان کے صیغے کے لحاظ سے، یا ان کے لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے، یا لفظ کے اطلاق کے لحاظ، یا لفظ کی عقلی توجیہ کے لحاظ سے، جو کہ قیاس ہے؛ بغیر اس کے کہ کسی خاص جزئیے پر بات ہو۔ یہ فقہ کے اصول اور فروع میں فرق ہے۔)
جہاں تک فقہ کے اصولوں کا تعلق ہے، ان کی تعریف امام سبکی (م771ھ) نے یوں پیش کی ہے:
فالعلم بالقواعد الَّتِي يتَوَصَّل بهَا إِلَى استنباط الْأَحْكَام الشَّرْعِيَّة الفرعية عَن أدلتها التفصيلية۔
(ان قواعد کا علم جن کے ذریعے فروعی شرعی احکام کے تفصیلی دلائل سے ان کے استنباط تک پہنچا جاتا ہے۔)
یہ کون سے قواعد ہیں؟ ہم نے ان کی چند مثالیں ذکر کیں، جیسے: امر وجوب کےلیےہے، نہی تحریم کےلیے ہے، عام قطعی ہے۔ ان قواعد کو قواعد اصولیہ کہا جاتا ہے اور ان میں اور قواعد فقہیہ میں کئی فروق پائے جاتے ہیں لیکن ان میں کم از کم یہ پہلو مشترک ہے کہ ان دونوں قسموں کے قواعد کو “اجمالی دلائل” ہی مانا جاتا ہے۔اوپر ہم نے دیکھا کہ شاشی نے اسلامی قانون کے چار مآخذ کو اصول فقہ کہا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اصولیین ان مآخذ کو بھی قواعدِ اصولیہ کے طور پر ہی دیکھتے ہیں، جیسے مثلا صدر الشریعہ (م 747ھ) قیاس کے متعلق کہتے ہیں:
كُلُّ حُكْمٍ يَدُلُّ عَلَى ثُبُوتِهِ الْقِيَاسُ، فَهُوَ ثَابِتٌ (ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر قیاس دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے)۔
یہی بات دیگر تین مآخذ کے متعلق بھی اسی طرح قاعدے کی صورت میں کہی جاسکتی ہے کہ:
- ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر قرآن دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے؛
- ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر سنت دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے؛ اور
- ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر اجماع دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے۔
یہ قواعد ظاہر ہے کہ اہلِ سنت کے چار مذہب کی رو سے ہی درست ہیں؛ شیعہ امامیہ، مثلا، قیاس کے متعلق اس قاعدے کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اسی طرح اہلِ ظاہر بھی اسے تسلیم نہیں کریں گے۔
پھر ان چار مذاہب کے علاوہ ہر فقہی مذہب نے کچھ ایسے مآخذ مانے ہیں جو دیگر مذاہب نے قبول نہیں کیے۔ مثلا حنفی تو یہ کہیں گے کہ: ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر قولِ صحابی دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے؛ لیکن یہ بات شافعی نہیں مانیں گے۔ اسی طرح شافعی تو یہ کہیں گے کہ: ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر استصحاب دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے: لیکن اسے حنفی نہیں مانیں گے۔ پھر مالکی تو یہ کہیں گے کہ: ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر عملِ اہلِ مدینہ دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے؛ لیکن اسے حنفی اور شافعی نہیں مانیں گے۔ اسی طرح حنفی اور مالکی تو یہ کہیں گے کہ: ہر وہ حکم جس کے ثبوت پر استحسان دلالت کرے، تو وہ (بطورِ حکمِ شرعی) ثابت ہے؛ لیکن اسے شافعی نہیں مانیں گے۔
یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہوا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ہر مذہب کےلیے ان قواعدِ اصولیہ کی حیثیت ایسے مفروضوں کی ہے، جن کے خلاف دلیل ناقابلِ سماعت (inadmissible) ہوتی ہے۔ اصولِ قانون کی اصطلاح میں انھیں legislative presumptions کہا جاتا ہے۔ چنانچہ مثلا اگر کسی حنفی فقیہ نے ان قواعدِ اصولیہ کی مخالفت کی جو حنفی مذہب کے نزدیک مسلّم ہیں، جیسے اس نے استحسان کی حجیت سے انکار کیا، تو اسے حنفی نہیں کہا جاسکتا، بالکل اسی طرح جیسے عملِ اہلِ مدینہ کی حجیت ماننے سے انکار کے بعد کسی فقیہ کو مالکی نہیں کہا جاسکتا۔ گویا ہر مذہب کے قواعدِ اصولیہ اس مذہب کے ماننے والوں کےلیے قطعی ہوتے ہیں۔ مالکی اصولی امام شاطبی (م790ھ) کی اس عبارت کا درست مفہوم یہی ہے کہ:
إِنَّ أُصُولَ الْفِقْهِ فِي الدِّينِ قَطْعِيَّةٌ لَا ظَنِّيَّةٌَ (دین میں اصول فقہ قطعی ہیں، نہ کہ ظنی)۔
شاطبی کی اس بات نے کئی لوگوں کو پریشان کیا ہے۔ مثلا وہ اس بحث میں پڑگئے کہ اصول فقہ سے مراد اگر اسلامی قانون کے مآخذ ہیں، تو ان میں تو بعض قطعی ہیں اور بعض ظنی، جیسے قرآن (ثبوت کے لحاظ سے) قطعی ہے، سنت (متواترہ) بھی (ثبوت کے لحاظ سے) قطعی ہے، لیکن قیاس سے ثابت شدہ حکم کے متعلق تو سبھی مانتے ہیں کہ وہ تو ظنی ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امام شاطبی نے یہ تفصیل خود ہی بیان کی ہے اور بتاتے ہیں کہ قیاس سے ثابت شدہ حکم ظنی ہوتا ہے لیکن قیاس سے ثابت شدہ حکم کا حکم شرعی ہونا اس مفہوم میں قطعی ہے کہ آپ نے قیاس کو ماخذ کے طور پر قبول کیا ہے۔
یہ بات واضح ہوگئی ہو، تو آگے بڑھ کر اس پر غور کرتے ہیں کہ ان قواعدِ اصولیہ کو اجمالی دلائل کہا جاتا ہے کیونکہ یہ قواعد کسی خاص فعل کے متعلق کوئی خاص حکم نہیں بتاتے بلکہ تجریدی سطح پر in abstract اور عمومی طور پر in generalیہ بتاتے ہیں کہ مثلا جب بھی کوئی حکم قرآن میں پایا جائے، تو وہ حکم شرعی ہوگا؛ اور جب بھی کسی کام کےلیے امر کا صیغہ آئے گا، تو وہ کام واجب ہوگا۔تاہم ان اجمالی دلائل سے حاصل ہونے والے علم کو فقہ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس کےلیے ضروری ہے کہ کسی مخصوص فعل کے متعلق وارد ہونے والی مخصوص دلیل پر ان اجمالی دلائل/ قواعدِ اصولیہ کا اطلاق کرکے مخصوص حکم شرعی کا استنباط کیا جائے۔ یہی وہ بات ہے جو سبکی کی تعریف سے معلوم ہوتی ہے:
فالعلم بالقواعد الَّتِي يتَوَصَّل بهَا إِلَى استنباط الْأَحْكَام الشَّرْعِيَّة الفرعية عَن أدلتها التفصيلية۔
(ان قواعد کا علم جن کے ذریعے فروعی شرعی احکام کے تفصیلی دلائل سے ان کے استنباط تک پہنچا جاتا ہے۔)
متاخرین حنفیہ میں ایک اہم اصولی قاضی محب اللہ بہاری (م 1119ھ) نے یہ بات اس انداز میں بیان کی ہے جس سے اصولِ فقہ میں دلائل اجمالیہ اور فقہ میں دلائل تفصیلیہ کا تعلق واضح ہوجاتا ہے:
ثم هذا العلم أدلة إجمالیة للفقه یحتاج إلیها عند تطبیق الأدلة التفصیلیة علی أحکامها، کقولنا: الزکوٰة واجبة لقوله تعالیٰ: وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ ، لأن الأمر للوجوب
(پھر یہ علم فقہ کے اجمالی دلائل ہیں جن کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب تفصیلی دلائل کی اپنے احکام پر دلالت کی تطبیق کی جاتی ہے، جیسے ہم کہتے ہیں: زکوٰۃ واجب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ : زکوٰۃدو، کیونکہ امر وجوب کےلیے ہوتا ہے۔)
اصولِ فقہ اور علمِ اصولِ فقہ میں فرق کے متعلق ہمارے فاضل دوست کہتے ہیں:
میری دانست میں “علم اصول فقہ” و “اصول فقہ” میں پوسٹ کے اندر بعض علمائے اصولیین کی بنیاد پر جس فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ھمارے تمام علوم کے اندر ہونے والی یہ علمیاتی بحث ہے کہ علم کیا ہے؟ بعض نے کہا کہ یہ بدیہی ہے اس کی تعریف ممکن نہیں، بعض نے کہا کہ یہ خارج میں موجود اشیا سے عبارت نہیں بلکہ قلب کے اندر ان اشیاء سے متعلق پیدا ہونے والی کیفیت کا شعور ہے، بعض نے کہا کہ یہ عالم و معلوم کے مابین تعلق سے عبارت ہے۔ یہ ہے وہ بات جسے تقریبا ہر علم کے تناظر میں اٹھایا جاتا ہے کہ اس مخصوص علم و فن سے مراد اس کے اندر آنے والے کنٹنٹ از خود ہیں یا ان کے مجموعے سے بننے والا حضور قلبی اور اسی کو بعض لوگ اصول فقہ و علم اصول فقہ میں فرق کرنے کے لئے بیان کردیتے ہیں۔
ہمیں ان کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے، نہ ہی ہم اس لحاظ سے قواعد اور قواعد کے علم میں فرق کررہے ہیں۔ ہم دراصل اس پہلو کی طرف توجہ دلارہے ہیں کہ جب اصول فقہ کی تعریف میں شافعی اصولیین یہ بات ذکر کرتے ہیں کہ اس میں اجمالی دلائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، تو اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا کہ شافعیہ نے قواعدِ فقہیہ کو اصولِ فقہ کے طور پر مان لیا ہے۔ یہ استدلال غلط ہے اور ہم اسی غلطی کی توضیح کرنا چاہتے ہیں۔ اس توضیح کےلیے ہمارا موقف دو نکات پر مشتمل ہے:
- ایک یہ کہ یہ اصولیین یہاں اصولِ فقہ بطور علم کی ایک شاخ (discipline of knowledge) کے موضوع کا ذکر کررہےہیں کہ اس علم کا بنیادی موضوع فقہ کے اجمالی دلائل، یعنی قواعدِ اصولیہ، ہیں؛ وہ ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ قواعدِ فقہیہ ہمارے اصولِ فقہ ہیں؛
- دوسری بات زیادہ اہم ہے، اور وہ یہ کہ شافعی اصولیین جب اصول فقہ کی تعریف میں اجمالی دلائل کا ذکر کرتے ہیں، تو ان کا معہودِ ذہنی قواعدِ اصولیہ ہی ہوتے ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ۔ اس وجہ سے وہ اصولِ فقہ کی کتب میں کہیں بھی قواعدِ فقہیہ ذکر نہیں کرتے۔ قواعدِ فقہیہ تو دور کی بات ہے، وہ فقہی جزئیات کا ذکر بھی مناسب نہیں سمجھتے، حتی کہ جزئیات کو بطور مثال لانا بھی نہایت ہی مجبوری کے عالم میں ہوتا ہے۔ اوپر امام غزالی کی عبارت اسی لیے ہم نے نقل کی تھی۔
شافعی اصولیین کی اس کاوش کی اپنی اہمیت ہوگی۔ ہم اس کی اہمیت کے منکر نہیں ہیں، نہ ہی اس منہج کو یکسر مسترد کردینے کے قائل ہیں۔ البتہ ہم یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ اس منہج کے نتیجے میں اصول فقہ محض ایک theoretical exercise ہوگئی ہے جس میں abstract thinking ہی ہوتی ہےاور اس کا فقہ کے ساتھ تعلق منقطع ہوگیا ہے۔ یہ خیر ایک جملۂ معترضہ ہے اور ہم اس بحث کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ اس موضوع پر گفتگو کسی اور موقع پر سہی۔ اس وقت تو ہمارا مقصود صرف اس بات کی وضاحت تھی کہ ‘اجمالی دلائل’یقینا ‘ اصول فقہ ‘بطور علم کی ایک شاخ’کا موضوع ہیں لیکن اس مقام پر اجمالی دلائل سے مراد قواعدِ اصولیہ ہوتے ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ۔
امید ہے کہ اب اصولِ فقہ اور علم اصولِ فقہ کے فرق اور موضوعِ زیرِ بحث پر اس فرق کے اثر کے متعلق ہمارا موقف واضح ہوچکا ہوگا۔ مزید وضاحت آگے فقہ کی تعریف اور بالخصوص اس میں دلائل تفصیلیہ کی قید پر بحث سے سامنے آجائے گی۔
فقہ کی تعریف
اب ہم اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں کہ فقہ کی تعریف اور اس میں بالخصوص دلائل تفصیلیہ کی قید پر غور کرسکیں۔ متاخرین کی کتب میں عموما فقہ کی یہ (یا اس سے ملتی جلتی) تعریف ملتی ہے:
العلم بالأحكام الشرعية العملية المكتسب من أدلتها التفصيلية۔( عمل سے متعلق شرعی احکام کا علم جسے ان احکام کے تفصیلی دلائل سے حاصل کیا گیا ہو۔)
یہ تعریف شافعی اصولی اسنوی (م772ھ) کی ہےاور ان سے قبل بھی کئی اصولیین یہ، یا ملتی جلتی تعریف دے چکے تھے۔ رازی کی تعریف کے الفاظ تھوڑے مختلف ہیں، گو مفہوم یہی رہتا ہے۔ یہ تعریف آگے آرہی ہے۔
اس تعریف میں پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ فقہ علم ہے ۔ (فی الحال اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ علم سے کیا مراد ہے، فقہ علم ہے یا ظن وغیرہ۔) اس کے بعد اس علم پر قیود لگائی گئی ہیں تاکہ تعریف کو narrow down کرتے ہوئے اس مخصوص علم کی طرف پہنچا جائے جسے فقہ کہتے ہیں۔ ہر ہر قید سے کوئی نہ کوئی چیز نکلتی جاتی ہے۔
چنانچہ پہلی قید سے وہ ساری چیزیں نکل گئیں، جنھیں حکم نہیں کہا جاسکتا۔
پھر دوسری قید سے وہ احکام بھی نکل گئے جنھیں حکم شرعی نہیں کہا جاسکتا (جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں)۔
پھر تیسری قید سے وہ شرعی احکام بھی نکل گئے جن کا تعلق عمل سے نہیں ہے (یہاں یہ بحث پائی جاتی ہے کہ کیا اعمال سے مراد صرف ظاہری اعمال ہیں یا قلب کے اعمال، جیسے حسد، کینہ وغیرہ، بھی اس میں شامل ہیں)۔
پھر چوتھی قید سے ان عملی شرعی احکام کا وہ علم نکل گیا جو کسبی نہیں ہے (جیسے پیغمبر کا وہبی علم، یا دینی احکام کے متعلق علمِ ضروری جو بغیر غور و استدلال کے حاصل ہو)۔
اب آئیے پانچویں قید کی طرف۔ یہ قید کیوں لگائی گئی ہے؟
یہاں آپ کو بالعموم دو آرا ملتی ہیں: ایک یہ کہ اس قید کا فائدہ ہے اور اس کے ذریعے بھی تعریف سے کچھ نکالا گیا ہے؛ دوسری یہ کہ یہ قید کسی چیز کے نکالنے کےلیے نہیں ہے اور محض امرِ واقع کا بیان ہے (اور اسی بنا پر بعض نے اسے لغو قرار دیا)۔ یہ بظاہر دو آرا ہیں لیکن تہہ میں جائیں تو نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دونوں صورتوں میں ماننا پڑتا ہے کہ عملی شرعی احکام کے اس کسبی علم کو ہی فقہ کہا جاسکتا ہے جو دلائل تفصیلیہ سے حاصل کیا جائے۔
اسنوی پہلی راے کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ اس کے ذریعے اس علم کو فقہ کی تعریف سے خارج کیا گیا ہے جو دلیل اجمالی سے حاصل ہو :
وقوله: من أدلتها التفصيلية؛ احترز به عن العلم الحاصل للمقلد في المسائل الفقهية؛ فإن المقلد إذا علم أن هذا الحكم أفتى به المفتي، وعلم أن ما أفتى به المفتي فهو حكم الله تعالى في حقه، علم بالضرورة أن ذلك حكم الله تعالى في حقه. فهذا وأمثاله علم بأحكام شرعية عملية مكتسب، لكن لا من أدلة تفصيلية، بل من دليل إجمالي؛ فإن المقلد لم يستدل على كل مسألة بدليل مفصل يخصها، بل بدليل واحد يعم جميع المسائل.
(اس تعریف میں “ان کے تفصیلی دلائل سے: کی قید سےفقہی مسائل کے بارے میں مقلد کے علم کو خارج کیا گیا ہے کیونکہ مقلدکے علم میں جب یہ بات آتی ہے کہ مفتی نے اس حکم کا فتوی دیا ہے، اور اس کے علم میں یہ بات بھی آگئی کہ مفتی نے جو فتوی دیا اس کے حق میں وہی اللہ کا حکم ہے، تو اس سے لازمی طور پراسے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ اس کے حق میں اللہ کا حکم ہے۔ پس عملی شرعی احکام کے متعلق یہ اور اس طرح کی دیگر باتوں کا علم اگرچہ کسبی ہوتا ہے، لیکن یہ تفصیلی دلائل سے نہیں ، بلکہ اجمالی دلیل سے حاصل شدہ ہوتا ہے کیونکہ مقلد نے ہر مسئلے کےلیے اس کی مخصوص تفصیلی دلیل سے استدلال نہیں کیا، بلکہ ایک ہی دلیل سے کیا جو سب مسائل کے بارے میں عام ہے۔)
اس معاملے میں اسنوی دوسروں کی طرح دراصل رازی کی اتباع کررہے ہیں:
هكذا قاله الإمام في المحصول وغيره؛ وتابعه عليه صاحب الحاصل وصاحب التحصيل.
(اس طرح کی بات امام (رازی) نے المحصول میں اور دیگر مقامات پر کی ہے، اور ان کی اتباع الحاصل اور التحصیل کے مصنفین (تاج الدین الارموی اور سراج الدین الارموی) نے بھی کی ہے۔)
اب ایک نظر رازی کی تعریف پر بھی ڈال لیں تاکہ دلیل تفصیلی سے اخذ کیے جانے کا مفہوم بھی واضح ہو:
العلم بالأحكام الشرعية العملية، والمستدل على أعيانها، بحيث لا يعلم كونها من الدين ضرورة.
(عمل سے متعلق شرعی احکام کا علم جس سے ان معین عملی شرعی احکام پر استدلال کیا جاتا ہے اس طور پر کہ ان احکام کا دین میں سے ہونا علم ضروری نہ ہو۔)
یہاں رازی المكتسب من أدلتها التفصيلية کی جگہ المستدل على أعيانها استعمال کررہے ہیں جو بہت معنی خیز ہے۔ اس ترکیب کی وضاحت رازی سے ہی سن لیجیے:
وقولنا: المستدل على أعيانها؛ احتراز عما للمقلد من العلوم الكثيرة المتعلقة بالأحكام الشرعية العملية؛ لأنه إذا علم أن المفتي أفتى بهذا الحكم، وعلم أن ما أفتى به المفتي هو حكم الله تعالى في حقه، فهذان العلمان يستلزمان العلم بأن حكم الله تعالى في حقه ذلك؛ مع أن تلك العلوم لا تسمى فقها، لما لم يكن مستدلا على أعيانها.
(ہماری بات “جس سے ان معین عملی شرعی احکام پر استدلال کیا جاتا ہے” سے وہ بہت سارے علوم خارج ہوجاتے ہیں جو مقلد کو عملی شرعی احکام کے متعلق حاصل ہوتےہیں کیونکہ جب اس نے جان لیا کہ مفتی نے اس حکم کا فتوی دیا ہے، اور یہ بھی جان لیا کہ مفتی نے جو فتوی دیا اس کے حق میں وہی اللہ کا حکم ہے، تو ان دونوں باتوں کے جاننے سے لازمی طور پر یہ علم وجود میں آتا ہے کہ اس کے حق میں اللہ کا حکم یہی ہے، باوجود اس کے کہ ان باتوں کے جاننے کو فقہ نہیں کہتے کیونکہ اس سے معین عملی شرعی احکام پر استدلال نہیں کیا جاتا۔)
پس دلیل تفصیلی سے مراد یہ ہے کہ ہر حکم کی وہ دلیل جس سے بعینہ اسی حکم کےلیے استدلال کیاجاسکے۔ اب مثلا الأمر للوجوب کو نماز کی فرضیت یا زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے دلیل تفصیلی نہیں کہا جاسکتا لیکن أَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ کو نماز کی فرضیت کےلیے اور ءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ کو زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے دلیل تفصیلی کہا جاسکتا ہے، اگرچہ ان دونوں دلائل تفصیلیہ کے پیچھے اور ان کی تہہ میں الأمر للوجوب کی دلیل کارفرما ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو الأمر للوجوب دلیلِ اجمالی ہے۔ اسی طرح قرآن دلیلِ اجمالی ہے، سنت دلیلِ اجمالی ہے، اجماع دلیلِ اجمالی ہے، وغیرہ۔
رازی اور اسنوی کی طرح ایک اور اہم شافعی اصولی زرکشی (م 794ھ) بھی اس کے قائل ہیں کہ یہ قید احترازی ہے اور اس کے ذریعے فقہ کی تعریف سے مقلد کے اس علم کو خارج کردیا گیا ہے جو دلیلِ اجمالی سے ماخوذ ہو:
عَنْ اعْتِقَادِ الْمُقَلِّدِ، فَإِنَّهُ مُكْتَسَبٌ مِنْ دَلِيلٍ إجْمَالِيٍّ قَالَهُ الْإِمَامُ.(اس قید سے مقلد کا اعتقاد خارج ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اس اجمالی دلیل سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے امام نے دی ہوتی ہے۔)
آگے وہ ایک اور احتمال بھی پیش کرتے ہیں:
وَقِيلَ: عِلْمُ الْمُقَلِّدِ لَمْ يَدْخُلْ فِي الْحَدِّ، بَلْ هُوَ احْتِرَازٌ عَنْ عِلْمِ الْخِلَافِ. (یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقلد کا علم تعریف میں داخل ہی نہیں ہے اور اس قید کے ذریعے علم الخلاف کو خارج کیا گیا ہے۔)
علم الخلاف سے مراد legal reasoning ہے جب، مثلا، کوئی فقیہ دوسرے فریق کا قول اور اس کی دلیل پیش کرکے یہ واضح کرتا ہے کہ کیوں وہ اس قول کو نہیں لے رہا ، کیوں اس قول کی دلیل کمزور ہے اور کس دلیل کی بنا پر وہ اس سے مختلف موقف رکھتا ہے۔ یہ عظیم الشان علم قانونی انداز میں مسئلے کی تفہیم کےلیے بہت ضروری ہے، لیکن فقہ کی رائج تعریف کی رو سے اسے بھی فقہ سے باہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس پہلو پر، ان شاء اللہ، الگ سے بات کریں گے۔
زرکشی سے قبل آٹھویں صدی ہجری کے حنبلی اصولی طوفی (م716ھ) نے بھی قرار دیا تھا کہ فقہ کی تعریف میں دلائل تفصیلیہ کی قید احتراز کےلیے ہے اور اس کی وجہ سے دلائل اجمالیہ سے حاصل ہونے والا علم فقہ کی تعریف سے نکل جاتا ہے:
«وَعَنْ» فِي قَوْلِهِ: عَنْ أَدِلَّتِهَا، مُتَعَلِّقَةٌ بِمَحْذُوفٍ، تَقْدِيرُهُ: الْفَرْعِيَّةُ الصَّادِرَةُ أَوِ الْحَاصِلَةُ عَنْ أَدِلَّتِهَا التَّفْصِيلِيَّةِ، احْتِرَازًا مِنَ الْحَاصِلَةِ عَنْ أَدِلَّةٍ إِجْمَالِيَّةٍ.
(“دلائل سے” میں “سے” کا تعلق ایک محذوف بات سے ہے جو کچھ یوں ہے کہ: فروعی احکام جونکلتے ہیں یا حاصل ہوتے ہیں اپنے تفصیلی دلائل سے؛ یہ قید انھیں خارج کردیتی ہے جو اجمالی دلائل سے حاصل ہوں۔)
آگے وہ اس بات کی مزید توضیح کرتے ہوئے فقہ اور علمِ اصولِ فقہ کا فرق بھی بیان کرتے ہیں:
فَلَوْ قَالَ: الْفِقْهُ: هُوَ الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ الْفَرْعِيَّةِ الصَّادِرَةِ عَنْ أَدِلَّتِهَا بِالِاسْتِدْلَالِ، لَدَخَلَ فِيهِ مَا كَانَ مِنَ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ عَنْ أَدِلَّةٍ إِجْمَالِيَّةٍ بِالنِّسْبَةِ إِلَى أَدِلَّةِ الْفِقْهِ، كَقَوْلِنَا: الْإِجْمَاعُ وَالْقِيَاسُ وَخَبَرُ الْوَاحِدِ حُجَّةٌ، لِأَنَّهَا أَحْكَامٌ شَرْعِيَّةٌ، حَاصِلَةٌ عَنِ الْأَدِلَّةِ بِالِاسْتِدْلَالِ، وَمَعَ ذَلِكَ لَيْسَتْ فِقْهًا، بَلْ هِيَ أُصُولُ فِقْهٍ.
(پس اگرتعریف یوں ہوتی کہ: فقہ فروعی احکام کا وہ علم ہے جو ان احکام کے دلائل سے استدلال کے ذریعے صادر ہوتا ہے؛ تو اس میں شرعی احکام کے متعلق فقہ کے اجمالی دلائل سے حاصل ہونے والا بھی شامل ہوتا؛ جیسے ہم کہتے ہیں: اجماع، قیاس اور خبرِ واحد حجت ہیں؛ کیونکہ یہ بھی شرعی احکام ہیں جو دلائل سے استدلال کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجودیہ فقہ نہیں بلکہ اصولِ فقہ ہیں۔)
اس مثال پر طوفی ایک اعتراض وارد کرکے اس کا جواب دیتے ہیں لیکن یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ وہ بھی یہاں اجمالی دلیل کی مثال میں قواعدِ اصولیہ ہی ذکر کررہے ہیں: اجماع حجت ہے، قیاس حجت ہے، خبرِ واحد حجت ہے؛ اور انھی کو اصولِ فقہ قرار دیتے ہیں۔ بہرحال، طوفی آگے بتاتے ہیں کہ دلائل تفصیلیہ کی قید سے اصل میں علم الخلاف کو خارج کیا گیا ہے:
وَالْمِثَالُ الصَّحِيحُ لِمَا حَصُلَ مِنَ الْأَحْكَامِ عَنْ أَدِلَّةٍ إِجْمَالِيَّةٍ، وَوَقَعَ الِاحْتِرَازُ بِالتَّفْصِيلِيَّةِ عَنْهُ، هُوَ مَا يُسْتَعْمَلُ فِي فَنِّ الْخِلَافِ؛ نَحْوَ: ثَبَتَ الْحُكْمُ بِالْمُقْتَضِي؛ وَانْتَفَى بِوُجُودِ النَّافِي؛ فَإِنَّ هَذِهِ قَوَاعِدُ كُلِّيَّةٌ إِجْمَالِيَّةٌ، تُسْتَعْمَلُ فِي غَالِبِ الْأَحْكَامِ؛ إِذْ يُقَالُ، مَثَلًا. . . قَتْلُ الْمُسْلِمِ بِالذِّمِّيِّ حُكْمٌ انْتَفَى بِوُجُودِ نَافِيهِ، وَهُوَ تَحَقُّقُ التَّفَاوُتِ بَيْنَهُمَا، أَوْ بِانْتِفَاءِ شَرْطِهِ، وَهُوَ الْمُكَافَأَةُ. وَيَقُولُ الْحَنَفِيُّ: هُوَ حُكْمٌ ثَبَتَ بِوُجُودِ مُقْتَضِيهِ، وَهُوَ عِصْمَةُ الْإِسْلَامِ الْمُسْتَفَادُ مِنْ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَدَّوُا الْجِزْيَةَ، فَلَهُمْ مَا لَنَا وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْنَا.
(ان احکام کی صحیح مثال جو اجمالی دلائل سے حاصل ہوں اورجنھیں “تفصیلی دلائل” کی قید کے ذریعے خارج کیا گیا ہے، وہ جوفن الخلاف میں استعمال کی جاتی ہے، جیسے: یہ حکم تقاضا کرنے والی دلیل سے ثابت ہوا، اور نفی کرنے والی دلیل کے وجود سے اس حکم کی نفی ہوتی ہے؛ کیونکہ یہ کلی قواعداجمالی ہیں جنھیں بہت سے احکام میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا کہا جاتا ہے: ۔۔۔ ذمی کے قتل پر مسلمان سے قصاص ایسا حکم ہے جو اس وجہ سے معدوم ہوا کہ ایسی دلیل موجود ہے جو اس کی نفی کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ذمی اور مسلمان میں مرتبے کا فرق ہے؛ یا یوں کہا جائے گا کہ حکم کی نفی اس لیے ہوئی کہ شرط، یعنی برابری، کی نفی ہوئی ۔جبکہ حنفی کہے گا کہ (اس صورت میں قصاص کا واجب ہونا) ایسا حکم ہے جو اس وجہ سے ثابت ہے کہ ایسی دلیل موجود ہے جو اس کا تقاضا کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام نے اس کی جان کو قانونی حفاظت دی ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے ثابت ہوتا ہے کہ: جب وہ جزیہ ادا کریں تو ان کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان کے وہی واجبات ہیں جو ہمارے ہیں۔)
آگے وہ یہ اہم بات بھی کرتے ہیں:
وَغَالِبُ مَسَائِلِ الْفُرُوعِ يُمْكِنُ إِثْبَاتُهَا بِهَذَيْنِ الطَّرِيقَيْنِ وَنَحْوِهِمَا، فَهِيَ أَدِلَّةٌ إِجْمَالِيَّةٌ بِالنِّسْبَةِ إِلَى كُلِّ مَسْأَلَةٍ.
(فروعی مسائل میں اکثر کو ان دو طریقوں (دلیلِ مقتضی اور دلیلِ نافی) اور اس طرح کی دیگر دلیلوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ پس یہ ہر مسئلے کےلیے اجمالی دلائل ہیں۔)
ساتویں صدی ہجری کے ایک اہم حنفی اصولی ابن ساعاتی (م694ھ) نے بھی یہی راے اختیار کی ہے:
والتفصيلية: عن الإجمالية، كالمقتضي والنافي.(“دلائل تفصیلیہ” کی قید سے مقتضی اور نافی جیسے دلائل اجمالیہ کو خارج کیا گیا ہے۔)
تاہم ابن الہمام (م 861ھ) اس مثال پر بھی تنقید کرتے ہیں اور وہ اس کے قائل ہیں کہ فقہ کی تعریف میں دلائل تفصیلیہ کی قید کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ ان کی رائے میں یہ تَصْرِيحٌ بِلَازِمٍ کی قبیل سے ہے۔ ان کے شارح امیر بادشاہ(م 879ھ) اس کی وضاحت میں کہتے ہیں:
ظَاهِرٍ لِلِاسْتِنْبَاطِ؛ فَإِنَّ اسْتِنْبَاطَ الْأَحْكَامِ الْمَذْكُورَةِ لَا يَكُونُ إلَّا كَذَلِكَ؛ فَهُوَ بَيَانٌ لِلْوَاقِعِ، لَا لِلِاحْتِرَازِ عَمَّا هُوَ دَاخِلٌ بِدُونِ ذِكْرِهِ؛ إذْ لَمْ يُوجَدْ عِلْمٌ بِقَوَاعِدَ يُتَوَصَّلُ بِهَا إلَى اسْتِنْبَاطِ الْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْفَرْعِيَّةِ مِنْ أَدِلَّتِهَا الْإِجْمَالِيَّةِ، حَتَّى يُحْتَرَزَ بِذِكْرِ التَّفْصِيلِيَّةِ عَنْهُ؛ فَلَا ضَيْرَ فِي تَرْكِهِ؛ بَلْ، لَعَلَّ تَرَكَهُ أَدْخَلُ فِي بَابِ التَّحْقِيقِ فِي شَأْنِ الْحُدُودِ.
