Home » مجوّزہ تحفظِ والدین قانون: ایک تنقیدی جائزہ
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

مجوّزہ تحفظِ والدین قانون: ایک تنقیدی جائزہ

 

سینیٹ آف پاکستان میں اس وقت ایک قانون کا مسودہ زیرِ غور ہے جسے قومی اسمبلی پہلے ہی منظور کرچکی ہے اور سینیٹ سے منظوری کے بعد اسے صدر کے دستخطوں کےلیے بھیجا جائے گا اور پھر اسے قانون کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ اس قانون کو “تحفظِ والدین” کا عنوان دیا گیا ہے جو بظاہر بہت خوش نما ہے۔ مسودے کے ساتھ منسلک”اسباب” میں والدین کے احترام کے متعلق آیات و احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ تاہم مسودے کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تیاری میں کچھ خاص محنت نہیں کی گئی ہے اور نہ صرف یہ کہ منظوری کی صورت میں یہ قانون والدین کے تحفظ میں ناکام رہے گا، بلکہ اس سے کئی نئے گمبھیر مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ اس قانون کا سارا زور اس بات پر ہے کہ والد/والدہ کسی بچے/بچی کو یا اس کی بیوی/شوہر کو یا اس کی اولاد (پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی) کو گھر سے بے دخل کرسکیں گے۔ کیا والدین کا تحفظ یقینی بنانے کا یہی طریقہ ہمارے قانون سازوں کو سوجھا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسودہ ایک غلط سوال کا غلط جواب ہے۔ چند نکات یہاں پیشِ خدمت ہیں۔

بچے سے مراد؟

اس بل میں سب سے اہم شق تعریفات کے متعلق دفعہ 2 ہے جس میں خصوصاً دفعہ 2 (سی) قابلِ غور ہے جس میں “child” کی تعریف دی گئی ہے۔ اس تعریف کی رو سے child کی تعریف میں دو طرح کے افراد شامل ہیں:

  • ایک کسی شخص کی براہِ راست اولاد (direct descendant)، یعنی بیٹے/بیٹیاں؛ اور
  • دوسرےان بیٹوں/بیٹیوں کا کوئی بچہ(offspring)، “خواہ کسی عمر کا ہو”(of any age)۔

یہ تعریف یاد رکھنے کی ہے کیونکہ یہ آگے مختلف دفعات کا مفہوم اور ان کے اثرات سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

گھر سے بے دخلی کا حق

مثلاً بل کی دفعہ 4 (1) میں کہا گیا ہے کہ والد/والدہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی child، یا اس کے spouse (بیوی/شوہر) یا اس کے کسی offspring (بچے) کو گھر سے نکال سکتا/سکتی ہے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس قانون کی رو سے کسی نابالغ پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو بھی گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس پہلو پر خصوصاً تنقید ہونی چاہیے۔

اس پہلو سے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ “گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ کے قانون” کی رو سے خواتین اور نابالغ بچوں کو جس طرح کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اس کے بعد اسے گھر سے کیسے نکالا جاسکے گا؟ کیا یہ اقدام “گھریلو تشدد” میں شمار نہیں ہوگا؟  اس ضمن میں مثال کے طور پر تقابل کیجیے گھریلو تشدد کے خلاف پنجاب کے قانون 2016ء کی دفعہ 2 (1) (اے) (ای) (ایچ) (جے) (این) (آر)؛ اور دفعہ 5۔

کس گھر سے بے دخل کیا جاسکے گا؟

اس بل کی دفعہ 4 (1) میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ والد/والدہ کو جو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بچے یا اس کے بچے یا بیوی کو گھر سے نکال سکتا/سکتی ہے، تو یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ گھر اس والد/والدہ کی ملکیت میں ہو، بلکہ چاہے اس والد/والدہ نے یہ گھر کرایے پر لیا ہو، یا کسی بھی اور طریقے سے اس کے قبضے میں ہو (in his possession by any means)۔

دفعہ 4 کی اس ذیلی دفعہ (1) کا تضاد اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ (7) کے ساتھ ہے کیونکہ وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر والدین میں کوئی ایک کسی کو گھر سے نکال رہا ہو، تو ضروری ہے کہ گھر تنہا اسی کی ملکیت میں ہو، اور یہ کہ اگر گھر والدین میں دونوں کی مشترک ملکیت میں ہو، تو کسی بچے کو نکالنے کےلیے نوٹس پر والدین میں دونوں کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔

یہ تضاد بھی اہم ہے، لیکن اس تضاد کو فی الحال نظر انداز کرکے اس سوال پر غور کیجیےکہ اگر گھر کسی بچے یا بچے کی بیوی کی ملکیت میں ہو، لیکن اس کا کوئی کمرہ  والد/والدہ کے قبضے میں ہو، تو اس صورت میں بھی اس دفعہ کی رو سے اس والد/والدہ کو حق حاصل ہوگا کہ وہ بچے یا اس کی بیوی کو، جس کے پاس اصل میں گھر کی ملکیت ہے، اسی کے گھر سے نکال سکے۔ اس حق کے بارے میں بہت سی جذباتی باتیں کی جاسکتی ہیں، لیکن اس کے نتائج پر شاید کسی نے غور نہیں کیا۔ نیز  مکرر عرض ہے کہ اس پہلو سے یہ قانون گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ کے قانون سے متصادم ہوگا۔

کیا نا بالغ بچے کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے؟

اس بل کی دفعہ 4 (2) میں کہا گیا ہے کہ والد/والدہ نے جسے گھر سے نکلنے کا نوٹس دیا، وہ اگر سات دنوں کے اندر گھر سے نہیں نکلا، تو وہ ایسے جرم کا مرتکب ہوگا جس پر تیس دن تک قیدِ سادہ یا پچاس ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔ یہاں تصریح کی گئی ہے کہ offspring، یعنی پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو بھی اس جرم کا مرتکب قرار دیا جائے گا(“guilty of an offence”)۔ یاد کیجیے کہ تعریفات کی شق میں کہا گیا ہے کہ offspring کسی بھی عمر کا ہوسکتا ہے۔ تو کیا کسی نابالغ بچے/بچی کو مجرم قرار دیا جاسکتا ہے؟یہ تو فوجداری قانون کے بنیادی اصول سے ہی متصادم بات ہوگئی۔ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 82 کا کہنا ہے کہ 10 سال سے کم عمر کے بچے کے فعل کو جرم نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ83 کا کہنا ہے کہ اگر بچے کی عمر 10 اور 14 سال کے درمیان ہو، لیکن وہ برے بھلے کی تمییز نہ رکھتا ہو، تو اس کے فعل کو جرم نہیں کہا جاسکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیثِ مبارک ہے کہ بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے، اس پر سے شرعی ذمہ داری اٹھائی گئی ہے۔ (رُفِع القلمُ عن ثلاث۔۔۔ عن الصبیّ حتی یَحتَلِمَ)

18 سال سے کم عمر کی بہو یا داماد؟

اس بل کی دفعہ 4 (3) میں بچے کو بے دخلی کے نوٹس دینے کے متعلق ضوابط بتائے گئے ہیں۔ ان میں پہلی قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ بچے کے spouse، یعنی والد/والدہ کی بہو یا داماد ، اور اسی طرح بچے کے offspring یعنی والد/والدہ کے پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کی عمر اگر 18 سال سے کم ہو، تو اس صورت میں بچے کو نوٹس دے کر یہ سمجھا جائے گا کہ اس بہو/داماد یا پوتے/پوتی، نواسے/نواسی کو نوٹس دیا جاچکا۔ پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کی عمر 18 سال سے کم ہو، تو قابلِ فہم ہے، لیکن کیا بہو یا داماد کی عمر 18 سال سے کم ہوسکتی ہے؟ صغر سنی کی شادی کے امتناع کے متعلق پاکستان میں رائج قانون کی رو سے طے پایا ہے کہ شادی کے وقت لڑکے کی عمر 18 سال سے اور لڑکی کی عمر 16 سال سے کم ہو، تو یہ قابلِ سزا جرم ہے۔ واضح رہے کہ سندھ میں پہلے ہی قانون کے ذریعے عمر کی حد کو مرد اور عورت دونوں کےلیے 18 سال کردیا گیا ہے۔ اس عمر سے قبل کی شادی کو قابلِ سزا جرم تو قرار دیا گیا ہے لیکن کیا ایسی شادی بھی غیر قانونی ہوگی؟ اس سوال پر سپریم کورٹ 1970ء میں نفی میں فیصلہ دے چکی ہے[1] لیکن پچھلے سال 2022ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں سرے سے اس شادی کو ہی غیر قانونی قرار دیا تھا۔[2]

اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس نئے بل کے ذریعے نہ صرف 18 سال سے قبل کی شادی کے امکان کو تسلیم کیا گیا ہے، بلکہ سسر/ساس کا یہ حق بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ اس عمر کی بہو/داماد کو وہ گھر سے بے دخل بھی کرسکتا/سکتی ہے۔ اسی طرح offspring کی تعریف میں بتایا گیا ہے کہ وہ کسی بھی عمر کا ہوسکتا /سکتی ہے۔ تو کیا، مثلاً، 10 سال کی عمر کے پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو بھی بے دخل کیا جاسکے گا؟ یہاں پھر احساس ہوتا ہے کہ موجودہ بل کا مسودہ بناتے وقت دیگر قوانین کے ساتھ اس کے تعلق پر مناسب غور نہیں کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر کو شکایت!

اس بل کے ذریعے ایک دفعہ پھر بیوروکریسی کو عدالتی اختیارات دینے کی سعی کی جارہی ہے۔ چنانچہ بل کی دفعہ 4 (4) میں قرار دیا گیا ہے کہ بے دخلی کا نوٹس ملنے کے بعد اگر مقررہ مدت میں مذکور شخص (بچہ/بچی یا بہو/داماد یا پوتا/پوتی یا نواسا/نواسی) گھر سے نہیں نکلا، تو پھر والد/والدہ کو حق ہوگا کہ وہ اس کے خلاف ڈپٹی کمشنر کو شکایت کرے۔ اس کے بعد دفعہ 4 (5) میں تفصیل دی گئی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اس شکایت پر کیسے کارروائی کرے گا اور عدالتی اختیارات کا استعمال کرے گا اور بے دخلی کا حکم جاری کرسکے گا۔

واضح رہے کہ آئینِ پاکستان کی دفعہ 175 (3) کی رو سے لازم تھا کہ 14 سال کے اندر یعنی 1987ء تک عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا جاتا، مگر اس پر عمل درآمد میں بہت تاخیر ہوئی تا آنکہ 1996ء میں سپریم کورٹ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں اس بارے میں حکم دیا اور پھر خواہی نخواہی حکومت کو یہ بات ماننی پڑی۔ اس کے بعد بھی مختلف طریقوں سے انتظامیہ نے عدالتی اختیارات واپس لینے کی کوشش کی ہے اور عموماً اس کےلیے اسی طرح کے طور دروازے استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً مالاکنڈ ڈویژن میں 1994ء، 1999ء اور 2009ء میں “شرعی نظامِ عدل ریگولشنز” کے ذریعے ایسا کیا گیا۔ موجودہ بل اسی چور دروازے کی ایک مثال ہے۔

یہ فوجداری معاملہ ہے یا دیوانی؟

بہ الفاظِ دیگر، اس مسئلے کا حل سزا ہے اصلاح؟

اس بل کی دفعہ 3 میں اس بچے/بچی کےلیے سزا مقرر کی گئی ہے جو والد/والدہ کے گھر سے نکالے۔ اس فعل پر ایک سال قیدِ با مشقت یا جرمانے یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔

پھر دفعہ 4 (2) میں اس بچے/بچی یا بہو/داماد  یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کےلیے سزا مقرر کی گئی ہے جسے والد/والدہ نے گھر سے نکلنے کا نوٹس دیا لیکن وہ مقرر مدت میں گھر سے نہ نکلے۔ یہ سزا ایک  ماہ کی قید یا پچاس ہزارروپے جرمانے یا دونوں کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

بل کی دفعہ 6 میں کہا گیا ہے کہ والد/والدہ کی شکایت پر اگر پولیس نے گرفتاری کی تو پھر مجسٹریٹ کی عدالت میں چلے گا۔ (اس پہلو پر مزید بحث آگے آئے گی۔)

تاہم، جیسا کہ مذکور ہوا،  دفعہ 4 (4) میں کہا گیا ہے کہ والد/والدہ کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس کے باوجود بچے/بچی یابہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کے گھر سے نہ نکلنے کی صورت میں والد/والدہ کو حق ہوگا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو شکایت کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کو مذکورہ شخص کے خلاف شکایت اور پھر اس کی گرفتاری اور اس پر مقدمے کی بات اس صورت میں ہوگی جب اس شخص نے والد/والدہ کو گھر سے نکالا ہو، البتہ ڈپٹی کمشنر کے سامنے معاملہ تب آئے گا، جب والد/والدہ اسے گھر سے نکالنا چاہیں۔

اس دوسری صورت کےلیے دفعہ 4 (5) میں ڈپٹی کمشنر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے شخص کو بردستی گھر سے نکال سکتا ہے اور یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر یہ عذر بھی قبول نہیں کرے گا کہ یہ گھر اسی بچے/بچی یابہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کا ہے جس کو گھر سے نکالا جارہا ہے!

البتہ دفعہ 4(5) کی پہلی شرط میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص کی بے دخلی کےلیے کارروائی شروع کرنے سے قبل ڈپٹی کمشنر مناسب سمجھے تو مقامی یونین کونسل کے چیئرمین یا ایڈمنسٹریٹر کے ذریعےفریقین کے درمیان اصلاحِ احوال کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ اصلاحِ احوال کی کوشش کا ذکر اس پورے قانون میں بس اسی ایک مقام پر ہے حالانکہ تمام قانونی تنازعات میں، اور بالخصوص عائلی امور میں، قانون کا زور اسی پہلو پر ہونا چاہیے۔

یہ امر اس لحاظ سے بھی قابلِ غور ہے کہ عدالتیں پہلے ہی ہزاروں مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اور ان پر مزید مقدمات کا بوجھ لادنے کے بجاے “تنازعات کے حل کے  متبادل طریقوں” (alternate dispute resolution) پر پوری دنیا میں زور دیا جارہا ہے اور ہمارے ہاں اعلی عدلیہ کے جج صاحبان بھی اس طرف مسلسل توجہ دلارہے ہیں۔ اس پر بھی نظر رہے کہ عائلی امور میں ریاست کے عمل دخل کو بڑھانے سے  ریاست ایک خوفناک دیو کی صورت اختیار کرلے گی۔ مغربی ممالک کی قانون سازی کی نقل کرنے سے قبل اس پر غور ضروری ہے کہ وہاں صورتِ حال مختلف ہے کیونکہ وہاں خاندانی نظام تہس نہس ہوچکا ہے اور معاشرہ انفرادیت پسندی کی وجہ سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر گامزن رہتا ہے۔ آپ وہاں کی نقل اتارتے ہوئے پہلے “گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ” کا قانون بنا کر ریاست کو گھر میں گھسا دیتے ہیں اور والدین کو بچوں کی تادیب سے بھی روک دیتے ہیں اور پھر والدین کی حالتِ زار دیکھ کر انھی والدین کےلیے “بے دخلی کے حق” کےلیے قانون بناتے ہیں اور اس میں پھر ریاست کو گھر کے اندر گھسا دیتے ہیں۔ یہ روش انتہائی خطرناک ہے۔ ہر ہر معاملے میں ریاست کو لانے کے بجاے مناسب راستہ یہی ہے کہ خاندان اور معاشرے کے دباؤ کو استعمال کرکے اصلاحِ احوال کی کوشش کی جائے۔

واضح رہے کہ گھریلو تشدد کے متعلق قانون سازی میں عموماً اختیارات فیملی عدالت کو دیے گئے ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ ان امور میں دیوانی قانون کے اصولوں کا اطلاق ہوگا۔ تاہم سندھ میں اس قانون سازی میں اختیارات مجسٹریٹ کو دیے گئے ہیں اور یوں معاملے کو فوجداری بنادیا گیا ہے۔ یہاں والدین کے تحفظ کے نئے بل میں اختیارات پہلے مرحلے میں ڈپٹی کمشنر کو اور اس کے بعد اپیل کے مرحلے پر سیشنز کورٹ کو دیے گئے ہیں (دیکھیے بل کی دفعہ 7)۔ یوں ایک عجیب ملغوبہ وجود میں آجائے گا۔

گھر کی ملکیت کس کے پاس ہے؟

بل کی دفعہ 4 (7) میں کہا گیا ہے کہ اگر والدین میں کوئی ایک کسی کو گھر سے نکال رہا ہو، تو ضروری ہے کہ گھر تنہا اسی کی ملکیت میں ہو، اور یہ کہ اگر گھر والدین میں دونوں کی مشترک ملکیت میں ہو، تو کسی بچے کو نکالنے کےلیے نوٹس پر والدین میں دونوں کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہ شق اس دفعہ کی ذیلی شق (1) کے ساتھ متعارض ہے کیونکہ وہاں قرار دیا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ گھر اس والد/والدہ کی ملکیت میں ہو، بلکہ چاہے اس والد/والدہ نے یہ گھر کرایے پر لیا ہو، یا کسی بھی اور طریقے سے اس کے قبضے میں ہو (in his possession by any means)، تب بھی اس کے پاس یہ اختیار ہوگا۔

اس تضاد سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسودہ بناتے وقت مناسب غور نہیں کیا گیا۔

پولیس کو دیا گیا اختیار

بل کی دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں مذکور کسی جرم کے متعلق والد/والدہ کی جانب سے اطلاع پر پولیس مذکورہ بچے/بچی یاس بہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو عدالتی وارنٹ کے بغیر گرفتار کرسکے گی۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اس بل میں بنیادی طور پر دو “جرائم” ذکر کیے گئے ہیں: ایک والد/والدہ کو گھر سے بے دخل کرنا جس پر دفعہ 3 میں ایک سال کی قیدِ بامشقت یا جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے؛ اور دوسرا والدہ/والدہ کی جانب سے کسی بچے/بچی یا بہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کو گھر سے نکلنے کا نوٹس ملنے کے باوجود مذکورہ شخص کا گھر سے نہ نکلنا، جس پر دفعہ 4(2) کے تحت ایک مہینے کی قیدِ سادہ یا پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

یہاں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس اس دوسرے امر میں بھی گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے۔ آگے دفعہ 6 میں کہا گیا ہے کہ گرفتاری کی صورت میں مقدمہ مجسٹریٹ کی عدالت میں چلے گا، جبکہ پیچھے دفعہ 4(5) میں کہا گیا تھا کہ والد/والدہ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر کو شکایت کی جائے، تو پھر وہ اصلاحِ احوال کی کوشش بھی کرسکتا ہے اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ مذکورہ شخص کو گھر سے نکلنے کا حکم دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دوسرے امر میں والد/والدہ کے پاس دو راستے ہوں گے: وہ اگر ڈپٹی کمشنر کے پاس شکایت لے جاتا ہے، تو ایک طریقے پر عمل ہوگا؛ اور وہ اگر پولیس کے پاس جائے، تو دوسرے طریقے پر عمل ہوگا۔ یوں یہ معاملہ پھر الجھنوں کا شکار ہوجائے گا کہ یہ دیوانی معاملہ ہے یا فوجداری۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پولیس کو گرفتاری کا جو اختیار دیا گیا ہے وہ offspring یعنی پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کے بارے میں بھی ہے جبکہ تعریفات کی شق میں بتایا گیا ہے کہ offspring کسی بھی عمر کا ہوسکتا/سکتی ہے۔ کیا قانون کا مسودہ بنانے والوں نے اس پہلو سے اس شق کا جائزہ لیا ہے کہ اس کا گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ کے قانون اور نوخیز افراد کےلیے نظامِ عدل (juvenile justice system) کے ساتھ کیا تعلق بنے گا؟

اپیل کس کو کی جائے گی؟

بہرحال آگے دفعہ 7 میں اپیل سے متعلق دو الگ ضوابط دیے گئے ہیں:

  • ایک یہ کہ اگر اپیل اس حکم کے خلاف کی جارہی ہے جو دفعہ 4(5) کے تحت جاری کیا گیا تھا (یعنی ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بے دخلی کا حکم)، تو اس صورت میں سیشنز کورٹ کو 30 دنوں کے اندر اپیل کی جاسکے گی۔[3]
  • دوسرا یہ کہ اگر اپیل اس حکم کے خلاف کی جارہی ہے جو دفعہ 3 کے تحت جاری کیا گیا ہو(والد/والدہ کو بے دخلی پر سزا) یا دفعہ 4 (2) کے تحت جاری کیا گیا ہو (والد/والدہ کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس کے باوجود گھر سے نکلنا)، تو اس صورت میں اپیل پر مجموعۂ ضابطۂ فوجداری میں مذکور دفعات پر عمل کیا جائے گا۔ جیسا کہ پیچھے مذکور ہوا، ان دو امور پر سزا کا اختیار مجسٹریٹ کو دیا گیا ہے۔

اس دوسرے ضابطے پر تو شاید اعتراض نہیں کیا جاسکتا، لیکن پہلےضابطے کے متعلق عرض ہے کہ سیشنز کورٹ کے سامنے اپیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ فوجداری ہے، نہ کہ دیوانی۔ تو کیا آپ ڈپٹی کمشنر کو فوجداری کا اختیار دے رہے ہیں؟ پھر یاد کیجیے کہ کیسے اتنظامیہ کو عدالتی، بالخصوص فوجداری، اختیارات دے کر آئین اور سپریم کورٹ کے لازمی فیصلوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے!

پس چہ باید کرد؟

اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ یہ مسودہ انتہائی حد تک ناقص ہے اور اس صورت میں اسے ہرگز منظور نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بجاے اس موضوع پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں تفصیلی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں دیگر مسلم ممالک کے قوانین سے مدد لی جاسکتی ہے، بالخصوص ان ممالک کے قوانین سے جہاں اب بھی خلافتِ عثمانیہ کے دور کے ادارے کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔

مثلاً اب بھی اردن میں دو ادارے ایسے ہیں جو اس نہج پر کام کررہے ہیں: ایک کو “قاضی حقوق القاصرین” کہا جاتا ہے، یعنی ان لوگوں کے تحفظ کا قاضی جو خود اپنے حقوق کی حفاظت سے قاصر ہوں؛ اور  دوسرا “الاصلاح الاسری” یا خاندانی تنازعت میں اصلاح کا ادارہ۔ معلوم امر ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے قاضی کی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اپنے زیر اختیار علاقے میں کمزوروں کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ چنانچہ بوڑھوں، بیواؤں، یتیموں اور دیگر ضرورت مندوں کے حقوق کا تحفظ اس کی ذمہ داری تھی۔ اسی طرح عائلی تنازعات کے حل کےلیے عدالت میں جانے سے قبل اصلاحِ احوال کے دیگر ذرائع اختیار کرنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم نے میاں بیوی کے درمیان تعلقات کی خرابی میں دونوں کے خاندان سے ایک ایک ثالث لے کر اصلاحِ احوال کےلیے کہا ہے۔[4] طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ایوب خان کے دور سے رائج عالی قوانین آرڈی نینس میں بعد از طلاق اصلاح کےلیے ثالثی کونسل کا کہا گیا ہے۔ اگرچہ طلاق کی صورت میں بھی اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے (مثلاً طلاق رجعی ہو تو رجوع بھی ممکن ہوتا ہے اور طلاق بائن ہوتو علیحدگی کی صورت میں مہر، جہیز،نفقہ وغیرہ کے تنازعات  کے تصفیے کی ضرورت رہتی ہے تاکہ تسریح باحسان پر عمل ہو)، لیکن ظاہر ہے کہ اس کی زیادہ ضرورت طلاق سے قبل ہوتی ہے۔ اسی طرح مذکورہ آرڈی نینس میں دوسری، تیسری ای چوتھی شادی سے قبل اجازت کےلیے ثالثی کونسل کا ذکر کیا گیا ہے۔ بس ہمارے ہاں اصلاحِ احوال کا دائرۂ کار اسی حد تک ہے! اردن کے ادارے الاصلاح الاسری کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے اور بہت کثیر تعداد میں تنازعات کا حل وہیں پر نکل آتا ہے اور معاملہ عدالت میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم مغربی ممالک کے قوانین کی نقل پیش کرنے کے بجاے اسلامی قانون کے اصولوں سے روشنی حاصل کریں اور ان اسلامی ممالک کے تجربات پر غور کریں جہاں معاشرتی اقدار ہمارے معاشرے کے حالات کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ ہیں؟

حوالہ جات

[1]  مسماۃ بخشی بنام بشیر احمد (پی ایل ڈی 1970 سپریم کورٹ 323)۔

[2]  مسماۃ ممتاز بی بی بنام قاسم و دیگر، رٹ درخواست نمبر 4227 آف 2021ء۔

[3]  مسودے میں دفعہ 2(5) کہا گیا ہے، لیکن یہ غالباً کتابت کی غلطی ہے۔

[4]  سورۃ النسآء، آیت 35۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں