مفتی محمد اویس پراچہ
آپ نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ اسلامی کرنسی تو سونا اور چاندی (یا درہم اور دینار) ہی ہیں۔ یہ ثمن خلقی ہیں یعنی انہیں اللہ پاک نے ثمن بنایا ہے اور یہ ہمیشہ ثمن (کرنسی) ہی رہیں گے۔ ان کے علاوہ ہر کرنسی ان کی نائب، دجالی یا نیو ورلڈ آرڈر کی پیدائش ہے۔ دیگر تمام کرنسیاں ثمن عرفی ہیں یعنی یہ عرف کی وجہ سے زر یا کرنسی بنی ہیں۔ بعض اوقات ہم کچھ معروف اسکالرز اور ریسرچرز کو بھی یہ کہتے سنتے ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ سونے اور چاندی کا ثمن خلقی (یعنی قدرتی کرنسی) ہونا کوئی متفقہ بات نہیں ہے۔ امام جصاصؒ ان کو ثمن لوگوں کے عرف کی وجہ سے قرار دیتے ہیں [1]۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ سونے اور چاندی کا حجم کم ہوتا ہے، یہ ایک جیسے ہوتے ہیں، ان کا بدنی نفع زیادہ ہوتا ہے اور ان سے خوبصورتی حاصل کی جاتی ہے لہذا یہ قدرتی طور پر ثمن قرار پائے اور دیگر اشیاء عرف کی بنا پر ثمن ہیں[2]۔ اس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ لوگوں کو چونکہ یہ ساری خصوصیات محبوب تھیں لہذا یہ دونوں ثمن کہلائے۔ امام سرخسیؒ دینار اور دراہم کی تعیین کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اصل چیز مالیت ہے، بغیر مالیت کے سونا چاندی اور دیگر معدنیات برابر ہیں اور مالیت بازاروں میں رواج سے پیدا ہوتی ہے[3]۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں “ثمن خلقی” کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر بیع صرف کے مخصوص احکام جاری ہوتے ہیں جو دیگر چیزوں پر جاری نہیں ہوتے۔ کسی چیز کا اپنی ذاتی حیثیت میں ثمن ہونا اور بیع صرف کا محل ہونا مختلف ہے اور لین دین کے لیے ثمن ہونا بالکل مختلف چیز ہے۔ چنانچہ علامہ شامیؒ بیع صرف میں ابن نجیمؒ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “ہم نے اس کی تفسیر اس(جو چیز ثمنیت کے لیے بنی ہو) سے اس لیے کی ہے تاکہ اس میں (زیور یا برتن وغیرہ کی صورت میں) ڈھلے ہوئے کی ڈھلے ہوئے یا نقد سے بیع شامل ہو جائے۔ کیوں کہ جب ڈھلی ہوئی چیز میں کاریگری شامل ہو جاتی ہے تو وہ صراحتاً ثمن نہیں رہتی اور اسی لیے عقد میں متعین بھی ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی بیع (حکم میں ) “صرف” ہے۔”[4]
یہ بات تو ائمہ اربعہ کے یہاں متفقہ ہے کہ سونا چاندی خام حالت میں ثمن کے احکام نہیں رکھتے جب تک کہ ان کا بطور ثمن رواج اور عرف نہ ہو جائے۔ حنفی فقیہ علامہ کاسانیؒ شرکت کے باب میں اسے مکمل طور پر لوگوں کے رواج پر منحصر فرماتے ہیں[5]، مالکی فقہاء امام مواقؒ اور حطابؒ مضاربت (قراض) میں اسے تعامل کی شرط کے ساتھ ذکر کرتے ہیں[6]، فقہائے شافعیہ میں شروانیؒ سکوں کی شکل میں اور اس کے بغیر خالص چاندی میں فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کسی نے دوسرے کو کوئی چیز دس درہم کے وزن کے عوض بیچی اور یہ نہیں بتایا کہ سکوں کی شکل میں دوں گا یا خالص دوں گا تو بیع درست نہیں ہوگی[7]اور حنبلی فقیہ علامہ بہوتیؒ غیر مضروب (سکوں کی شکل کے علاوہ) سونے یا چاندی کو سامان کی طرح قرار دیتے ہیں[8]۔ فقہ حنفی میں تو خیار رویت کے مسئلے میں صراحت سے سونے اور چاندی کی ڈلی، زیور اور برتنوں کا حکم دراہم اور دنانیر سے مختلف ذکر کیا گیا ہے[9]۔ دیگر مسائل میں بھی یہ واضح ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ خام حالت میں سونا اور چاندی کرنسی نہیں ہیں الا یہ کہ ان کا بطور کرنسی رواج ہو جائے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر درہم اور دینار میں ایسی کیا خصوصیت ہے جو وہ ثمن ہیں؟ اس کا جواب امام سرخسیؒ کے مذکورہ بالا قول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں اصل “مالیت” یا “رواج” ہے۔ جب سونے اور چاندی کو بادشاہ سکوں کی شکل میں ڈھال دیتے تھے تو ان کی لین دین اسی طرح عام جاتی تھی جس طرح آج کل ہمارے کرنسی نوٹ کی ہے۔ بادشاہ بدل بھی جاتے تھے تو لوگ ان کی لین دین نہیں چھوڑتے تھے۔ لہذا یہ ہمیشہ ثمن ہی سمجھے گئے۔ اس بات کا امکان تو تھا کہ ان کی لین دین بالکل ختم ہو جائے لیکن یہ امکان انتہائی نادر ہوتا تھا۔ بعض فقہاء کرام نے اس نادر امکان کی صورت میں بھی حکم بیان کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انیسویں صدی سے قبل تک یہ امکان نادر ہی رہا۔ یہ چیز عملاً ہمیں اس وقت نظر آئی جب انیسویں صدی میں کرنسی نوٹ کی پشت پر سے سونا ہٹا لیا گیا اور لوگ صرف نوٹ پر آ گئے۔ چنانچہ آج سونا اور چاندی اگرچہ سکوں کی شکل میں ہوں، کوئی بطور ثمن قبول نہیں کرتا۔ اس پر ان شاء اللہ پھر کبھی بات کریں گے۔
سردست ایک سوال ان حضرات کی خدمت میں ہے جو سونے اور چاندی کو ہی اسلام کی اصل کرنسی مانتے ہیں۔ یہ بات تو عام فہم ہے کہ یہ دونوں دھاتیں ہیں اور انہیں آن لائن ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کے پاس موجودہ آن لائن لین دین کے لیے کیا حل ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے کہ اسلام نے ہمیں ایک ایسی کرنسی دی ہے جسے آپ آج کل کی انٹرنیشنل ٹرانزیکشن میں استعمال ہی نہیں کر سکتے؟ کل کو اگر آن لائن لین دین کی ضرورت آج سے بھی بڑھ جاتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اسلام کا یہ حکم ایک مخصوص مدت تک ہی قابل عمل تھا اور اب اسلام قدیم ہو چکا ہے؟ میں اس لیے کہتا ہوں کہ اسلام ایک نظام نہیں، ایک آئین ہے۔ یہ مخصوص احکام دیتا ہے، کسی خاص چیز کو لازم نہیں کرتا۔ اس کے احکام ہر نظام کو درست کر سکتے ہیں اور اسی لیے یہ ہمیشہ باقی رہنے والا مذہب ہے۔
حوالہ جات:
[1] جصاص، ابو بکر: الفصول فی الاصول، کویت، وزارۃ الاوقاف الکویتیۃ، طبعۃ ثانیۃ، ج:4 ص:141
[2] الدھلوی، ولی اللہ: حجۃ اللہ البالغہ، بیروت، دار الجیل، الطبعۃ الاولی، ج:1 ص:91
[3] سرخسی: المسوط، بیروت، دار المعرفۃ،ج: 14 ص:16
[4] ابن عابدین: الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، بیروت، دار الفکر، الطبعۃ الثانیۃ، ج:5، ص:257
[5] کاسانی: بدائع الصنائع، دار الھدایۃ، ج:10، ص:276
[6] مواق: التاج و الاکلیل، دار الکتب العلمیۃ، الطبعۃ الاولی، ج: 7 ص:443؛ حطاب: مواھب الجلیل، دار الفکر، الطبعۃ الثالثۃ، ج:5 ص: 358
[7] شروانی: تحفة المحتاج في شرح المنهاج، مصر، المكتبة التجارية الكبرى، ج:4 ص: 258
[8] بہوتی: شرح منتھی الارادات، عالم الکتب، الطبعۃ الاولی، ج: 2، ص: 208
[9] ابن عابدین: الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، بیروت، دار الفکر، الطبعۃ الثانیۃ، ج:5، ص:259
—————————————————
مفتی محمد اویس پراچہ نے شیخ زاید اسلامک سنٹر، جامعہ کراچی سے ایم فل کیا ہے اور جامعۃ الرشید کراچی میں افتاء کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
ثمن خلقی اور ثمن عرفی کا فرق کس حد تک بامعنی ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماقبل جدید دور میں متمدن معاشروں میں عمومی طور پر بطور آلہ تبادلہ سونا چاندی کا رواج دیکھ کر یہ فرض کر لیا گیا کہ یہ دو دھاتیں تو فطری طور پر اسی مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہیں، جبکہ دیگر ذرائع تبادلہ چونکہ ایسے نہیں، اس لیے وہ ’’عرفی’’ ہیں۔ حالانکہ تاریخی لحاظ سے ذریعہ تبادلہ کی سبھی صورتیں ’’عرفی’’ ہی معلوم ہوتی ہیں اور تمدنی ضروریات کے بدلنے سے مختلف قسم کے عرف وجود میں آتے رہے ہیں۔
ایک اور سوال یہ سامنے آتا ہے کہ زر کے تاریخی ارتقاء کا مطالعہ کرتے ہوئے سونے چاندی کے بطور ذریعہ تبادلہ استعمال کو، بارٹر ٹریڈ سے اگلے مرحلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یقینا یہ ایک پہلو سے اجناس کے باہمی تبادلے سے مختلف اور ایک ترقی یافتہ صورت تھی، لیکن ایک دوسرے پہلو سے یہ بارٹر ٹریڈ ہی کی ایک صورت بنتی ہے۔ سونے چاندی اور دوسری دھاتوں مثلا تانبہ اور پیتل وغیرہ میں ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ سونا چاندی کو ذریعہ تبادلہ بنانے کی وجہ ان کا بذات خود ایک قیمتی چیز ہونا تھا، جبکہ پیتل اور تانبے وغیرہ کی یہ حیثیت نہیں تھی اور انھیں باہمی اتفاق سے صرف ذریعہ تبادلہ کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے سونا اور چاندی بھی دوسری قیمتی چیزوں مثلا مواشی اور اجناس کی طرح ایک قیمتی جنس تھی جس کی اپنی ایک قدر تھی اور اسی قدر کی وجہ سے اسے سب لوگ بطور ذریعہ تبادلہ قبول کرتے تھے، ایسے ہی جیسے گندم، چمڑا یا جانور وغیرہ قبول کیے جاتے تھے۔ ہاں، یہ فرق ضرور تھا کہ نقل وحمل میں سہولت سونے چاندی میں زیادہ تھی اور اسی طرح سونا چاندی ایک عمومی یعنی ہر ایک کے لیے قابل قبول ذریعہ تبادلہ بن سکتے تھے، جبکہ باقی اجناس اس خصوصیت سے محروم تھے۔ یوں دیکھا جائے تو زر کے ارتقاء کے ابتدائی تین مرحلے یہ بنتے ہیں:
(۱) مختلف قیمتی اشیاء کو بطور ذریعہ تبادلہ استعمال کرنا
(۲) قیمتی اشیاء میں سے سونے چاندی کو، مذکورہ خصوصیات کی وجہ سے، ایک عمومی ذریعہ تبادلہ کے طور پر اختیار کر لینا
اور
(۳) مختلف دھاتوں سے بنے ہوئے سکوں یا بعض دوسری غیر قیمتی اشیاء کی ایک علامتی اور مصنوعی قدر مان کر انھیں ذریعہ تبادلہ کے طور پر رواج دینا
اس لحاظ سے سونا اور چاندی بنیادی طور پر بارٹر ٹریڈ کی ایک شکل بنتے ہیں نہ کہ مصنوعی زر کی۔ شاید اسی پہلو کی وجہ سے فقہاء نے اس کو ’’خلقی زر’’ قرار دیا، لیکن یہ تعبیر زیادہ درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ ان کو بطور زر استعمال کرنا بھی دراصل تمدنی عرف پر ہی مبنی تھا نہ کہ اس پہلو سے کہ ان کی تخلیق ہی خاص اس مقصد کے لیے کی گئی ہے۔
کاغذی کرنسی بھی تو آن لائن منتقل نہیں ہوتی۔ وہاں بھی تو مخصوص طریقہ کار ہی ہے۔
نیز الدرالمنثور فی التفسیر الماثور میں درج ہے کہ آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے درہم اور دینار بنائے تاکہ تبادلہ ہو سکے۔ اسی طرح آدم علیہ السلام کے زمین پر اترتے ہوئے انھیں دو دھاتوں کو بطور زر اتارا گیا حوالہ سابق جلد اول۔
مرکنٹائل ازم اور مرکنٹائلسٹ کوبھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے ۔