(استنباط کےلیے ان کا وجود ظاہر ہے کیونکہ مذکورہ احکام (یعنی فروعی شرعی احکام) اس کے سوا اور کسی صورت ہوتے ہی نہیں۔ پس یہ قید دراصل امر واقعی کا بیان ہے، نہ کہ کسی ایسی چیز کو نکالنے کےلیے جو اس قید کے ذکر نہ کرنے کی صورت میں تعریف میں داخل ہوتی؛ کیونکہ قواعد کا ایسا علم نہیں پایا جاتا جس کے ذریعے فروعی شرعی احکام کے ان کے اجمالی دلائل سے استنباط تک پہنچا جائے اور اس وجہ سے ضرورت ہو کہ اس علم کو تعریف سے خارج کرنے کےلیے دلائل تفصیلیہ کی قید لگائی جائے۔ پس اس قید کے ترک کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ تعریفات کے معاملے میں تحقیق کا تقاضا شاید یہ ہو کہ اسے ترک کرنا بہتر ہے۔)
آگے ابن الہمام یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ موقف غلط ہے کہ اس قید کے ذریعے علم الخلاف کو فقہ کی تعریف سے خارج کردیا گیا ہے:
وَإِخْرَاجُ الْخِلَافِ بِهِ غَلَطٌ (اس قید کے ذریعے علم الخلاف کا خارج کرنا غلط ہے۔)
امیر بادشاہ واضح کرتے ہیں:
فَإِنَّ قَوْلَ الْخِلَافِيِّ، مَثَلًا: ثَبَتَ بِالْمُقْتَضِي السَّالِمِ عَنْ الْمُعَارِضِ؛ وَلَمْ يُبَيِّنْهُ؛ أَوْ: لَوْ ثَبَتَ، لَكَانَ مَعَ الْمُنَافِي؛ وَلَمْ يُبَيِّنْهُ؛ تَمَسُّكٌ بِالدَّلِيلِ الْإِجْمَالِيِّ (غَلَطٌ)؛ فَإِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ تَعْيِينِ ذَلِكَ الْمُقْتَضِي أَوْ الْمُنَافِي. وَإِنْ أَجْمَلَ فِي أَوَّلِ كَلَامِهِ، فَيَقُولُ: ثَبَتَ مَعَ الْمُقْتَضِي، وَهُوَ كَذَا؛ أَوْ مَعَ الْمُنَافِي، وَهُوَ كَذَا؛ وَحِينَئِذٍ فَهُوَ مُتَمَسِّكٌ بِالدَّلِيلِ التَّفْصِيلِيِّ؛ وَإِلَّا، لَمْ يَثْبُتْ لَهُ شَيْءٌ؛ لِأَنَّ كَلَامَهُ حِينَئِذٍ مُجَرَّدُ دَعْوَى أَنَّ هُنَاكَ مُقْتَضِيًا أَوْ نَافِيًا.
(کیونکہ جب علم الخلاف کا ماہر مثلا یہ کہتا ہے کہ: تقاضا کرنے والی دلیل سے، جو معارض سے محفوظ ہے، یہ ثابت ہوا؛ اور وہ واضح نہ کرے (کہ وہ مقتضی دلیل کیا ہے؟)؛ یا یہ کہے کہ: اگر یہ ثابت ہوتا تو نفی کرنے والی دلیل کے ساتھ ثابت ہوتا (اور یہ ممکن نہیں ہے)؛ لیکن وہ اس کی وضاحت نہ کرے (کہ وہ منافی دلیل کیا ہے؟)؛ تو اجمالی دلیل سےیہ غلط تمسک ہے کیونکہ اس مقتضی یا منافی کی تعیین ضروری ہے۔ اور اگر اس نے اپنی گفتگو کے شروع میں اجمالی طور پر ذکر کیا ہو اور یہ کہا ہو کہ: مقتضی سے ثابت ہوا جو یہ ہے؛ یا منافی کے ساتھ ثابت ہوا جو یہ ہے؛ تو اس صورت میں وہ تمسک دلیل تفصیلی سے کررہا ہے؛ بصورتِ دیگر اس کی بات ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں اس کی بات محض دعوی ہے کہ تقاضا کرنے والی یا نفی کرنے والی دلیل پائی جاتی ہے۔)
یہی موقف مختصر ابن الحاجب کے شارح شمس الدین اصفہانی (م 741ھ) کا بھی ہے کہ یہ قید احترازی نہیں ہے کیونکہ سارے فقہی احکام دلائل تفصیلیہ سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں:
وَقَوْلُهُ: ” عَنْ أَدِلَّتِهَا التَّفْصِيلِيَّةِ ” لَا يُحْتَرَزُ بِهِ عَنْ شَيْءٍ ; لِأَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْأَحْكَامِ الْفِقْهِيَّةَ، وَهِيَ لَا تَكُونُ إِلَّا كَذَلِكَ.
(“دلائل تفصیلیہ سے “کی قید کے ذریعے فقہ کی تعریف سے کوئی چیز خارج نہیں کی جارہی کیونکہ احکام سے مراد فقہی احکام ہیں اور وہ تو ہوتے ہی ایسے ہیں (کہ انھیں دلائل تفصیلیہ سے حاصل کیا جاتا ہے)۔)
یہاں تک کی بحث سے درج ذیل اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں:
- اصولِ فقہ ‘بطور علم کی ایک شاخ’ کے موضوعات میں فقہ کے ‘اجمالی دلائل’ شامل ہیں لیکن اس سیاق میں اجمالی دلائل سے مراد قواعدِ اصولیہ ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ۔
- قواعدِ اصولیہ سے مراد وہ قواعد ہیں جن کے ذریعے شرعی احکام کا استنباط کیا جاتا ہے، جیسے : جب بھی کوئی حکم قرآن میں پایا جائے گا، تو وہ شرعی حکم ہوگا؛ جب بھی کوئی حکم قولِ صحابی سے ثابت ہوگا، تو وہ شرعی حکم ہوگا؛ امر وجوب کےلیے ہے؛ نہی تحریم کےلیے ہے؛عام قطعی ہے ؛وغیرہ۔
- پانچویں صدی ہجری کے بعد کی کتب میں فقہ کی جو تعریف پیش کی گئی اس کی رو سے فقہ صرف دلائل تفصیلیہ سے اخذ شدہ علم کو ہی کہا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر قواعدِ اصولیہ اجمالی دلائل ہیں، اور اس وجہ سے ان سے اخذ شدہ علم کو فقہ نہیں کہا جاسکتا ، تو کیا قواعدِ فقہیہ سے اخذ شدہ علم کو فقہ کہا جاسکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کے جواب کا انحصار اس امر پر ہے کہ قاعدہ فقہیہ دلیل تفصیلی ہے یا دلیل اجمالی؟
دلیلِ تفصیلی اور دلیلِ اجمالی : امام تقی الدین السبکی کی الإبهاج في شرح المنهاج کی روشنی میں
روایتی انداز میں اصول فقہ کی تعریف کرتے ہوئے سبکی پہلے اسے مرکب اضافی کے طور پر دیکھتے ہیں اور مضاف (اصول) اور مضاف الیہ (الفقہ) کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کرکے پھر ان میں اضافت کے پہلو سے وضاحت کرتے ہیں کہ اس ترکیب کا مفہوم کیا ہوا۔ اس کے بعد وہ اصول فقہ کو بطور نام یا لقب کے دیکھتے ہوئے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
اس دوسری بحث میں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ادلہ تفصیلیہ اور ان کا علم، دونوں اصول فقہ نامی علم کے دائرۂ کار سے باہر ہیں اور یہ کہ یہ فقہ اور علم الخلاف کے ماہرین کے کام آتے ہیں:
البحث الثاني في تعريف معنى أصول الفقه اللقبي. . . ولا شك أن كلا من الأدلة التفصيلية والعلم بها غير داخل فيه، لأن ذلك من وظيفة الفقيه والخلافي.
(دوسری بحث اصول فقہ بطور علم کی تعریف میں ہے۔۔۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تفصیلی دلائل اور ان کا علم دونوں ہی اس میں داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کا تعلق فقیہ اور علم الخلاف کے ماہر سے ہے۔)
اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ جب اصول فقہ کے دائرۂ کار سے ادلہ تفصیلیہ خارج کیے گئے، تو اس کا دائرہ ادلہ اجمالیہ تک محدود ہوگیا۔ یہاں وہ ادلہ اجمالیہ کی تعریف پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سے مراد ” كليات الأدلة” ہیں:
ولما استفيد إخراج الأدلة التفصيلية وعلمها من الوضع، تبقى الإجمالية وعلمها؛ والمراد بالإجمالبة: كليات الأدلة.
(جب تفصیلی دلائل اور ان کا علم اس اصطلاح سے باہر ہوگئے، تو اجمالی دلائل اور ان کا علم باقی رہ گئے ۔ اور اجمالی دلائل سے مراد دلائل کے کلیات ہیں۔)
اس کے بعد انھوں نے ادلہ تفصیلیہ کی 17 مثالیں ذکر کی ہیں، جیسے أَقِيمُوا الصَّلاةَ، نهيه صلى الله عليه وسلم عن قتل النساء والصبيان، والإجماع على أن بنت الابن لها السدس مع الثلث عند عدم العاصب ، وقياس الأرز على البر وغیرہ۔ ان مثالوں میں ایک مثال یہ بھی ہے: والمصلحة المرسلة في التترس۔ اس مثال کو کیسے غلط سمجھا گیا ہے، یہ ہم آگے تفصیل سے واضح کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس وقت دلیلِ تفصیلی کے مفہوم پر توجہ کی ضرورت ہے جو ان مثالوں سے بھی بخوبی واضح ہے لیکن اس کے باوجود سبکی مزید توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ونحو ذلك كلها أدلة معينة وجزئيات مشخصة. (اسی طرح کے معین دلائل اور مخصوص جزئیات۔)
پھر وہ واضح فرماتے ہیں کہ ان ادلہ تفصیلیہ کے پیچھے کلیات ہوتے ہیں:
ولهذه الأدلة وأمثالها كليات.(ان دلائل اور اس طرح کے دیگر دلائل کے پیچھے کلیات ہوتے ہیں۔ )
پھر وہ ان کلیات کی 18مثالیں دیتے ہیں، جیسے: مطلق الأمر، والنهي، والعموم، والخصوصوغیرہ۔ اس ضمن میں ایک مثال وہ المصلحة المرسلة کی بھی دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی؟ پیچھے جب وہ دلیل تفصیلی کی بات کررہے تھے، تو بتارہے تھے کہ: تترس کے مسئلے میں مصلحت مرسلہ۔ یہاں جب وہ دلیل اجمالی کی بات کررہے ہیں، تو کہتے ہیں: مصلحت مرسلہ۔ اس مقام پر اتنی بات کو کافی سمجھیے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
بہرحال آگے سبکی ادلہ اجمالیہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی بہت اچھی توضیح کرتے ہیں:
فالأدلة الإجمالية هي الكلية؛ سميت بذلك لأنها تعلم من حيث الجملة، لا من حيث التفصيل؛ وهي توصله بالذات إلى الحكم الإجمالي؛ مثل: كون كل ما يؤمر به واجبا؛ وكل منهي عنه حراما؛ ونحو ذلك.
(پس اجمالی دلائل ہی کلیات ہیں اوران کلیات کو یہ نام (اجمالی دلائل) اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کا اجمالی علم ہی حاصل ہوتا ہے، نہ کہ تفصیلی، اور یہ ذاتی طور پر اجمالی حکم کی طرف ہی پہنچاسکتی ہیں، جیسے:ہر وہ کام جس کا امر دیا گیا،واجب ہے؛ ہر وہ کام جس سے روکا گیا، حرام ہے؛ اور اسی طرح دیگر احکام۔)
اس کے بعد وہ تصریح کرتے ہیں کہ اسے فقہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ فقہ صرف دلیلِ تفصیلی سے ہی اخذ کی جاتی ہے:
وهذا لا يسمى فقها في الاصطلاح، ولا توصل إلى الفقه بالتفصيلي. (ایسے علم کو اصطلاح میں فقہ نہیں کہا جاتا، نہ ہی یہ فقہ تک تفصیلی طور پر پہنچاتے ہیں۔)
اس ساری بحث کا خلاصہ دو نکات میں پیش کیا جاسکتا ہے:
- دلیل تفصیلی سے مراد یہ ہے کہ ہر حکمِ شرعی کی مخصوص دلیل جو عین اسی حکم پر دلالت کرے، خواہ یہ دلیل تفصیلی کسی نص میں مذکور ہو، یا کسی مخصوص حکم پر مخصوص اجماع کی صورت میں ہو، یا کسی مخصوص حکم کےلیے مخصوص قیاس کی صورت میں ہو؛
- فقہ صرف وہ علم ہے جو دلیل تفصیلی سے ماخوذ ہو؛ د؛دلیلِ اجمالی سے ماخوذ علم فقہ نہیں ہے۔
آگے ہم تترس کے مسئلے کے متعلق غلط فہمی کی توضیح کرکے اس بحث کو ختم کردیں گے، ان شاء اللہ۔
مصلحت مرسلہ قاعدہ اصولیہ ہے، نہ کہ قاعدہ فقہیہ۔
اس بحث کے اختتام پر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کیا جائے جس میں بعض معاصر اہلِ علم پڑ گئے ہیں جب انھوں نے دیکھا کہ سبکی نے دلائلِ تفصیلیہ کی مثالوں میں یہ بھی ذکر کیا کہ والمصلحة المرسلة في التترس؛ حالانکہ وہ تھوڑا مزید غور کرتے تو دیکھ لیتے کہ آگے سبکی نے اجمالی دلائل میں ذکر کیا ہے والمصلحة المرسلة، بالکل اسی طرح جیسے تفصیلی دلائل میں وہ أَقِيمُوا الصَّلاةَ کا اور اجمالی دلائل میں مطلق الأمر کا ذکر کرتے ہیں، یا جس طرح تفصیلی دلائل میں وہ قياس الأرز على البر کا جبکہ اجمالی دلائل میں قیاس کا ذکر کرتے ہیں۔خیر، ہم اپنی طرف سے توضیح کی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کرلیتے ہیں۔
پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ تترس کی مثال ہے کیا۔
یہ ایک فرضی صورتحال ہے جس میں کفار مسلمان قیدیوں کو ڈھال بنا کر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں مسلمان اگر دشمن پر حملہ کریں گے تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پہلے ان مسلمانوں کو قتل کیا جائے جن کو انھوں نے ڈھال بنا کر آگے کیا ہوا ہے۔ اگر مسلمان انھیں قتل نہیں کریں گے تو یقینی ہے کہ مسلمانوں پر فتح پانے کے بعد دشمن ان قیدیوں کو بھی قتل کردے گا۔ پس ایسی صورت میں ان قیدیوں کو بہر حال قتل ہونا ہے ۔ تو کیا ان کا قتل جائز ہوگا ؟ یا ان کے قتل سے باز رہ کر مسلمان دشمن کو آگے بڑھ کر اپنے اوپر غالب ہونے کا موقع دیں گے؟ امام غزالی کہتے ہیں کہ اس بنا پر کوئی معترض یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ جب ان ڈھال بنائے گئے قیدیوں نے ہر صورت میں مرنا ہی ہے، تو ان لوگوں کو کیوں نہ بچایا جائےجنھیں بچایا جاسکتا ہے، خواہ ان کو بچانے کےلیے ان بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا پڑے!
فَيَجُوزُ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: هَذَا الْأَسِيرُ مَقْتُولٌ بِكُلِّ حَالٍ فَحِفْظُ جَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ أَقْرَبُ إلَى مَقْصُودِ الشَّرْعِ؛ لِأَنَّا نَعْلَمُ قَطْعًا أَنَّ مَقْصُودَ الشَّرْعِ تَقْلِيلُ الْقَتْلِ، كَمَا يَقْصِدُ حَسْمَ سَبِيلِهِ عِنْدَ الْإِمْكَانِ، فَإِنْ لَمْ نَقْدِرْ عَلَى الْحَسْمِ قَدَرْنَا عَلَى التَّقْلِيلِ.
(پس کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ قیدی تو دونوں صورتوں میں قتل ہوں گے تو تمام مسلمانوں کی حفاظت شریعت کے مقصود سے زیادہ قریب ہے کیونکہ ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ شریعت کا مقصود قتل کو روکنا ہے لیکن اگر روکنا ممکن نہ ہو تو پھر شریعت اسے کم سے کم کرنا چاہتی ہے۔ پس اگر ہم قتل کو روک نہیں سکتے تو اسے کم تو کرسکتے ہیں۔)
امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ معترض جس مصلحت کی بات کررہا ہے، کہ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ قتل کا خاتمہ ممکن نہ ہو تو اسے ممکن حد تک کم تو کیا جائے، یہ مصلحت شریعت کی کسی مخصوص نص سے ثابت نہیں ہے لیکن بہت سے نصوص کے مجموعے سے ماخوذ ہے۔ ہمارے دوست یہاں رک کر یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیں، امام غزالی نے اسی مصلحت کا تصور مانا ہے جو قیاس کی طرح کسی مخصوص اصل پر مبنی نہیں ہوتی، بلکہ کئی نصوص کے مجموعے سے ماخوذ ہوتی ہے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ امام غزالی کے اس تصورِ مصلحت کا تفصیلی تجزیہ ہم اپنے مقام پر کریں گے، ان شاء اللہ، جس میں ہم نہ صرف امام غزالی کے تصورِ فقہ پر بھی بات کریں گے، بلکہ ان کے اصولی منہج اور ان سے قبل کے شافعی اصولیین کے منہج کے فرق کو بھی واضح کریں گے۔ تاہم اس وقت ہم غیر ضروری تفصیلات میں جانے سے گریز کرتے ہوئے موضوعِ زیرِ بحث تک ہی محدود رہنا چاہتے ہیں۔ موضوع اس وقت یہ ہے کہ یہاں مصلحتِ مرسلہ سے مراد کیا ہے اور کیا یہ مصلحتِ مرسلہ دلیل اجمالی ہے یا دلیلِ تفصیلی؟ان سوالات کے جواب کےلیے پہلے تو امام غزالی کی اس بات پر توجہ کریں کہ یہ مقصود تو ثابت شدہ ہے لیکن اس تک پہنچنے کےلیے یہ طریقہ، کہ بے گناہ انسانوں کو قتل کیا جائے، قابلِ قبول نہیں ہےاور اس کی عدم قبولیت کی وجہ یہ ہے کہ اس طریقے کےلیے کوئی معین اصل موجود نہیں ہے جس پر قیاس کرکے اسے جائز قرار دیا جاسکے:
وَكَانَ هَذَا الْتِفَاتًا إلَى مَصْلَحَةٍ عُلِمَ بِالضَّرُورَةِ كَوْنُهَا مَقْصُودَ الشَّرْعِ، لَا بِدَلِيلٍ وَاحِدٍ وَأَصْلٍ مُعَيَّنٍ، بَلْ بِأَدِلَّةٍ خَارِجَةٍ عَنْ الْحَصْرِ؛ لَكِنَّ تَحْصِيلَ هَذَا الْمَقْصُودِ بِهَذَا الطَّرِيقِ، وَهُوَ قَتْلُ مَنْ لَمْ يُذْنِبْ، غَرِيبٌ لَمْ يَشْهَدْ لَهُ أَصْلٌ مُعَيَّنٌ. فَهَذَا مِثَالُ مَصْلَحَةٍ غَيْرِ مَأْخُوذَةٍ بِطَرِيقِ الْقِيَاسِ عَلَى أَصْلٍ مُعَيَّنٍ.
(یہ ایسی مصلحت کی طرف التفات ہے جس کا شریعت کا مقصود ہونا کسی ایک مخصوص دلیل یا معین اصل سے نہیں بلکہ بے شمار دلائل سے ضرورۃً معلوم ہے۔ تاہم اس مصلحت کا اس مخصوص طریقے سے حصول، کہ اس کے لیے کسی بے قصور کا قتل کرنا پڑے، غریب ہے جس کے لیے کوئی معین اصل شاہد نہیں ہے۔ پس یہ ایسی مصلحت کی مثال ہوئی جو کسی اصل معین پر قیاس کے ذریعے ماخوذ نہیں ہوتی۔)
یہاں امام غزالی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ یہ مصلحت قیاس کی طرح نہیں جو کسی اصلِ معین پر مبنی ہوتی ہے، بلکہ آگے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسی مصلحت کے اعتبار کےلیے جو کسی اصل معین پر مبنی نہ ہو، تین کڑی شرائط ہیں:
وَانْقَدَحَ اعْتِبَارُهَا بِاعْتِبَارِ ثَلَاثَةِ أَوْصَافٍ أَنَّهَا ضَرُورَةٌ قَطْعِيَّةٌ كُلِّيَّةٌ.
(اور اس کے معتبر ہونے کے لیے تین شرائط ضروری ہیں: کہ اسے اختیار کرنا مجبوری ہو، اس کا مصلحت ہونا یقینی ہو اور اس کا اطلاق سب مسلمانوں پر ہو۔)
گویا امام غزالی کے نزدیک اس انوکھے اور اجنبی طریقے سے، جس کےلیے کوئی معین اصل موجود نہیں ہے، درج ذیل تین شرائط پوری کرنی ہوں گی (آپ اسے مصلحتِ غریبہ کی قبولیت کےلیے تین شرائط کہہ لیں):
- یہ کہ ہم ایسی مجبوری میں پھنس گئے ہوں کہ اس انوکھے اور اجنبی طریقے کو اختیار کیے بغیر چارہ نہ ہو؛
- یہ کہ یہ قطعی ہو ،یعنی ہمیں پورا یقین ہو کہ اس کے ذریعے شریعت کے مقصود کی حفاظت ہوگی؛ اور
- یہ کہ یہ کلی ہو ، یعنی یہ امت کے کسی ایک فرد یا افراد کے مجموعے کے لیے نہ ہو بلکہ پوری امت کے لیے ہو ۔
ادنی تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مخصوص موقع پر ان شرائط کا پورا ہونا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ مثلا ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی مصلحت کو پوری امت کی مصلحت نہیں قرار دیا جاسکتا، خواہ وہ کتنا ہی بڑا گروہ ہو۔ اس لیے خواہ یہ امکان ہو کہ ایسی صورت میں مسلمانوں کے اس گروہ پر کفار غالب آجائیں گے تب بھی ان کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ ڈھال بنائے گئے مسلمانوں کا قتل عمد کریں۔ اسی وجہ سے امام غزالی آگے کئی مثالیں ذکر کرتے ہیں جن کے متعلق وہ صراحتاً کہتے ہیں کہ ان صورتوں میں یہ مصلحت نہیں پائی جاتی کیونکہ اس صورت میں ان شرائط میں کوئی شرط مفقود ہوتی ہے:
وَلَيْسَ فِي مَعْنَاهَا مَا لَوْ تَتَرَّسَ الْكُفَّارُ فِي قَلْعَةٍ بِمُسْلِمٍ إذْ لَا يَحِلُّ رَمْيُ التُّرْسِ إذْ لَا ضَرُورَةَ، فَبِنَا غُنْيَةٌ عَنْ الْقَلْعَةِ فَنَعْدِلُ عَنْهَا إذْ لَمْ نَقْطَعْ بِظَفَرِنَا بِهَا؛ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ قَطْعِيَّةً بَلْ ظَنِّيَّةً.
(ایسی مصلحت کی مثال یہ نہیں ہے کہ اگر کسی قلعے میں کفار نے کسی مسلمان کو ڈھال بنا لیا ہو، کیونکہ ایسی صورت میں اس ڈھال بنائے گئے مسلمان کو نشانہ بنانا ناجائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ ناگزیر نہیں ہے۔ ہم اس قلعے پر قبضہ کرنے سے بے نیاز ہیں۔ پس ہم اس قلعے پر حملہ کرنے سے باز رہیں گے کیونکہ ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسے فتح کر ہی لیں گے۔ پس یہ مصلحت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے۔)
وَلَيْسَ فِي مَعْنَاهَا جَمَاعَةٌ فِي سَفِينَةٍ لَوْ طَرَحُوا وَاحِدًا مِنْهُمْ لَنَجَوْا، وَإِلَّا غَرِقُوا بِجُمْلَتِهِمْ؛ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ كُلِّيَّةً إذْ يَحْصُلُ بِهَا هَلَاكُ عَدَدٍ مَحْصُورٍ، وَلَيْسَ ذَلِكَ كَاسْتِئْصَالِ كَافَّةِ الْمُسْلِمِينَ؛ وَلِأَنَّهُ لَيْسَ يَتَعَيَّنُ وَاحِدٌ لِلْإِغْرَاقِ إلَّا أَنْ يَتَعَيَّنَ بِالْقُرْعَةِ وَلَا أَصْلَ لَهَا.
(اسی طرح اس کی مثال یہ بھی نہیں کہ اگر کسی ڈوبتی کشتی میں کئی لوگ سوار ہوں اور اگر وہ کسی ایک کو دریا میں پھینک دیں تو باقی بچ جائیں گے، اور اگر کسی کو نہیں پھینکیں گے تو سارے ہی ڈوب جائیں گے۔ اس مصلحت کے غیر معتبر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کلی نہیں ہے کیونکہ اس طرح چند لوگ ہی غرق ہوں گے جسے تمام مسلمانوں کا صفایا ہونے کے مترادف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ کسی ایک کو دریا میں پھینکنے کے لیے منتخب کرنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ قرعہ ڈالیں جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔)
وَكَذَلِكَ جَمَاعَةٌ فِي مَخْمَصَةٍ لَوْ أَكَلُوا وَاحِدًا بِالْقُرْعَةِ لَنَجَوْا فَلَا رُخْصَةَ فِيهِ؛ لِأَنَّ الْمَصْلَحَةَ لَيْسَتْ كُلِّيَّةً.
(اسی طرح اگر کوئی گروہ بھوک سے مجبور ہوجائے اور وہ چاہیں کہ ان میں کسی ایک کو قتل کرکے اس کا گوشت کھائیں ورنہ سارے ہی مر جائیں گے تو اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس کی وجہ وہی ہے کہ یہ مصلحت کلی نہیں ہے ( ان چند لوگوں کے مرنے سے پوری امت کا خاتمہ نہیں ہوگا ۔))
اس کے بعد امام غزالی نے ایک بہت دلچسپ مثال دی ہے۔ کیا اس مصلحت کی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی جان بچانے کےلیے اپنا ہاتھ، یا ران میں سے کچھ ٹکڑا کھالے؟ وہ فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں کسی شخص کو پہنچنے والا نقصان اسی شخص کے فائدے کے لیے ہے اور اس کی اصل شریعت میں ملتی ہے کیونکہ علاج کے غرض سے حجامہ کی اجازت ہے؛ لیکن چونکہ اپنے ہاتھ یا ران کا ٹکڑا کاٹ کر کھانے سے جان بچانا یقینی نہیں ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے وہ اپنی ہلاکت کا باعث بن جائے، اس لیے اس صورت میں “قطعی” ہونے والی شرط پوری نہیں ہورہی، خواہ پہلی دو شرطیں (ضروری اور کلی) پوری ہورہی ہوں:
وَلَيْسَ فِي مَعْنَاهَا قَطْعُ الْيَدِ لِلْأَكْلَةِ حِفْظًا لِلرُّوحِ فَإِنَّهُ تَنْقَدِحُ الرُّخْصَةُ فِيهِ؛ لِأَنَّهُ إضْرَارٌ بِهِ لِمَصْلَحَتِهِ وَقَدْ شَهِدَ الشَّرْعُ لِلْإِضْرَارِ بِشَخْصٍ فِي قَصْدِ صَلَاحِهِ كَالْفَصْدِ وَالْحِجَامَةِ وَغَيْرِهِمَا، وَكَذَا قَطْعُ الْمُضْطَرِّ قِطْعَةً مِنْ فَخِذِهِ إلَى أَنْ يَجِدَ الطَّعَامَ فَهُوَ كَقَطْعِ الْيَدِ. لَكِنْ رُبَّمَا يَكُونُ سَبَبًا ظَاهِرًا فِي الْهَلَاكِ فَيُمْنَعُ مِنْهُ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ يَقِينُ الْخَلَاصِ فَلَا تَكُونُ الْمَصْلَحَةُ قَطْعِيَّةً.
(اس کی مثال یہ بھی نہیں کہ جان بچانے کےلیے ہاتھ کاٹ کر کھایاجائے کیونکہ اس کی رخصت اس بنا پر ہوسکتی کہ یہ اسی شخص کی مصلحت کےلیے اس کو نقصان پہنچانا ہے، اور شریعت میں اس کی شہادت موجود ہے کہ کسی شخص کے (بڑے) فائدے کےلیے اسے (چھوٹا) نقصان پہنچایا جائے، جیسے فصد، حجامہ اور دیگر مثالیں ہیں۔ یہی صورت تب بھی ہے جب اضطرار کی حالت میں کوئی شخص اپنی ران میں سے کچھ ٹکڑا کاٹ کر کھالے جب تک اسے کھانا نہ ملے، تو اس کی مثال بھی ہاتھ کاٹنے کی سی ہے؛ لیکن یہ اس کی ہلاکت کاظاہری سبب ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے (اضطرارسے) نکلنا یقینی نہیں ہے۔ پس اس صورت میں مصلحت قطعی نہیں ہے۔)
پس پہلی صورت (قلعہ پر حملہ) میں ضروری کی شرط پوری نہیں ہورہی تھی؛ دوسری صورت میں (جب کشتی میں ڈوبنے والے یا اضطرار میں پھنسے ہوئے افراد اپنے میں سے کسی کو پھینک دیں یا کھالیں)، کلی کی شرط پوری نہیں ہورہی؛ تیسری صورت میں (اضطرار میں پھنسا ہوا شخص اپنی جان بچانے کےلیے اپنے جسم کا کچھ حصہ کھالے)، ضروری اور کلی کی شرطیں پوری ہورہی ہیں لیکن قطعی کی شرط پوری نہیں ہورہی۔
یہ ہے ترس کے مثال پر امام غزالی کا تجزیہ۔ اس مثال کو، اور اس کی شرائط کو، اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد اب اس سوال پر آئیے کہ اس مثال میں جس اصول کو مصلحت کہا گیا، وہ اصول ہے کیا؟ بیسویں صدی کے عرب مؤلفین نے، اور ان کی اتباع میں انگریزی اور اردو میں لکھنے والوں نے، عموما یہ فرض کیا ہے کہ وہ اصول مصلحتِ عامہ کی مصلحتِ خاصہ پر ترجیح کی ہے۔ چنانچہ وہ اسے Public Interest قرار دیتے ہیں۔ امام غزالی کی ذکر کردہ مثالوں سے معلوم ہوا کہ یہ ان کے بارے میں غلط پروپیگنڈا ہے۔ وہ صراحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ترجیح اس بنیاد پر نہیں دی جاسکتی کہ ایک طرف زیادہ لوگ ہیں اور دوسری طرف کم۔ اس ترجیح کو مسترد کرنے کےلیے وہ دلیل یہی دیتے ہیں کہ اس کےلیے شریعت میں کوئی اصل موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ دکھاتے ہیں کہ کل کی جزو پر ترجیح کےلیے شریعت میں اصل موجود ہے:
فَإِذًا مَنْشَأُ الْخِلَافِ فِي مَسْأَلَةِ التُّرْسِ التَّرْجِيحُ، إذْ الشَّرْعُ مَا رَجَّحَ الْكَثِيرَ عَلَى الْقَلِيلِ فِي مَسْأَلَةِ السَّفِينَةِ وَرَجَّحَ الْكُلَّ عَلَى الْجُزْءِ فِي قَطْعِ الْيَدِ الْمُتَآكِلَةِ.
(پس ترس کے مسئلے میں اختلاف کی بنیاد ترجیح پر ہے کیونکہ شریعت نے کشتی کے مسئلے میں کثیر کو قلیل پر ترجیح نہیں دی جبکہ ہاتھ کھانے کے مسئلے میں کل کو جزو پر ترجیح دی ہے۔)
اس بات کو امام غزالی نے آگے ایک دلچسپ مکالمے کی صورت میں بہت خوبصورتی سے واضح کیا ہے، لیکن اس پر مزید بحث کو فی الحال مؤخر کردیتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصود اس وقت کچھ اور ہے۔
سوال یہ ہے کہ اصول چاہے کثیر کی قلیل پر ترجیح کا ہو (جیسے کئی معاصر اہلِ علم نے فرض کیا ہے) یا کل کی جزو پر ترجیح کا ہو (جیسا کہ امام غزالی نے تفصیل سے واضح کیا ہے)، ہر دو صورتوں میں یہ اصول قاعدہ اصولیہ ہے یا قاعدہ فقہیہ؟ ادنی تامل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ الأخذ بالأخف اور الأخذ بأقل ما قیل کی طرح ترجیح الکلي علی الجزئي بھی قاعدہ اصولیہ ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ دلیل اجمالی بھی ہے کیونکہ یہ اجمالی حکم پر دلالت کرتی ہے اور یہ دلالت abstract نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس لیے سبکی کا اسے اصول فقہ کی تعریف میں اجمالی دلائل کی مثالوں میں ذکر کرنا بالکل مناسب ہے۔
البتہ جب سبکی ترس کی مثال میں مصلحتِ مرسلہ، یعنی کلی کی جزئی پر ترجیح، کا ذکر کرتے ہیں، تو وہاں وہ abstract مفہوم میں کلی پر جزئی کی ترجیح کی بات نہیں کررہے، بلکہ اس مخصوص مسئلے میں کلی پر جزئی کی ترجیح کا ذکر کررہے ہیں اور اس وجہ سے اسے وہ اس قید کے ساتھ دلیل تفصیلی کی مثال میں لے آتے ہیں (والمصلحة المرسلة في التترس)، جیسے قیاس دلیل اجمالی ہے لیکن چاول کا گندم پر قیاس دلیل تفصیلی ہے۔
اس بحث سے ایک دفعہ پھر معلوم ہوا کہ مصلحتِ مرسلہ کی بحث میں بھی شافعی اصولیین کی ساری بحث قواعدِ اصولیہ کے دائرے میں ہے، نہ کہ قواعدِ فقہیہ کے دائرے میں۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر شافعی فقہاے کرام کی قواعدِ فقہیہ سے دلچسپی کس نوعیت کی ہے اور ان کے اصولی نظام میں قواعدِ فقہیہ کی حیثیت کیا ہے، تو اس پر ہم اگلے مضمون میں تفصیل سے بحث کریں گے، ان شاء اللہ۔ اس مضمون میں مقصود اس بات کی وضاحت تھی کہ فقہ کی تعریف میں دلائل تفصیلیہ کی قید کی وجہ سے قواعدِ فقہیہ غیرمتعلق ہوجاتے ہیں اور یہ کہ جب اصولِ فقہ بطورِ علم ک موضوعات و محتویات میں شافعی اصولیین اجمالی دلائل کی بات کرتے ہیں، تو ان کی مراد قواعدِ اصولیہ ہوتے ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ۔
هذا ما عندي، والعلم عند الله.
کمنت کیجے