برادرِ محترم ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب نے جو تناظر بیان کیا ہے ، وہ کسی حد تک درست ہے، لیکن کئی امور میں ہماری راے کو صحیح نہیں پیش کیا گیا۔ نیز قواعدِ فقہیہ، قواعدِ اصولیہ اور دلائلِ تفصیلیہ پر میرے مضمون کے متعلق ان کی تنقید بھی، میری ناقص راے میں، غلط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ اس لیے چند مختصر گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ استادِ محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کے کام کے متعلق یہ تاثر دینا کہ انھوں نے شاخٹ اور دیگر مستشرقین کے نظریات کا “جواب دینے کےلیے” یہ موقف اختیار کیا کہ امام شافعی کا نظریہ ظاہریت پر مبنی تھا، ہمارے موقف کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ ایک تو صرف شاخٹ اور مستشرقین نے ہی امام شافعی کو اصول الفقہ کا master-architect نہیں کہا، بلکہ یہی بات کہنے والے بیسویں صدی کے بہت سے عرب مؤلفین بھی ہیں، جنھوں نے یہ نعرہ بلند کیا اور اس کے نتیجے میں ایک طرف اصولِ فقہ میں امام شافعی کی کنٹری بیوشن کی اصل حیثیت کو دھندلا کردیا، تو دوسری طرف صرف حنفی مذہب ہی نہیں، بلکہ ما قبل امام شافعی کے تمام فقہاے کرام کے اصولی مناہج کو یکسر غیرمتعلق اور غیر اہم کردیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ امام شافعی کی پیدائش امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد (اسی سال، یعنی 150ھ میں) ہوئی ، اور فقہ حنفی کا سارا نظام اس سے قبل وجود میں آچکا تھا، بلکہ شاخٹ ہی کی مانیں تو بنوامیہ کی حکومت کے خاتمے (132ھ) تک اسلامی قانون کا نظام اپنی تفصیلات سمیت وجود میں آچکا تھا، تو یہ سارا کچھ ایک انتہائی مؤثر منہج کے بغیر ممکن کیسے ہوا؟ اس وجہ سے ضرورت اس امر کی تھی کہ ما قبل امام شافعی فقہاے کرام کےمناہج کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے۔ پھر چونکہ ماقبل امام شافعی دور کے فقہاے کرام کے کام میں سب سے زیادہ تفصیلی اور منظم کام حنفی مذہب ہی کا تھا، اس لیے قدرتی طور پر توجہ حنفی فقہاے کرام کے کام کی طرف زیادہ ہوئی۔
2۔ استادِ محترم پروفیسر نیازی سے قبل استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب نے اس موضوع پر انتہائی اعلی پائے کا کام کیا جو ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا موضوع تھا:
The Early Development of Fiqh in Kufah with Special Reference to the Works of Abu Yusuf and Shaybani. Unpublished PhD Dissertation at McGill University, 1966.
انصاری صاحب سے استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے میری موجودگی میں کئی دفعہ یہ مطالبہ کیا کہ اس مقالے کو، جہاں ہے جیسے ہے کی بنیادپر، شائع کیا جائے لیکن انصاری صاحب جیسے Perfectionist کےلیے یہ ممکن نہیں تھا۔ کچھ عرصہ قبل اس مقالے کے بعض ابواب کو Islamic Studies نے شائع کرنا شروع کیا لیکن اسے دیکھ کر میں تو اسی نتیجے پر پہنچا کہ اس طرح شائع کرنے سے اس کا نہ شائع کرنا ہی بہتر تھا۔ بہرحال اس مقالے پر تحقیق کے دوران میں وہ جوزف شاخٹ اور ابو زہرہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں بھی رہے اور ان کا یہ کام بہت ہی اعلی درجے کا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی طرف ہمارے اہلِ علم کی توجہ ہی نہیں ہے۔
3۔ پروفیسر نیازی صاحب نے اپنے طور پر اس موضوع پر جو کام کیا، وہ اصول فقہ پر ان کے کام سے قبل فقہ پر ان کے کام کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ اس لیے اگر کسی نے واقعی اس موضوع پر ہمارے موقف کو سمجھنا ہے، تو گزارش یہ ہے کہ وہ نیازی صاحب کی کتاب Partnerships in Islam پڑھیں۔ یہ کتاب دراصل نیازی صاحب کے (عربی میں) ایل ایل ایم مقالے پر مشتمل ہے جو انھوں نے 1983ء میں ممتاز مصری شافعی فقیہ ڈاکٹر حسین حامد حسان کی نگرانی میں لکھا تھا۔ اس کتاب میں نیازی صاحب نے دکھایا ہے کہ شرکات کے متعلق چار سنی مذاہب کا منہج کیا ہے۔ عام کتب کے برعکس انھوں نے ہر مذہب کا پورا ڈھانچا الگ الگ ذکر کیا ہے اور یوں ہر مذہب کے تصور کا پورا خاکہ سامنے آجاتا ہے۔ قواعدِ فقہیہ کو حنفی کیسے برتتے ہیں اور شافعی نظام کیوں ظاہریت پر مبنی ہے (اور حنبلی نظام کیوں تلفیق پر مبنی ہے) کی حقیقت جاننی ہو، تو اس کتاب کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔
4۔ جہاں تک ماقبل امام شافعی اصولی مناہج پر خصوصی کام کا تعلق ہے، تو وہ نیازی صاحب نے 1994ء میں اپنی شائع ہونے والی کتاب Theories of Islam میں کیا ہے اور اس میں تفصیل سے دکھایا ہے کہ ماقبل امام شافعی اصولی مناہج کیا تھے اور بالخصوص حنفی منہج کیا تھا جس کے نتیجے میں امام شافعی کی پیدائش سے بھی دو عشرے قبل تفصیلی اسلامی قانونی نظام وجود میں آچکا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی دکھایا کہ امام شافعی کی اصل کنٹری بیوشن کیا ہے؟ افسوس ہوتا ہے جب لوگ امام شافعی کے اس انتہائی اہم کام کو ان کی شان میں تنقیص سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ یہیں سے تو امام شافعی کی اصل عبقریت سامنے آتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امام شافعی نے کیسے پہلے سے موجود اصولی مناہج کو سمجھا، پھر ان کے اہم عناصر پر اپنی پوزیشن متعین کی، پھر اچھی طرح سوچ سمجھ کر اپنا مخصوص منہج سامنے لے آئے۔ امام شافعی کے اس منہج کو گروہ محدثین کے ہاں کیسے قبولیت ملی، یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے، اگر تیسری صدی ہجری کے علمی ماحول اور اس میں جاری علمی مباحثوں پر نظر ہو۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کی نظر اس بات پر بھی نہیں جاتی کہ امام شافعی کے منہج کو ہی واحد اصولی نظریہ قرار دے کر، اور دیگر مذاہب کے اصولی مناہج کے متعلق یہ کہہ کر کہ وہ اس عمومی نظریے میں کہیں کہیں اختلاف رکھتے ہیں، نہ صرف دیگر مذاہب کے اصولی مناہج کی مستقل حیثیت کی نفی کی جاتی ہے، بلکہ امام شافعی کے منہج کی الگ خصوصی حیثیت کو بھی دھندلا کردیا جاتا ہے۔ اس لیے پروفیسر نیازی کی یہ کتاب صرف ماقبل امام شافعی فقہاے کرام کے اصولی مناہج کے فہم کےلیے ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ امام شافعی کے اصولی منہج کا اصل مقام پہچاننے کےلیے بھی نہایت اہم ہے۔
5۔ پروفیسر نیازی نے اس موضوع پر جو مزید کام کیا ہے، اس کے دو اہم پہلو ہیں: ایک فقہ پر ان کا مزید کام جو Outlines of Islamic Jurisprudence کے عنوان سے پہلی دفعہ 1998ء میں شائع ہوا اور بعد میں مزید اضافوں کے ساتھ شائع ہوتا رہا ہے؛ دوسرا ان کا اصولِ فقہ پر مزید کام جو مختلف کتابوں کی صورت میں مسلسل سامنے آیا ہے۔ فقہ پر ان کی کتاب میں انھوں نے قدم قدم پر دکھایا ہے کہ شافعی (یا کسی اور مذہب) اور حنفی مذہب کا عملی اطلاق کیسے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اصول فقہ پر ان کا کام کئی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان میں اولین کتاب 2000ء میں Islamic Jurisprudence کے عنوان سے سامنے آئی جو روایتی طریقے پر اصولِ فقہ کی نصابی کتاب کی ضرورت پورا کرتی ہے لیکن اس میں کئی ابواب ایسے ہیں جو روایتی نصابی کتب سے یکسر مختلف ہیں اور حنفی و شافعی مناہج کے فرق کو سمجھنے کےلیے وہ بہت ضروری ہیں۔ میں خصوصا ایک تو اس باب کا ذکر کرنا چاہوں گا جہاں وہ مصلحت کے عمومی تصور اور مصلحت کے خصوصی تصور میں فرق کرتے ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ اہم حصہ اس کتاب کا وہ ہے جہاں وہ اس فقیہ کا منہج بتاتے ہیں جو مذہب کے اصولوں کے اندر رہ کر ائمہ کے اصولوں پر تخریج المسائل کا کام کرتا ہے اور اسے نیازی صاحب اصولِ قانون کے تصور theory of adjudication کے ساتھ متعلق کردیتے ہیں۔ حنفی منہج میں قواعد فقہیہ کیسے استعمال ہوتے ہیں، اس کے فہم کےلیے یہ حصہ نہایت اہم ہے۔ اس منہج کی مزید تفصیل اصولِ فتوی پر نیازی صاحب کی کتاب The Secrets of Usul al-Fiqh: Rules for Issuing Fatwas میں ملتی ہے، جو 2013ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئی۔ اس سے بھی زیادہ اہم کتاب Islamic Legal Maxims ہے جو اسی سال پہلی دفعہ شائع ہوئی۔ اس کتاب میں نیازی صاحب نے قواعدِ فقہیہ اور قواعدِ اصولیہ کے فرق، ان کے آپس میں تعلق، قواعد اور مقاصد کے تعلق، اور امام غزالی سے قبل حنفی فقہاے کرام (بالخصوص امام دبوسی ) کے ہاں مقاصدِ شریعت کے نظریے کی تشکیل جیسے اہم موضوعات پر اپنی تحقیق پیش کرنے کے علاوہ امام دبوسی کی تاسیس النظر کی بنیاد پر قواعدِ فقہیہ کے استعمال کے درست منہج کی عملی تطبیق نہایت تفصیل سے بیان کی ہے۔ اس کے بعد تین نہایت اہم کتابوں میں نیازی صاحب نے اس موضوع کی مزید تفصیلی تحقیق پیش کی ہے: ایک The Original Meaning of Hanafi Usul al-Fiqh، جس میں انھوں نے خصوصا اس سوال پر توجہ کی ہے کہ پہلی پانچ صدیوں میں حنفی منہج کیا تھا اور اسے فقہاے کرام کیسے پیش کرتے تھے؛ دوسری کتاب Defending the Frontiers of the Hanafi School میں نیازی صاحب نے حنفی مذہب کے متعلق مستشرقین اور عرب مؤلفین کے کام کے زیرِ اثر پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی حقیقت واضح کرکے حنفی مذہب کی اصول خصوصیات اور حنفی مذہب کی فقہ اور اصول فقہ کے ذخیرے کو پڑھنے اور سمجھنے کےلیے درست طریقِ کار کی تفصیل دی ہے؛ اور تیسری کتاب میں، جو ان کی اس وقت تک شائع ہونے والی آخری کتاب ہے، انھوں نے یہ دکھایا ہے کہ فقہ اور اصولِ فقہ کی تراث کا معاصر دنیا کے مسائل حل کرنے میں کیا کردار ہے اور معاصر دنیا میں وہ ماہرینِ قانون جو عربی جانتے ہیں اور اسلامی علوم پڑھے ہوئے ہیں اور وہ جو عربی نہیں جانتے نہ ہی اسلامی علوم پڑھے ہوئے لیکن قانون کے ماہرین ہیں، کیسے اسلامی اصولوں کی روشنی میں نئے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس کتاب کا عنوان ہے: The Methodology of Ijtihad: Old and New (Comparative Jurisprudence)۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جس میں اصولِ قانون اور اصولِ فقہ کا موازنہ ایک ایسی شخصیت نے کیا ہے جو دونوں علوم کا ماہر ہے اور جس نے ان علوم کی غواصی میں 50 سال سے زائد کا عرصہ لگایا ہے، جس کا اوڑھنا بچھونا ہی فقہ و اصولِ فقہ اور قانون و اصولِ قانون ہیں۔
6۔ نیازی صاحب کے اس کام کی تفصیل میں نے اس لیے دی کہ زاہد بھائی نے ان کا موقف اور اس کا تناظر جس طرح پیش کیا ہے، وہ پوری طرح درست نہیں ہے۔ مثلا نیازی صاحب ہرگز یہ نہیں کہتے کہ قیاس کو مسترد کرنے کے متعلق امام شافعی اور ابن حزم ظاہری کا موقف یکساں ہے۔ وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ امام شافعی قیاس کو بطورِ اصول (حکمِ شرعی کے ماخذ کے طور پر) مانتے ہیں، جبکہ ظاہریہ اسے یکسر مسترد کردیتے ہیں۔ (اس لیے نیازی صاحب امام شافعی کو اہلِ سنت میں شمار کرتے ہیں لیکن یہ بات شاید آج کئی لوگوں کو صدمہ پہنچائے کہ وہ ظاہریہ کو اہلِ سنت میں شمار نہیں کرتے کیونکہ وہ قیاس کو مسترد کرتے ہیں۔)البتہ نیازی صاحب یہ ضرور کہتے ہیں کہ حنفی فقہاے کرام کے تصورِ قیاس اور امام شافعی کے تصورِ قیاس میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الرسالہ میں امام شافعی نے قیاس کی جو مثالیں دی ہیں، وہ حنفی نظام کی رو سے زیادہ تر لغوی استدلال کے زمرے میں آتی ہیں اور لغوی استدلال کے ذریعے حکم کو نص سے فرع تک لے جانے سے تو ظاہریہ نے بھی انکار نہیں کیا۔ بہ الفاظِ دیگر، نیازی صاحب امام شافعی کو احناف کی بہ نسبت ظاہریہ کے قریب قرار دیتے ہیں اور جس کی نظر شافعی فقہ پر ہے وہ اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ قیاس، مصلحت اور مقاصد کے متعلق حنفی اور شافعی مناہج کے فرق کے متعلق نیازی صاحب کے موقف کے درست فہم کےلیے Theories، Islamic Legal Maxims اور Comparative Jurisprudence میں متعلقہ مباحث دیکھنے ضروری ہیں۔
7۔ اسی طرح امام غزالی کی کنٹری بیوشن کے متعلق بھی نیازی صاحب کا موقف درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔ نیازی صاحب ہرگز یہ نہیں کہتے کہ امام غزالی نے حنفی منہج سے چیزیں لے کر شافعی منہج میں شامل کرلیں اور دیگر شافعی اصولیین و فقہاء کو گویا خبر تک نہیں ہوئی، نہ ہی وہ یہ کہتے ہیں کہ امام غزالی نے امام شافعی اور حنفی فقہاے کرام کے مناہج کو خلط ملط کردیا۔ اس کے برعکس وہ یہ کہتے ہیں کہ امام غزالی اور ان کے استاد امام جوینی نے حنفی منہج سے کچھ اصول لے کر انھیں شافعی منہج میں یوں سمودیا کہ اس کے نتیجے میں بظاہر ایک نیا نظریہ وجود میں آیا لیکن وہ دراصل اس دائرے میں کام کرتا ہے جہاں حنفی و شافعی مناہج کا اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے مالکی و حنبلی مناہج میں بھی اسے قبولیت حاصل ہوئی اور امام شاطبی نے تو اپنی کتاب کا نام ہی الموافقات رکھا۔ (واضح رہے کہ نیازی صاحب کا ایک اہم کام موافقات کا انگریزی ترجمہ بھی ہے۔) اس کے علاوہ نیازی صاحب یہ کہتے ہیں کہ نصوص کی لغوی تعبیر و تشریح کے دائرے پر اور پھر ان نصوص میں موجود احکام کو قیاس کے ذریعے نئے فروع تک توسیع دینے کا کام پیہلی چار صدیوں میں کمال کے ساتھ کیا گیا، تو اس کے بعد قدرتی طور پر اس تیسرے دائرے (اسلامی قانونی نظام کے اعلی اقدار و اہداف) پر کام کا موقع آیا جہاں مناہج کے اختلاف کے باجود ایک نوع کا اتفاق پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پانچویں صدی ہجری میں مقاصدِ شریعت پر بحثیں نظر آتی ہیں جس میں دبوسی و سرخسی اور جوینی و غزالی نے اہم کردار ادا کیا اور چھٹی صدی ہجری کی ابتدا تک ایک جامع نظریہ سامنے آچکا تھا۔
8۔ نیازی صاحب کے کام کا ایک اور اہم پہلو، جس کو زاہد صاحب نے نظرانداز کیا ہے، یہ ہے کہ انھوں نے شاخٹ اور دیگر مستشرقین (اور ان کے زیرِ اثر عرب مؤلفین اور پھر ان کے عجمی مقلدین) کے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ فقہ اور اصول کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ شاخٹ وغیرہ کا کہنا تھا کہ فقہ تو امام شافعی کی پیدائش سے بھی قبل وجود میں آچکی تھی اور اصولِ فقہ پر امام شافعی کا رسالہ تو امام شافعی کی زندگی کے آخری دور کا کام ہے، تو گویا اصولِ فقہ محض ایک نظری مشق تھی جس کا فقہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور فقہ تو اصولِ فقہ کے بغیر ہی وجود میں آئی تھی۔ شاخٹ وغیرہ کا ایک اور اہم مفروضہ یہ بھی تھا، جسے نیازی صاحب نے غلط ثابت کیا ہے لیکن وہ زاہد بھائی کےلیے پتہ نہیں کیوں اہم نہیں ہے، کہ فقہ تو صرف کتب تک محدود تھی اور عملا جو نظام بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں رائج رہا (جیسے حسبہ کا ادارہ، مظالم کا تصور، وغیرہ)، وہ فقہ سے یکسر لاتعلق تھا۔ نیازی صاحب نے دکھایا کہ فقہ اور سیاسہ کا آپس میں تعلق کیا تھا، فقہاے کرام نے کس حصے پر فوکس کیا، حکمران کا دائرۂ کار کیسے متعین ہوا اور ان دونوں دائروں کا آپس میں تعامل کیسے رہا۔ اس پہلو سے بھی خصوصا وہ سیاسہ اور مقاصد کے تعلق کو واضح کرتے ہیں لیکن بوجوہ اس پہلو کو زاہد بھائی نے توجہ نہیں دی، حالانکہ ان دونوں مفروضوں کو ماننے یا مسترد کرنے سے حنفی و شافعی مناہج کے فہم میں بنیادی فروق وجود میں آتے ہیں۔
9۔ اس کے بعد جہاں تک شافعی منہج میں قواعدِ فقہیہ کے استعمال کے متعلق نیازی صاحب کا موقف ہے، اسے بھی درست نہیں سمجھا گیا۔ جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھا تھا، میں اس پر تفصیل سے لکھوں گا، ان شاء اللہ۔ اس وقت عرض ہے کہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ شافعی فقہاے کرام قواعدِ فقہیہ استعمال نہیں کرتے، یا شافعی فقہی تراث میں آپ کو قواعدِ فقہیہ نظر نہیں آئیں گے۔ اس لیے امام شافعی کی بعض عبارات کو قواعدِ فقہیہ کی مثالوں کے طور پر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (ویسے ان میں کئی جملے ایسے ہیں جنھیں بیسویں صدی کے بعض عرب مؤلفین اور بعض معاصر مؤلفین قواعد فقہیہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ بس اچھے عربی جملے ہوتے ہیں اور بس)۔ نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے کہ عز الدین بن عبد السلام یا سبکی یا سیوطی کی کتب کا حوالہ دیا جائے۔ہم ایک تو یہ کہتے ہیں کہ جنھیں قواعدِ فقہیہ کہا جاتا ہے ان کی طرف شافعی فقہاء کی توجہ بہت بعد میں ہوئی، خصوصا ہانچویں صدی ہجری میں امام جوینی کے اصرار پر، اور دوسرے، (جو اصل نکتہ ہے) وہ اصولی منہج میں ان قواعد کے کردار کا ہے۔ حنفی فقہاے کرام کی پہلی چار صدیوں کی کتب دیکھ لیں اور پھر ان کا موازنہ اسی دور کی شافعی کتبِ فقہ کے ساتھ کریں، تو خود ہی فرق واضح ہوجائے گا۔ تفصیلی موازنہ میں الگ سے مضمون میں پیش کروں گا، ان شاء اللہ۔ اس دور میں حنفی منہج شافعی اصولیین کے طریقے سے اس قدر مختلف نظر آتا ہے کہ ابوزہرہ کو کہنا پڑا کہ حنفیوں کے ہاں قواعدِ فقہیہ ہی کو قواعدِ اصولیہ کی حیثیت حاصل ہے! یہ حنفی منہج کی درست تعبیر نہیں ہے لیکن اس سے کچھ اندازہ ہوجاتا ہے کہ حنفی نظام میں قواعدِ فقہیہ کا کردار کتنا اہم ہے۔
10۔ قواعدِ فقہیہ اور قواعدِ اصولیہ کے درمیان انتہائی اہم جوہری فروق کو نظرانداز کرنے، یا مجھے کہنے دیجیے کہ نہ سمجھنے، کی بنا پر ہی ہمارا موقف زاہد بھائی نے درست طریقے سے پیش نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دلیلِ اجمالی اور دلیلِ تفصیلی کے متعلق میری تفصیلی وضاحت کو بھی، مجھے کہنے دیجیے کہ بالکل ہی غلط سمجھا۔ مثلا میرے موقف کا خلاصہ یہ بیان کرنا کہ: “قواعد فقہیہ نہ دلیل اجمالی میں آتے ہیں اور نہ ہی دلیل تفصیلی میں” یہ بتاتا ہے کہ میرا تفصیلی مضمون بس سرسری طور پر ہی پڑھا گیا ہے اور اسے قطعی طور پر غلط سمجھا گیا ہے۔ میں نے بارہا اس مضمون میں وضاحت کی ہے کہ بات یہ ہورہی ہے کہ جب شافعی اصولیین اصولِ فقہ پر بطورِ علم کی ایک شاخ کے گفتگو کرتے ہیں اور اس کے موضوعات و محتویات کا ذکر کرتے ہیں، تو اس میں وہ اجمالی دلائل کا بھی ذکر کرلیتے ہیں لیکن اس مقام پر، جی ہاں اس مقام پر، اجمالی دلائل سے ان کی مراد قواعدِ اصولیہ ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ۔ یعنی شافعی اصولیین کے نزدیک اصول فقہ بطور علم کے موضوعات میں قواعدِ اصولیہ شامل ہیں۔ اس سے یہ بات کیسے نکلی کہ قواعدِ فقہیہ کو میں دلیلِ اجمالی ماننے سے انکار کررہا ہوں؟ بھئی اگر دلیلِ اجمالی سے مراد وہ دلیل ہے جس کا اطلاق کئی جزئیات پر ہوتا ہے، تو یقینا قواعدِ فقہیہ اجمالی دلائل ہیں، لیکن یہاں تو یہ بحث ہو ہی نہیں رہی کہ قواعدِ فقہیہ اجمالی دلائل ہیں یا نہیں، نہ ہی انھیں اجمالی دلائل کہنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ جو بحث ہورہی ہے، وہ یہ ہے کہ جب شافعی اصولیین اصول فقہ بطور علم کے موضوعات میں اجمالی دلائل کا ذکر کرتے ہیں، تو ان کی مراد قواعدِ اصولیہ ہیں یا قواعدِ فقہیہ؟ مجھے کہنے دیں کہ یہ سوال اصول فقہ کے مبتدی طالب علم سے پوچھیں تو وہ بھی جواب دے گا کہ اس سیاق میں اجمالی دلائل سے مراد قواعدِ اصولیہ ہی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے تفصیل سے شافعی اصولیین کی تصریحات اس ضمن میں پیش کیں کہ اس سیاق میں وہ اجمالی دلائل سے مراد قواعدِ اصولیہ ہی لیتے ہیں۔ نیز اس کے متعلق بھی تصریحات پیش کیں کہ فقہ تو ان کے نزدیک اجمالی دلائل سے اخذ ہی نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ اس مضمون میں میرا بیان کردہ موقف یہ نہیں ہے کہ “قواعد فقہیہ نہ دلیل اجمالی میں آتے ہیں اور نہ ہی دلیل تفصیلی میں”، بلکہ یہ ہے کہ قواعدِ فقہیہ اجمالی دلائل ہیں لیکن اصول فقہ بطور علم کے موضوع میں اجمالی دلائل سے شافعی اصولیین کی مراد قواعدِ اصولیہ ہوتے ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ، اور رہی فقہ تو ان کے نزدیک اجمالی دلائل سے اخذ کیے جانے والے علم کو فقہ کہا ہی نہیں جاسکتا۔ چنانچہ خلاصہ یہ ہوا کہ : “شافعی اصولیین کے نزدیک قواعدِ فقہیہ سرے سے اصولِ فقہ بطور علم کا موضوع ہی نہیں ہیں اور قواعدِ فقہیہ سے اخذ شدہ علم کو فقہ نہیں کہا جاسکتا۔ ” اس خلاصے کو میں نے اس لیے واوین میں لکھ دیا کہ اگر تنقید کرنی ہے تو اس موقف پر کریں، نہ کہ اس موقف کی طرف جو آپ نے غلط فہمی کی بنا پر میری طرف منسوب کردیا ہے۔
11۔ قواعدِ فقہیہ اور قواعدِ اصولیہ اور اسی طرح دلیلِ اجمالی اور دلیلِ تفصیلی کے متعلق یہ کنفیوژن زاہد بھائی کے پورے مضمون میں نظر آتی ہے لیکن بالخصوص بعض مقامات میرے نزدیک انتہائی حیران کن، بلکہ افسوسناک ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مصلحتِ مرسلہ کو قاعدہ اصولیہ کے بجاے قاعدہ فقہیہ ماننے پر اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ اصول کی کسی بھی کتاب سے قاعدہ اصولیہ اور قاعدہ فقہیہ کے فرق کو سمجھ لینے کے بعد کوئی بھی شخص مصلحت مرسلہ کو قاعدہ فقہیہ نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ “شوافع کے نزدیک مصلحت مرسلہ کی طرح مصلحت مناسب غریب (بطریق موافقت احکام عین تا عین تاثیر) بھی دلیل اجمالی ہے ” غیر ضروری تنقید ہے۔ اس سے تو انکار ہی نہیں ہے کہ یہ دلیل اجمالی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دلیل اجمالی قاعدہ فقہیہ ہے یا قاعدہ اصولیہ۔ اسی طرح یہ کہنا “ہر کیلی شے ربوی ہے” دلیل تفصیلی ہے، انتہائی حیران کن ہے کیونکہ جب آپ نے “ہر شے” کہہ دیا تو یہ دلیلِ تفصیلی کیسے رہ گئی، یہ تو دلیلِ اجمالی بن گئی (اور آپس کی بات ہے، یہاں یہ دلیل اجمالی قاعدہ فقہیہ ہے، نہ کہ قاعدہ اصولیہ)! اپنے مضمون کے آخر میں زاہد بھائی فرماتے ہیں: ” دلیل اجمالی و تفصیلی سے متعلق ایسی کوئی غلط فہمی موجود نہیں جس کا ازالہ کیا جانا ضروری ہو۔”لیکن ہماری اس توضیح سے معلوم ہوا کہ غلط فہمی یقینا موجود تھی جس کے ازالے کی ضرورت تھی اور ہم نے اس کے ازالے کےلیے اپنی سی کوشش کی لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہمارا مضمون اس غلط فہمی کو زائل نہیں کرسکا، جیسا کہ ان کے تازہ مضمون سے معلوم ہوا۔
12۔ زاہد بھائی نے دعوی بھی کیا ہے کہ: ” اصولیین شوافع کے تصور قیاس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو مشائخ احناف کے تصور قیاس سے بہت زیادہ وسیع ہے”۔ اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ ہمیں اس دعوے کی صحت یا عدمِ صحت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ دونوں میں کس کا تصورِ قیاس وسیع ہے؟ ہماری دلچسپی اس میں ہے کہ دونوں کے تصورِ قیاس میں فرق ہے یا نہیں، اور ہے تو کیا؟ باقی رہی یہ بات کہ :” قیاس علت کیا ہے؟ قاعدہ فقہیہ کیا ہوتا ہے؟ قیاس کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ یہ کیسے تشکیل پاتا ہے؟ کیا یہ ماخذ ہے، کیفیت استدلال ہے یا خود حکم؟” تو اس کے متعلق عرض ہے کہ ہم ان، اور اس طرح کے دیگر سوالات پر تفصیل سے لکھیں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس مضمون کی حد تک ہمارا فوکس وہی تھا جو بارہا ذکر کیا گیا اور ایک دفعہ پھر یہاں ذکر کرتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہم نے مضمون کے آخرمیں لکھا تھا: “اس مضمون میں مقصود اس بات کی وضاحت تھی کہ فقہ کی تعریف میں دلائل تفصیلیہ کی قید کی وجہ سے قواعدِ فقہیہ غیرمتعلق ہوجاتے ہیں اور یہ کہ جب اصولِ فقہ بطورِ علم کے موضوعات و محتویات میں شافعی اصولیین اجمالی دلائل کی بات کرتے ہیں، تو ان کی مراد قواعدِ اصولیہ ہوتے ہیں، نہ کہ قواعدِ فقہیہ۔”
هذا ما عندي، والعلم عند الله.
کمنت کیجے