مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی
ہندوستان میں تشریف آوری:
یہ بات تو بالکل صاف ہے کہ قاضی ضیاء الدین اُن مہاجرین میں سے نہیں جو تارتاری فتنہ سے متأثر ہو کر ہندوستان آئے۔ شمس الدین التمش کا انتقال 633ہجری میں ہوا ہے۔ اُسی کے زمانے میں مہاجرین کا سیلاب آیا ہے، اُسی سیلاب میں قاضی ضیاء الدین کے والد خواجہ محمد بن عوض بھی ہندوستان آئے ہیں۔ رضیہ سلطانہ کے زمانۂ حکومت میں مستوفی کے عہدے پر ہیں (رہے)۔ سرکاری ملازمت کے ساتھ اُنہوں نے قیام کے لئے سُنام پسند کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سُنام جغرافیائی طور پر ایسی جگہ ہے جہاں سے دہلی، لاہور اورملتان جانے میں آسانی ہو سکتی ہے ( تھی)۔
ملتان میں اُن کے زمانے میں شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا، شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے خلفا ءمیں سے (تھے)۔ خواجہ محمد بن عوض کو شیخ الشیو خ سے نسبی قرابت تھی۔ اس لئے اُن سے کچھ روابط بھی ہوں گے اور ممکن ہے کہ شیخ الاسلام ہی اُن کے سر زمینِ ہند میں آنے کا باعث بنے ہوں۔ بہرحال تاریخ میں ایسی مثبت تصریح کوئی نہیں جس کے سہارے یہ حتمی فیصلہ کیا جا سکے کہ آپ ہندوستان کب اور کیسے آئے۔
ضیاء الدین برنی نے بلبن کے عہدِ حکومت کے بارے میں یہ لکھا ہے:
“ایسے باکمال اساتذہ اور مفتیانِ کرام جو عہد ِشمسی کے علماء کے شاگردوں اور اولاد سے تعلق رکھتے تھے، پڑھانے اور فتوی دینے میں معتبر سمجھے جاتے”[1]۔
اور ساتھ ہی یہ تصریح کہ قاضی ضیاء الدین استاذ ہیں اور استاذ زادے ہیں۔ اِن دونوں کو ملا کر ہر شخص یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ خواجہ محمد بن عوض عہدِ شمسی میں آنے والے اساتذہ میں سے ہیں اور قاضی ضیاء الدین اُن کی اولاد میں سے ہیں۔ بہرحال محمد بن عوض بھی سلطان شمس الدین کے زمانۂ حکومت میں ہندوستان آئے۔
سُنام اور اس کی شہرت:
قاضی ضیاء الدین کے نام کے ساتھ بطور لاحقہ سُنامی عوام، مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے۔ تاریخ ِفرشتہ میں سُنام کو ایک قصبہ بتایا ہے( کہ )سُنام کرم گڑھ کا ایک قصبہ ہے۔ یہ سرہند [2] کے نواح میں ہے ۔ مولانا محمد صالح کنجاہی نے لکھا ہے(کہ) سُنام سین کے پیش اور نونِ مشدد کے ساتھ سرہند کے نواح میں ایک قصبہ ہے۔
اس قصبہ کی سیاسی اور علمی حیثیت تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سارے مؤرخین نے اس کا ذکر کیا اور سارے تذکرہ نویس اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور بتاتے ہیں ۔ طبقاتِ ناصری ، تاریخِ مبارک شاہی[3]، تاریخِ فیروز شاہی، تاریخِ بدایونی[4] میں اس کی سیاسی اور علمی حیثیت کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔
سُنام کا سیاسی مقام:
طبقاتِ ناصری میں بھی سُنام کا ذکر سلطان ناصر الدین محمود 649(ھ) [5] میں ملتا ہے۔ 653(ھ) کے واقعات میں لکھا ہے کہ سلطان ناصر الدین کی سواری 26 ربیع الاول کو منگل کے دن دہلی پہنچی اور پانچ مہینے شہر میں گذارے۔ اس زمانے میں خبر ملی کہ بعض بڑے بڑے سردار ملک جلال الدین کے ساتھ ہو گئے۔ چنانچہ بادشاہ شعبان میں سُنام اور سرہند کی طرف روانہ ہوا۔ نمازِ عید سُنام میں ادا کی[6]۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ ناصر الدین محمود نے رمضان کا پورا مہینہ سُنام ہی میں قیام کیا۔ ظاہر ہے کہ جس جگہ سربراہِ مملکت پورا ماہ قیام کرتا ہے وہاں کی زندگی سیاسی (و) اجتماعی طور پر کس قدر اونچی ہو گی۔
منہاج الدین [7] کی تاریخِ ناصری سلطان ناصر الدین محمود کے نام سے معنون ہے۔ اسلامی ہند کی تاریخ کے نقطۂ نظر سے جوزجانی کی تاریخ یعنی تاریخِ ناصری غزنوی خاندان از 351 (ہجری) تا 582(ہجری) ، خاندانِ غوری از 543 (ہجری) تا 612 (ہجری) ، خاندانِ غلاماں از 602 (ہجری) تا 689 (ہجری) پر مشتمل اِس کے تاریخی حصے نہایت اہم ہیں۔ یہی مصنف ایک دوسرے مقام پر سُنام کی سیاسی حیثیت کو اس طرح پیش کرتا ہے۔
“شمس الدین التمش کا زمانہ ختم ہوا تو سلطان رکن الدین فیروز شاہ نے کبیر خان کو سنام عطا کر دیا”[8]۔
یہ بیان بھی اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ اس دور میں سُنام کو خاص اہمیت حاصل تھی۔
سیف الدین ایبک کا ذکر کرتے ہوئے منہاج سراج کا یہ انکشاف بھی ہے:
“سلطان پر ایبک کے افکار و خیالات آشکارا ہو گئے تو اسے نار نول کی حکومت دے دی۔مدت تک وہاں رہا پھر برن کی جاگیر اُس کے حوالہ کر دی، بعدازاں سُنام اس کے حوالہ کر دیا”۔[9]
یہ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس وقت سُنام کی حیثیت صرف ایک قصبہ کہ نہیں بلکہ ایک اہم سیاسی مرکز کی تھی۔
ایک اور مقام پر ملک سنقر[10] کے بارے میں لکھا ہے کہ:
“سلطانِ اسلام کو اُس پر انتہائی اعتماد تھا اور الغ خان اعظم کی حمایت بھی اسے حاصل تھی۔ لہذا 657ہجری سے تبرہندہ، سُنام ، جھجھر، لکھوال اور دریائے بیاس کے گھاٹوں تک تمام سرحدی علاقے اُس کی تحویل میں دے دیئے گئے”۔[11]
سنام ہی کی سیاست میں مرکزی حیثیت کا اظہار منہاج سراج کے اس بیان سے ہوتا ہے:
“غرض ہندوستان یعنی گڑھ ، مانکپور، اودھ اور بدایوں تک کے سرداروں ، اُدھر تبرہندہ ، سنام، کہرام ، سامانہ اور پورے سوالک کے رئیسوں نے الغ خان اعظم خان کے دہلی واپس آنے کی التماس کی۔”۔[12]
بتانا یہی ہے کہ اس دور میں سنام کی حیثیت صرف ایک قصبہ کی نہیں بلکہ ایک مرکزی مقام کی تھی۔
قاضی ضیاء الدین برنی نے تاریخ فیروز شاہی میں ایک سے زیادہ مقامات پر سُنام کی سیاسی حیثیت پر بحث کی ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے:
“آخر کار بلبن نے طغرل کا قلع قمع کرنے کے لئے خود کمر ہمت باندھی اور ارادہ کیا کہ خود اُدھر جائے۔ روانگی سے پہلے اس نے فرمان جاری کیا کہ دریائے گنگا و جمنا میں بہت سی کشتیاں اور بحیرے تیار کئے جائیں۔ سلطان نے ۔۔۔ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا لیکن روانہ شکار کے طریقے پر سامانہ اور سُنام کی جانب ہوا۔ سامانہ اور سُنام کی ولایت کو شقوں میں تقسیم کر کے وہیں کے امراء و ملازمین کے سپرد کیا”[13]۔
اس میں سنام کو ولایت بتایا ہے جس میں سرکاری ملازمین اور امراء کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ضیاء الدین برنی ہی نے جو اُس دور میں اقالیم کا نقشہ پیش کیا ہے اور ان کے گورنروں کے نام بتائے ہیں اس کو ہی پڑھ لیجئے:
مختلف اقالیم مندرجہ ذیل ملکوں کی نگرانی میں تھے
اقلیم گجرات الغ خان
ملتان سیوستان تاج الملک
لاہور دیپال پور غازی ملک تغلق
لوہار و اجین عین الملک ملتانی
سامانہ و سنام ملک انور بک
جہاتن فخر الملک میرٹھی
چندر ملک ابو محمد
چند بری ملک نمر
بدایون کوٹلہ ملک دینار
اودھ ملک نگین
گڑھ ملک نصیر
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سُنام کی حیثیت وہی تھی جو لاہور اور ملتان کی تھی۔ قاضی صاحب ہی کے انکشاف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سُنام نے اُس دور میں ایسی سیاسی مرکزیت حاصل کر لی تھی کہ وہاں سے مرکزی حکومت کے خلاف بغاوتوں کے دھارے بھی پھوٹ جاتے تھے اور اُسے دبانے کے لئے مرکزی حکومت حرکت میں آ جاتی تھی۔ چنانچہ برنی رقمطراز ہیں:
“سلطان محمد نے دوسری مرتبہ سامانہ اور سُنام پر لشکر کشی کی، کیونکہ وہاں کے لوگوں نے بغاوت اور سرکشی کی جنہوں نے منڈ ل بنائے تھے۔ خراج دینا بند کر دیا اور فساد برپا کر رکھا (تھا)۔ سلطان محمد نے اُن کے منڈلوں کو تباہ کر دیا، اُن کے مقدموں اور سرداروں کو شہر میں لے آیا ، اُن میں سے کچھ مسلمان ہو گئے، اُن کی جماعتوں کو امراء سے منسلک کر دیا ۔ وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ شہر میں رہنے لگے”۔ [14]
سوچئے کیا جو مقام ِشہر ہو، جہاں امراء رہتے ہوں، جہاں مرکزی حکومت کے خلاف سازشوں کے جراثیم پلتے ہوں اور اِن سازشوں کو ختم کرنے کےلئے خود سربراہ مملکت کو آنا پڑتا ہو، وہ صرف قصبہ ہو سکتا ہے(؟) بلاشبہ اُس دور میں سُنام قصبہ نہیں بلکہ ایک مرکزی شہر اور امرائے مملکت کا مسکن تھا۔
(جاری ہے)
حوالہ جات
[1]۔ تاریخِ فیروز شاہی ، ضیاء الدین برنی، ترجمہ ڈاکٹر سید معین الحق ، اردو سائنس بورڈ لاہور ص: 111
[2] ۔سلسلۂ اولیاء قلمی ص: 82 بحوالہ مقامات ِمظہری ص: 256۔
[3] ۔ تاریخِ مبارک شاہی یحیی بن احمد سرہندی ( 15 ویں صدی کا ہندوستانی تاریخ دان تھا) کی تصنیف ہے۔ مصنف نے سلاطینِ دہلی کی داستانیں مختلف کتابوں سے جمع کر کے 1434ء تک کے حالات ثقہ روایات اور عینی مشاہدات کی بنیاد پر قلمبند کئے۔ یہ کتاب سید خاندان کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے
[4] ۔ یعنی منتخب التواریخ از ملا عبد القادر بدایونی (1542ء-1605ء) اکبری عہد کے مؤرخ کی فارسی تالیف ، جس میں اس نے سلطنتِ غزنویہ کے بانی امیر ناصر الدین سبکتگین کی تخت نشینی سے لے کر عہد اکبری کے 40 سال تک کے واقعات درج کئے ہیں۔
[5] ۔ ناصر الدین محمود (1246ء تا 1266ء) سلطنت دہلی کا آٹھواں سلطان جس کا تعلق خاندانِ غلاماں سے تھا۔ وہ شمس الدین التمش کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور علاؤ الدین مسعود کی جگہ تخت پر بیٹھا۔ اس کے دور میں معاملاتِ سلطنت اس کا نائب غیاث الدین بلبن سنبھالتا تھا۔ 1266ء میں اس کے انتقال کے بعد اقتدار بھی اِسی غیاث الدین کو مل گیا کیونکہ محمود کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔
[6] ۔ طبقاتِ ناصری، منہاج الدین عثمان المعروف بہ منہاج سراج، ترتیب عبد الحئی حبیبی قندھاری، ترجمہ غلام رسول مہر، اردو سائنس بورڈ ، جلد 2، ص:74
[7] ۔ منہاج الدین عثمان المعروف بہ منہاج سراج جوزجانی تیرھویں صدی کے مشہور فارسی مؤرخ ہیں۔ اُن کی پیدائش 1193ء اور وفات 1260ء میں ہوئی۔ یہ دہلی کے خاندانِ غلاماں کے مؤرخ تھے ۔ طبقاتِ ناصری ان کی مشہور تالیف ہے۔
[8] ۔ طبقاتِ ناصری، جلد 2، ص: 8
[9] ۔ طبقاتِ ناصری، ا منہاج الدین عثمان المعروف بہ منہاج سراج، ترتیب عبد الحئی حبیبی قندھاری، ترجمہ غلام رسول مہر، اردو سائنس بورڈ ، جلد 2، صفحہ: 11
[10] ۔ ملک بدرالدین نصرت خان سنقر صوفی
[11] ۔ طبقاتِ ناصری، جلد 2، ص: 49
[12] ۔ : طبقاتِ ناصری، جلد 2، ص: 73
[13] ۔ تاریخ فیروز شاہی، ضیاء الدین برنی ،ترجمہ ڈاکٹر سید معین الحق، اردو سائنس بورڈ ، لاہور ص: 231
[14] ۔تاریخ فیروز شاہی، ضیاء الدین برنی ،ترجمہ ڈاکٹر سید معین الحق، اردو سائنس بورڈ ، لاہور ص: 689
کمنت کیجے