Home » فقہ شافعی اور قواعد فقہیہ۔ ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کے ساتھ بحث کا تناظر
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون

فقہ شافعی اور قواعد فقہیہ۔ ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کے ساتھ بحث کا تناظر

 

محترم برادر ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کے ساتھ جس موضوع پر بات چل رہی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تناظر واضح کردیا جائے تاکہ قاری یہ سمجھ سکے کہ بحث کی نوعیت کیا ہے نیز جو سوال زیر بحث ہے اس میں مطلوب کیا ہے۔ بحث کو سمجھنے کے لئے استاد محترم عمران احسن نیازی صاحب کا امام شافعی کے بارے میں نکتہ نظر سمجھنا ضروری ہے جو اس بحث کے پس پشت کارفرما ہے۔ میں کوشش کرکے اس کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

امام شافعی پر محترم نیازی صاحب کے خیالات کا خلاصہ

1)  جوزف شاخت جیسے بعض مستشرقین نے امام شافعی کو اصول فقہ کا ماسٹرآرکیٹیکٹ لکھا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امام شافعی سے قبل اصول فقہ کا ادراک موجود نہیں تھا جس سے یہ تاثر بنتا ہے گویا ائمہ احناف بغیر قواعد و اصول احکام اخذ کرتے رہے

2)  نیازی صاحب نے اس نظرئیے کا جواب دینے کے لئے یہ نظریہ اختیار کیا کہ امام شافعی سے قبل ائمہ احناف اخذ احکام میں جس طریقے پر کاربند تھے وہ قواعد (general principles) کا طریقہ تھا اور جو امام شافعی کے طریقہ کار سے یکسر مختلف تھا۔

3) امام شافعی کا طریقہ حرفیت پسندانہ (لٹرلسٹ) تھا اور قیاس کے باب میں آپ کے نظریات قریب قریب اسی قسم کے ہیں جو داؤد ظاہری (م 270 ھ) جیسے منکرین قیاس کے تھے۔ آپ کی کتاب الرسالۃ میں قیاس علت کا تصور نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی مثال، آپ کا تصور قیاس احناف کے تصور دلالت نص نیز قیاس شبہ میں بند ہے (اور قیاس شبہ سے آپ “قیاس اشبہ” مراد لیتے ہیں)۔ امام صاحب کے ہاں چونکہ قیاس علت نہیں لہذا آپ کے ہاں قاعدے کا امکان نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ قاعدہ فقہیہ کا تصور ہو ۔ امام شافعی کے ہاں قاعدے کے نہ ہونے کی بنیادی وجہ آپ کا یہ تصور ہے کہ عام ظنی ہوتا ہے، اس مفروضے کے ساتھ کسی قاعدہ عامہ کا امکان تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ خبر واحد اور قیاس کے ذریعے عام کے مفہوم کی تخصیص ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے برعکس احناف عام کی قطعیت کا دفاع اسی لئے کرتے تھے کہ وہ قاعدے (جنرل پرنسپلز) پر مبنی طریقہ اخذ احکام پر عمل پیرا تھے اور اس کے لئے عام کی قطعیت کا تصور درکار ہے۔ آپ نے استحسان کا انکار بھی اسی لئے کیا کہ آپ قاعدے کو نہیں مانتے اور استحسان اسی قواعدی میتھاڈولوجی سے عبارت ہے ۔ نیازی صاحب سے قبل مولانا احمد حسن صاحب بھی امام شافعی کے تصور قیاس کے بارے میں اس نوع کا تبصرہ فرما چکے ہیں کہ امام شافعی کے ہاں قیاس کے تصور کی حد بندی کا اثر یہ ہوا کہ قیاس اور نص میں زیادہ فرق نہ رہا اور آپ کا نظریہ قیاس “نص نما قیاس” تھا نیز ان حد بندیوں سے قیاس کے منشا پر زد پڑی اور اس کی افادیت تقریبا ختم ہوکر رہ گئی۔

