انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز نے Decolonizing Islamic Studies کے نام سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کی ابتدائی صدارت پروفیسر ڈاکٹر فتح ملک نے کی اور اختتامی خطبہ میرے استادِ محترم جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے دیا. سیمینار کی ریسورس پرسن ڈاکٹر حمیرا اقتدار صاحبہ تھیں جو کہ King’s College London میں Reader in Politics ہیں. اس کے علاوہ ان کا میجر کام Decolonization of Islamic Studies اور Comparative Political Theories سے منسلک ہے. مجھے اس سیمینار کو آن لائن سننے کا موقع ملا.
یہ دونوں emerging academic approaches جس بنیاد پر کام کر رہے ہیں ان کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ استعماری دور کے دوران بننے والے نظامِ تعلیم اور اس کے تحت بننے والے فلسفۂ تعلیم کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے. اس دور کے دوران جو یورپ-رخی فلسفے اور یورپ-رخی طرز فکر نے پوری دنیا پر ایک Hegemony قائم کی ہے اس کے نتیجے میں بننے والے standards اور ان standards پر سوال اٹھانے کے نتیجے میں قدامت کے الزام پر سوال اٹھایا جائے. اس کی بنیاد یہ ہے کہ یورپ نے دنیائے علم کی تسخیر کی اور اس کے نتیجے میں کچھ فلسفہ بنایا. اور اسی کے مطابق امور سرانجام دے رہا ہے. لیکن جب اس نے اپنے سمجھے ہوئے اصولوں کو دنیا پر لاگو کرنے کو لازم کیا ہے، اس approach پر سوال اٹھائے جائیں. کسی بھی ایک فلسفۂ تعلیم کو رد کرنے کے بجائے ایک integratuve اور multiple complexities والے فکر کی داغ بیل ڈالی جائے جس میں مقامی، قومی، مذہبی، تاریخی اوروجودہ سب نقطہ ہائے نظر کی افادیت کا جائزہ لیتے ہوئے سب کو پنپنے اور اظہار کا موقع دیا جائے.
اس ضمن میں ڈاکٹر حمیرا نے دو طریقہ ہائے تفتیش پر روشنی ڈالی. ایک یہ کہ کالونائزیشن، اس کے تعاملات اور اثرات کا جائزہ لیا جائے. لیکن انھوں نے کہا کہ اس میدان میں ہمارے پاس جو مواد موجود ہے وہ بذات خود بھی کالونئیل ہے اور اس سے متعلق سوالات کے حل بھی کالونئیل فریم ورک کے اندر ہی نکلیں گے.
دوسرا طریقے کے مطابق انھوں نے ڈسپلن آف اسلامک سٹڈیز کی اجراء کو کالونائزیشن کے حوالے سے گفتگو کو مرتکز کیا .
ان کے مطابق ستھرویں اٹھارویں صدی سے پہلے کے زمانے میں اسلام اور شریعت کا علم ایک وسیع دائرے پر مبنی تھا. لیکن Colonial Forces کے آنے کے بعد جب یہ دیکھا گیا کہ چوری کرنے پر شریعت میں ہاتھ بھی کاٹے جا سکتے ہیں لیکن اگر چور نے بھوک کی وجہ سے چوری کی ہے تو الٹا اس کی کفالت کر کے اسے گھر بھی بھیجا جا سکتا ہے.، تو استعماری قوتوں نے اسلام کے مغز کو تلاش کرنے کی کوشش کی تا کہ وہ اسے سمجھ کر اس کے ماننے والوں کے ساتھ معاملہ کر سکنے کے قابل ہو سکے. اس لئے اسلام کی عمومی کوڈیفیکیشن کی گئی. اس کے نتیجے میں اربنائزڈ معاشرے میں شہری ایلیٹ نے بھی اسلام کو سمجھ سکنے یا عمل میں لا سکنے کی غرض سے اسلام کی سمپلیفیکیشن یا کوڈیفیکیشن کا سوال اٹھایا. اسی دور ہی کے آس پاس پھر اسلام کو ایک نظامِ فکر کے طور پر سمجھنے کی کوشش بھی شروع ہوئی اور اسی لئے انھوں نے دہرایا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ اپروچ ایک جدید اپروچ ہے کہ اسلام کو ایک نظام کے طور پر سمجھا جائے جو کہ اس سے پہلے بہت کم نظر آیا ہے تاریخ میں.
پھر چونکہ اسلامک سٹڈیز جس زمانے میں اس طرز سے مروج ہونے لگا وہ زمانہ خود Colonization کا زمانہ تھا. سوالات بھی انھیں کی طرف سے تھے، اصول بھی اور جوابات بھی انھیں کے طرز پر دیے جاتے تھے. اس لئے اس وقت جو طرزِ فکر تھا اس کے مطابق اسلام کو اکیڈمکس میں ایک مسئلہ (problem) کے طور پر دیکھا گیا. 1950 کے بعد کے زمانے کو دیکھا جائے تو جو سوالات اسلامک سٹڈیز کے حوالے سے کئے جاتے تھے ان سب کا ارتکاز اسلام اور ماڈرنٹی کے درمیان تعلق اور تعامل کے حوالے سے تھا. 80 کی دہائی کے قریب یہ ارتکاز اسلام اور لبرل ازم پر مرکوز ہو گیا اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام اور لبرل ازم میں مطابقت ممکن ہے یا نہیں. وار آن ٹیرر کے زمانے میں اسلام اور شدت پسندی کے درمیان تعامل پر بحث ہونے لگی اور برڈن آف پروف اسلام کے کھاتے میں ڈال کر اسلام کو ایک بار پھر سوالیہ نشان بنایا گیا. اس وقت مسلمان اکیڈیمکس میں یہ سوال پلٹنے کی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ لبرل ازم میں موجود دراڑوں پر سوال اٹھا پاتے.
اس پس منظر میں انھوں نے مولانا مودودی کے کام پر تجزیہ پیش کیا کہ اگرچہ انھیں بہتر طور پر سمجھا نہیں گیا لیکن انھوں نے اپنے دور میں جو کام کیا وہ ڈی کالونائزیشن کا ہی تھا. جس طرح وہ نیشن سٹیٹ کے تصور کو اسلام اور ڈیماکریسی دونوں کے لئے نقصان دہ تصور کرتے تھے یہ ان کی بڑی کاوش تھی. اگرچہ اس کا جو حل انھوں نے پیش کیا اس کی افادیت اس لئے کم رہی کیونکہ وہ وہی چیز تجویز کر رہے تھے جو ان کے وقت کی آواز تھی. یعنی اس وقت کمیونزم اور سوشلزم بھی حالات بدلنے کے لئے حل سٹیٹ پر حکمرانی بتا رہے تھے اور یہی حل مولانا مودودی نے بھی پیش کیا. وہ اپنے دور سے اٹھ نہیں سکے. لیکن حمیرا نے یہی کہا کہ Comparative Political Theories کا یہی نکتۂ ارتکاز ہے کہ ہم ایک خاص تصور کو درست مان کر دسروں کو رد نہ کرتے پھریں بلکہ ر ایک میں سے کام کی بات لے کر آگے بڑھتے رہیں.
آخر میں انھوں نے کہا کہ ڈی کالونائزیشن کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنے لئے سوالات خود طے کریں. ان کے جوابات تلاش کرنا بعد کا عمل ہے. لیکن یہ صرف یورپ یا ویسٹ کا پری راگیٹو نہیں ہے کہ وہ ہم پر سوال لاگو کریں بلکہ ہم خود اپنے مسائل کا تعین کریں اور مختلف جہات سے ان کا تجزیہ کرنے کے قابل ہوں.
آئی پی ایس کے سیمینار کی عمدگی سے تلخیص اور اس موضوع پر خیالات شئیر کرنے کا بہت شکریہ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس موضوع اور اس کی مختلف جہات پر گفتگو جاری رہے۔ علم اورعمل تعلیم کی تشکیل نو کی فکر کا پیدا ہو نا بجائے خود ایک پیش رفت ہے۔