تقريبا سات گھنٹے بیت چکے ہیں ،ذہن کہ ابھی تک صبح کی ایک پرانی دنیا کے نئے طلسم میں کھویا ہوا ہے ، طلسماتی حقیقتوں تک ہاتھ پکڑ کر لے جانے والی ہستی جامعہ اسلامیہ کی قابل قدر استاذہ تیمیہ صبیحہ (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء تقابل ادیان) ہیں ، اذن ہوا کہ بروز ہفتہ12 مارچ، ایک ادبی نشست ہے وہاں حاضری دینی ہے ۔
ان کی نگاہ پڑے تو کون انکار کرے، سو بخوشی لبیک کہا اور ان کے ہم راہی اختیار کرتے ہوئے معروف ادیبہ محترمہ سلمی یاسمین نجمی صاحبہ کے دولت کدے پر جا پہنچے ۔
وسیع مجلس میں ادب سے وابستہ کئی بزرگ شخصیات جلوہ آراء نظر آئیں ، داخل ہوتے ہی اک کنارے پر ہم جا بیٹھے ۔
نشست کا آغاز محترمہ عامرہ احسان صاحبہ کی خوبصورت و پر تاثیر گفتگو سے ہوا یوں جیسے نبضِ قلب پر انگلی رکھ دی ہو اور لہجے سے عیاں ہوتا ہوا سارا درد، ساری فکر سننے والے کانوں کے راستے دل و دماغ میں بسیرا کئے جا رہا ہو ، علامہ اقبال کا عشقِ ایمان ان کے لبوں سے بیان ہورہا تھا اور سب مسحورکن نظروں سے ان کی طرف متوجہ تھے ۔
گفتگو کا سلسلہ بڑھا، محترمہ سلمی یاسمین نجمی کی ادارت میں شائع ہونے والے ماہنامہ عفت کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی اور موجودہ وقت کے ادبی تقاضوں ، ضروریات، رجحانات تک ان کی تان جا پہنچی۔
ساتھ ہی سب نئے آنے والوں کے سامنے کشمیری چائے کی پیالیاں رکھی جاتی رہیں ۔
اسی اثناء میں محترمہ استاذہ تیمیہ صاحبہ کو مدعو کیا گیا، استاذہ کی شفتہ اردو اور سلیس ورواں لہجے سمیت مدبرانہ سوچ اور نسل نو کو مطالعے اور کتابوں سے جوڑنے کے لئے اہم تجاویز سن کر سب نے داد دی ، استاذہ نے ادب سے جڑے حلقے اور جامعات کی طالبات کا ان حلقوں تک رسائی نہ ہونا یا ان رسالوں کے پڑھنے کا ذوق نہ ہونے کی نشان دہی کی اور سوال اٹھایا کہ انہیں میڈیا کی اس دوڑ میں کس طرح ان شفاف رسالوں کی طرف مائل کیا جائے ؟
اہل مجلس کی طرف سے انہیں دنیائے ادب میں اپنے برجستہ قلم سے ان تمام مسائل کے حل کے لیے نگارشات بکھیرنے کا اصرار بھی کیا گیا ۔
استاذہ کی پر مغز گفتگو کے بعد ان کے پہلو میں بیٹھنے کی برکت سے کچھ نظریں میری طرف بھی اٹھ گئیں اور مجھ سے کہا گیا کہ میں بھی کوئی مدعا رکھوں ۔
اگرچہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش باقی ہی کہاں تھی مگر الأمر فوق الأدب کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ جملے سامنے رکھ دئے اور عرض کیا کہ : سماجی مسائل وہی ہیں جو پہلے تھے البتہ ان کا طریقہ تبدیل ہوچکا ہے سو قلم کاروں کو بھی ان کی طرف متوجہ کرنے واسطے اپنے اسلوب تحریر میں کچھ جدت لانی ہوگی۔
گفتگو کے سلسلے بڑھتے رہے ، یکے بعد دیگرے قلم وادب سے جڑی خواتین اپنے مافی الضمیر، خدشات، ضروریات کا اظہار کرتی رہیں ، محترمہ جبین صاحبہ کی گفتگو مجلس کو کئی بار کشت و زعفران بناتی رہی اور سب خوب محظوظ ہوئے۔
اردو زبان کا عروج و زوال ، مطالعے اور کتاب کی دنیا کے افق ، عورت کی ذمہ داری ، نئی نسل کے مسائل الغرض ادب سے منسلک ہر ہی عنوان پر سیر حاصل اور دلچسپ گفتگو کی گئی،
گھڑی کی سوئی نے کب ٹک سے دو بجا دئے خبر ہی نہ ہوئی ۔
نشست کا اختتام ہوا، ظہرانے کا دسترخوان چنا گیا اور اس بابرکت مجلس کو سمیٹا گیا اور درحقیقت تھکے ہارے معاشرے میں فکر و تہذیب کے دروازے پر پھر سے دستک ہوئی تھی ، ٹھنڈی پھوار نے پھر سے ذہنوں کو تروتازہ کیا تھا ، اک نئے عزم ، حوصلے اور ہمت کو پھر سے پرواز ملی تھی ۔
میری نظر میں موجودہ دنیائے ادب کی کئی محفلوں پر یہ ایک محفل اپنی تاثیر ، خلوص اور فکر کی وجہ سے بھاری تھی کہ یہاں موجود سب ہی خواتین جو کر رہی تھیں ، جو چاہ رہی تھیں وہ صرف اس ایک اکیلی رب کی ذات کے لئے تھا اور اسی کے نام مختص تھا جس نے قلم اور اہلِ قلم کو عزت بخشی ۔
نامور اور تجربہ کار ادیبات کی محفل میں شرکت کا موقع دینے پر معلمہ تیمیہ کی شکر گزار ہوں ساتھ ہی یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس طرح کی مجالس مزید اور ہر حلقے میں ہونی چاہیئں جو کاغذ وقلم کی دنیا میں دوبارہ سے واپس لا سکیں ۔
کمنت کیجے