نوٹ:
ذیل میں عصرِ حاضر کے ایک غیرمعمولی اطالوی فلسفی جارجیو آگامبن کی ایک حالیہ مختصر پوسٹ کا ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ اطالوی سے انگریزی میں ترجمہ ایک امریکی خاتون لینا بلوک نے کیا ہے۔ موجودہ ترجمہ انگریزی سے کیا گیا ہے۔ آگامبن بنیادی طور پر طاقت/سیاسی طاقت، جدید ریاست اور قانون وغیرہ کا فلسفی ہے اور ان موضوعات پر اس نے غیرمعمولی اور مہا کلام کیا ہے جو اہلِ ”سیاسی اسلام“ کے لیے تریاق ہو سکتا ہے اگر وہ اس پر دھیان دے سکیں۔ مشل فوکو سے پہلے مغرب میں سیاسی طاقت کے ادارہ جاتی مباحث پر گفتگو غالب رہی ہے، مثلاً ساورنٹی کیا ہوتی ہے؟ جدید ریاست کے ستونی ادارے کیا ہیں؟ ان کی باہمی نسبتیں آئین میں کیونکر طے کی جا سکتی ہیں؟ جمہوریت کیا ہے؟ اور ارادۂ عامہ بذریعہ انتخاب جدید ریاست اور اس کی گود میں بننے والی حکومت کی جواز سازی کیونکر کر سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن فوکو سے بائیو پولٹکس پر گفتگو کا آغاز ہوا اور سیاسی اداروں میں تشکیل یافتہ سیاسی طاقت کی نوعیت اور ان کی وجودیات علمی مباحث کا موضوع بننے لگی۔ فوکو نے کہا تھا کہ جدید سیاسی طاقت کا لب لباب محنہ (incarceration) ہے اور اس کی اصل زندگی پر اختیار ہے۔ اس کے خیال میں جدید ریاست اور سیاسی طاقت کی جدید اوضاع ایک نئی سماجی ٹکنالوجی ہے۔ فوکو نے فیکٹری، سکول، جیل اور ہسپتال وغیرہ کو بندی خانے کہہ کر جدید سیاسی طاقت کے جوہر کا اظہار قرار دیا۔
آگامبن نے ان ضروری مباحث کو غیرمعمولی بصیرت اور عقلی دلائل سے ان کے درست منطقی نتائج تک پہنچا دیا ہے۔ اپنی کتاب Remnants of Auschwitz میں اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ جدید ریاست اور طاقت کی جدید ٹکنالوجیوں کا مقصدِ وجود محنہ کے ان اداروں (institutions of incarceration) کی تشکیل نہیں ہے۔ یہ محض سنگ میل ہیں اور جدید ریاست اور اس کی ٹکنالوجیائی تشکیل کی اصل منزل Auschwitz یعنی کمیپ ہے۔ آگامبن کہتے ہیں کہ جدید عہد میں اپنے وجودی عدم استحکام اور عملی انتشار کے باعث اب جدید ریاست ایک استثنائی ریاست (state of exception) بن چکی ہے۔ آگامبن کے بقول جدید ریاست اب مستقل ایمرجنسی میں ہے، یعنی وہ ایسا خدا بن چکی ہے جو کسی بھی قانون کا پابند نہیں ہے۔ جدید ریاست اور معاشرے میں توسیط کا بنیادی ذریعہ قانون ہے، اور اس ایمرجنسی میں قانون بتدریج معدوم ہوتا چلا جا رہا ہے اور جدید ریاست ضوابط وغیرہ کی آکاش بیل میں پورے معاشرے اور انسان کو لپیٹتی جا رہی ہے۔ ذیل کی پوسٹ کا بنیادی تناظر یہی ہے۔
——————————————
[آگامبن کے متن کا ترجمہ]
عرب فقہا نے انسانی افعال کی پانچ شقوں میں درجہ بندی کی ہے: فرض، مستحب، مباح، مکروہ اور حرام۔ فرض کے بالمقابل حرام ہے، اور مستحب کا تقابل مکروہ سے ہے۔ لیکن سب سے اہم زمرہ وہ ہے جو وسط میں ہے اور انسانی اعمال کا وزن کرنے والے اور ذمہ داری ماپنے والے ترازو کا گویا کہ محور ہے (ذمہ داری کو فقہی زبان میں ”تکلیف“ کہا جاتا ہے)۔ اگر مستحب وہ عمل ہے جس کی ادائیگی ماجور ہے اور جس کا ترک ممنوع نہیں، اور مکروہ وہ ہے جس کا ترک ماجور ہے اور جس کی ادائیگی ممنوع نہیں ہے تو مباح وہ فعل ہے جس کے بارے میں قانون صرف خاموش ہی ہو سکتا ہے، اس لیے کہ یہ فرض ہے نہ واجب، اور مستحب ہے نہ مکروہ۔ مباح اس رضوانی حالت سے مطابقت رکھتا ہے جس میں انسانی اعمال و افعال کسی ذمہ داری [اور مؤاخذے] کے حامل نہیں ہوتے اور کسی بھی معنی میں قانونی طور پر مکلف نہیں ہوتے۔ لیکن ۔۔ یہ فیصلہ کن نکتہ ہے۔۔ عرب فقہا کے بقول یہ محمود ہے کہ وہ دائرہ جس سے قانون ہرگز تعرض نہیں کر سکتا وسیع سے وسیع تر ہونا چاہیے کیونکہ کسی شہرداری میں عدل کا پیمانہ وہ علاقہ ہے جو اس کی عملداری میں ہر معروف، اجازت، اجر اور تنبیہ سے آزاد ہو۔
اور وہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، اس سے بالکل متضاد واقع ہو رہا ہے۔ مباح کا دائرہ ہر روز سکڑتا جا رہا ہے، اور ضوابط سازی میں بے نظیر بڑھوتری انسانی زندگی کے لیے ایسا کوئی دائرہ باقی ہی نہیں رہنے دے رہی جو وجوب و امتناع سے باہر ہو۔ ایسی حرکات و عادات جس سے قانون ہمیشہ لاتعلق رہا ہے اب نہایت باریک بینی سے ضابطہ بندی میں لائی جا رہی ہیں اور ان پر نہایت توقیت سے روک لگائی جا رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ انسانی رویوں کا کوئی ایسا دائرہ بہ مشکل ہی باقی رہ گیا ہے جسے مباح سمجھا جا سکتا ہو۔ اولاً غیرشناخت شدہ سکیورٹی وجوہات اور پھر بتدریج اسبابِ صحت نے اس امر کو لازمی بنا دیا ہے کہ معصومانہ امور عادیہ کی انجام دہی کے لیے بھی سرکاری پرمٹ حاصل کیا جائے مثلاً سڑک پر چلنا، کسی عوامی جگہ میں داخل ہونا یا کام کرنے کی جگہ پہنچنا۔
عرب فقہا کا ماننا تھا کہ ایسا معاشرہ جو قانون سے غیرمکلف رضوانی رویوں کی گنجائش حد درجہ کم کر دے وہ نہ صرف غیرعادلانہ معاشرہ ہے بلکہ وہ خاص الخاص ایسا معاشرہ ہے جو حیات انسانی کے قابل نہیں کیونکہ اس میں ہر فعل کے لیے بیوروکریسی کی تصویب اور قانونی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح رواج کی سہولت اور آزادی، اور انسانی رشتوں اور اوضاعِ حیات کی شیرینی معدومیت تک پہنچ جاتی ہے۔ مزید برآں، قوانین، فیصلہ جات اور ضوابط کی مقدار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ محض یہ جاننے کے لیے کہ کوئی عمل ممنوع ہے یا اس کی اجازت ہے ماہرین کی ضرورت پڑتی ہے اور دوسری طرف وہ اہلکار جو ان قوانین کی تنفیذ کے ذمہ دار ہوتے ہیں پریشاں خیالی اور تضاد کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس طرح کے معاشرے میں ذوقِ حیات صرف اسی صورت باقی رہ سکتا ہے کہ واجب و ممنوع کا دائرہ کم سے کم کیا جائے اور مباح کے دائرے کو انتہائی حدوں تک بڑھا دیا جائے، اور یہی وہ دائرہ ہے جس میں اگر شادمانی نہیں تو کم از کم ایک طرح کی خوشدلی ممکن ہو جاتی ہے۔ اور عین یہی وہ چیز ہے جو ہم پر افتادہ طبیعت حکمران لوگ روکنے کی کوشش کرتے ہیں، اور زندگی کو دفعات و ضوابط، اور کنٹرول اور تدارک کے ذریعے مشکل بناتے جاتے ہیں۔ یہانتک کہ انہوں نے جو مشینِ دلگیر کھڑی کر رکھی ہے اور اس کو چلانے کے لیے جو قوانین و آلات گھڑ رکھے ہیں، وہ ان کے جام ہونے سے خود اپنے اوپر دھڑام ہو جائے گی۔
جارجیو آگامبن
۲۸/ نومبر ۲۰۲۲ء
کوڈلی بیٹ
کمنت کیجے