مفتی محمد اویس پراچہ
یہ ایک مختصر مقالہ ہے جس میں مصنف د. محمد طه حميدي نے جن موضوعات پر بحث کی ہے ان میں سے اہم یہ ہیں:
اول: تلفیق کی تعریف: پہلے مصنف نے جمال الدین قاسمی رح سے یہ نقل کیا ہے کہ تلفیق کا ذکر ہمیں ابتدائی دور میں نظر نہیں آتا جب تعصب مذہبی کافی کم تھا۔ اس کے بعد تلفیق کی مختلف تعریفات ذکر کر کے اسے ترجیح دی ہے: “ایک ہی حکم کے اجزاء میں ایک سے زیادہ اقوال کو اس طرح جمع کرنا کہ اس کا کوئی مجتہد قائل نہ ہو۔” (قاضی شوکانی رح نے اسے اجماع مرکب کی مخالفت قرار دیا ہے…. راقم)
دوم: تلفیق اور تتبع رخص: ان میں تلفیق کی تعریفات کے مطابق عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے۔ مزید ابحاث یہ ہیں:
الف: تتبع رخص کا معنی: “فقہاء کے اقوال میں آسان قول کا انتخاب کرنا۔”
ب: تتبع رخص کا حکم: اس میں تین قسم کے اقوال ہیں:
مخففین: ان میں بعض حنفیہ (ابن ہمام رح) اور بعض مالکیہ (دسوقی رح) ہیں۔ یہ حضرات اسے مطلقاً درست مانتے ہیں۔ (علامہ شامی رح نے بھی اختلاف مجتہدین کے حوالے سے کچھ ایسی ہی بات ذکر فرمائی ہے۔… راقم)
مشددین: ان میں اکثر مالکیہ، بعض شوافع اور اکثر حنابلہ ہیں جو اسے بالکل درست نہیں سمجھتے۔ بعض نے تو اجماع کا دعوی بھی کیا ہے۔
متوسطین: یہ قرافی رح اور چند کا مذہب ہے اور مجمع الفقہ الاسلامی نے بھی اسے ترجیح دی ہے۔ اس کے مطابق ان شرائط کے ساتھ رخصت پر عمل درست ہے:
الف: شاذ قول نہ ہو
ب: کوئی ضرورت عام یا خاص ہو
ج: تلفیق لازم نہ آئے
د: کوئی غیر مشروع چیز حاصل کرنا مقصد نہ ہو
ہ: عمل کرنے والے کا دل مطمئن ہو
سوم: مقلد پر مذہب معین کی تقلید لازم ہے یا نہیں؟ جمہور کے نزدیک لازم نہیں ہے، بعض کے نزدیک ہے۔ پھر جن کے نزدیک لازم ہے ان کے یہاں انتقال الی مذہب الغیر کے حوالے سے کئی اقوال ہیں۔
چہارم: کسی مسئلے میں اگر اختلاف رہا ہو تو اس میں قول ثالث کا احداث جائز ہے یا نہیں؟ تین قسم کے اقوال ہیں:
الف: مطلقاً منع ہے۔ یہ جمہور کا قول ہے۔
ب: مطلقاً اجازت ہے۔ یہ بعض حنفیہ اور ظاہریہ کا قول ہے اور صاحب بحر نے بھی ذکر کیا ہے۔
ج: تفصيل ہے کہ اگر قول ثالث پچھلے دونوں اقوال کو ختم نہیں کرتا تو درست ہے اور اگر ختم کرتا ہے تو درست نہیں ہے۔ یہ تفصیل امام شافعی رح، ان کے اصحاب اور اصولیین میں سے ایک جماعت کے یہاں ہے۔ مصنف نے اس کو ترجیح دی ہے۔
اس میں اور تلفیق میں یہ فرق ہے کہ تلفیق مجتہدین کے اقوال کو جمع کر کے ہوتی ہے اور اس میں بالکل نئے قول کا امکان بھی ہوتا ہے۔
پنجم: مسئلہ مراعاۃ الاختلاف: یہ مالکیہ کا مذہب ہے کہ اگر کوئی کام ہو چکا ہو اور اس میں مسلک کا مسئلہ تو الگ ہو لیکن دوسرے مجتہد کا مسلک بھی موجود ہو تو احتیاطاً دوسری جانب پر عمل کرنے کا کہا جائے گا۔
ششم: اختلافی مسائل میں کون درست ہوتا ہے؟ متکلمین کے مطابق تمام مجتہدین عند اللہ مصیب ہیں۔ فقہاء کے یہاں کوئی ایک مصیب ہے لیکن دوسرے کو بھی گناہ نہیں ہوگا۔ مصنف نے فقہاء کے قول کو ترجیح دی ہے۔
ہشتم: حیلہ: ہر وہ کام جس کے ذریعے گھما پھرا کر مقصد حاصل کیا جا سکے۔ پھر اگر مقصد برا ہو تو یہ حیلہ بھی برا ہے اور مقصد اچھا ہو تو حیلہ بھی اچھا ہے۔ مصنف نے ابن القيم رح وغیرہ کی اتباع میں اچھے حیلے کو مخرج کا نام دیا ہے۔
تلفیق حیلے کا ایک وسیلہ ہے۔
ہفتم: ترکیب: معاملات مالیہ میں ایک سے زیادہ اشیاء کا ایک جگہ جمع کرنا۔ جمہور کے یہاں معاملات میں اصل اباحت ہے لہذا یہ بھی درست ہوگا۔ ظاہریہ کے یہاں اصل حظر ہے لہذا یہ بھی درست نہیں ہوگا۔ (مصنف نے یہاں کوئی مثال بھی نہیں دی اور بات کو زیادہ واضح بھی نہیں کیا ہے۔…. راقم)
نہم: مقلد کا تلفیق کرنا: اس میں دو اقوال ہیں:
مجیزین: ابن الہمام رح، امیر بادشاہ رح، دسوقی رح اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
مانعین: جوینی رح اور کئی دیگر علماء اسے ممنوع قرار دیتے ہیں۔
مصنف نے سب کے دلائل اور ان پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کے بعد ان شرائط کے ساتھ جواز کو ترجیح دی ہے:
الف: رخصتیں تلاش کرنا مقصد نہ ہو، اتفاقاً تلفیق ہو جائے۔
ب: اس کی کوئی ضرورت یا حاجت ہو۔
ج: پہلے کیے ہوئے عمل سے رجوع نہ ہو جیسے تین طلاق دے کر تین کا ارادہ کر لیا ہو اور بعد میں انہیں ایک قرار دے۔
د: حکم حاکم کے خلاف نہ ہو۔
ہ: کوئی حرام کام لازم نہ آتا ہو۔
و: احکام سے بچنے کے لیے یہ نہ کرتا ہو۔
دہم: مجتہد غیر مطلق، غیر منتسب کی تلفیق: شاہ ولی اللہ رح نے اسے مطلقاً جائز فرمایا ہے۔ مصنف نے اس میں دو قسمیں کی ہیں:
الف: ایسا قول اختیار کرنا جس میں تلفیق بھی ہو (یعنی بالکل نیا قول نہ ہو بلکہ ایک سے زیادہ اقوال کا مجموعہ ہو) اور وہ گزشتہ اقوال سے مختلف بھی ہو۔ اس میں مذکورہ بالا قول ثالث والی تفصیل لاگو ہوگی۔
ب: ایک ہی موضوع کے بعض مسائل میں دوسرے مجتہدین کے اقوال لینا۔ اس میں مذہب معین کی تقلید والی تفصیل کا اطلاق ہوگا۔ کل تین اقوال ہیں۔ مطلقاً جواز، مطلقاً ممانعت اور مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جواز:
١. اس کی بنیاد اتباع ہوی نہ ہو۔
٢: قول کے راجح ہونے کی وجہ سے اختیار کیا ہو۔
٣: لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کرے۔
یہاں تک مصنف نے ان بنیادی چیزوں پر بحث کی ہے اور اس کے بعد ان کا اطلاق جدید مالی معاملات کی مختلف صورتوں پر کیا ہے۔
—————————————————
مفتی محمد اویس پراچہ نے شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ کراچی سے ایم فل کیا ہے اور جامعۃ الرشید کراچی میں افتاء کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
کمنت کیجے