Home » چار گواہوں کی شرط ۔ چند سوالات
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

چار گواہوں کی شرط ۔ چند سوالات

 

کیا قرآن مجید میں زنا (بالرضا ہو یا بالجبر) کے اثبات کے سلسلے میں چار گواہوں کا مطالبہ کیا گیا ہے؟
قرآن مجید میں دو مقامات پر چار گواہ لانے کی بات کہی گئی ہے۔ پہلے اُن دو آیات کو ملاحظہ کیجیے
وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا۔ (سورہ نساء، آیت 15)
اس آیت کا مولانا مودودی نے ترجمہ کچھ یوں کیا ہے
تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (سورہ نور، آیت 4)
مولانا مودودی کا ترجمہ یوں ہے
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔
آپ یہ دونوں آیات دیکھیں۔ جہاں تک سورہ نساء کی آیت 15 کا تعلق ہے تو بظاہر وہاں صرف عورتوں کی بات ہو رہی ہے کہ آپ کی عورتوں میں سے جو فحش کام کی مرتکب ہوں، اُن پر چار گواہ لاؤ۔ اگر اِس فحش کام سے “زنا” ہی مراد ہے تو یہاں زانی مرد کا تذکرہ نہیں ہے۔ زنا دو طرفہ عمل ہے۔ اس سے اگلی آیت یعنی سورہ نساء کی آیت 16 قابلِ توجہ ہے
وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔
مولانا احمد علی نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے
اور تم میں سے جو دو مرد وہی بدکاری کریں تو ان کو تکلیف دو پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو بےشک الله توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
سورہ نساء کی مذکورہ بالا آیت کے حوالے سے ڈاکٹر محسن نقوی صاحب اِن دو آیات (15، 16) کو ملا کر عورت اور مرد کی ہم جنس پرستی کے ذیل میں لاتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ دونوں آیات کو ملا کر پڑھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔ آیت 15 میں عورت کی فحاشی کا تذکرہ ہے کہ اگر وہ فحش کام کرے تو سزا کے طور پر یا گھر میں محصور رکھیں یا اُن کی شادی کا بندوبست کر دیں۔ آیت 16 میں ہے کہ اگر دو مرد، ایسی فحاشی کریں تو اُنھیں سزا دیجیے۔ عربوں کے ہاں عورتوں کو گھروں میں بند کرنا کچھ مشکل نہ تھا؛ تاہم مرد کو عضوِ معطل بنانا ایک بوجھ سے کم نہ تھا، اس لیے اُنھیں اذیت (سزا) کا کہا گیا۔ ( سورہ نساء کی آیت 15،16 کی مکمل بحث کے سلسلے میں ڈاکٹر محسن نقوی صاحب کی کتاب “فہمِ اسلام کے جدید خطوط” کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب انتہائی اہم اور لائقِ مطالعہ ہے)

اگر یہ آیات “زنا” پر چار گواہوں کا تقاضا کرتیں تو مرد کا بھی تذکرہ ہوتا کہ زانی عورت اور مرد کے خلاف چار گواہ لائے جائیں۔ گویا اس آیت میں چار گواہ، زنا (بالرضا ہو یا بالجبر) کے حوالے سے لانے کا حکم مذکور نہیں۔
جہاں تک سورہ نور کی مذکورہ بالا آیت کا تعلق ہے تو وہ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں سے متعلق ہے کہ وہ تہمت لگانے والے، چار گواہ لائیں۔
اگر ایک، دو، تین یا چار افراد زنا (بالرضا یا بالجبر) ہوتا دیکھیں تو کیا وہ اِس کے خلاف آواز نہ اُٹھائیں کہ اُنھیں چار گواہ لانا ہوں گے؟ بالخصوص زبا بالجبر میں کیا وہ چار گواہ لانے کے ڈر سے، موقع سے ہی چلے جائیں؟
کیا چار سے کم افراد زنا (بالرضا یا بالجبر) کی گواہی نہ دیں؟ جبکہ سورہ بقرہ، آیت 283 میں ہے
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ۔
اور گواہی کو نہ چھپاؤ۔
کیا جدید آلات اور واقعاتی شہادتوں سے بشمول ڈی این اے سے زنا کا اثبات نہیں کیا جا سکتا؟
کیا ڈی این اے اور دیگر جدید ذرائع و وسائل سے اگر کسی عورت/ مرد کو زنا کی سزا دی جائے تو اُنھیں “زنا کا مرتکب” کہنا بھی چار گواہ لانے تک قذف (جھوٹی تہمت) شمار ہوگا؟

مفتی امجد عباس

مفتی امجد عباس نے جامعۃ الکوثر اسلام آباد سے دینی علوم کی تحصیل مکمل کی اور البصیرہ ٹرسٹ اسلام آباد کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستہ رہے ہیں۔

amjadabbask@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں