نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی سوات سے تعلق رکھتی ہیں۔ملالہ نے سوات میں ملا فضل اللہ اور اس کی تنظیم لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند کرا رہے تو اس پر کمسن ملالہ نے گل مکئی کے نام سے مذمتی تحریریں لکھیں جو کہ بی بی سی اردو پر شائع ہوئیں سے ملی مگر کچھ سالوں بعد ملالہ یوسفزئی پاکستانی طالبان کے گولی کا نشانہ بنی تو ملالہ ایک بین الاقوامی فگر بن گئیں۔اس حملے نے ملالہ یوسفزئی اور ان کے خاندان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔کرسٹینا لیمب سے ملکر ملالہ یوسفزئی نے اپنی آپ بیتی I am Malala کے نام سے لکھی ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۳ میں لکھی گئی تھی۔ جب ملالہ پر حملے ہوئے تقریباً سال گزر چکا تھا۔
یہ کتاب ملالہ کی آپ بیتی ہے جس میں انہوں نے اپنے بچپن سے لیکر اپنے اوپر حملے تک کے واقعات کو ذکر کیا ہے۔ وہاں یہ کتاب ایک طرح سے سوات کے تاریخ کو بھی ذکر کرتی ہے۔ اس کتاب میں سوات میں ملا فضل اللہ اور صوفی محمد کی تحریک کا بھی ذکر ہے۔ نیز وہاں پر عسکریت پسندی کی وجوہات اور اس میں شامل دیگر کردار و عوامل پر بھی ملالہ یوسفزئی نے اپنا نکتہء نظر پیش کیا ہے۔ طالبان کی آمد سے سوات کا سماجی ڈھانچہ کس قدر متاثر ہوا اس کو بھی ملالہ یوسفزئی نے ذکر کیا ہے۔
ملالہ نے کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پاکستان لوٹ کر کبھی نہیں آئیں گی مگر ملالہ کہتی ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ وہ ضرور آئیں گی۔ ملالہ پاکستان میں مستقل کب آتی ہیں یہ تو نہیں کہہ سکتے مگر وہ اب دو تین بار پاکستان آ چکی ہیں۔ ظاہری بات ہے ان کا یہاں مستقل رہنا ایک مشکل بات ہے کیونکہ پہلے بھی وہ حملے میں جان سے بچی ہیں اور دوبارہ بھی ایسے حادثے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
ملالہ بتاتی ہیں کہ ہمارے پشتون معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر خوشیاں نہیں منائی جاتیں نہ ہی والدین سے ملنے والے کوئی مبارکباد دیتے ہیں ۔ ان کی پیدائش پر بھی ان کے والدین کو کسی نے مبارکباد نہیں دی مگر ان کے والد باقی پشتون مردوں سے مختلف ہیں انہوں نے ملالہ کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا بلکہ لوگوں سے بھی کہا کہ وہ میرے جھولے میں مٹھائی اور خشک پھل پھنکیں جیسے لڑکے کے جھولوں میں پھینکا جاتا ہے ۔ ملالہ کا مائی ونڈ کی ملالئی کے نام پر رکھا گیا۔ جس نے ۱۸۸۰ کی اینگلو افغان جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ ملالئی خود اس جنگ میں ماری گئی مگر اس نے افغان فوج کو ہمت دلائی جس کی وجہ سے افغانوں نے اس جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ ملالئی بہت سے پشتونوں کی انسپائریشن ہے۔ ملالہ یوسفزئی کا نام ملالئی کے نام پر ان کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے رکھا۔ البتہ ملالہ کے دادا جو کہ عالم دین تھے کو یہ نام پسند نہیں تھا کیونکہ اس نام کے معنی میں اداسی پائی جاتی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ اہم بات ذکر کر دوں کہ اس کتاب کے ہیرو ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی ہیں۔ ملالہ کی سوچ پر ان کے والد کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ ملالہ یوسفزئی کا سماجی و سیاسی معاملات پر علم کا پہلا تعارف اور ذریعہ ان کے والد ہیں۔ یہ ایک معمولی سی بات ہے کیونکہ والدین کے نظریات کا اولاد پر اثر تو ہوتا ہے مگر مجھے یہ بہت پسند آئی ، کیونکہ باپ اور بیٹی کا رشتہ ویسے بھی بہت مضبوط اور پر کشش ہوتا ہے۔ ہر بیٹی کے لیے کا باپ ہی اس کا ہیرو ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ملالہ یوسفزئی کی زندگی میں ان کے والد کا ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملالہ کی زندگی اپنے والد کے گرد گھومتی ہے۔ ملالہ یوسفزئی کا طالبان کے خلاف ہونا یا پھر لبرل پروگریسو سوچ کو پسند کرنا یہ سب ان کے والد کا دیا ہوا حوصلہ تھا۔ بلکہ ملالہ کی ڈائری جو گل مکئی کے نام سے لکھی گئی وہ بھی ان کے والد کے دوست عبدالحی کاکڑ کے ذریعے بی بی سی اردو پر شائع ہوئی ۔ ملالہ پر طالبان کے حملے کے وجہ بھی ان کے والد کا طالبان کے خلاف بولنا تھا.
ملالہ نے اپنے والد سے قربت اور دوستی کے متعدد واقعات ذکر کیے ہیں۔ ملالہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کی زبان میں لکنت تھی جس پر وہ ان کا مذاق بھی اڑاتی تھی۔ ملالہ اپنے والد کے بارے میں بتاتی ہیں کہ انہوں نے دورانِ تعلیم تقریری مقابلہ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جس پر ان کے والد نے کہا کہ یہ ناممکن ہے مگر ضیاء الدین یوسفزئی نے اپنے والد سے کہا کہ وہ ان کو تقریر لکھ دیں، ضیاء الدین یوسفزئی نے ناصرف عمدہ تقریر کی بلکہ انہوں نے پوزیشن لی اور اس کے بعد وہ ضلعی سطح پر ہونے والے تقریری مقابلہ میں بھی پوزیشن لیتے رہے۔
ملالہ کے والد جو عالم دین کے بیٹے تھے پر پہلے مذہبی فکر کے حامل تھے۔ ملالہ بتاتی ہیں کہ پہلے وہ ہر نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں اور کفار کی جنگ ہو جس میں وہ شہید ہو جائیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ضیاء الدین پنجپری لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے خیالات میں تبدیلی اس وقت آئی جب وہ ملالہ کے ماموں فیض محمد سے ملے وہاں ان کا ملنا مختلف حلقہ فکر جن میں سیکولر جماعتوں کے لوگ تھے سے ہوا جو افغان جہاد کو امریکی مفادات کی جنگ کہتے تھے سے ہوا تو ان کے خیالات میں تبدیلی آئی۔فیض محمد سوشلزم کی طرف مائل تھے اس لیے وہ سرمایہ دارانہ نظام اور جاگیر دارانہ نظام پر بھی شدید تنقید کرتے تھے۔ ضیاء الدین ، فیض محمد سے کافی متاثر ہوئے۔
سوات کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ملالہ بتاتی ہیں کہ اس کا قدیم نام اڈیانہ تھا۔ یہ پہلے بدھ ریاست تھی۔ سلطان محمود غزنوی کے دور میں اسلام یہاں آیا۔ بدھوں سے پہلے ۳۲۷ قبل مسیح میں سکندر اعظم بھی سوات میں آیا تھا۔
ملالہ بتاتی ہیں کہ ان کی پیدائش ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ وہ دو کمروں کے گھر میں رہتی تھے۔ ایک کمرے میں وہ اور ان کے والدین سوتے تھے جبکہ دوسرا کمرہ مہمانوں کے لیے تھا۔ ملالہ کے دادا عالم دین تھے اور اپنی تقاریر کی وجہ سے وہ کافی شہرت رکھتے تھے۔ اپنے ننھیال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملالہ کی والدہ انتہائی سادہ اور مذہبی خاتون ہیں، مگر ان کا ننھیال اثر و رسوخ کا حامل تھا۔ جہاں مردوں کے ساتھ خواتین بھی کافی پراعتماد تھیں۔ ملالہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ کو رقص بالکل پسند نہیں تھا مگر ملالہ کو پسند تھا۔ اور وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ دروازہ بند کر کے روایتی رقص کیا کرتی تھی۔ ملالہ کی والدہ نے بچپن میں ہی تعلیم ترک کر دی تھی اور اپنی کتابیں کچھ ٹافیوں یا پیسوں کے عوض فروخت کر دیں تھیں اور پھر وہ کبھی سکول نہیں گئیں ۔ ان کے سکول نہ جانے کو کسی نے نوٹس نہیں کیا۔
افغان جہاد کے سلسلے میں ملالہ جنرل ضیاء الحق کا خصوصی طور پر ذکر کرتی ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے سماجی ڈھانچے کو بدل ڈالا ، ان کے دور میں سکولوں کے نصاب میں تبدیلی کی گئی ، دینیات کو اسلامیات سے بدل ڈالا گیا۔ تاریخ کی کتابیں بدل ڈالی گئی تاکہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ ثابت کیا جا سکے۔ ضیاء دور میں مولویوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی حالانکہ اس دور سے پہلے مولوی کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کا کام فقط نکاح ، جنازہ یا پھر نماز پڑھانا ہوتا تھا۔ ضیاء دور میں ان کو پالیسی امور پر مشاورت کے لیے بلایا جاتا تھا حتی کہ ملالہ کے دادا بھی جاتے تھے۔ ضیاء کو بھی بین الاقوامی اہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ روسی حملے کے بعد برطانیہ اور امریکہ میں ضیاء الحق کو خاص اہمیت دی گئی کیونکہ وہ اسٹرٹیجک پارٹنر تھا۔
جیسا کے پہلے عرض کیا جا چکا کہ ملالہ کے اوپر ان کے والد کی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ یہ سب باتیں ملالہ نے اپنے والد ہی کی بیان کی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارا سیکولر طبقہ بالعموم کرتا ہے مگر ساتھ ہی دائیں بازو کے لوگ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ضیاء دور میں ہونے والے اقدامات کے اثرات کافی دور رس تھے اور افغان جنگ کی بدولت ہی یہاں عسکری گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی بھی اس دور سے زیادہ بڑھی مگر اس میں ایک بڑا عوامل پاکستان کے پڑوس میں آیا انقلاب بھی تھا۔
نصاب کے حوالے سے ملالہ اپنے والد کی زبانی بتاتی ہیں کہ حساب کی کتاب میں ایک مثال ایسے دی جاتی تھی پندرہ گولیوں میں سے دس گولیاں منفی کریں تو کتنی گولیاں بچتی ہیں یا پھر اگر دس روسیوں میں سے پانچ روسی ایک مسلمان کے ہاتھوں ماریں جائیں تو پیچھے پانچ روسی بچتے ہیں۔ یہ تعلیم مہاجر کیمپوں میں دی جاتی تھی تاکہ ان کی ذہن سازی کی جا سکے اور یہ سب تعلیم سی آئی اے کی زیر نگرانی دی جا رہی تھی۔
ضیاء کے بعد مشرف دور میں ہم پھر افغان جنگ میں بطور امریکی اتحادی شامل ہوئے مگر امریکیوں کو لگا کہ مشرف اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ امریکہ سے ڈبل گیم کر رہی ہیں ۔ ایک طرف وہ طالبان کو بچا رہے تھے تو دوسری طرف ہم امریکا کے اتحادی تھے۔ ملالہ نے نو گیارہ کے واقعے کے بارے میں بھی لکھا ہے جس نے دنیا کے حالات بدل دئیے کہ اس وقت ہمارے ملک میں سازشی تھیوری گردش کر رہے تھی کہ یہ امریکہ نے یہ حملہ خود کیا ہے تاکہ وہ افغانستان پر حملہ کر سکے ۔ اس وقت یہ تھیوری بھی گردش کر رہی تھی کہ جس روز ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا اس دن کوئی یہودی وہاں موجود نہیں تھا۔ یہ والی بات تو میں نے بھی بہت کثرت سے سنی اس وقت میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ ہمیں بھی یقین آ گیا کہ یہ بات سچ ہے۔ ملالہ کہتی ہیں کہ ان کے والد یہودیوں کے کام پر نہ جانے والی بات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ امریکی حملے کے بھی خلاف تھے اور پاکستان کا اس جنگ میں حصہ بننے کے بھی خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے امریکی ہمیشہ آمروں سے بات کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی بات منوا سکیں۔ ملالہ کہتی ہیں کہ مشرف نظریاتی طور پر ضیاء الحق سے مختلف تھے انہوں نے روشن خیالی کا نعرہ لگایا اور ان کے دور میں ویلنٹائن ڈے جیسے مغربی تہواروں سے واقف ہوئے۔
ضیاء الدین یوسفزئی طلبہ سیاست میں بھی کافی فعال تھے وہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جس کا مقصد کلیدی آسامیوں پر پشتونوں کی تقرری تھا جو کہ زیادہ تر پنجابیوں کو ملتی تھیں ۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سب سے زیادہ نظریاتی اختلاف اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ ملالہ کہتی ہیں کہ یہ اپنے نظریات میں بے لچک ہیں اور ان میں شدت پسندی پائی جاتی ہے۔
ضیاء الدین یوسفزئی اپنے کالج میں مختلف مباحثوں میں آگے آگے رہے جب سلمان رشدی کی کتاب شائع ہوئی تو اس پر ملک بھر میں احتجاج ہوا ، رشدی کے خلاف قتل کے فتوی جاری ہوئے اور کہا گیا کہ اس کی کتاب کو نظر آتش کیا جانا چاہیے۔ ضیاء الدین یوسفزئی کا نکتہ نظر مختلف تھا، وہ اس کتاب کو جارحانہ سمجھتے تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کتاب کو پڑھ کر اس کا جواب دینا چاہیے۔ انہوں نے اپنے والد کو کہا کہ کیا اسلام اتنا کمزور ہے کہ اپنے خلاف ایک کتاب کو برداشت نہ کر سکے؟
ضیاء الدین یوسفزئی کی اس بات کو ملالہ کے ناقدین نے اس طرح لیا کہ وہ اس کتاب کو آزادی اظہار کا حق سمجھتے تھے مگر مجھ جو پڑھ کر اندازہ ہوا ہے ضیاء الدین کا طرزِ عمل مختلف ضرور تھا پھر یہ بات برداشت والی بھی محل نظر ہے مگر اس کو وہ آزادی اظہار نہیں سمجھتے تھے۔ جہاں تک اپنے خلاف کتاب برداشت کرنے والی بات ہے تو میرے خیال میں یہ معاملہ برداشت یا عدم برداشت کا نہیں ہے۔ اسلام سوال کی آزادی ضرور دیتا ہے مگر یہاں بھی ہر سوال کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے مابعد الطبیعیاتی امور پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے اگر ان کا انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی تو بھی ان پر ایمان مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ پھر اسلام کے اوپر ناقدانہ مواد اب بھی لکھا جا رہا ہے جس میں انتہائی کمزور اور سطحی انداز میں اسلام پر تنقید کی جاتی ہے مگر جہاں تک رشدی کی کتاب کا تعلق ہے وہ ایک نیچ درجے کے مواد پر مشتمل تھی جس کا کوئی بھی مثبت پہلو نظر نہیں آتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے بارے میں مسلمانوں کے اندر جو حساسیت اور محبت پائی جاتی ہے اس کے اوپر حملہ کیا گیا۔ یہ کوئی علمی کارنامہ نہیں تھا جس پر برداشت یا عدم برداشت کا سوال اٹھتا بلکہ یہ سراسر ایک توہین آمیز جسارت تھی جس کا کوئی تعمیری مقصد نہیں تھا۔
ملالہ کے والد تعلیم و تدریس سے وابستہ تھے انہوں نے اپنا تعلیمی ادارہ قائم کیا اور اس کے قیام کے لیے انہیں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ملالہ نے ان کا ذکر کیا ہے ۔ ایک طرف انہیں مالی مشکلات کا سامنا تھا دوسری مشکل اس وقت پیش آئی جب سوات میں طالبان نے اپنا اثرورسوخ ڈالنا شروع کر دیا۔ بالخصوص لڑکیوں کے سکول بند کرنے کے حوالے سے دھمکیاں اور پھر سکول کے اپنے اساتذہ کا ملا فضل اللہ کے ڈر سے سکول چھوڑنا۔ یہ ضیاء الدین یوسفزئی کی محنت اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی کہانی ان کی بیٹی کی زبانی ذکر ہوئی ہے۔
سوات ۱۹۶۹ میں پاکستان کا حصہ بنا۔ جب ۱۹۹۷ میں پاکستان اپنی پچاس سالا سالگرہ منا رہا تھا تو سوات میں لوگ کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کر رہے تھے کیونکہ ان کو پاکستان کے عدالتی نظام سے بہت شکایات تھیں۔
سست عدالتی نظام ہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے خلاف تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کو آواز اٹھانے پر سوات میں مقبولیت ملی۔اور یہ سست عدالتی نظام ہی تھا جس نے بعد میں طالبان کے لیے بھی سوات کی عوام میں ہمدردیاں پیدا کیں۔ ملا فضل اللہ کا ظہور ۲۰۰۶ میں ہوا جو کہ صوفی محمد کا داماد تھا۔ اس نے اپنا ریڈیو قائم کیا جس میں اس نے شروع میں قرآن مجید کی تفسیر پر پروگرام کیے۔ پھر اس نے ساتھ ساتھ منشیات کے خلاف بھی بات کی، اور سوات کے لوگوں کو ان سے چھوڑنے کے لیے کہا۔ وہ اسلام کی دیگر اخلاقی تعلیمات پر بھی بات کرتا تھا ۔ ملا فضل اللہ کی یہ باتیں عوام کو اپیل کرتی تھیں اور اس کا پروگرام باقاعدگی سے سنا کرتے تھے ۔ ملالہ کی والدہ بھی ملا فضل اللہ کا پروگرام بہت شوق سے سنتی تھیں۔ پھر فضل اللہ نے پاکستانی عدالتوں سے تنگ عوام کو اپنی نجی شرعی عدالتوں کے ذریعے سے بروقت فیصلوں کے ذریعے بھی ریلیف دیا۔ جس میں مقدمات دس سال لٹکنے کی بجائے ایک دن میں حل ہو جاتے ، ناصرف یہ کہ فیصلے جلد ہوتے بلکہ ملا فضل اللہ کے رضاکار اس فیصلے کے نفاذ کو بھی یقینی بناتے ۔ اس چیز نے ملا فضل اللہ کو مزید طاقت دی۔فضل اللہ اتنا مقبول ہوا کہ سوات کے لوگوں نے اس کو مالی امداد فراہم کی اور کئی خواتین نے اپنے زیور تک اس کو عطیہ کر دیئے۔ اس کے بعد فضل اللہ نے آہستہ آہستہ مخلوط تعلیم ، انگریزی تعلیم اور لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تقریریں شروع کیں جس پر کچھ لوگوں نے ردعمل دیا جن میں ملالہ کے والد شامل تھے ۔ ملالہ کہتی ہیں کہ ان کے والد شروع سے ہی ملا فضل اللہ کو مشکوک سمجھتے تھے۔ پھر جب اس کے حکم پر تعلیمی ادارے بند ہوئے تو ضیاء الدین یوسفزئی سمیت کئی لوگوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ملا فضل اللہ کی تحریک میں تشدد اس وقت آیا جب لال مسجد میں مشرف نے جولائی ۲۰۰۷ میں آپریشن کیا۔ اس بارے میں ملالہ کہتی ہیں کہ ہم حیران تھے کہ کیسے دو مولوی دارالحکومت کے وسط میں بیٹھ کر حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے۔ لال مسجد کے امام پہلے حکومت کے اتحادی تھے مگر افغانستان میں امریکی اتحاد کا حصہ بننے پر انہوں نے فوج سے راہیں جدا کر لیں اور طالبان کے حامی بن گئے۔
مشرف دور میں بھی ملا فضل اللہ کے خلاف ایکشن ہوا مگر اس نے ملا فضل اللہ کو مزید مضبوط کیا۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کو ان سے معاہدہ کرنا پڑا ۔ جس میں یہ طے پایا تھا کہ طالبان تعلیمی اداروں کو چلنے دیں گے اور ان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے بدلے میں نظام عدل قائم ہو گا۔ اس نظام عدل پر کچھ لوگوں کو تحفظات تھے مگر ملالہ کے والد خوش تھے کہ شریعت کے نفاذ کے بعد طالبان کا سب سے بڑا مطالبہ پورا ہو جائے گا کم از کم اس سے سوات میں امن و امان بحال ہو جائے گا۔ اس معاہدے کی خوشی میں سوات میں ہوائی فائرنگ بھی کی گئی مگر صوفی محمد جو اس معاہدے میں طالبان کے ضامن تھے نے ایک مایوس کن تقریر کی جس میں مغربی جمہوریت کو کفر کا نظام قرار دیا اور کہا کہ وہ اس نظام کو جڑ سے اکھیڑ دیں گے۔ صوفی محمد کی اس تقریر سے یہ معاہدہ روبعمل نہ ہو سکا۔ ملالہ کہتی ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ صوفی محمد کی یہ تقریر کسی دباؤ کے تحت تھی مگر اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پھر جون میں آپریشن کا اعلان ہوا جس میں لاکھوں کی تعداد میں سوات کے رہائشیوں کو منتقل ہونا پڑا۔ طالبان کا سوات میں اس حد تک اثر و رسوخ ہو گیا تھا کہ سوات کے ڈپٹی کمشنر اکثر اوقات طالبان کے مرکز میں پائے جاتے تھے۔ پولیس طالبان کا مقابلہ کرنے سے ڈرتی تھی کیونکہ طالبان کے پاس جدید ہتھیار تھے جو پولیس کے پاس نہیں تھے۔
ملالہ کہتی ہیں کہ طالبان نے فقط ہمارے سکول تباہ نہیں کیے بلکہ انہوں نے پشتون روایات اور اسلامی اقدار کا بھی خون کیا۔ جس طرح سے اسلام کی شکل طالبان نے پیش کی وہ ایک بھیانک تصویر تھی اور اس سے کوئی بھی غیر مسلم متاثر ہو کر اسلام قبول نہیں کر سکتا تھا۔
طالبان کی جانب سکولوں کی بندش کے خلاف ضیاء الدین یوسفزئی کے دوست عبدالحی کاکڑ نے کہا کہ اس کے خلاف کسی خاتون کو لکھنا چاہیے اس کے لیے پہلے ضیاء الدین یوسفزئی کے سکول کی ایک استانی عائشہ کا انتخاب ہوا، مگر انہوں نے خاندانی دباؤ پر معذرت کر لی کہ یہ خطرناک ہے تو ملالہ نے اپنے والد کو کہا کہ وہ یہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ ملالہ کے اپنے نام کی بجائے گل مکئی کے نام سے لکھنے کا مشورہ عبدالحی کاکڑ کا تھا اس سے ملالہ کی شناخت بھی محفوظ رہے گی اور وہ طالبان کی تعلیم دشمنی سے دنیا کو بھی آگاہ کر سکے گیں۔ ملالہ کی یہ ڈائری عبدالحی کاکڑ کے ذریعے سے بی بی سی اردو پر شائع ہوئی جہاں سے گل مکئی کو شہرت ملی ۔ طالبان کی جانب سے گل مکئی کی اس ڈائری کا ردعمل تو یقینی تھا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ گل مکئی کون ہے۔ ملالہ کہتی ہیں کہ جب نظام عدل کا معاہدہ ہوا تو اس نے یہ ڈائری لکھنا بھی چھوڑ دی کیونکہ معاہدے کے تحت لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت مل گئی تھی تو اس نے مزید اس پر لکھنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ اس کا بنیادی مطالبہ حصول تعلیم کا حق مل گیا تھا۔
جب سوات آپریشن شروع ہوا تو مئی ۲۰۰۹ میں ملالہ اور ان کے خاندان نے اپنا گھر چھوڑ دیا۔ گھر چھوڑتے وقت انہیں کوئی زیادہ سامان ساتھ نہیں لیکر جانا پڑا۔ آپریشن میں بہت سے گھر تباہ ہوئے مگر ملالہ کا گھر محفوظ رہا۔
سوات آپریشن میں جہاں آرمی نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی وہاں بہت سے بے گناہ لوگ بھی فوج کے عتاب کا نشانہ بنے۔ ملالہ نے ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جس میں کئی بے گناہ لوگوں کو شک کی بنیاد پر فوج اٹھا کر لے گئی۔ ان میں سے ایک شخص کو مار ڈالا گیا تو فوج کو احساس ہوا کہ انہوں نے غلط شخص کو مار ڈالا ہے۔ آرمی آپریشن نے ایک الگ طریقے سے سوات کے لوگوں کو مشکل میں ڈالا ، بیشتر خواتین جن کے شوہروں کو اٹھا لیا گیا کو یقین نہیں تھا کہ وہ اب سہاگن ہیں یا بیوہ۔ کئی خواتین ضیاء الدین یوسفزئی کے پاس آئیں کہ ان کی مدد کریں اور ان کے بے گناہ شوہر ، باپ یا بھائی کو فوج کی حراست سے آزاد کرائیں۔ فوج کے اٹھانے کا انداز ہی الگ تھا وہ کبھی بھی نہیں کہتے کہ ہم نے اس شخص کو اٹھایا ہے۔ یہ متاثرین کے لیے الگ پریشانی کا باعث ہے۔ ملالہ کہتی ہیں کہ ہم حیران تھے کہ آرمی نے اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا مگر اس کا بنیادی ہدف ملا فضل اللہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ سوال ملالہ نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل (ر) اطہر عباس سے بھی کیا جس پر انہوں نے پندرہ منٹ بات کی مگر اس میں سوال کا جواب کچھ بھی نہیں تھا۔
ملالہ نے مجموعی طور پر فوج کے حوالے سے ناقدانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ان کا حدود سے تجاوز کرنا، کاروبار کرنا اور ڈرامے بنانے پر بھی تنقید کی ہے۔ پھر جس طرح سے اس کے علاقے میں طالبان نے قدم گاڑے اس میں وہ خفیہ اداروں کے کردار کو بھی مشکوک انداز میں دیکھتی ہے کہ فوج میں شامل کچھ عناصر کی یقیناً ان کو تائید حاصل ہو گی۔ ملالہ یوسفزئی جب سوات آپریشن کے بعد جی ایچ کیو گئیں تو وہاں پر ان کے نظم و ضبط اور صفائی ستھرائی کے انتظامات کو سراہتی بھی ہیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھتی ہیں کہ کسی سول ادارے میں ایسا خوشگوار نظام کیوں نہیں ہے. ملالہ نے ایبٹ آباد اپریشن کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسامہ بن لادن کا پاکستان کی سرزمین پر پایا جانا اور مارا جانا کافی تشویشناک عمل تھا۔ نیز پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں کے کردار اور ردعمل کے حوالے سے بھی اس نے عدم اطمینان کا مظاہرہ کیا ہے۔
سوات آپریشن کے بعد ملالہ کی زندگی معمول پر آنے لگ گئی تھی مگر وہ کہتی ہیں کہ ہم آرمی کی چیک پوسٹوں سے کافی تنگ تھے ، کیونکہ جب فوج دعویٰ کر رہی ہے کہ سوات میں طالبان کا صفایا کر دیا گیا ہے تو پھر ان چیک پوسٹوں کا مقصد کیا بنتا ہے۔
سوات آپریشن سے پہلے وسعت اللہ خان کے ایک پروگرام میں ملالہ نے اپنے والد کے ساتھ شرکت کی جس میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلہ پر بات ہوئی۔اس میں فون پر طالبان ترجمان مسلم خان نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا ۔ جس میں مغربی تعلیم کو اسلام دشمن قرار دیا۔ ملالہ کہتی ہیں کہ میرے نزدیک تعلیم کو مشرق و مغرب میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ تعلیم تعلیم ہوتی ہے اور ہر وہ علم جس سے انسان کو فائدہ پہنچے وہ اسے حاصل کرنا چاہیے۔
سوات آپریشن کے بعد طالبان کا بڑی حد تک صفایا تو ہو گیا تھا مگر ان کے حملہ کرنے کی صلاحیت باقی تھی اور اب انہوں نے ٹارگٹ کلنگ کا راستہ اپنایا ، جس میں ماہر تعلیم اور عالم دین ڈاکٹر فاروق خان کو بھی شہید کیا گیا۔ ضیاء الدین یوسفزئی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کو طالبان نے نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہوئی تھی۔ ملالہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے طالبان کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا البتہ انہوں نے اپنی روٹین میں تبدیلی کر دی وہ کبھی اپنے ایک سکول جاتے تو دوسرے دن دوسرے سکول میں۔ سوات آپریشن کے بعد ملالہ یوسفزئی کو پاکستانی میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا میں کسی حد تک کوریج ملنا شروع ہوئی۔ اس کو حامد میر نے اپنے پروگرام میں بلایا۔ اس کے علاوہ تعلیم کے حوالے سے کئی سیمنارز ہوئے جس میں ملالہ کو مدعو کیا گیا۔اس وقت یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ گل مکئی کے نام سے مشہور ہونے والی دراصل ملالہ تھی ۔ مگر ملالہ کہتی ہیں کہ انہیں یقین تھا کہ طالبان کبھی بھی اس کو نقصان نہیں پہنچائیں گے کیونکہ وہ لڑکی ہے۔ وہ اس کے والد پر حملہ کر سکتے ہیں مگر عورت پھر وہ بھی بچی پر حملہ کرنا پشتون روایات کے خلاف ہے مگر اکتوبر ۲۰۱۲ میں جب ملالہ ایک پیپر دیکر گھر آ رہی تھی تو طالبان نے اس پر حملہ کر دیا جس میں اس کے ساتھ جانے والی کائنات اور شازیہ بھی زخمی ہو گئیں۔ ملالہ اس حملے میں شدید زخمی ہو گئیں، پہلے ان کو پشاور اور پھر اسلام آباد کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ موت و حیات کی کشکمش میں مبتلا رہی۔ ملالہ کے علاج کے حوالے سے اس وقت کے صدر آصف زرداری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے خصوصی دلچسپی دکھائی۔ ڈاکٹرز کے مشورے پر ملالہ کو انگلستان بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو وہاں موجود ڈاکٹر فونا کو ضیاء الدین یوسفزئی نے ملالہ کا سرپرست بنا دیا۔
ملالہ کو جب انگلستان بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو ایک ڈاکٹر جاوید کیانی نے تجویز دی کہ ہمیں برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے جہاز کے لیے درخواست کرنی چاہیے جو کہ وہاں کی انتظامیہ نے پیشکش کی تھی اگر حکومت پاکستان اس کی درخواست کرتی مگر جنرل کیانی نے یہ طیارہ استعمال کرنے سے انکار کر دیا پھر اماراتی امیر نے اپنے نجی جہاز کی پیشکش کی جو کہ قبول کر لی گئی۔ برطانوی شاہی جہاز کی تجویز کو مسترد کرنے کی وجہ جنرل کیانی نے یہ بتائی کہ اس وقت ملالہ کے حوالے سے منفی باتیں ہو رہی ہیں کہ وہ مغرب کی آلہ کار ہے برطانوی جہاز سے ان باتوں کو تقویت ملے گی۔ ملالہ کو جب برمنگھم کے ہسپتال میں لے کر جانے کا فیصلہ ہوا تو فوجی قیادت چاہتی تھی کہ ضیاء الدین یوسفزئی ساتھ جائیں مگر وہ اپنی بیوی کے بغیر نہیں جانا چاہتے تھے ۔ ملالہ کی والدہ کا پاسپورٹ ابھی نہیں بنا تھا تو وہ نہیں جا سکتی تھیں اس لیے فوج کے مرضی کے خلاف ڈاکٹر فونا کو ملالہ کا سرپرست بنا کر روانہ کیا گیا۔ ملالہ کو ہوش برطانوی ہسپتال میں آیا اور وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے آس پاس کے ماحول کو پہلی بار ہی اجنبی محسوس کر لیا ، ساتھ ہی انہیں یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں کیونکہ ہسپتال کا عملہ انگریزی میں بات چیت کر رہا تھا۔ ملالہ کہتی ہیں کہ ان کو ہوش میں آنے کے بعد سب سے پہلا خیال یہ ہی آیا کہ اس کے والد کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں وہ اس کا علاج کیسے کروائیں گے بعد میں ملالہ کو معلوم ہوا کہ اس کا علاج کا خرچ حکومت پاکستان نے اٹھایا تھا۔
اس کے بعد ملالہ نے اپنے گھر والوں کا انگلستان آنا اور اپنے صحت یاب ہونے کے بارے میں بتایا ہے۔ پھر انگلستان میں تعلیم اور اس کا پاکستان سے مختلف ہونے کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ملالہ نے بتایا کہ اس حملے نے جہاں اس کے چہرے کی ہیت بدلی وہاں وہ اس کے ایک کان کی سماعت بھی متاثر ہوئی۔
ملالہ نے پاکستان کے سیاست دانوں پر بھی شدید تنقید کی ہے، اور لکھا ہے کہ یہ عوام میں فقط اس وقت جاتے ہیں جب انہوں نے ووٹ لینے ہوں۔ ان میں بیشتر مالی لحاظ سے بددیانت ہیں جنہوں نے کرپشن کے پیسے سے بیرون ملک جائیدادیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ البتہ بینظیر بھٹو سے ملالہ متاثر نظر آتی ہیں اور ان کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں۔ ان کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی تعریف کرتی ہیں ۔ بینظیر کے علاوہ ملالہ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی بہت تعریف کرتی ہیں ۔ خان عبدالغفار خان ہوں یا پھر محترمہ بینظیر بھٹو ملالہ کا ان دونوں کو پسند کرنا دراصل ان کے والد کی پسندیدگی کی بدولت ہے۔
ملالہ نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ شروع سے پڑھائی سے دلچسپی رکھنے والی لڑکی تھی اور ہمیشہ کلاس میں اول آتی تھی۔ اس کی اول پوزیشن پر لوگ چہ میگوئیاں کرتے تھے کہ یہ سکول کے مالک کی بیٹی ہے اس لیے اول آتی ہے ۔ اس کا پڑھائی میں زیادہ تر مقابلہ اپنی دوست منیبہ سے ہوتا تھا مگر ایک اور لڑکی ملیکہ نور نے ایک بار اس سے اول پوزیشن چھینی تو وہ بہت روئی۔ ملالہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے والد کے لیے باعث فخر مگر ایک بار اس کو شرمندہ بھی ہونا پڑا جب اس نے اپنے ساتھ ایک لڑکی سفینہ کے کھلونے اور جیولری چرا لی تھی ملالہ کہتی ہیں کہ یہ انہوں نے ردعمل میں کیا کیونکہ انہیں لگا کی سفینہ نے اس کا موبائل چرایا ہے جو اس کے والد لیکر آئے تھے۔ سفینہ کی جیولری جب ملالہ کے کھلونوں سے برآمد ہوئی تو اس کے والدین بہت شرمندہ ہوئے۔
ملالہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی شامل رہتی تھی اور پھر نصاب کے علاوہ بھی وہ کتابیں پڑھا کرتی تھی جیسا کہ اس نے پاؤلو کوہلو کے الیکمسٹ اور لیٹولسٹائی کے اینا کریننا کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا شاندار تعلیمی ریکارڈ اور پھر لٹریچر سے وابستگی اس بات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ذہین لڑکی تھی اور گل مکئی کی ڈائری اس ہی نے لکھی ہے۔
ہمارے ہاں کئی لوگ ملالہ کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کوئی اس کو مغرب کا آلہ کار کہتے ہیں اور کچھ تو اس کے گولی لگنے کو بھی ڈرامہ کہتے ہیں ملالہ نے لکھا کہ ڈاکٹر راحیلہ قاضی جو کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتی تھیں نے اس کو ڈراما قرار دیا۔ ملالہ ان الزامات کو مسترد کرتی ہیں اور اس بات پر افسوس کا بھی اظہار کرتی ہیں کہ ان کے اوپر حملے کو بھی ڈرامہ سے تعبیر کیا گیا۔ یہ واقعی دکھ کی بات ہے ، ملالہ کے اوپر حملے کو طالبان نے قبول کیا اور اس کا چہرہ تک بدل گیا۔ یہ کہنا کہ اس پر حملہ نہیں ہوا سراسر بے رحمی ہے۔
جہاں تک اس کے مغرب کے آلہ کار ہونے کی بات ہے تو بھی مجھے اس میں حقیقت نظر نہیں آتی۔ دس سال ہو گئے ابھی تک اس سے مغرب نے اپنا ایسا کون سا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہاں البتہ یہ بات سوچنے کی ضرور ہے کہ ملالہ کو مغرب کی طرف دھکیلنے والے تو ہمارے ہاں کے عسکریت پسند ہیں پھر اگر اس کو گولی نہ ماری جاتی تو ملالہ کو اس شہرت کا عشر عشیر بھی نہ ملتا جو اس کو ملا ۔ عسکریت پسندوں کی وجہ سے اس کو ملک سے جانا پڑا ، ہمارے اپنے کچھ لوگوں نے اس کو اون نہیں کیا جبکہ مغرب کا رویہ اس کے حوالے سے دوستانہ تھا۔ اس لیے یہ فطری بات ہے کہ وہ مغرب کی طرف دوستی کی نگاہ سے ہی دیکھے گی اور جس طبقے نے اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہو اور اس کے اوپر حملے کو بھی ڈرامہ کہا ہو اس کے لیے ان سے حسن ظن کہاں سے آئے گا۔
جہاں تک ملالہ کے ہیرو ہونے کی بات ہے تو اس پر دونوں آراء کی گنجائش موجود ہے ۔ اگر کوئی شخص ملالہ پر ہوئے ظلم کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کو ہیرو یا آئیڈل تصور نہیں کرتا تو یہ اس کا حق ہے۔ کچھ لوگ اس حوالے سے بھی شاکی نظر آتے ہیں کہ ہمارے کسی فرد کو مغرب گلوریفائی کرتا ہے تو وہ اس پر تحفظات رکھتے ہیں ۔ یہ بالکل درست اعتراض ہے ہمارے کون ہیروز ہیں یا نہیں ہیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہمیں ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ مغرب نے کسی کو تسلیم کیا تو ہم پر اس کو تسلیم کرنا لازم ہے ۔
ایسے ہی ملالہ کے نوبل انعام کے ملنے پر بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ میرٹ پر دیا گیا یا پھر اس میں میرٹ سے زیادہ پسندیدگی کو سامنے رکھا گیا۔ ملالہ کی اپنے حد تک تو تعلیم کے لیے جدوجہد ضرور ہے مگر اس کے بدلے کیا وہ نوبل انعام کی حقدار بنتی ہیں ؟ اس پر بھی دو رائے ہو سکتی ہیں ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ملالہ کے نوبل انعام یافتہ ہونا پاکستان کی تاریخ میں ایک مثبت مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے ایک اعتراض ان کی مذہب بیزاری پر کیا جاتا ہے مگر مجھے اس کتاب کے پڑھنے تک ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی بلکہ مذہب دوستی زیادہ نظر آتی ہے۔ مثلاً اس کا رات کو آیت الکرسی پڑھنا یا پھر آخر میں اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کا اظہار کرنا کہ وہ رات کو سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے باتیں کر کے سوتی ہے۔
جہاں تک اس کے لبرل پروگریسو نظریات کی بات ہے تو متعدد لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں مگر اپنی ذاتی زندگی میں وہ انتہائی مذہبی بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان نظریات پر تو تنقید ہو سکتی ہے مگر اس پر یہ فیصلہ کرنا کہ وہ شخص مذہب بیزار ہے قطعاً درست نہیں ہے۔
ملالہ نے کتاب کے شروع میں اور آخر میں بھی سوات سے محبت کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کو سوات بہت یاد آتا ہے اور وہ یہاں واپس آنا چاہتی ہیں۔ باقی کتاب میں ملالہ کی۔ذاتی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں ہیں جو شاید پڑھنے والے کو اتنی دلچسپ نہ لگیں، میں نے کوشش کی ہے کہ کتاب کے زیادہ تر مواد کو موضوع گفتگو بنایا جائے مگر تبصرے میں کتاب کے ہر پہلؤ پر بات کرنا ویسے بھی ممکن نہیں ہے ۔
کمنت کیجے