4) نیازی صاحب کے مطابق مستشرقین نے اس فرق پر توجہ نہیں کی، لہذا انہوں نے امام شافعی سے چلنے والی اصول فقہ کی روایت کو واحد روایت فرض کرکے انہیں پوری اصول فقہ کا بانی سمجھ لیا جبکہ وہ محض حرفیت پسندانہ خیالات کے بانی تھے اور نتیجتاً احناف کے تصور اصول فقہ (یعنی قاعدے کے ذریعے فقہ کی تشکیل) سے محققین کی نظریں اوجھل ہوگئیں اور اسے اہمیت نہیں دی گئی۔ اس لئے آپ کہتے ہیں کہ اصول فقہ کی دراصل تین تھیوریز ہیں: ایک قواعد کی جو احناف و مالکیہ کا طریقہ تھا، دوسری لٹرلسٹ جس کے بانی امام شافعی ہیں اور تیسری امام غزالی کا مقاصدی نظریہ جسے آج تک پوری طرح برتا نہیں گیا۔

5) امام شافعی کی وفات کے بعد قریب ایک صدی تک ان کے خیالات کو خاص اہمیت نہیں دی گئی، اسی رائے کا اظہار جناب وائل حلاق نے مستشرقین کو جواب دیتے ہوئے 1993ء میں کیا تھا۔ بعد میں علمائے شوافع نے امام صاحب کے تصور قیاس و اجماع میں بنیادی قسم کی تبدیلیاں کرکے ان کے خیالات کو فروغ دیا۔ اس فروغ میں تیسری صدی ہجری میں احادیث کے مجموعوں کی تدوین کا بھی ہاتھ ہے۔ تاہم امام شافعی کے نظریات کے مطابق فقہ کی تشکیل میں کئی صدیاں لگیں اور آپ کے نظریات کی نمائندہ پہلی قابل ذکر کتاب الشیرازی (م 476 ھ) نے لکھی، پھر امام جوینی (م 478 ھ) و غزالی (م 505 ھ) نے امام شافعی کے ڈھائی تین سو سال بعد ان کی فکر میں قیاس و قواعد کے مباحث کو شامل کیا، اس عمل میں یہ دونوں حضرات امام دبوسی (م 430 ھ) کے نظریات سے متاثر تھے، مقاصد شریعت پر بھی امام دبوسی نے ابتدائی بحث کی۔

6)  تاہم فقہ شافعی چونکہ ایک لٹرلسٹ نظام فکر تھا، لہذا حنفی قواعد کا طریقہ اس میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا اور بعد کے شوافع نے اگرچہ قواعد پر کتب لکھی ہیں تاہم ان کاوشوں نے قواعد کو نظریاتی قسم کی بحث بنا کر اس کی افادیت کو ختم کردیا۔ پھر ان علماء کے زیر اثر علامہ ابن نجیم جیسے فقہائے احناف نے بھی قواعد کی بحث کی افادیت کو گم کردیا اور اسی طرح حنفی و شافعی طرق اصول فقہ کو جمع کرنے کی تحریک نے بھی اصلی حنفی طریقے کو نقصان پہنچایا۔ اس بنا پر یہ اصرار سامنے آتا ہے کہ اصلی حنفی منہج سمجھنے کے لئے 500 سال تک کی حنفی کتب اصول فقہ ہی مفید ہیں، بعد میں امام غزالی کے زیر اثر چیزیں خلط ملط ہوگئیں۔

7)  اسی طرح اجماع کے باب میں بھی امام صاحب کے نظریات بعد کے دور کے شوافع کے نظریات سے مختلف ہیں، امام صاحب وقوع قیاس کے امکان پر سوالات اٹھاتے تھے۔ امام شافعی کے بارے میں اس رائے کا اظہار جوزف شاخت نے کیا ہے اور بظاہر نیازی صاحب نے شاخت کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے اس نظرئیے کے ساتھ امام شافعی کے ہاں محدود قیاس کا تصور شامل بحث کیا ہے۔ اس لئے نیازی صاحب کا ماننا ہے کہ امام شافعی کی شافعیت اور مابعد ادوار کی شافعیت میں راست تناسب فرض کرنے کی خاص ضرورت نہیں۔

8) یہ بات کہ بعد کے دور کے احناف بھی شوافع وغیرہ سے متاثر ہوئے، اس کے لئے نیازی صاحب اصول فقہ و فقہ کی تعریفات کا جائزہ لے کر بتاتے ہیں کہ شوافع نے دلیل اجمالی و تفصیلی کی جو تعریفات کیں ان کی رو سے قاعدہ فقہیہ اور اس سے ثابت ہونے والا حکم شرعی غائب ہے اور اس غیوبت کی وجہ ان شوافع کا حرفیت پسندانہ تصور فقہ ہے جہاں قاعدہ حجت نہیں ہوتا، یہ لوگ صرف ایک معین دلیل تفصیلی سے ایک معین حکم اخذ کرنے کے قائل ہیں۔ تاہم احناف نے بھی ان کے زیر اثر سوچ و بچار کئے بغیر اس تعریف کو اپنا لیا جبکہ یہ اصلی حنفی منہج کے خلاف ہے۔

9)  خلاصہ یہ کہ نیازی صاحب نے مستشرقین کو جواب دینے کے لئے امام شافعی کے نظرئیے کو محدود ثابت کیا تاکہ احناف کے منہج کی خصوصیت ثابت کی جاسکے۔ یہ بات یاد رہے کہ نیازی صاحب امام شافعی کو ایک معتبر و عظیم مجتہد مانتے ہیں۔ آپ کے ان نظریات کے لئے آپ کی درج ذیل کتب ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:

  1. a) Theories of Islamic Law
  2. b) Islamic Legal Maxims
  3. c) The Methodology of Ijtihad: Old and New
  4. d) Defending the Frontier of the Hanafi School
  5. c) The Original Meaning of Hanafi Usul al-Fiqh

10)  ہماری دانست میں برادر مشتاق صاحب استاد محترم کے اسی نظرئیے کو ثابت کرنے کے لئے علمائے شوافع کی تعریفات کو اپنے مضمون میں زیر بحث لائے ہیں اور ان کا مقدمہ یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان تعریفات میں واقعی قواعد فقہیہ موجود نہیں تو یہ گویا درج بالا امور کے حق میں ایک دلیل ہوگی۔ ہمارا کہنا ہے کہ اولاً تو ان تعریفات کے تجزئیے سے یہ ثابت ہی نہیں ہوتا کہ قاعدہ فقہیہ دلیل اجمالی و تفصیلی کے مفہوم سے خارج ہے اور اگر بالفرض یہ ثابت ہوبھی جائے تب بھی اصل مقدمات کے اثبات پر اس سے کوئی روشنی نہیں پڑتی، لہذا ان تعریفات سے بحث کا آغاز مفید نہیں کیونکہ بحث کا اصل میدان کچھ اور ہے۔

برادر مشتاق صاحب کی معروضات پر

اب ہم ان کی پیش کردہ معروضات کے جواب میں مختصراً کچھ امور پر روشنی ڈالتے ہیں۔

غلط فہمی کے دعوے کی نوعیت

محترم برادر مشتاق صاحب نے دلیل اجمالی و تفصیلی سے متعلق اپنے تجزئیے سے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ دلیل اجمالی و تفصیلی سے متعلق ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔ غلط فہمی کا خلاصہ ان کے نزدیک یہ ہے بعض لوگ فقہ شافعی میں قواعد فقہیہ کی گنجائش سمجھتے ہیں جبکہ فقہ شافعی میں اصلاً اس کی گنجائش موجود نہیں اور یہی بات ان کی پیش کردہ اصول فقہ و فقہ کی تعریف میں جھلکتی ہے۔ آپ نے ابتدائی پوسٹ میں یہ پانچ دعوے نقل فرمائے:

  • “لیکن چونکہ قواعدِ فقہیہ ان کے اصولی نظام میں فٹ نہیں بیٹھتے”،
  • “اس لیےوہ ایسی بحثوں میں الجھ جاتے ہیں جن کے نتیجے میں استنباطِ احکام میں ان قواعد کی حیثیت بہت کمزور ہوجاتی ہے”۔
  • “اس کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قواعدِ فقہیہ کو “دلائلِ تفصیلیہ” نہیں کہا جاسکتا”
  • “جبکہ ان متاخرین کے نزدیک تو فقہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ شرعی احکام کا وہ علم ہے جو دلائل تفصیلیہ سے حاصل ہوتا ہے “
  • “ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ قاعدہ فقہیہ تبھی کوئی حقیقی وزن رکھتا ہے جب آپ عام کی قطعیت کے قائل ہوں، جبکہ شافعی نظام میں عام ظنی ہوتا ہے۔”

اپنے سلسلہ پوسٹ میں آپ نے صرف مقدمہ نمبر 3 اور 4 پر گفتگو کی۔ ان پانچ مقدمات میں سے پہلا، دوسرا اور پانچواں مل کر ایک عمومی مقدمہ بناتے ہیں اور جو اصل بحث کا موضوع ہے:

(ا) چونکہ امام شافعی کے ہاں عام کی دلالت ظنی ہے، اس لئے ان کے ہاں قاعدے سے استدلال کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے (بلکہ محترم نیازی صاحب کے الفاظ میں عام کو ظنی کہنا قاعدے پر مبنی فقہ کو demolish کردیتا ہے)، مزید یہ کہ ان کے ہاں قیاس علت بھی موجود نہیں بلکہ امام شافعی یا دلالت نص والے قیاس کے قائل ہیں اور یا پھر قیاس شبہ کے، اسی لئے قواعد فقہیہ کی میتھاڈولوجی شافعی نظام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں البتہ امام غزالی نے امام دبوسی سے متاثر ہوکر اسے شافعی نظام کا حصہ بنانے کی کوشش کی  اور علمائے شوافع قواعد کی بحث کو جب تکلفاً اپنے نظام میں شامل کرتے ہیں تو یہ پوری بحث خلط ملط و غیر مفید ہوجاتی ہے۔

(2) پھر تیسرا اور چوتھا مقدمہ مل کر یہ بات کہتا ہے کہ شافعی اصولیین جس طرح اصول فقہ و فقہ کی تعریف کرتے ہیں، اس کی رو سے قواعد فقہیہ نہ اصول فقہ میں شامل ہیں اور نہ ہی فقہ میں۔ پس اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شافعی مذہب میں ان قواعد سے معلوم ہونے والی بات فقہ (حکم شرعی ) نہیں۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے آپ یہ طرز استدلال اختیار کرتے ہیں کہ علمائے شوافع کی بیان کردہ اصول فقہ و فقہ کی تعریف میں دلیل اجمالی و تفصیلی کو جس طرح بیان کیا جاتا ہے اس میں قواعد فقہیہ کا ذکر نہیں آتا۔

پھر جب ایسے متعدد شواھد پیش کئے جائیں جو صراحتاً اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شوافع قواعد کو ممکن بھی کہتے ہیں، مانتے بھی ہیں اور اس سے استدلال بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ کتاب “الام “میں بھی درجنوں قواعد فقہیہ و ضوابط سے استنباط موجود ہے تو اس کے لئے وہ یہ فرماتے ہیں کہ اصولیین شوافع اسے اس طرح نہیں مانتے جیسے احناف مانتے ہیں نیز ہم ان کی عبارات کے غلط فہم سے استدلال کررہے ہیں ۔ اسی طرح علام سبکی کی عبارت میں دلیل اجمالی و تفصیلی میں صراحتاً مذکور مصلحت مرسلہ کی اپنے نظرئیے کی رو سے یہ تاویل فرماتے ہیں کہ “اکثریت یا کل کے مفاد کو فرد کے مفاد پر ترجیح حاصل ہے”یہ بھی دلیل اجمالی ہے۔

اختیار کردہ منہج استدلال کے مسائل

  • صرف تعریف کے الفاظ سے استدلال کو بنیاد بنانا: اپنے مقدمے کو ثابت کرنے کے لئے جو منہج استدلال انہوں نے اختیار کیا وہ کسی بھی طرح ان کے مقدمے کے اثبات میں مفید نہیں، الا یہ کہ پہلے سے یہ فرض کرلیا جائے کہ امام شافعی کے ہاں نہ قیاس علت ہے اور نہ شوافع قاعدہ فقہیہ کو حجت سمجھتے ہیں۔ اگر یہ مفروضات مان لئے جائیں تب یہ کہنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کی پیش کردہ تعریفات میں قاعدہ فقہیہ کا تذکرہ نہ ہونا گویا شوافع کے اس خاص نظرئیے کی بنا پر ہے کہ وہ قاعدے کو حجت نہیں کہتے۔ لیکن جب تک یہ مفروضات ہی ثابت نہ ہوں تب تک محض تعریف میں کسی بات کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ شوافع قاعدے سے ثابت چیز کو نہ اصول فقہ مانتے ہیں اور نہ ہی فقہ۔ صرف تعریف کے الفاظ کے اندر سے ایسے بڑے بڑے امور طے نہیں کئے جاسکتے ۔ یہ طرز استدلال ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ سب مسلمان متکلمین گونگے پاگل کو انسان نہیں مانتے۔ جب پوچھا جائے کیوں؟ تو جواب دے کہ ان کی بیان کردہ انسان کی تعریف دیکھئے جس میں لکھا ہے “حیوان ناطق” ، اور پھر وہ لغات میں نطق کا مفہوم بیان کرکے کہے کہ اس سے گونگا پاگل خارج ہے۔ پھر جب اسے کہا جائے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ آپ دیکھئے کہ مسلمان فقہاء گونگے پاگل کے بھی شرعی حقوق اسی بنیاد پر متعین کرتے ہیں کہ وہ انسان ہے تو ناقد یہ اصرار کرے کہ “نہیں اصل چیز تعریف کے الفاظ ہیں، اس میں دکھایا جائے کہ کیا انہوں نے حیوان ناطق کے ساتھ کچھ ایسا لکھا ہے جو گونگے پاگل کو انسان ثابت کرتا ہو؟” ظاہر ہے یہ طرز استدلال اس کے مقدمے کے اثبات میں مفید نہیں کیونکہ مسلمان متکلمین کا ماننا ہے کہ تعریف کا مقصد تعارف ہوتا ہے، یعنی ایسے کم از کم اوصاف کوبیان کردینا جس سے دو امور میں فرق ہوسکے اور ایک فن کے ماہرین اس شے کے تصور کو دوسرے تصورات سے الگ کرسکیں۔ جس تعریف کو بنیاد بنا کر قواعد فقہیہ کو خارج از فقہ شافعی کہا جارہا ہے اس تعریف میں تو لفظ “عملیۃ” بھی لکھا ہوا جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے گویا حکم وضعی فقہ سے خارج ہوگیا، اب کیا یہ کہا جائے کہ فقہ شافعی میں کسی حکم وضعی کا تصور موجود نہیں؟ فقہ و اصول فقہ کی تعریف میں متعدد اقوال موجود ہیں اور خود علامہ زرکشی کی ایک صریح عبارت ہم نے پیش کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ بعض فقہاء قواعد فقہیہ کو بھی اس اصول فقہ میں شامل کرتے ہیں:

وَالْفُقَهَاءُ يُطْلِقُونَ ذَلِكَ عَلَى الْقَوَاعِدِ الْكُلِّيَّةِ الَّتِي تَنْدَرِجُ فِيهَا الْجُزْئِيَّاتُ، كَقَوْلِهِمْ: الْأَصْلُ فِي كُلِّ حَادِثٍ تَقْدِيرُهُ بِأَقْرَبِ زَمَنٍ. وَقَوْلِهِمْ: يُغْتَفَرُ فِي الدَّوَامِ مَا لَا يُغْتَفَرُ فِي الِابْتِدَاءِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنْ الْقَوَاعِدِ الْعَامَّةِ الَّتِي يَنْدَرِجُ فِيهَا الْفُرُوعُ الْمُنْتَشِرَةُ، وَعَلَيْهِ سَمَّى الشَّيْخُ عِزُّ الدِّينِ كِتَابَهُ ” الْقَوَاعِدَ (البحر المحیط: 40)

چنانچہ تعریف صرف تعارف کرانے کے لئے ہوتی ہے اور مختلف لوگ مختلف انداز سے یہ مقصد حاصل کرتے ہیں، البتہ بعض الفاظ بعض کے مقابلےمیں تصور واضح کرنے کے لئے زیادہ مفید ہوتے ہیں اور اس لئے انہیں اختیار کرلیا جاتا ہے۔ اگر ایسا استدلال جائز ہے تو پانچ سو سال تک مشائخ احناف کی اصول فقہ کی کتب (الفصول، تقویم الادلۃ، اصول السرخسی، اصول البزدوی اور حجج الشریعۃ) میں بھی درج اصول فقہ کی تعریف میں قواعد فقہیہ کا ذکر موجود نہیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ احناف قواعد فقہیہ سے معلوم بات کو حکم شرعی نہیں مانتے؟ جس طریقے پر مشائخ احناف کے ہاں اس کا اثبات دکھایا جاتا ہے (یعنی تعریف کے بجائے ان کےمجموعی کلام سے) وہی طریقہ فقہ شافعی کے لئے کیوں نہیں اختیار کیا جارہا؟

  • بنیادی مقدمہ ثابت نہیں: الغرض ہماری دانست میں جس مفروضے پر یہ استدلال کھڑا کیا جارہا ہے، پہلے اس مفروضے کو الگ سے ثابت کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کے تحت جزوی عبارت کو پڑھنے کی۔ چنانچہ اب تک اصولیین شوافع کی ایسی کوئی عبارت سامنے نہیں آئی جو یہ کہے کہ ہم (یعنی شوافع) قواعد فقہیہ کو اصول فقہ و فقہ سے خارج سمجھتے ہیں نیز اس سے ثابت بات کو فقہ نہیں مانتے۔ جو کچھ اب تک پیش کیا گیا ہے وہ صرف اور صرف اپنے مفروضے کو عبارت میں پڑھنے کی کوشش ہے، جوں ہی اس مقدمے پر سوال کھڑا ہوتا ہے پورا استدلال ختم ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے یہ گزراش کی تھی کہ پہلے اصل مقدمے پر بات ہونی چاہئے کیونکہ اگر برسبیل تنزل یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ کے تجزئیے سے یہ معلوم ہوا کہ قواعد فقہیہ نہ دلیل اجمالی میں آتے ہیں اور نہ ہی دلیل تفصیلی میں، اس سے بھی زیادہ سے زیادہ بس یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ متعلقہ تعریف جامع و مانع نہیں بلکہ اسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طالب علم کو زیادہ بہتر بات معلوم ہوسکے۔ ایسی ہر کاوش کو پہلے بھی خوش آمدید کہا جاتا رہا ہے اور یقیناً اب بھی کیا جائے گا۔
  • کیا امام غزالی نے امام دبوسی سے متاثر ہوکر فقہ شافعی میں قواعد شامل کئے؟ یہ مقدمہ کہ امام غزالی نے حنفی منہج اصول فقہ، جو کہ قواعد پر مبنی استنباط فقہ سے عبارت ہے، اسے شافعی منہج اصول فقہ میں داخل کرنے کی کوشش کی جس سے قواعد کی بحث خلط ملط ہوگئی، ہماری دانست میں یہ مقدمہ محل نظر ہے ۔ اس مقدمے کو جانچنے کے لئے آسان ترین طریقہ آپ کی کتاب “شفاء الغلیل” کا منہج بحث ہے کیونکہ اسی کتاب میں آپ نے امام دبوسی (م 430 ھ) رحمہ اللہ کا متعدد مرتبہ ذکر کیا ہے (آپ انہیں “ابو زید” اور “دبوسی” لکھتے ہیں) اور اسی کتاب میں امام غزالی نے مقاصد شریعت کے تصور کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ کس طرح مقاصد و مصلحت قیاس کے اندر کی بحث ہے۔

اس کتاب میں آپ نے دراصل دو طرح کے قائلین قیاس کے ساتھ بحث کی ہے: ایک مشائخ احناف میں امام دبوسی اور دوسرے ان کی آراء سے متاثر ہوجانے والے بعض علمائے شوافع۔ چنانچہ شفاء الغلیل میں آپ کی بحث کی نوعیت یہ ہے کہ:

1)  ابو زید نے مسلک اخالہ پر نقد کرتے ہوئے مسلک تاثیر کو مبہم انداز میں بیان کیا ہے اور انہوں نے مؤثر و ملائم کے فرق کو خلط ملط کردیا ہے

2)  انہوں نے قیاس کا ایک محدود نظریہ پیش کیا۔ آپ نے تاثیر کے جس تنگ مفہوم کو بنیاد بنا کر وصف علت کی دریافت کی بات کی ہے اس پر ائمہ احناف اور خود آپ کی اپنی بیان کردہ مثالیں بھی پورا نہیں اترتیں۔ پس اگر اس درست نظرئیے کو بنیاد بنایا جائے جس پر ائمہ احناف کی جزیات پورا اترتی ہیں تو اس کے بعد اخالہ کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں

3) علمائے شوافع میں سے گروہ مراوزہ امام دبوسی کی رائے سے متاثر ہو کر مسلک طرد / شبہ کا انکار کرنے لگے ہیں جو کہ امام شافعی کے تصور قیاس کے خلاف رائے ہے۔ ان مسالک کا واضح ادراک تمام ائمہ مجتہدین کی جزیات میں ملتا ہے۔ ان علمائے شوافع نے ابو زید کی باتوں میں آکر قیاس شبہ کا انکار کرنے کے بعد امام شافعی کے ہاں قیاس سے ثابت شدہ جزیات کی دور از کار تاویلات کرنا شروع کردیں جبکہ ابو زید متعدد مقامات پر جس چیز کا نام مؤثر رکھ کر بحث کرتے ہیں وہ طرد و شبہ کے سوا کچھ نہیں۔

چنانچہ یہ ہے وہ تناظر جس میں آپ بتاتے ہیں کہ جسے ہم شافعی اخالۃ کہتے ہیں، وہ دراصل وصف علت کی مناسبت کی بحث ہے اور مناسبت شریعت کے مصالح سے عبارت ہے۔ پس اگر کوئی حکم ان مصلحتوں اور ان پر مبنی قواعد سے موافقت رکھتا ہو تو اگرچہ اس مصلحتی قاعدے کو کسی معین نص میں کسی معین حکم کی علت نہ بھی بنایا گیا ہو تب بھی اسے بنیاد بنا کر قیاس کرنا جائز ہے۔ امام دبوسی، سرخسی و بزدوی رحمہم اللہ اخالے کے اس تصور کی بھرپور تردید کرتے ہیں اور واضح الفاظ میں نص و اجماع کے ذریعے ہی تعلیل کی اجازت دیتے ہیں۔ گویا شفاء الغلیل کی بحث یہ نہیں کہ امام غزالی قواعد کی کسی ایسی بحث کو شافعی منہج کا حصہ بنانے جارہے تھے جو شافعی مذھب میں مانی نہیں جاتی تھی بلکہ آپ کا مقدمہ یہ ہے کہ مشائخ احناف قواعد کی بعض ایسی صورتوں کا انکار کرنے لگے ہیں جن کا اقرار علمائے شوافع و تمام ائمہ مجتہدین پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

یہاں سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتی ہے کہ امام غزالی فقہ شافعی میں کسی ایسے اصولی منہج کو شامل کرنے کی کوشش میں نہیں تھے جسے حنفی منہج کہا جاتا ہو مگر شوافع اس سے ناواقف بھی ہوں اور ان کے نظام میں وہ ناقابل قبول بھی ہو بلکہ اس کتاب میں آپ نے جس منہج کا بطور شافعی منہج دفاع کیا ہے، مشائخ احناف عین اسی کا انکار کررہے تھے اور آپ نے اس کتاب میں جابجا امام دبوسی پر تنقید ہی کی ہے اور ان کے نظرئیے کو قبول نہیں کیا۔ گویا امام غزالی کا مقدمہ امام دبوسی کے نظریات سے متاثر ہوکر شافعی مذھب میں قواعد کو داخل کرنا نہیں ہے بلکہ بعض شافعی علماء کی اصلاح کرنا ہے جو امام دبوسی کے محدود تصور قیاس کے زیر اثر شافعی مذھب سے دور جا پڑے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ مصالح پر مبنی وصف علت کا تعین ایک قدیم بحث ہے، شافعی عالم القفال الکبیر (م 365 ھ) نے “محاسن شریعت” کے نام سے ایک تفصیلی کتاب تحریر کی تھی (اور جو میسر ہے) جس میں آپ نے تمام فقہی ابواب کی فقہی جزیات کی حکمتوں و مصلحتوں پر اپنے انداز سے بحث کی ہے۔ اس کتاب کو مقاصد شریعت کی طرف سفر میں اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مصالح کو بنیاد بنا کر تعلیل کی تردید کا موقف امام جصاص (م 370 ھ) کے ہاں بھی موجود ہے۔

  • اصل مقدمے کے خلاف شواھد سے سہو نظر : ہمارا کہنا یہ ہے کہ امام شافعی سے شروع ہونے والی شافعی روایت میں قواعد فقہیہ سے استدلال کا منہج موجود ہے، اس کی سب سے بڑی دلیل خود کتاب “الام “ہے، امام شافعی کے ہاں قیاس علت اسی مفہوم میں پایا جاتا ہے جس مفہوم میں مشائخ احناف اس کے قائل تھے، پھر جن امام غزالی کے بارے میں یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ انہوں نے فقہ شافعی میں تکلفاً قواعد شامل کرنے کی کوشش خود ان کی اپنی بحث عین اس مفروضے سے الٹ ہے اور جس کے بعد خود مشائخ احناف کے نظریہ قواعد اور قیاس کی وسعت پر سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا واقعی 500 سال تک کے مشائخ احناف کے ہاں سے احناف کا قیاس کا مکمل اور واضح نظریہ اخذ کیاجاسکتا ہے، نیز متعدد علمائے شوافع نے پے در پے اس علم پر کتب لکھیں اور ان کی اہمیت کو واشگاف الفاظ میں واضح کیا اور کوئی یہ کہتا نظر نہیں آتا کہ قاعدہ فقہیہ تو ہماری فقہ میں فٹ نہیں ہوتا۔ پس اس طویل روایت کے بارے میں محض تعریف کے نزاع لفظی کو بنیاد بنا کر یہ مقدمہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قاعدہ فقہیہ کو اصول فقہ و فقہ سے خارج قرار دے کر اس سے ثابت چیز کو فقہ نہیں مانتی، اس کے لئے ٹھوس شواھد اور علمائے شوافع کے براہ ارست اقوال درکار ہیں۔
  • علامہ سبکی کی عبارت کی تاویل : استدلال کا سب سے دلچسپ پہلو علامہ سبکی کی عبارت میں دلیل اجمالی اور دلیل تفصیلی دونوں کے تحت الگ الگ درج مصلحت مرسلہ کو دلیل اجمالی قرار دینا ہے، گویا علامہ سبکی یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ جسے وہ دلیل تفصیلی کے تحت مصلحت مرسلہ بتا رہے ہیں اس میں اور جسے دلیل اجمالی کے تحت مصلحت مرسلہ کہہ رہے ہیں وہ دونوں ایک ہی چیز ہے۔ مصلحت مرسلہ جب دلیل اجمالی ہوتی ہے تو اس سے مراد بطریق موافقت احکام جنس تا جنس تاثیر ہوتی ہے اور جب وہ دلیل تفصیلی بنتی ہے تو مراد معین مصلحت ہوتی ہے جیسے “مصلحت عامہ کی مصلحت خاصہ پر ترجیح” یا “مظنۃ الشیء فی مقامہ” وغیرہ۔ اس موخر الذکر قاعدے کو بھی امام غزالی “شفاء الغلیل” میں مصلحت مرسلہ کہتے ہیں جس کی مثال آپ کے نزدیک صحابہ کا شرابی کی حد مقرر کرنے کا استدلال تھا (کہ جب شراب پئے گا تو اوول فول بکے گا، جب اوول فول بکے گا تو بہتان لگائے گا اور جب بہتان لگائے گا تو 80 کوڑوں کا مستحق ہوگا)۔ چنانچہ اس قسم کے سب انفرادی قواعد شوافع کے نزدیک دلیل تفصیلی ہیں کیونکہ ان کے پس پشت “جنس تا جنس تاثیر” دلیل اجمالی کا تصور کھڑا ہے اور اسی لئے وہ اسے دونوں جگہ درج کرتے ہیں۔ شوافع کے نزدیک مصلحت مرسلہ کی طرح مصلحت مناسب غریب (بطریق موافقت احکام عین تا عین تاثیر) بھی دلیل اجمالی ہے اور اس کے تحت پھر انفرادی جزوی قواعد آسکتے ہیں جو دلیل تفصیلی ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے احناف کے نزدیک قیاس دلیل اجمالی ہے لیکن “ہر کیلی شے ربوی ہے” دلیل تفصیلی ہے۔ اگر اس طرح کسی قاعدے کو قاعدہ اصولیہ کہنا جائز ہو تو مختلف فقہی ابواب میں تاثیر رکھنے والے قواعد فقہیہ تو کجا انفرادی مسائل کے ایسے قیاسی قواعد کو بھی قاعدہ اصولیہ کہا جانے لگے گا اور نتیجتا قاعدہ اصولیہ و فقہیہ کا فرق ختم ہوکر رہ جائے گا۔

خلاصہ

الغرض دلیل اجمالی و تفصیلی سے متعلق ایسی کوئی غلط فہمی موجود نہیں جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہو۔ ہم مکرر عرض کریں گے کہ اصل بحث یہ ہے کہ قیاس علت کیا ہے؟ قاعدہ فقہیہ کیا ہوتا ہے؟ قیاس کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ یہ کیسے تشکیل پاتا ہے؟ کیا یہ ماخذ ہے، کیفیت استدلال ہے یا خود حکم؟ اس موضوع پر کوئی بھی عمومی بات کہنے سے قبل اصولیین شوافع کے تصور قیاس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو مشائخ احناف کے تصور قیاس سے بہت زیادہ وسیع ہے اور قاعدہ فقہیہ و مصلحت کی پوری بحث کو اپنے اندر سموتا ہے۔ اگر ان امور کی وضاحت ہوجائے تو امید ہے بہت سے امور سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں