Home » توہینِ رسالت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
فقہ وقانون

توہینِ رسالت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

پچھلے ہفتے اس فیصلے کی بازگشت میڈیا پر سنائی دی تھی اور چند سرخیاں بھی جم گئی تھیں لیکن فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اب آگیا ہے اور اسے درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

crl.p._883_l_2022.pdf (supremecourt.gov.pk)

یہ اصل میں ملزم کی جانب سے ضمانت کی درخواست پر فیصلہ ہے۔ ملزم سلامت منشا مسیح پر الزام تھا کہ اس نے لاہور کے ایک پارک میں مسیحیت کی تبلیغ کرتے ہوئے توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن کا ارتکاب کیا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کیے۔ چنانچہ اس کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295-اے، 295-بی اور 295-سی کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ اس کی ضمانت کی درخواست ماتحت عدالتوں سے مسترد ہوگئی تھی جس کے بعد بالآخر معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں مقدمے کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سید منصور علی شاہ نے کی۔ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے اور حسبِ سابق پاکستانی قانون کی نصوص اور عدالتی نظائر کے تجزیے کے علاوہ انھوں نے اس معاملے میں قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام اور فقہاے کرام کے بیان کردہ اصولوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔
جیسا کہ ذکر ہوا، سپریم کورٹ کے سامنے سوال یہ تھا کہ ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کی لیکن اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے توہینِ رسالت کے مقدمات کےلیے چند اہم اصول بھی طے کیے ہیں۔
مثلاً سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ توہینِ قرآن کے جرم پر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی رو سے صرف اس صورت میں سزا مقرر کی گئی ہے جب قرآن مجید کے نسخے یا اس کے کسی حصے کی بے حرمتی کی جائے۔
اسی طرح سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ہمارے قانونی نظام میں “مذہب کے خلاف جرائم” اور “انسان وجود کے خلاف جرائم” میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں تمام ذمہ داری ریاست کو دی گئی ہے اور مجرم کی سزا کے متعلق اختیارات بھی ریاست کو حاصل ہیں، جبکہ ثانی الذکر مقدمات میں مجرم کی معافی یا صلح کے اختیارات متاثرہ شخص یا اس کے قانونی ورثا کو دیے گئے ہیں۔ چنانچہ توہینِ مذہب کے مقدمات اور قتل یا زخم کے مقدمات میں فرق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
ایک اور اہم بات سپریم کورٹ نے یہ ذکر کی کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں توہینِ قرآن، توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے جرائم الگ الگ حیثیت رکھتے ہیں، ان جرائم کے عناصر ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہیں، ان پر سزائیں مختلف ہیں اور ان کے دیگر قانونی اثرات بھی مختلف ہیں لیکن ایڈیشنل سیشنز جج کی جانب سے عائد کی گئی فردِ قراردادِ جرم میں ان کو ملا کر یکجا پیش کیا گیا ہے جو فردِ قراردادِ جرم کے متعلق قانونی اصولوں کی رو سے غلط ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ جن جرائم کو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں “مذہب کے خلاف جرائم” کا عنوان دیا گیا ہے، فقہاے کرام کی اصطلاح میں انھیں اللہ کے حقوق کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے اور انھیں حدود کے تحت ذکر کیا جاتا ہے، اور یہ اسلامی قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ حدود سزاؤں کے نفاذ میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور شبہے کی موجودگی میں سزا نہیں دی جاسکتی۔
اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ صرف شکایت کنندہ اور اس کے ساتھیوں کی گواہی پر سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ مبینہ واقعہ کے بارے میں واقعاتی ثبوتوں (circumstantial evidence) اور قرائن پر بھی غور ضروری ہے اور اگر ان سے گواہی کی تائید (corroboration) نہ ہوتی ہو تو صرف گواہی پر سزا نہیں دی جاسکتی، بالخصوص جبکہ سزا بالکل آخری درجے کی، یعنی سزاے موت، ہو۔
اس مقدمے کی ایف آئی آر میں قرار دیا گیا تھا کہ ملزم نے ایک پبلک پارک میں آدھے گھنٹے تک توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن ہر مشتمل تقریر کی لیکن پاکستان کے معاشرے میں ایک پبلک پارک میں اتنی دیر تک ایسی گفتگو کا ہونا ناقابلِ تصور ہے جبکہ ملزم کے خلاف سواے شکایت کنندہ اور اس کے ساتھیوں کی گواہی کے کوئی اور ثبوت نہ ہو۔ اس پاس موجود پمفلٹ میں کوئی توہین آمیز مواد نہیں تھا۔ ڈیڑھ سال سے وہ قید میں ہے لیکن اس سے کوئی توہین آمیز مواد برآمد نہیں کیا گیا۔ پارک کے منتظمین، محافظین یا وہاں موجود بڑی تعداد میں عام لوگوں میں کسی نے آگے بڑھ کر گواہی نہیں دی، نہ ہی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنی دیر تک جاری توہینِ مذہب پر وہ خاموش تماشائی بن کر کھڑے رہے ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اسلامی قانون کے اصول “افتیات” کا بھی ذکر کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا سمیت تمام سزاؤں کے نفاذ کا اختیار ریاست کے پاس ہے اور افراد اگر اپنے طور پر کسی ثابت شدہ مجرم کو بھی سزا دیں گے تو وہ افتیات کے مرتکب ہونے کی بنا پر تعزیری سزا کے مستحق ہوں گے۔
چونکہ ملزم ایک خاکروب ہے، اس لیے موقع کی مناسبت سے سپریم کورٹ نے صفائی کے متعلق بعض اسلامی احکام کا بھی ذکر کردیا ہے۔
یہ فیصلہ کئی لحاظ سے بہت اہم ہے اور واضح کرتا ہے کہ ہمارے قانونی نظام میں بھرہور گنجائش موجود ہے کہ فیصلے اسلامی اصولوں کی روشنی میں کیے جائیں۔ کاش وکلا، قانون دان اور قانون کے اساتذہ اس پہلو پر خصوصی توجہ دیں تاکہ وہ اس بارے میں عدالتوں کی بھرپور معاونت کرسکیں۔ واضح رہے کہ پاکستانی آئین و قانون کی رو سے تمام عدالتوں پر لازم ہے کہ قوانین کی تعبیر و تشریح اسلامی اصولوں پر کریں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں