Home » حق حضانت کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اہم فیصلہ
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

حق حضانت کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اہم فیصلہ

سجاد حمید یوسف زئی
سیکشن 491 سی آر پی سی کے تحت habeas corpus (کسٹڈی) کی رٹ اور عام رٹ میں کیا فرق ہے ؟
بچے کی custody کیا جنس کی بنیاد پہ دی جائے گی یا اس کے لیے gender neutral approach اپنانا چاہیے ؟
اسی نکتہ پہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج بابر ستار صاحب کا ایک دلچسپ فیصلہ آیا ہے۔
کیس کے حقائق کچھ یوں ہیں کہ دو بہنوں کی شادی دو بھائیوں کے ساتھ ایک ہی گھر میں ہوئی۔ کافی عرصے تک معاملات صحیح چلتے رہیں۔ بعد ازاں مسائل کھڑے ہوئے اور دنوں بہنیں شوہروں کا گھر چھوڑ کر والدین کے گھر چلی گئیں۔ چوں کہ بچے شوہر کے گھر ہی رہ گیے تھے اس لیے انہیں واپس لینے کی حد تک سیکشن 491 سی آر پی سی کے تحت دونوں ماووں کی طرف سے حبس بیجا کی درخواست دائر کی گئی۔
اسی درخواست پہ سیشن جج اسلام آباد نے فیصلہ دیا اور بچوں کو ان کے ماووں کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا۔
اس حکم کے خلاف دونوں شوہر/والدین اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلے گیے جہاں پہ معزز جج بابر ستار صاحب نے ذیل فیصلہ دیا
معزز جج نے کہا کہ بچے کی حضانت یا custody کے لیے سیکشن 491 کے تحت کی گئی habeas corpus petition کو عام habeas corpus petition کے ساتھ نہ الجھایا جائے دونوں اگر چہ حبس بے جا کی درخواستیں ہیں مگر دونوں کی نوعیت مختلف ہیں ۔ اول ذکر میں بچے کی custody کا مسئلہ ہے اس کی آذادی سلب ہونے کا مسئلہ نہیں ہے جب کہ ثانی الذکر میں حبس بے جا میں رکھنے اور کسی شخص کی آذادی سلب کرنے کا سوال ہوتا ہے جو کہ باقاعدہ ایک سنگین جرم ہے۔ بچے اگر غیر قانونی طور پر والد کے کسٹڈی میں ہو تب بھی حبس بے جا میں رکھنے کا یا اغوا کاری کا جرم نہیں بنتا۔ اس لیے ان دونوں قسم کی درخواستوں میں یہ فرق ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
اسی طرح بچہ اگر والد کے پاس ہو تو اسے اغوا کاری یا غیر قانونی قید سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں بچے کی کسٹڈی کے لیے سیکشن 491 کے تحت پٹیشن فائل کی گئی ہو اس پہ فیصلہ دیتے ہوئے جج کے سامنے بچے کی فلاح و بہبود کا تصور ہونا چاہیے۔ جیسا کہ کامن لاء میں مذکور ہے۔
اس موقع پہ آکر معزز عدالت نے بہت سی کتب سے اقتباسات نقل کیے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بچے کی فلاح و بہبود ہی اصل محور ہے جس کے گرد کسٹڈی درخواست گھومنی چاہیے۔
ہوسکتا ہے کہ والد کا کردار مکمل طور پر بے داغ ہو وہ اپنی ذات میں “مکمل” ہو بچے کی ماں خاوند سے بلا کسی وجہ کے علیحدہ ہوئی ہو خاوند کا کوئی قصور نہ ہو تب بھی ممکن ہے کہ بچے کی فلاح و بہبود اس بات کا تقاضہ کرے کہ والد کو کسٹڈی کا حق نہیں ملنا چاہیے یہ والدہ کو ملنا چاہیے۔
فلاح و بہبود میں بچے کی اخلاقی و مذھبی تربیت بھی شامل ہے۔
یہاں پہ آکر معزز جج نے پھر یہ بات دہرائی ہے کہ بچے کی کسٹڈی کی پٹیشن کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ بچہ غیر قانونی طور پر اغواء ہوا ہے یا نہیں بلکہ عدالت کو یہ دیکھنا ہے کہ بچے کا فایدہ کس کے ساتھ رہنے میں ہے والدہ کے ساتھ یا والد کے ساتھ۔۔۔
پھر معزز عدالت انتہائی اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ ہمارے ملک میں عدالتیں tender years doctrine سے راہنمائی لیتی رہی ہیں۔ وہ یہ کہ کسٹڈی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالتیں یہ فرض کرلیتی ہیں کہ بچہ اگر کم عمر ہے تو اس کی اچھی نشوونما صرف ماں کے ساتھ رہنے میں ممکن ہے۔ اور یوں جنس کہ بنیاد پہ کسٹڈی ماں کو دے دی جاتی ہے اس پہ معزز عدالت نے کہا کہ معاصر معاشرتی ، نفسیاتی تحقیق اس assumption پہ سوال اٹھاتی ہے کہ والدہ ہی کم عمر بچوں کی نشوونما کے لیے بہترین آپشن ہے۔(والد بھی ہوسکتا ہے ضروری نہیں کہ ہر صورت میں والدہ ہی صحیح آپشن ہو) ۔
پھر معزز عدالت کہتی ہے کہ معاصر تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ اب بچے کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص جنس کا تصور اپنانا صحیح نہیں ہے بلکہ اب ہمیں gender neutral approach اپنانا چاہیے۔ یعنی اب ہمیں بچے کی کسٹڈی کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ عمر کی فلاں حد تک والدہ کو حضانت ملنی چاہیے اور عمر کے فلاں حد کے بعد والد کو ملنی چاہیے اب ہمیں والد یا والدہ کی بحث سے نکل کر gender neutral approach اپنا کر صرف اور صرف بچے کی فلاح کو دیکھنا ہے۔
پھر معزز عدالت نے کہا ہے کہ کسٹڈی درخواست کے وقت عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے والدین میں سے کون ابتدائی طور پر خیال رکھنے والا ہے۔ بچہ کس کے ساتھ نفسیاتی اور جسمانی طور پر جڑا ہوا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ عرف عام میں والدین میں سے جو بھی بچے کی جسمانی و نفسانی ضروریات پوری کرتا ہو/کرتی ہو وہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار ہے۔ یعنی یہ فیصلہ اب عرف عام میں روج پانے والے عمل پہ ہوگا
اس کے بعد معزز عدالت نے بچوں کو چیمبر میں بلا کر ان کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں جج کرنا چاہا جس سے واضح ہوا کہ بچوں کی برین واشنگ کی گئی ہے اور ماں کے خلاف انہیں بھڑکایا گیا ہے۔ پھر بچوں کی ماں کو بلایا گیا تو بچے ماں کے ساتھ جڑ گیے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ بچے ماں کے ساتھ emotional attachment رکھتے ہیں۔
آخر میں ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے معزز عدالت نے بچوں کی کسٹڈی ماووں کے حوالے کی۔
نوٹ: تحریر میں آسانی کے لیے فریقین کے لیے ماں اور والد یا والدین کے الفاظ استعمال کیے گیے جب کہ ججمنٹ میں یہ الفاظ مختلف ہیں۔
PLD 2022 Islamabad 120
—————————————————-
سجاد حمید یوسف زئی نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے قانون  کی تعلیم حاصل کی ہے اور اسلام آباد میں قانونی پریکٹس کرتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں