قانونِ جنگ کے اصولوں پر پہلی تفصیلی بحث
ورکشاپ میں افغانستان کے مختلف صوبوں سے علماے کرام اور بعض یونیورسٹیوں کے اساتذہ اکٹھے کیے گئے تھے، نیز طلبہ کی حکومت پر اثر رکھنے والے بعض شیوخ بھی تھے اور ہم جیسے طالب علم بھی۔ شرکا کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر گروپ کو جنگ میں جائز و ناجائز کے متعلق دو دو کتابچے دیے گئے جن پر نظر ثانی کرنی تھی اور جن کے شرعی استدلال کا تنقیدی تجزیہ کرکے ترامیم تجویز کرنی تھیں۔ ہمارے گروپ کو جو دو کتابچے دیے گئے، ان میں پہلے کتابچے کا تعلق جنگ کے قانون کے 15 بنیادی ترین اصولوں سے تھا۔ اس میں پہلے اصول پر ہی بحث اتنی طویل ہوگئی کہ اس پر دو گھنٹوں سے زائد وقت لگا، لیکن بالآخر اس پر اتفاق بھی ہوگیا اور اس کےلیے شرعی استدلال کی تفصیلات بھی طے ہوگئیں۔ یہ اصول جنگ میں عام شہریوں کی جان و مال اور شہری املاک کے تحفظ کے متعلق تھا۔ کتابچے میں اس کےلیے قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیت 190 سے استدلال کیا گیا تھا:
وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُعۡتَدِينَ
اس آیت سے استدلال پر بعض علماے کرام نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ایک عام تحفظ جس کا اظہار مختلف پیرایوں میں کئی اصحاب نے کیا یہ تھا کہ یہ آیت بعد میں سورۃ التوبۃ کی آیت 5 کے ذریعے منسوخ کی گئی ہے:
فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلۡأَشۡهُرُ ٱلۡحُرُمُ فَٱقۡتُلُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَيۡثُ وَجَدتُّمُوهُمۡ وَخُذُوهُمۡ وَٱحۡصُرُوهُمۡ وَٱقۡعُدُواْ لَهُمۡ كُلَّ مَرۡصَدٖۚ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٰةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ
اس پر احقر نے عرض کیا کہ ایک تو نسخ کی اصطلاح میں متقدمین اور متاخرین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس پر کچھ توضیح پیش کی۔ پھر اگر سورۃ البقرۃ کی آیت کو منسوخ مانتے ہیں، تو اس میں مذکور احکام میں کون سا حکم منسوخ ہوا ہے؟ کیا یہ کہ پہلے صرف ان سے لڑ سکتے تھے جو ہم سے لڑتے ہیں اور اب سب سے لڑ سکتے ہیں، خواہ وہ ہم سے لڑیں یا نہ لڑیں؟ یہ مفہوم تو درست نہیں ہوسکتا کیونکہ سورۃ التوبہ کی جس آیت کو ناسخ کہا جارہا ہے، اس کی اگلی آیت میں ہی فرمایا گیا ہے:
وَإِنۡ أَحَدٞ مِّنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ ٱسۡتَجَارَكَ فَأَجِرۡهُ حَتَّىٰ يَسۡمَعَ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ثُمَّ أَبۡلِغۡهُ مَأۡمَنَهُۥۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ قَوۡمٞ لَّا يَعۡلَمُونَ
اس سے معلوم ہوا کہ پچھلی آیت میں جن مشرکین کے قتل کا حکم دیا گیا ہے، ان کے قتل کی علت ان کا مشرک ہونا نہیں، بلکہ مقاتل ہونا ہے۔ اس موقع پر مبسوط اور ہدایہ سے بعض عبارات بھی پیش کیں جن میں امام سرخسی اور امام مرغینانی نے تصریح کی ہے کہ قتل علت حراب یا محاربہ ہے اور جن لوگوں میں یہ علت متحقق نہیں ہوتی، انھیں قتل نہیں کیا جاسکتا، اور یہ کہ بعض نصوص بظاہر عام ہیں اور ان میں سب کفار کا ذکر نظر آتا ہے لیکن درحقیقت وہ مخصوص منہ البعض ہیں اور مراد کفار کے مقاتلین ہیں۔
مزید عرض کیا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت میں عدوان کی ممانعت کے ساتھ ہی بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عدوان کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور چونکہ اللہ کی پسند و ناپسند تبدیل نہیں ہوسکتی، اس لیے یہ حکم ان احکام میں سے ہے جو ناقابلِ نسخ ہیں۔
جب بات اس حد تک واضح ہوگئی اور اس پر وہ قائل نظر آنے لگے، تو پھر امام قرطبی کے حوالے سے لفظ قَٰتِلُواْپر مزید توضیح کہ یہ باب مفاعلہ سے اور اس میں جانبین کی active participation ضروری ہے۔ کوئی آپ سے نہ لڑے اور آپ اس سے لڑیں، تو اس کےلیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔پھر لَا تَعۡتَدُواْ کی تفصیل میں مفسرین نے جس طرح ان احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں عورتوں، بچوں اور دیگر غیر مقاتلین کو ہدف بنانے کی ممانعت ہے، ان پر بحث آئی۔ اب وہ مرحلہ آگیا کہ گروپ میں ایک عمومی اتفاق پیدا ہوگیا۔
تاہم جب اس کے بعد کتابچے میں مذکور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دس ہدایات والی روایات آئی، جس میں ایک ہدایت فصلوں اور درختوں کو نقصان نہ پہنچانے کے متعلق بھی تھی، تو شرکا میں سے ایک نے غزوۂ بنو النضیر میں درخت کاٹنے کی مثال ذکر کرکے اس ممانعت کو اس اجازت کے ساتھ متناقض قرار دیا۔ اب ان کی خدمت میں عرض کرنا پڑا کہ یہ بات درست ہے کہ اگر جنگ میں دشمن کی جان لے سکتے ہیں تو اس کے درخت کیوں نہیں کاٹ سکتے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر درخت کاٹنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، تو خواہ مخواہ درخت کیوں کاٹیں؟ فصل کیوں برباد کریں؟ کیا یہ وہ فساد نہیں ہے جس کی مذمت قرآن کریم میں ان الفاظ میں آئی ہے کہ:
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي ٱلۡأَرۡضِ لِيُفۡسِدَ فِيهَا وَيُهۡلِكَ ٱلۡحَرۡثَ وَٱلنَّسۡلَۚ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلۡفَسَادَ
نیز کیا دشمن پر فتح پانے کے بعد یہی درخت اور فصل خود آپ کے کام نہیں آئیں گے؟ کیا پھر آپ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے؟
تو جس چیز کی ممانعت ہے وہ فساد ہے۔ اگر درخت یا فصل کو نقصان فساد کے زمرے میں آتا ہے، تو ناجائز ہے لیکن اگر درخت راہ میں حائل ہیں اور انھیں کاٹ کر آپ دشمن پر حملہ کرنے کےلیے زیادہ بہتر پوزیشن پر آجاتے ہیں، تو یہ یقیناً جائز ہے اور بین الاقوامی قانونِ جنگ بھی اس سے نہیں روکتا۔ یا اگر درخت کاٹ کر آپ دشمن کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دے، تو اس صورت میں تو درخت کاٹنا زیادہ بہتر اور اچھا کام ہے!
پھر ان تمام پہلوؤں پر مبسوط اور شرح السیر الکبیر سے بعض عبارات پیش کیں، تو تقریباً سارے دوست ہی قائل ہوگئے۔
یہ مشکل ترین مرحلہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام ہوا۔ جیسا کہ عرض کیا، اس ایک اصول پر گفتگو اور بحث نے دو گھنٹوں سے زائد کا وقت لیا لیکن اس کے بعد آگے کے مراحل آسان ہوگئے۔
شیخ عبد السمیع غزنوی کی آمد
ورکشاپ کے پہلے دن کھانے کے وقفے کے بعد ایک سفید ریش بزرگ تشریف لائے اور ہماری خوش قسمتی تھی کہ انھیں ہمارے گروپ میں شامل کیا گیا۔ شرکاے مجلس نے ان کا خصوصی استقبال کیا اور سب ان کے آگے بچھے جارہے تھے۔ ہم سب سے بھی وہ بہت تپاک اور شفقت سے ملے۔ جب دوسری مجلس شروع ہوئی تو انھوں نے اپنا لیپ ٹاپ کھول کر مزید خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا اور یہ حیرت تحسین میں تبدیل ہوگئی جب انھوں نے مختلف نصوص، احادیث کی روایات اور فقہی عبارات کے حوالہ جات ڈھونڈنے میں نہایت پھرتی کا مظاہرہ کیا۔ کی بورڈ پر ان کی انگلیاں تیزی چلتیں اور عربی، پشتو اور دری میں کمپوزنگ بھی کرتے جاتے۔ ابھی میں ان کی شخصیت کے اسی پہلو سے متاثر ہوا تھا کہ انھوں نے آداب القتال اور ان سے متعلق امور پر بحث شروع کی تو میں ان کی فقاہت اور علمی گہرائی کی بنا پر ان کا گرویدہ ہوگیا۔ ان کی آمد سے میرا کام نہایت آسان ہوگیا، بلکہ اس کے بعد مجھے کچھ زیادہ محنت کرنی بھی نہیں پڑی کیونکہ وہ اسی زاویے سے بات کرتے جس سے میں کرنا چاہتا تھا اور استدلال اور نتائج میں بڑی حد تک ہمارا اتفاق ہوتا۔ ان کی تائید سے میرے موقف کو گروپ میں عمومی قبولیت بھی ملنے لگی اور یوں اس سیشن کے اختتام تک ہم باقی 14 اصولوں پر گفتگو مکمل کرچکے تھے اور اس کتابچے کی عبارات کی تصحیح سے بھی فارغ ہوچکے تھے۔ پہلے دن ہم نے دو کتابچوں پر کام پورا کرنا تھا لیکن اس ایک کتابچے نے ہی سارا دن لے لیا۔ ورکشاپ کے منتظمین سے میں نے کہا کہ اس پر انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مشکل کام پورا چکا ہے اور اب اگلی نشستوں میں گفتگو اتنا زیادہ وقت نہیں لے گی۔
ہم نے دن بھر کی بحث کا خلاصہ تیار کیا اور اس میں ترتیب یہ رکھی کہ ہر اصول کی توضیح میں پہلے قرآن کریم کی آیت ذکر کریں، پھر حدیث مبارک آئے اور پھر کوئی قاعدہ فقہیہ، اور ان میں سے ہر ایک سے استدلال عام فہم انداز میں پیش کیا جائے۔ ہمارے گروپ کے ایک شریک جناب عبد الرحمان شاہ صاحب کا تعلق کابل یونیورسٹی سے تھا اور وہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل تھے۔ انھوں نے ہمارے گروپ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسے سب کے سامنے پیش کیا۔ اس پر دوسرے گروپ سے بعض افراد نے کچھ ملاحظات پیش کیے جن پر ہمیں مزید توضیح پیش کرنی پڑی۔ اسی طرح دوسرے گروپ نے ایک کتابچے پر کام پورا کیا جس کا تعلق جنگی قیدیوں اور دیگر متعلقہ امور سے تھا۔ ان پر ہماری جانب سے بھی کچھ تعلیقات پیش کی گئیں۔ یوں پہلے دن کی کارروائی پوری ہوگئی۔
شیخ عبد السمیع غزنوی صاحب کے متعلق معلوم ہوا کہ ان کا درسِ قرآن، درسِ حدیث اور درسِ فقہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے پاس کچھ دروس کی آڈیو ریکاڈنگ موجود ہے، تو ان سے درخواست کی کہ وہ کاپی کرنے کی اجازت دیں۔ انھوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ میں دستیاب دروس مجھے یو ایس بی فلیش ڈرائیو میں دے دیے۔ ان میں ایک خاصے کی چیز ہدایہ پر ان کے دروس ہیں، جو پشتو زبان میں ہیں۔ کابل سے واپسی کے بعد سے میں روزانہ رات کو کچھ حصہ سنتا ہوں۔ فقہ کے طلبہ کےلیے نہایت مفید ہیں۔
شام میں جنیوا کال کے میزبان ہم سب کو ڈنر کےلیے باہر لے گئے اور یوں علماے کرام، طلبہ اور شیوخ کے جلو میں کابل میں پیدل گھومنے پھرنے کا موقع بھی ملا اور بعض دلچسپ تجربات اور مشاہدات بھی ہوئے۔ آگے ان میں بعض ذکر کیے جائیں گے، ان شاء اللہ۔
مزید کتابچوں پر کام
اگلے دن بھی یہ ورکشاپ جاری رہی اور دونوں گروپوں نے 2، 2 مزید کتابچوں پر کام کیا۔
ہمارے گروپ نے جن کتابچوں پر کام کیا، ان میں ایک کا تعلق جنگ کے دوران میں تعلیمی اداروں کے تحفظ سے تھا۔ چنانچہ اس موضوع پر گروپ کے ساتھیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک تو اسی اصولی بنیاد پر بحث ہوئی جو پہلے دن طے ہوئی تھی کہ جو لوگ جنگ میں حصہ نہ لیتے ہوں، ان پر حملہ جائز نہیں ہے، اور اسی طرح جومقامات مخالف فریق جنگ کےلیے استعمال نہ کرتا ہو، ان پر بھی حملہ ناجائز ہے۔ اب اس اصول کا اطلاق دینی مدارس کے علاوہ عصری علوم کے اداروں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی کرنا تھا۔ اس پر تو اصولی اتفاق ہوا لیکن بعض ساتھیوں کی جانب سے ایسے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا جن میں کسی سکول یا کالج کو جنگی مقاصد کےلیے استعمال کیا گیا ہو، تو وہاں میں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے ان مقامات کو تحفظ اس بنیاد پر حاصل ہے کہ انھیں جنگ میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ان کے تحفظ کی ذمہ داری دونوں فریقوں پر عائد ہوتی ہے کہ ایک فریق انھیں جنگ کےلیے استعمال نہیں کرے گا اور دوسرا فریق ان پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہ دو طرفہ ذمہ داری ہے۔
یہاں تک بات آگئی، تو میں نے یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھا کہ اسی طرح طبی سہولیات پر حملہ ناجائز ہے لیکن ایمبولینس کو حملے کےلیے استعمال کرنا بھی ناجائز ہے۔ یہاں سے بات جائز جنگی چال اور ناجائز اعتماد شکنی کے درمیان فرق کی طرف مڑ گئی۔ حدیثِ مبارک میں جنگ میں چال چلنے کی اجازت دی گئی ہے (الحرب خدعۃ) لیکن رسول اللہ ﷺ نے جنگ میں بھی عہد شکنی کی ممانعت کی ہے۔ چنانچہ فقہاے کرام ایسی کسی چال کی اجازت نہیں دیتے جو عہد شکنی پر مبنی ہو۔ اس ضمن میں خلفاے راشدین کے بعض فرامین پر بھی بحث ہوئی اور میں نے سیر کبیر سے جزئیات بھی پیش کیں جن میں امام محمد نے تصریح کی ہے کہ جو شخص خود کا تاجر یا سفیر کے طور پر پیش کرے، تو اس کےلیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے بعد دشمن پر حملہ کرے کیونکہ تاجر یا سفیر جنگ میں حصہ نہیں لیتے اور جب اس نے خود کو تاجر یا سفیر کے طور پر پیش کیا، تو اس نے اپنے قول یا فعل کے ذریعے دشمن کو تاثر دیا کہ وہ اس پر حملہ نہیں کرے گا۔ اب جب تک یہ امان باقاعدہ طور پر ختم نہیں کردی جاتی اور دشمن کو اس امان کے خاتمے کی اطلاع نہ دی جائے، اس پر حملہ جائز نہیں ہے۔ امام سرخسی کی شرح نے یہاں بھی بہت مدد فراہم کی۔
یہیں سے بات اس سوال کی طرف بھی بڑھی کہ کیا فقہاے کرام جنگ میں براہِ راست حصہ لینے اور بالواسطہ حصہ لینے میں فرق کرتے ہیں یا نہیں، اور کیا بالواسطہ حصہ لینے والے کو بھی اسی طرح مقاتل سمجھا جاتا ہے جیسے براہ راست حصہ لینے والا مقاتل ٹھہرتا ہے اور اس بنا پر حملے کا جائز ہدف قرار پاتا ہے؟ یہ بڑی معرکہ آرا بحث تھی اور اس میں بھی شرح السیر الکبیر اور مبسوط کی عبارات نے اتفاقِ راے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ورکشاپ کا موضوع تو جنگ میں تعلیمی اداروں کا تحفظ تھا، لیکن وقفوں میں بعض شرکا کے ساتھ افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے مسئلے پر بھی بحث ہوئی۔ معلوم یہ ہوا کہ چھٹی جماعت تک بچیوں کے سکول کھلے ہیں اور اسی طرح بارھویں جماعت کے بعد یونیورسٹیوں میں بھی خواتین کی تعلیم حجاب کے ساتھ جاری ہے، لیکن ساتویں سے بارھویں جماعت تک کے درمیانی مرحلے کی بچیوں کے سکول بند ہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ عفت کا دور ہے اور اس میں بچیوں کی زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے۔ تو کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوگا کہ کچھ عرصے بعد بارھویں جماعت سے آگے کی خواتین بھی فارغ ہوجائیں گی اور چونکہ چھٹی جماعت کے بعد بچیوں کی تعلیم نہیں ہوگی، تو پھر ان کےلیے اعلی تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ ایک صاحب نے کہا کہ بچیوں کےلیے چھٹی تک تعلیم کافی ہے، لکھنا پڑھنا سیکھ لیتی ہیں، تھوڑا بہت حساب بھی، بس یہ کافی ہے، اور اس کے بعد انھیں علم کا شوق ہے، تو دینی تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ باقی باتیں تو چھوڑیں، اگر خواتین بیمار پڑ جائیں، تو ان کا علاج کون کرے گا، تو جواب اگرچہ انھوں نے از راہِ تفنن دیا لیکن اس سے اصل نفسیاتی گرہ کی نشاندہی بخوبی ہوجاتی ہے۔ فرمایا کہ پشاور علاج کےلیے جاسکتی ہیں اور اگر راستے میں انتقال کیا، تو سیدھا جنت میں جائیں گی! مذاق میں کہی گئی اس بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کے پاس اس سوال کا سنجیدہ جواب نہیں ہے۔ (نوٹ: بعد میں معلوم ہوا کہ طلبہ کے بعض اہم اہلکار یہی بات سنجیدگی سے بھی کہتے رہے ہیں!)
البتہ شیخ غزنوی کی تحسین پھر ضروری ہے کہ انھوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ خواتین کےلیے عصری تعلیم، اور بالخصوص طب کی تعلیم ضروری ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً غزوۂ احد میں صحابیات کے طرزِ عمل سے استدلال کیا جو زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ شیخ نے سوال قائم کیا کہ کیا اس زمانے کے طب کے علم کے بغیر وہ ایسا کرسکتی تھیں؟
(جاری)
کمنت کیجے