Home » کیا کووڈ 19کے بعد بچوں نے والدین کو موبائل لوٹا دیے؟
بچوں کی تربیت سماجیات / فنون وثقافت

کیا کووڈ 19کے بعد بچوں نے والدین کو موبائل لوٹا دیے؟

 

کووڈ 19کے بعد موبائل فون نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں ک ترجیحات کو بھی یکسر تبدیل کر دیا ہے ،تعلیم کے نام پر ہم نے اپنے بچوں کوموبائل تو تھمادیے مگر اب وہ اس کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ کسی قیمت پرواپس لوٹانے پرآمادہ نہیں ،

ٹافی، کھلونے اور کھیل کود سے دل بہلانے کا زمانہ اختتام پذیر ہونے کو ہے ہر گھر کی یہ موبائل کہانی ہے کہ ابا جان صبح دفتر روانگی سے قبل منّت سماجت سے منّھی یا منّھے کے ہاتھ سے موبائل حاصل کرتے ہیں،
گھر لوٹنے کے بعد اباجان ابھی سلام ہی کرتے ہیں کہ منّھے اور منّھی کے درمیان اباجان کے موبائل پر پھرسے قبضہ جمانے کے لیے کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔مجبورا کسی ایک کے ہاتھ میں موبائل تھما کر باری مقرر کی جاتی ہے درمیان میں اگر کوئی کال آ جائے تو بچہ پارٹی گھنٹی بجنے سے قبل ہی موبائل کاگلا گھونٹ دیتی ہے تاکہ ابا جان کو کانوں کان خبر نا ہو وگرنہ کچھ وقت کے لیے موبائل چِھن جانے کی کوفت اٹھانا پڑے گی ۔
اور کچھ چالاک بچے جان پہچان والے نمبرز سے کال ریسیو کرنے کے بعد بول دیتے ہیں کہ فی الحال موبائل ہمارے قبضہ میں ہے انتظار کیجیے۔

گھر سے باہر رشتہ داروں کے ہاں بھی چونکہ ہر گھر کی یہی موبائل کہانی ہے اس لیے اب مہمان اور میزبان کے بچے سلام دعا کے بعد اپنے اپنے والدین سے موبائلز لے کر گیمز کھیلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
اب دونوں طرف سے والدین کی گفتگو کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ
مہمان والدین کہتے ہیں کہ ہمارا منھا اور منھی تو ماشاءاللہ موٹو پتلو اور ویر دا روبو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں
میزبان والدین اپنی باری پر کہتے ہیں آجی ہمارے بچے بھی توموبائل ماسٹر ہیں ماشاءاللہ ٹیڈی بئیر ، ٹومز اینڈ جیلی ،موگلی اور ببلز کارٹونز انہیں ازبر ہیں۔

بچپن سے لڑکپن تک موبائل کا متواتر استعمال بچوں کی روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بنتا جارہا ہے۔اب مجبورا والدین اپنے موبائل کی خلاصی کے لیے بچوں کو موبائل خرید کر دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور پھر اب ابا اور اماں کی کیا مجال کے صاحبزادے یا صاحبزادی کے موبائل کی طرف دیکھ بھی سکیں رفتہ رفتہ یہ موبائل ایک نشہ کی سی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر یک جان دوقالب کا مصداق ٹھہرتا ہے اب ایسے بچوں کا مستقبل بہت ہی خطرہ میں ہوتا ہے تجربہ ومشاہدہ سے موبائل کا کم عمری ہی سے استعمال اکثر وبیشتر کی جسمانی و ذہنی صحت کی بربادی کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور عملی زندگی میں بہت ساری برائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔نئی نسل کو اس خطرناک نشہ کی لَت سے بچانے کے لیے انتہائی فکر مندی کی ضرورت ہے۔

بچوں کا اسکرین ٹائم متعین ناہونے کے باعث وہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے تناﺅکا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔بچے کارٹونز اور ویڈیو گیمز دیکھنے کے لیے موبائل اسکرین یا ٹی وی /LEd اسکرین استعمال کرتے ہیں۔موبائل اسکرین پر یوٹیوب کڈذ( Utube Kids)،جب کہ ٹی وی اور ایل ای ڈی اسکرین پر کارٹونز (Cartoons چینل) دیکھنے میں وہ روزانہ گھنٹوں وقت گزارتے ہیں۔
یہ سب بچوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔اس لیے کہ یوٹیوب اور کارٹون چینلز پر بے شمار ویڈیوز اور کارٹونز موجود ہوتے ہیں جنہیں بچے اگر 24 گھنٹے بھی دیکھتے رہیں تو وہ اکتاتے نہیں اس لیے کہ ایک کے بعدایک نئی ویڈیو اور کارٹون اسٹوری بچوں کی دلچسپی کا باعث بنتی چلی جاتی ہے اور یوں انہیں وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا والدین کچھ وقت کے بعد انہیں ہٹانا بھی چاہیں تو بچے ضد کرتے ہیں۔پھر کیا کیا جائے ؟

بچوں کو موبائل پر یوٹیوب ویڈیوز سیریز اور ٹی وی پر کارٹون چینلز دکھانے کی بجائے والدین کو چاہیے! کہ وہ اپنے موبائل اور LED میں چند مخصوص تربیتی ویڈیوز اور کارٹونز رکھیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح بچے صرف انہی مخصوص ویڈیوز کو دیکھ کر جلد ا±کتا کر اسکرین سے ہٹ جائیں گے۔
اسکرین ٹائم کے حوالہ سے بین الاقوامی ریسرچ ملاحظہ کیجیے۔اسکرین ٹائم کتنا ہونا چاہیے؟امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس نے والدین کے لیے بچوں کے اسکرین ٹائم کو صحت مند رکھنے کے حوالے سے ایک گائیڈ لائن بنائی ہے، جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔نوزائیدہ 18 ماہ سے کم عمر بچوں کو اسکرین دکھانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم ویڈیو چیٹ بچوں کو دکھائی جا سکتی ہے۔18 سے 24 ماہ کے بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا کا صحت مندانہ تعارف کروایا جا سکتا ہے اور کوئی تعمیری یا معلوماتی پروگرام دکھانا بہتر ہو سکتا ہے۔2 سے 5 سال کے بچوں کی اسکرین ٹائم کو ایک گھنٹے تک محدود ہونا چاہییے اور والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر مثبت اور معیاری پروگرام دیکھیں۔6 سال اور اس سے زائد عمر کے بچے میڈیا اور ڈیوائس کے اوقات محدود ہی ہونے چاہئیں اور ساتھ ہی اس بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسکرین ٹائم بچوں کی نیند اور جسمانی سرگرمیوں کو متاثر نہ کر رہا ہو۔موبائل اور ٹی وی سکرین پر گھنٹوں نظریں جمائے ساکت و بے جان بچے قابل ترس و توجہ ہیں۔

والدین کی ایک جماعت کا یہ نظریہ ہے کہ گھر میں LED اور موبائل کا استعال بچوں کو آوارگی سے محفوظ رکھنے کے لیے مضبوط قلعہ ہے ، یہ وہ دھوکہ ہے جس سے ہم اپنے بچوں کی حرکت و طاقت کو جامد و کمزور کر رہے ہیں،ہمیں سوچ وبچار کرناچاہیے کہ اسکرین پر مشغولیت کے علاوہ وہ کون کون سی Activities ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو موبائل کے پنجرے سے باہر نکال سکتے ہیں ؟اپنے بچوں کے صحتمند مستقبل کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہونا چاہیے ؟

بچوں کوموبائل کے غیرضروری استعمال سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے والدین خود اس میں محتاط رویہ برتیں ،اس کے بعد بچوں کے لیے گھر میں مختلف کھیلوں کاانتظام وانصرام کیاجائے ،بچوں کوپارکس ،چڑیاگھر،اوردیگر تفریحی مقامات کی سیر کروائی جائے ،تاکہ وہ موبائل سکرین سے ہٹ کر جسمانی طور پر قدرتی مناظر کامعائنہ کرسکیں ۔
اکثر والدین بچوں کو بہلانے کے لیے فورا انہیں موبائل یا لیب ٹاپ تھما دیتے ہیں جن پر وہ گھنٹوں کارٹونز دیکھتے یا ویڈیوز گیمز کھیلتے رہتے ہیں۔اب بظاہر بچہ مشغول ہو جاتا ہے اور والدین بھی خود کو Relexمحسوس کرتے ہیں۔
موبائل فون کے ضرورت سے زیادہ بے جا استعمال کی وجہ سے والدین بچوں کو وقت نہیں دے پاتے تیجتًا بچے احساس کمتری اور ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں
بچوں کی ذہنی وجسمانی بڑھوتری کے لیے کھیل کود بہت ہی ضروری ہے لیکن بچوں کے لیے صرف کھیل کود کا سامان ہی کافی نہیں بلکہ ان کے ساتھ جب تک کوئی کھیلنے والا نہ ہو تو وہ بھی کھیل سے مکمل طور پر لطف اندوزنہیں ہو سکتے۔اس لیے والدین کو روزانہ کچھ وقت بچوں جے ساتھ کھیل اور گپ شپ میں صرف کرنا چاہیے جس سے بچے کی پوشیدہ صلاحیتیں دن بدن نکھر کر سامنے آنا شروع ہوں گی اور وہ مستقبل میں ایک صحت مند وتوانا شہری بن سکے گا۔بچوں میں موبائل کا زیادہ استعمال درج ذیل غیر معمولی نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔

1۔ایسے بچے تنہائی اور خودپسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
2۔کسی دوسرے بچے کے ساتھ شئےرنگ کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ اجتماعی کھیل کود اور گپ شپ سے جی کتراتے ہیں۔
3۔ ذہنی وجسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔
4۔ طبیعت میں چیچڑا پن اور خشکی آجاتی ہے۔
5۔ ورزش اور کھیل کود کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔
6۔ گھر اور باہر ان کی ایک ہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ انہیں مانگنے پرفوری طور پر موبائل دے دیا جائے۔
7۔معمولی سی بات پر جھگڑنا اور چنگاڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔
8۔کچھ لمحہ کے لیے کسی دوسرے کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
9۔بہن بھائی والدین اور عزیز واقربا ءکی خفگی کی پرواہ نہیں کرتے۔
10۔مشقت سے جی چرانے اور سستی وکاہلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
11۔ نظر اور دماغ کمزوری کے ناقابل علاج امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے لیے روزانہ کھیل کود کے نا صرف اوقات مقرر کریں بلکہ ان کے لیے مختلف کھیلوں کی ٹریننگ اور سامان فراہم کریں اور ان کی نگرانی بھی کریں۔
پرانی کھیلوں کو رواج دینے کے ساتھ نئی نئی کھیلیں ایجاد کی جائیں،

صہیب فاروق

صہیب فاروق نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی سیالکوٹ کے شعبہ اسلامی فکر وتہذیب سے ایم فل کیا ہے اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

sohaibsiddiqui.pk@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں