پانچویں صدی ہجری کے جلیل القدر اشعری متکلم، شافعی فقیہ اور امام غزالیؒ کے استاذ، امام الحرمین الجوینی (وفات 478 ہجری) نے اپنی کتاب ’’البرہان “ میں اس سوال پر کلام کیا ہے کہ جیسے پچھلی شریعتیں مرور زمانہ کے ساتھ ’’فتور “ (یعنی تحریف، بگاڑ اور حق وباطل کے خلط ملط ہو جانے) کا شکار ہو گئی تھیں، کیا آخری شریعت بھی ہو سکتی ہے؟
الجوینی اس ضمن میں کلامی مذاہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ معتزلی مفکرین کی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ ایسا نہیں ہونے دے سکتا، کیونکہ ایسا ہونا بندوں کی مصلحت کے خلاف ہوگا، جبکہ اللہ تعالی ٰ پر واجب ہے کہ وہ ’’الاصلح للعباد“ کے مطابق فیصلہ کرے۔ اشعری متکلمین (امام ابو الحسن اشعری، امام اسفرائینی اور امام الحرمین) کی رائے اس کے برعکس ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونے میں عقلا یا نقلا کوئی مانع نہیں، یعنی جیسے پہلی شریعتیں حق وباطل سے مخلوط ہو گئیں، اسی طرح شریعت محمدی بھی ہو سکتی ہے۔
امام الحرمین معتزلہ کے ’’اصلح للعباد“ کے استدلال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اول تو اللہ کو اس اصول کا پابند سمجھنا ہی درست نہیں۔ دوسرے اگر یہ اصول درست ہو تو بھی اللہ کی نازل کردہ شریعت کے ’’فتور “ کا شکار ہو جانے میں بھی بندوں کی مصلحت ہو سکتی ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنی عقل کے فیصلوں پر عمل کریں (جیسے نزول شرائع سے پہلے کیا کرتے تھے)۔ امام الحرمین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی قطعی نقلی دلیل بھی موجود نہیں، کیونکہ جن نصوص میں شریعت کی حفاظت کی بات کہی گئی ہے، ان میں تاقیام قیامت اس حفاظت کے قائم رہنے کی کوئی تصریح نہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں دیگر معارض نصوص بھی موجود ہیں۔ امام الحرمین مزید کہتے ہیں کہ آخری شریعت اور ماقبل شرائع میں فرق کی بھی کوئی عقلی دلیل موجود نہیں اور جس طرح پچھلی شریعتیں اس صورت حال سے دوچار ہو سکتی تھیں، یہ شریعت بھی ہو سکتی ہے اور کوئی ایسا زائد اعتراض اس پر وارد نہیں ہوتا جو پچھلی شریعتوں کے ’’فتور “ کا شکار ہو جانے پر نہ ہوتا ہو۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں جب کہ آخری شریعت بھی ایسی شکل میں دنیا میں موجود نہ رہے کہ فیصلے کا معیار بن سکے تو پھر کیا اللہ کے بندے مکلف رہیں گے یا نہیں؟ یہاں اشعری ائمہ کا اختلاف ہو جاتا ہے۔ امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ شریعت کے ’’فتور “ کے بعد بھی بندے مکلف رہیں گے، کیونکہ ان کے نزدیک اللہ تعالی ٰ بندوں کو تکلیف مالایطاق دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس امام ابو اسحاق اسفرائینی کی رائے میں ایسی صورت میں بندے شریعت کے نہیں، بلکہ ’’محاسن عقول“ یعنی جن چیزوں کو انسانی عقل مستحسن سمجھتی ہے، ان کے مکلف ہوں گے۔ امام الحرمین کو ان دونوں رایوں سے اختلاف ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نہ تکلیف مالا یطاق دی جا سکتی ہے اور نہ عقلی فیصلے کا انسان کو مکلف ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ گویا امام الحرمین کے نزدیک ایسی حالت میں سرے سے تکلیف ہی رفع ہو جائے گی۔
آخر میں امام الحرمین لکھتے ہیں کہ جہاں تک اس امکان کے وقوع کی بات ہے تو قرائن یہ بتاتے ہیں کہ اگر تو پانچ سو سال کے اندر اندر (یعنی دسویں صدی ہجری کے اختتام تک) قیامت قائم ہو گئی تو غالب گمان یہ ہے کہ شریعت اپنی تفصیلات کے ساتھ محفوظ رہے گی، لیکن اگر دنیا کی عمر اس سے زیادہ ہے تو پھر علمائے شریعت کے، دنیا سے اٹھا لیے جانے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ علم شریعت بھی دنیا سے معدوم ہو جائے گا۔
————————–
امام الحرمین الجوینیؒ کی ایک دوسری کتاب ’’غیاث الامم فی التیاث الظلم“ (اندھیروں کے جمگھٹے میں قوموں کی دستگیری) کا موضوع مسلم تہذیب کے قرار واستحکام میں دو طبقات، یعنی فقہاء اور اہل اقتدار کی ذمہ داریوں اور کردار کی وضاحت ہے، البتہ الجوینی نے کتاب کے تیسرے حصے میں خاص طور پر اس پر قلم اٹھایا ہے، جو غالباً پوری اسلامی تراث میں منفرد بحث ہے، کہ تہذیبی اضمحلال کے دور میں جب یہ دونوں طبقے یا ان میں سے کوئی ایک طبقہ اپنا کردار کسی وجہ سے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے تو مسلمان معاشرے کے لیے ایسی صورت حال میں لائحہ عمل کیا ہوگا۔
الجوینی کا اندازہ یہ تھا کہ ان کے عہد سے اگلے پانچ سو سال تک اگر قیامت آ گئی تو شریعت اور فقہ کا تہذیبی نظام مسلم معاشرے کی راہنمائی کسی اختلال کے بغیر کرتا رہے گا، لیکن اگر معاملہ اس سے زیادہ چلا تو یہ نظام اختلال کا شکار ہو جائے گا اور معاشرہ کم وبیش اس صورت حال میں چلا جائے گا جس کو ہم ’’فترت “ کا دور کہہ سکتے ہیں۔ اس کا اہم ترین دینی اثر الجوینی کی نظر میں یہ ہے کہ مسلمان معاشرے کی تکلیفی ذمہ داری بدل جائے گی۔ پہلے مرحلے میں، دین کے متواتر اور اصولی احکام مسلم معاشرے کے پاس محفوظ ہوں گے، لیکن فقہ اور اجتہاد کا نظام مضمحل ہو جائے گا۔ مسلم معاشرہ صرف شریعت کے متواتر اور مجمع علیہ احکام کا مکلف ہوگا اور تفصیلات کے لیے فقہی مذاہب کے اجتہادات اور قواعد وضوابط کی جگہ کامن سینس کو بنیادی اہمیت حاصل ہو جائے گی۔ بالکل آخری دور میں جب شریعت کے اصول وارکان بھی دنیا سے ضائع ہو جائیں گے تو پھر مسلمان صرف توحید پر ایمان کے مکلف ہوں گے۔
الجوینی کی بحث تو منفرد ہے ہی، اصل کمال ان کی اپروچ کا ہے۔ ان کے نزدیک تہذیبی استحکام کے لیے سیاسی اور دینی دونوں طرح کی “اتھارٹی“ کا کردار اہم ہے، لیکن اس میں وہ فریق جس پر یہ اتھارٹی بروئے کار لائی جانی ہے، وہ غیر اہم نہیں اور اس کے زاویے سے بھی معاملے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ تیسرا فریق معاشرہ ہے اور اس کے زاویے سے ’’تکلیف“ کا سوال بنیادی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ احکام کا مکلف اتنا ہی ہو سکتا ہے جتنا تہذیبی نظام میں احکام کو روبعمل کرنے کا بندوبست موجود ہو۔ اگر سیاسی یا دینی اتھارٹی اپنی مطلوبہ جگہ پر موجود نہیں یا درست کام نہیں کر رہی تو معاشرے کو ان احکام کا مکلف سمجھنا یا اسی طرح کے مطالبات رکھنا بے جواز ہے جو تہذیبی استحکام کی صورت حال میں ہی لاگو ہو سکتے ہیں۔ تہذیبی صورت حال سے قطع نظر کرتے ہوئے، عام مسلمانوں پر بدستور ان تکالیف کا بوجھ ڈالنا جن کا تحمل سیاسی ودینی اتھارٹی کے استحکام میں ہی کیا جا سکتا ہے، درست نہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ تہذیبی نظام کی بحالی کی ذمہ داری امت پر باقی نہیں رہتی۔ وہ اپنی جگہ ہے اور اس کے لیے اہل علم اور اہل اختیار مسئول ہیں، لیکن جاری تاریخی صورت حال میں معاشرے کی تکلیفی ذمہ داریاں وہ نہیں ہوں گی جو پچھلے دور میں تھیں۔ لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی میں اسی کے مکلف ہوں گے جو بالفعل موجود تاریخی صورت حال میں ان کے لیے ممکن ہو۔ یوں فتوی اور دینی راہنمائی کا نظام بچی کھچی اور مضمحل اتھارٹی کی ضروریات کے تابع نہیں ہوگا، بلکہ اسے لوگوں کی عملی صورت حال اور تکلیف بقدر طاقت کے اصول پر استوار کرنا پڑے گا۔
الجوینی نے عملی زندگی کے تمام اہم شعبوں سے متعلق ان تکلیفی احکام کا ایک نقشہ پیش کیا ہے جو اضمحلال کے اس دور میں لاگو رہیں گے اور اس سے زائد کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں ڈالی جائے گی۔
اس بحث کی کچھ مزید تفصیلات پر ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً یہاں معروضات پیش کی جائیں گی۔
کمنت کیجے