اسلامیات کے استادصاحب نےایک دن بچوں کوارکان اسلام میں سے پانچویں بڑے رکن حج بارے لیکچردیااورساتھ ہی سب بچوں کو دعادی کہ اللہ تعالی آپ سب کوبھی حج کی سعادت نصیب فرمائے۔
یہ سنتے ہی ایک بچہ اپنی نشست سے اٹھااورکہنے لگا استادجی میں ایک سوال پوچھنا چاہتاہوں استاد محترم اس بچے کی جانب متوجہ ہوئے جی بیٹاپوچھیے ؟بچہ بولا استاد جی حج وعمرہ کے لئے توصرف بڑی عمروالے لوگ جاسکتے ہیں بچے تونہیں جاسکتے توپھرآپ نے ہمیں کیوں یہ دعادی ؟
استادمحترم بچے کے سوال سے چونک گئے اور اس کے قریب جاکرشفقت سے اس کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بیٹاحج فرض توبڑی عمروالوں پرہی ہوتا ہے لیکن چھوٹے بچے بھی جاسکتے ہیں آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟بچہ بولا استاد جی میں نے آج تک اپنے گاﺅں سے والدین کے ساتھ کسی بچے کوحج وعمرہ پرجاتے ہوئے نہیں دیکھا۔پچھلے دنوں میرے اباجان عمرہ پرجانے لگے تومیں نے ضدکی کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں توانہوں نے یہ کہہ کرمجھے اطمینان دلادیاکہ بیٹاابھی آپ چھوٹے ہوجب آپ بڑے ہوجاﺅگے توتب آپ جاسکو گے ۔استادجی ہم بچوں کا بھی دل کرتا ہے کہ ہم بھی اپنے پیارے اللہ تعالی اوراپنے آخری نبی حضرت محمدﷺکاگھردیکھیں
استاد محترم اس معصوم بچے کے دل میں حرمین شریفین کی سچی تڑپ دیکھ کراس کو دلاسادینے کے لئے کہنے لگے بیٹادراصل بات یہ ہے کہ حج وعمرہ پرجانے کے لئے کافی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے اورآپ کے اباجان کے پاس اتنی وسعت نہیں ہوگی کہ وہ آپ کو بھی ساتھ لے جاتے لہذاآپ اللہ تعالی سے دعاکیا کروکہ وہ آپ کے اباجان کی کمائی میں مزیدبرکت عطاکریں تاکہ آپ بھی ان کے ساتھ جاسکو ۔
استاد جی کی اس بات سے وہ بچہ توکسی حدتک مطمئن ہوگیالیکن دراصل اس بچے نے ہم سب سے سوال کیا ہے اورہماری ایک بہت ہی سنگین کوتاہی کی طرف توجہ دلائی ہے دراصل حج و عمرہ شعائراسلام میں سے ایک ایسی دلکش عبادت ہے کہ جس کی محبت چھوٹے بڑے امیروغریب ہرمسلمان کے دل میں ہوتی ہے یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں حج و عمرہ کی فیسزبہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اورغریب آدمی کے لئے یہ ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ۔
لیکن اگراس کا ایک دوسرارخ دیکھا جائے جوکہ انتہائی فکرانگیزہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کو حج و عمرہ پرساتھ لے جانے کا رحجان بہت ہی کم ہے ۔بہت سارے اہل ثروت لوگ بھی سالہا سال خودہی حج وعمرہ کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو ساتھ نہیں لے کرجاتے ۔پاکستان کے علاوہ دیگرممالک میں صورتحال اس سے یکسرمختلف ہے وہ اپنے بچوں کو حرمین شریفین کی زیارت بچپن ہی میں کروادیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے اندردین اسلام سے محبت کارحجان دیگربچوں سے زیادہ ہوتا ہے اورایسے بچے جب اسلامیات کے درس کے دوران ارکان اسلام اورسیرت نبویﷺکوپڑھتے ہیں توعملی طورپرجب وہ ان تمام مقدس مقامات کی زیارت کاشرف حاصل کرچکے ہوتے ہیں توان کے قلوب واذہان میں یہ چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ملائشیاکے دارلحکومت کوالالمپورسے باہرایک کھلے میدان میں چھ سال کی عمرکے تقریباچارہزاربچوں نے حج کی مشق میں حصہ لیاجس کا مقصدبچوں کے اندرحج وعمرہ جیسی عظیم عبادت کی اہمیت ومحبت کواجاگرکرناتھا ۔
دانالوگ کہتے ہیں کہ بچپن کی بات پچپن تک یادرہتی ہے ہمارے ہاں حج و عمرہ کے حوالے سے عمومی طورپریہ ذہن بن چکا ہے کہ ریٹائرمنٹ سے قبل لوگ اس بارے سوچتے ہی نہیں جوانی کی عمرمیں اس عظیم الشّان شعائراسلام کی طرف میلان ہی نہیں ہوتا والدین اپنی اولادکو سیروتفریح کے لئے یورپ کے دوردرازممالک لے جاتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہواگروہ اپنے بچوں کو حرمین شریفین بھی لے جایا کریں ۔شاہ مکہ ومدینہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں ایک عورت اپنی گودمیںبچہ لئے حاضرہوئی اورپوچھایارسول اللہ ﷺکیابچوں کوحج کرنے کاثواب ملے گاآپ ﷺنے جواب میں فرمایا جی ہاں اوراس میں آپ کے لئے بھی ثواب ہے ۔نہ جانے ہمارے ہاں یہ ذہنیت و اعتقادبدکہاں سے آگیاہے کہ حج وعمرہ بارے ساٹھ سال کی عمرکے بعدہی سوچتے ہیں۔حالانکہ راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے دین اسلام کی نزول گاہ اورپیغمبراسلام ﷺکی ذات سے وابستہ مقدس مقامات کی زیارت سے بڑھ کراورکون سامقام باعث تسکین ہوسکتاہے۔ہمیں اس خودساختہ سوچ سے باہرآکر نحیف العمری سے قبل بچپن ولڑکپن کے عالم میں اپنی اولادوں کوحج وعمرہ جیسی عظیم عبادت کی سعادت کے لئے ضروربھیجناچاہیے ۔تاکہ وہ موت تک حرمین شریفین کی حلاوت وبرکات کومحسوس کریںاورباربارحج وعمرہ کی سعادت حاصل کرتے رہیں۔
کمنت کیجے