اہلِ علم کے ہاں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ توہینِ انبیاء علیہم السلام کے فعل کو عالمی سطح پر جرم قرار دینے کی کوشش ہونی چاہیے، لیکن اس ضمن میں مسئلہ یہ سامنے آجاتا ہے کہ کیا اس کا فائدہ نبوت کے جھوٹے مدعیوں کو بھی نہیں ہوگا؟
کیا توہینِ رسالت کو بین الاقوامی قانون کی رو سے قابلِ سزا جرم قرار دیا جاسکتا ہے؟
یہ سوال کئی لوگوں نے مختلف انداز میں اٹھایا ہے۔ اس کے جواب کےلیے پہلے تو یہ نوٹ کرلیں کہ اس وقت رائج نظام میں بین الاقوامی قانون کے تین بڑے مآخذ ہیں: بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی عرف اور قانون کے قواعدِ عامہ جو مہذب اقوام نے تسلیم کیے ہوں۔ آخر الذکر ماخذ پر پیچھے بحث ہوچکی۔ اب پہلے دو مآخذ پر بھی مختصر بات کرلیتے ہیں۔
بین الاقوامی عرف
جہاں تک بین الاقوامی عرف کا تعلق ہے، اس سے مراد ریاستوں کا تعامل ہے جو ایک طویل عرصے تک یکساں طریقے سے رائج رہے اور اس کے رائج ہونے کا سبب یہ ہو کہ ریاستیں اس طرزِ عمل کو اپنے اوپر قانوناً لازم سمجھتی ہیں۔ ریاستوں کے تعامل کے ثبوت کےلیے ریاستوں کے قوانین، ان کے عدالتی نظائر، ان کے حکومتی اقدامات اور اس طرح کے دیگر عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ بین الاقوامی عرف کے لحاظ سے توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرم ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ غیرمسلم ریاستیں تو ایک طرف، 57 مسلمان ریاستوں میں کتنی ایسی ہیں جہاں قانوناً توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہو؟ ایسی صورت میں اسے بین الاقوامی عرف سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
بین الاقوامی معاہدات
یہ بھی ظاہر ہے کہ توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کےلیے کوئی بین الاقوامی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ حقوقِ انسانی کے معاہدات میں اظہارِ راے کی آزادی کے حق کی بات ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کچھ قیود کی بات بھی ہوتی ہے جن کو بنیاد بنا کر یہ نظریہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ اظہارِ راے کی آزادی میں توہینِ رسالت شامل نہیں ہے لیکن ،جیسا کہ تفصیل سے واضح کیا گیا، یہ کوئی مسلمہ نظریہ نہیں ہے اور مغربی ریاستیں اسے نہیں مانتیں۔ اسی طرح بین الاقوامی فوجداری قانون کے جتنے معاہدات ہیں، جن میں بعض افعال کو جرم قرار دے کر ان کے مرتکبین پر مقدمہ چلانے کا طریقہ وضع کیا گیا ہے، جیسے بین الاقوامی فوجداری عدالت کا منشور، تو اس میں بھی “توہینِ رسالت” یا “توہینِ مذہب” کا جرم موجود نہیں ہے۔
مسلمان ریاستوں کے درمیان معاہدہ
تو کیا مسلمان ریاستیں اس ضمن میں آپس میں معاہدہ کرسکتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ کرسکتی ہیں اور ایسا کوئی معاہدہ کرنے سے انھیں قانوناً کوئی نہیں روک سکتا۔ آخر جن افعال کو اب “انسانیت کے خلاف جرائم” قرار دیا جاتا ہے ، کسی دور میں انھیں “مسیحیت کے خلاف جرائم” کا عنوان دیا گیا تھا اور یورپی ریاستوں نے آپس میں ان کے متعلق سمجھوتے کیے تھے۔ اسی نہج پر مسلمان ریاستیں اگر توہینِ رسالت کے مسئلے سے واقعی نمٹنا چاہتی ہیں، تو ان کے لیے سب سے مناسب اور سب سے مؤثر راستہ یہی ہے کہ وہ آپس میں معاہدہ کرکے اسے قابلِ سزا جرم قرار دیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر وہ اسے مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام اقدام بھی قرار دیں، تو یقین کیجیے کہ عالمی سطح پر اس سلسلے کو روکنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوجائیں گی۔ اس ضمن میں مسلمان ریاستوں کی تنظیم ، یعنی اسلامی تعاون کی تنظیم (Organization of Islamic Cooperation/OIC) کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر یگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل کر معاہدہ کرنے میں رکاوٹ ہے، مثلاً کیا آپ مرزا غلام احمد قادیانی کی “شان میں گستاخی” کو بھی قابلِ سزا جرم قرار دیں گے، تو کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ مسلمان آپس میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کی حد تک ایسا کوئی معاہدہ کرلیں؟ اگر اس فورم پر واقعی ایسا کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی اور دوررس تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا مسلمان ریاستیں یہ کرسکیں گی؟ یا یہ کرنا چاہتی بھی ہیں؟ شاید ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور اس کی کچھ وجوہات خارجی اور کچھ داخلی ہیں۔ مثلاً مسلمان ریاستیں عموماً ضعف کا، اور اس سے زیادہ وہن کا ، یعنی موت کے خوف کا، شکار ہیں۔ وہ یہ خظرہ مول لینے کےلیے تیار ہی نہیں ہیں کہ یورپ و امریکا ان سے ناراض ہوں۔ پھر یہ بھی ایک مسئلہ ہےکہ ان ریاستوں کی آپس میں چپقلش اور کشمکش کی عجیب صورتیں پائی جاتی ہیں (مثلاً ایران/سعودی، سعودی/ترکی، ترکی/ایران) جن کی موجودگی میں کسی بامعنی نتیجے تک پہنچنا انتہائی حد تک مشکل کام ہے۔ مشکل ہی سہی، لیکن اگر مسلمان اس معاملے میں بین الاقوامی سطح پر کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا راستہ او آئی سی سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔
کمنت کیجے