Home » نیپال کا سفر اور افکار تازہ – 2
احوال وآثار اسلامی فکری روایت مدرسہ ڈسکورسز

نیپال کا سفر اور افکار تازہ – 2

 

مولانا ڈاکٹر نعیم الدین ازہری

 

27 جولائی

ہندوستان میں ہندو نیشنلزم کا چیلنج اور خطرات :

آج کا دن ہندو ازم کے مصلحین اور ریفارمرز میں سے ایک شخص کی کاوشوں اور انکے اثرات کے مطالعہ کے لیے خاص کیا گیا تھا ۔  اس سلسلے میں لیکچر دینے کے لیے ہندو دھرم کی ایک ماہر خاتون ڈاکٹر اننیا واجپائی کو دعوت دی گئی ، انہوں نے دو سیشنز میں گفتگو کی جن کا دورانیہ 5 گھنٹوں پر محیط تھا ۔

ان کی گفتگو کا مرکزی عنوان ہندو دھرم میں کاسٹ سسٹم اور ذات پات کا مسئلہ تھا ۔ انہوں نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ ہندو چار ذاتوں میں تقسیم ہیں ۔  مذہبی راہنماؤں کو برہمن ، فوجیوں کو کھشتری ، تاجروں کو ویش یا ہندو بنیا اور کام کاج کرنے والوں کو نچلی ذات کا شودر اور اچھوت سمجھتے ہیں۔

ہندؤوں میں یہ کاسٹ سسٹم صدیوں سے رائج چلا آ رہا ہے  اور اسکی بنیاد پر وہ اچھوت افراد کے حقوق غصب کررہے ہیں ، شودر اور اچھوت مرکزی شاہراہ پر چل نہیں سکتے ، عوامی مقامات پر لوگوں کے ساتھ مل کر کھا پی نہیں سکتے اور اس طرح کی سینکڑوں فرسودہ روایات انکے مذہب میں رائج ہیں ۔

اس دوران یہ گفتگو بھی ہوئی کہ ہندو ازم کے علاوہ باقی مذاہب اور اقوام میں بھی یہ تصورات کہیں سے داخل ہو گئے ہیں ۔

انگریزوں میں گورے کالے کی بنا پر تفریق ہے ، تو مسلمانوں نے بھی چوہڑا چمار ، کمی کمین ، کمہار ، موچی ، جولاہا اور اس طرح بہت سی ذاتوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری رکھا ہوا ہے ، اگرچہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پہلے دن سے مساوات کا درس دیا ، رنگ و نسل کی تفریق مٹائی ، اور اخوت و بھائی چارہ قائم کیا ، لیکن ہمارے مسلمان معاشرے بھی ہندوانہ نظریات سے بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہیں ۔ کچھ  ذاتوں کے لوگ اپنے آپ کو اعلی درجے کا سمجھتے ہیں اور باقی لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ۔

بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی

کہ در ایں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست

بی-آر- امبیڈکر کی کاوشیں اور نتائج :

آج کے لیکچر میں ایک شخصیت کو خاص طور پر موضوع گفتگو بنایا گیا  جس کا نام امبیڈکر تھا ، یہ 1891 میں ہندوستان میں ایک شودر گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اچھوت ہونے کی وجہ سے ابتدائی زندگی بہت مشکلات میں گذاری ، ایک ریاست بروڈہ کے راجہ نے اس کی ذہانت کو دیکھ کر اس کو کولمبیا یونیوسٹی امریکہ بھجوا دیا جہاں سے اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ وہاں انہوں نے امریکہ میں ریڈ انڈین سے گوروں کے ناروا سلوک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔

وہاں سے انگلینڈ آئے اور لندن سے دوسری پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ، جب واپس انڈیا گئے تو تعلیم کے باوجود لوگوں نے شودر ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ بٹھانے اور بات چیت کرنے سے انکار کیا ، ظلم و ستم اور زیادتی دیکھ کر جد وجہد کا فیصلہ کیا اور شودر قوم کے لیے آواز بلند کی ، گاندھی کے ساتھ ملکر جد و جہد کی ۔ جب ہندوستان بنا تو ان کو پہلا وزیر قانون بنایا گیا ۔

ان ساری چیزوں کے باوجود امبیڈکر نے دیکھا کہ ہندؤوں کا سلوک شودر ذات کے ساتھ نہیں بدلا تو اس نے 1940 میں پانچ لاکھ شودر افراد کے ساتھ مل  کر اجتماعی طور پر ہندو مذہب چھوڑ کر کوئی اور مذب اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔

اس موقع پر مسلمان علماء نے ان کو مسلمان ہونے کی دعوت دی ، قرآن کا انگریزی ترجمہ اور کتابیں پہنچائی گئیں کہ مسلمان ہو جاؤ ، لیکن اسلام ان کے نصیب میں نہ تھا ، یہ اپنی قوم سمیت اجتماعی طور پر بدھ مت کا مذہب اختیار کر لیا۔  خود بھی راہ حق پر نہ آسکا اور لاکھوں لوگوں کی گمراہی کا سبب بھی بن گیا ۔

امبیدکر خود تو 1956 میں وفات پا گیا ، لیکن اس کی قوم پھر سے ہندو سماج کے ہاتھ لگ گئی اور اسکے ساتھ آج بھی ویسا ہی سلوک جاری ہے ۔  اگر اپنی قوم کو اسلام کا راستہ دکھایا ہوتا ، اور اسلامی مساوات کا درس دیا ہوتا تو آج خود بھی قبر میں مطمئن ہوتا اور اسکی قوم بھی سر اٹھا کر جی رہی ہوتی ۔

ہندووں کی قوم پرستی اور اسلام

گفتگو کے دوران انتہا پسند ہندؤوں کی سوچ کا ذکر ہوا کہ ہندو بہت شدت پسند سوچ کے حامل ہیں۔ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں کرنا چاہتے ، تقسیم ہند کا غصہ آج بھی انہیں بے چین رکھتا ہے ، اور وہ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے لیے بہت خطرناک عزائم رکھتے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ اس ملک کا نام ہندوستان ہے ، جسکا مطلب ہی ہندؤوں کی آماجگاہ ہے ۔ لہذا یہاں کسی اور کے رہنے کا کوئی حق نہیں ،  مسلمان اپنے مکہ مکرمہ و  مدینہ منورہ  کی طرف جائیں ۔

اس کے جواب میں راقم نے کہا کہ ہندو دھرم نے اپنے آپ کو ایک ملک کے ساتھ جوڑ کر محدود اور مقید کر لیا ہے۔  انکا جغرافیہ طے ہو گیا ہے ، اب وہ مزید پھیل نہیں سکتے ۔ جبکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو آفاقی سوچ دی ہے ۔ پوری زمین کو مسلمانوں کے لیے مسجد بنایا ہے ۔ لہذا ہم وطنیت پرست نہیں، آفاقی سوچ کے حامل ہیں ۔

بقول اقبال

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

ایک اور مقام پر علامہ نے فرمایا

ہر ملک ملک ما ست کہ ملک خدائے ما

لہذا مسلمان جہاں بھی آباد ہوجائے ، اسکا وطن پوری کائنات ہے ، اور وہ آپس میں مربوط و متحد ہیں ۔

اخوت اس کو کہتے پیں چبھے کانٹا جو کابل میں

تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے

المختصر یہ کہ آج کی اس گفتگو میں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہندوستان کے اندر بسنے والے مسلمانوں کو محنت ، جد وجہد ، تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے باہمی اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنی چاہیے ۔ اور پوری دنیا کی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انڈیا کے مسلمانوں کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھیں  اور علم و عمل سے کامیابی کی طرف بڑھتے رہیں۔

ورکشاپ کا چھٹا روز اور نظریہ ارتقاء کی بحث :

آج ہماری ورکشاپ کا بڑا کلیدی اور اہم دن تھا کیوں کہ اس دن کو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے متعلق مسیحیت اور  اسلام کے نقطہ نظر کے لیے خاص کیا گیا۔

عنوان کچھ یوں تھا :

Evolution, Christianity and Islam.

اس موضوع پر بات کرنے کے لیے دبئی سے خاص طور پر ڈاکٹر شعیب ملک تشریف لائے ، ڈاکٹر شعیب کا تعلق پاکستان سے ہے ، یہ کیمسڑی میں پی ایچ ڈی ہیں اور کچھ دس سال سے ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر ریسرچ کے ساتھ ساتھ اسلام کا گہرا اور اصولی مطالعہ رکھتے ہیں ۔ یوٹیوب پر اسلام اور ایولوشن کے عنوان پر گفتگو میں خاصے مقبول ہیں ۔  ڈاکٹر صاحب عقیدہ میں اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کا انتہائی گہرا شغف اور مطالعہ کر رکھا ہے ۔

چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء بہت مشہور ہے  جو اس نے 1835 میں پیش کیا ، اس نے یہ دعوی کیا  کہ انسان کی تخلیق لاکھوں سالوں کے ارتقا کا نتیجہ ہے اور انسانوں‘ جانوروں‘ پرندوں اور مچھلیوں کے آبا و اجداد مشترک ہیں۔

ارتقاء کے اس نظریہ کو اگر مکمل طور پر تسلیم کیا جائے تو اس سے بہت سارے مذہبی عقائد چیلنج ہوتے ہیں ، اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر چیز کو اللہ رب العزت نے امرِ کن سے پیدا کیا ، اور اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر ساری انسانیت کو حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے پیدا فرمایا ۔ اس عقیدے پر سینکڑوں آیات احادیث اور شواہد موجود ہیں ۔

دوسری طرف نظریہ ارتقاء یہ کہتا ہے کہ زندگی کے آغاز کے بعد رینگنے والے کچھ جانور پیدا ہوئے اور پھر ان کے خلیوں میں آہستہ آہستہ تبدیلی ہوتی رہی اور مختلف تدریجی شکلوں میں انسانوں سے ملتی جلتی مخلوق کا ظہور ہوا ، اور پھر لاکھوں سال کے مراحل طے کرنے کے بعد انسان کی یہ شکل وجود میں آئی ۔

رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں کے أسباب  میں دو چیزیں اہم ہیں

۱۔ فطری انتخاب   (Natural Selection)

۲۔ جین میں متفرق تبدیلیاں  (Random Mutations)

ان دلائل اور نظریات کی روشنی میں ملحدین اور لادین افراد نے ارتقاء کے نظریے کو بنیاد بنا کر اسلام کا مذاق بنانا شروع کر رکھا ہے ۔  وہ کہتے ہیں کہ دیکھو سائنس نے حقیقی شواہد کی بنیاد پر ثابت کر دیا ہے کہ انسان کی تخلیق آدم علیہ السلام سے شروع نہیں ہوئی بلکہ حضرت آدم کی پیدائش بھی ارتقاء کا نتیجہ ہے ۔ لہذا جب قران کریم ارتقاء کی اس حقیقت کے متعلق خاموش ہے ، تو چلو اسلام کو چھوڑ کر سائنس کی پیروی شروع کر دو ۔ نعوذ باللہ

یوں ڈارون کا نظریہ ارتقاء ملحدین کے لیے اسلام سے فرار اختیار کرنے کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے ۔  وہ کہتے ہیں کہ تمہارے لیے دو میں سے صرف ایک آپشن ہے ، یا اسلام  یا نظریہ ارتقاء ۔ گویا ان کے نزدیک مسلمان رہتے ہوئے نظریہ ارتقاء کو ماننے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ۔

ڈاکٹر شعیب ملک نے اپنی شاندار گفتگو میں ڈارون کے اس نظریہ کو اسلامی بنیادوں پر پرکھنے اور تجزیہ کرنے کا طریقہ بتایا ۔  انہوں نے کہا کہ نظریہ ارتقاء کے متعلق اسلامی اسکالرز کے سامنے چار راستے ہیں۔  جو درج ذیل ہیں :

۱۔ تخلیق کا نظریہ (Creationism)

اس نظریے کے مطابق ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے ہر چیز کو براہ راست امر کن سے پیدا فرمایا  اور اس میں  کوئی ارتقاء نہیں ہوا ۔

۲۔ انسان کی خصوصی تخلیق  (Human Exceptionalism)

اس نظریے کے قائل باقی ساری چیزوں کے وجود میں تو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مانتے ہیں ،لیکن انسان کی تخلیق کو ارتقاء کا نتیجہ نہیں مانتے ، بلکہ کہتے ہیں کہ انسان کو اللہ کریم نے فی الفور مٹی سے وجود عطا فرمایا ۔

۳۔  حضرت آدم کی خصوصی تخلیق (Adamic Exceptionalism)

اس تیسرے نظریے کے مطابق باقی تمام جانداروں  میں ارتقاء مانا جاتا ہے اور   حضرت آدم سے پہلے انسانوں جیسی ایک مخلوق کو بھی ارتقاء  کا نتیجہ مانا جاتا سکتا ہے، لیکن حضرت آدم اور ان کی اولاد میں ارتقاء کا دخل نہیں ہے ۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ حضرت آدم کی أولاد مسد ان سے پہلے موجود کوئی  انسانی نسل  زمین پر ایک ہی وقت میں موجود  رہے ہوں اور ان کے مابین آپس میں شادی بیاہ بھی ہوا ہو۔

۴۔  تمام جانداروں کا ارتقاء (No exception)

اکثر متجددین کا ماننا یہ ہے کہ ڈارون کا نظریہ حرف بحرف صحیح ہے ، ہر چیز میں ارتقاء ثابت ہے ، حتی کہ حضرت آدم علیہ السلام بھی اسی ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔

یہ چاروں نقطہ ہائے نظر بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر شعیب ملک نے اسلامک پوائنٹ آف ویو سے دو اہم اصول بیان کیے  کہ کسی بھی چیز کے جواز یا عدم جواز کو دیکھنے کے لیے اسے ان دو زاویوں سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔

1-Metaphysicall possibility

2- Scriptuall  possibility

یعنی ہر چیز کا حکم دیکھنے کے لیے پہلے یہ دیکھیں کہ کیا وہ اعتقادی اور کلامی اعتبار سے قابل قبول ہے ؟ اگر ممکن ہو تو پھر دوسرے نمبر پر یہ دیکھیں کہ  کیا یہ نصوص قرآن و سنت اور شرعی اعتبار سے ممکن ہے ؟ اگر کوئی بات کلامی و عقلی اعتبار سے بھی ممکن ہو  اور شرعی نصوص کے اعتبار سے بھی ممکن ہو تب اس کے جواز کا قول کیا جائے گا ۔

اس اصول کی روشنی میں جب ہم اشعری علم کلام کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا یہ حکم سامنے آتا ہے ۔

تخلیق آدم کے متعلق بحیثیت مسلمان ہمیں درج ذیل چار چیزوں پر لازمی طور پر یقین رکھنا چاہیے ۔

1-اس بات پر ایمان رکھیں کہ حضرت آدم علیہ السلام حقیقی شخصیت ہیں ۔ نعوذ باللہ یہ کوئی افسانوی وجود نہیں جیسا کہ کیتھولک عیسائی اور یہودی ڈارون کے نظریے کو بچانے کے لیے انہیں افسانہ سمجھتے ہیں۔

2-حضرت حوا سلام اللہ علیہا بھی حقیقی شخصیت اور حضرت آدم علیہ السلام کی رفیقہ حیات ہیں۔

3-یہ ضروی ہے کہ مسلمان حضرت ادم و حوا کی معجزاتی تخلیق پر ایمان لائیں  کہ اللہ تعالی نے ان کو نفخ روح سے پیدا فرمایا یعنی ان کا ڈھانچہ بنا کر اس میں اپنی جناب سے روح پھونکی۔

4-اس بات پر یقین کہ موجودہ تمام انسانوں کا نسب حضرت آدم و حوا تک پہنچتا ہے ۔

ان چار باتوں پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ ڈارون کی تھیوری کے متعلق تین چیزوں میں ہم کوئی عقیدہ رکھنے کے پابند نہیں، کیونکہ جن چیزوں کے متعلق قرآن و سنت نے واضح حکم بیان نہیں فرمایا ، اس میں کوئی بھی  نظریہ اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ وہ تین چیزیں درج ذیل ہیں:

1-حضرت آدم اور حوا کی تخلیق کا زمانہ ، کہ وہ تاریخ کے کس حصے میں پائے گئے ۔ اس حوالے سے قرآن کریم خاموش ہے لہذا ہم کوئی رائے نہیں دے سکتے کہ ان کی تخلیق کو کتنے ہزار یا کتنے لاکھ سال گذر چکے ہیں ۔

2-جانداروں کے ارتقائی عمل میں انسانوں جیسی کوئی مخلوق موجود تھی  یا نہیں۔ اس حوالے سے بھی ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ ممکن ہے، اشباہ البشر یعنی انسانوں سے ملتی جلتی اور مخلوق بھی دنیا میں رہی ہو۔

3-حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی نسل کا باقی انسان نما مخلوقات سے کس قسم کا تعلق رہا، اس پر بھی قرآن یا حدیث میں کوئی ایسی  تصریح موجود نہیں جس پر  ایمان رکھنا  ہمارے لیے ضروری ہو۔

ایک دوست نے سوال پوچھا کہ اللہ رب العزت جو تمام زمان و مکان پر حاوی ہے اور ہر چیز اسکے علم میں ہے ، جب اس کو پتہ تھا کہ انسانیت کے سامنے ارتقاء کے یہ نظریات پیش کیے جائیں گے اور انکا ایمان متزلزل ہونے کا خطرہ ہو گا ، تب اللہ نے ان چیزوں کو وضاحت کے ساتھ قرآن میں بیان کیوں نہ کیا  گیا؟  ڈاکٹر شعیب ملک نے جواب میں کہا کہ اشعری علماء اور اصولیین کا یہ واضح موقف ہے کہ اللہ رب العزت اپنے ارادوں اور افعال میں قادر مطلق ہے ، وہ جو چاہے کرے، بندہ اس کے افعال کی حکمتوں کو اپنی کوتاہ عقل سے نہیں سمجھ سکتا ۔ ارشاد گرامی ہے

لا یسأل عما یفعل وھم یسألون

یعنی اللہ سے اسکے افعال کے بارے میں نہیں پوچھا جا سکتا جبکہ تمام مخلوق اس کے سامنے جوابدہ ہے ۔

انہوں نے ایک واقعہ بھی سنایا کہ جب چین سے کرونا وائرس شروع ہوا تو کچھ علماء نے کہا کہ اللہ تعالی نے چین کے لوگوں پر عذاب مسلط کیا ہے کیونکہ وہ چین میں رہنے والے فلاں صوبے کے مسلمانوں پر ظلم کر رہے تھے ۔  اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ تھوڑے عرصے بعد وائرس پھیلا اور انہی علماء میں سے کچھ علماء بھی وفات پاگئے ۔  سو اللہ رب العزت کے افعال کی حکمتوں کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔  اللہ رب العزت کے احکام پر عمل کرتے جائیں اس عمل کی برکت سے وہ آپ کے دل پر اپنی حکمتوں اور رازوں کا القاء فرمائے گا ۔  گویا افعال الہی پر غور کرنے کے بجائے ، احکام الہی پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔

(جاری)


ڈاکٹر نعیم الدین الازہری، جامعۃ الازہر قاہرہ سے فارغ التحصیل ہیں اور دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں دینی علوم کے استاذ ہیں۔
naeem_freed@yahoo.com

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں