Home » فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں انٹلکچول پراپرٹی سے متعلق سیمینار
احوال وآثار فقہ وقانون مدارس اور تعلیم

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی میں انٹلکچول پراپرٹی سے متعلق سیمینار

 

فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں یکم اپریل کو یونیورسٹی کے ORIC اور شعبہ قانون کے زیرانتظام انٹیلیکچول پراپرٹی کے بارے میں ایک سمینار منعقد کیا گیا۔ دیگر شرکاء اور مقررین کے ساتھ مجھے بھی اعلی تعلیم کے اداروں میں انٹیلیکچول پراپرٹی کے رول کے بارے کچھ باتیں کہنے کا موقع ملا جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

1۔ دنیا بھر میں معیشتیں پروڈکشن یونٹس اور مینوفیکچرنگ کی اسٹیج سے نالج اکانومی کے پیراڈائم کی طرف منتقل ہوچکی ہیں اور نالج اکانومی کے دور میں کنٹرول اور اونر شپ کے تصورات انٹیلیکچول پراپرٹی پر مبنی ہیں۔ اس بدلتے تناظر میں انٹیلیکچول پراپرٹی سسٹم کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ انٹیلیکچول پراپرٹی کے بارے میں جانکاری کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔
2۔ جامعات بھی اس تبدیلی سے متاثر ہو رہی ہیں اور ان کے روایتی کردار (تعلیم و تحقیق) کے ساتھ اب بہت زیادہ فوکس اختراع (innovation) اور کمرشلائزیشن کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی ایچ ای سی نے جامعات کی سطح پر Offices of Research, Innovation & Commercialization کے قیام پر زور دیا ہے۔
3۔ اب جامعات سے یہ توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں کہ وہ انٹیلیکچول پراپرٹی کی مختلف اقسام کو فروغ دے کر جامعات کی پیٹنٹس پروفائل کو بہتر بنائیں گے۔ ان پیٹنٹس کی کمرشلائزیشن سے مستقبل میں جامعات کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کے خواب بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بعض جامعات اور تحقیقی اداروں نے پیٹنٹس حاصل کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ پیٹنٹس اور انٹیلیکچول پراپرٹی کی دیگر اقسام کو جامعات میں پذیرائی دینے کے لئے متعدد اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
4۔ اس نئی انٹیلیکچول پراپرٹی پر مبنی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے احتیاط اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ پاکستان کے وہ تحقیقی ادارے جو برسوں سے قائم ہیں اور جن کے سو سے زائد پیٹنٹس اس وقت ظاہر کئے جاتے ہیں ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیئے کہ ان میں سے کتنے پیٹنٹس حتمی طور پر لائسینسنگ اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے مراحل سے گزرے ہیں؟ محض پیٹنٹس کی فائلنگ پبلک فنڈز کا ضیاع اور رسمی کاروائی ہے۔ اس وقت بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
5۔ اعلی تعلیم کے ادارے صرف انٹیلیکچول پراپرٹی کی تخلیق نہیں کرتے بلکہ مختلف اقسام کی انٹیلیکچول پراپرٹی کے استعمال کنندہ بھی ہیں۔ اگر اس ساری پراپرٹی کے لئے قیمت ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ تعلیمی مواد’ سافٹ وئیرز اور دیگر اشیاء کے انٹیلیکچول پراپرٹی حقوق کی پاسداری کرنے کا عزم کر بھی لیا جائے تو اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات اور ایچ ای سی ایک قابل عمل پالیسی تشکیل دیں۔

ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن

ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن قانون کے ممتاز اسکالر ہیں اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ قانون میں  ڈائریکٹر اسکول آف لاء  کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔
azeez.rehman@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں