عمران شاہد بھنڈر
میں: کانٹ صاحب، کیسی طبیعت ہے؟ امید ہے آپ نے اپنے فلسفہ حیات کی جو وضاحت کی تھی، ا س کے تحت آپ کی ’روح‘ کی بقا ممکن ہو چکی ہو گی اور آپ اس روح کی لافانیت سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ لیکن آپ نے جو بہت ہی پیچیدہ فلسفیانہ پروجیکٹ پیش کیا تھا ، اس کی مادیت پسند، عینیت پسند، تجربیت پسند، تشکیک پسند اور حقیقت پسندی پر مبنی تشریحات پیش کی جا چکی ہیں۔ کیا یہ آپ کے فلسفے میں موجود ابہام، تضادات، پیچیدگی کی وجہ سے ہے؟ یا آپ کے ذہن میں کچھ مابعد الطبیعیاتی تصورات واضح طور پر موجود نہیں تھے جن کو خود آپ نے ”تنقید عقلِ محض“ کے دوسرے ایڈیشن میں تبدیل کر دیا؟
کانٹ: پہلی بات، آپ کا مجھ سے مکالمہ کرنا ہی اس بات کی گواہی ہے کہ میری روح، ایک مذہبی روح نہیں ہے، بلکہ سپرٹ دراصل عقل کی خود شعوری پر مشتمل ہے، جیسا کہ اس کی زیادہ بہتر وضاحت میرے ایک جونیئر جارج ہیگل نے کی تھی ۔ اس وسیع و عریض کائنات میں عقل سب سے بڑی انسانی صلاحیت ہے جیسا کہ میں نے ”تنقید عقلِ محض“ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اور وہی عقل اس ’قانون‘ کی ’تشکیل‘ کرتی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسان ’لافانیت‘ سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ میرا مقدمہ یہ تھا کہ انسانی ارادے کو مکمل خود مختار دکھایا جائے، وہ اپنے اعمال میں ”احساسِ فرض“ کے تحت مکمل فعال ہو، اسی میں ’مسرت‘ اور روح کی لافانیت کا تصور پنہاں ہے۔
دوسری بات، یہ درست ہے کہ میرا فلسفہ بہت پیچیدہ ہے، ابہام بھی ہے اور میں نے دوسرے ایڈیشن میں اس میں خاطر خواہ تبدیلیاں بھی کی تھیں۔ لیکن آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے دوسرے ایڈیشن کے دیباچے میں واضح کر دیا تھا کہ جو اس کتاب کو سرسری طور پر پڑھے گا، وہ اس کی تفہیم میں غلطی کا مرتکب ہو گا۔ میں عالمِ بالا سے دیکھ رہا ہوں کہ بہت سے ایسے سطحی قسم کے ’عالم‘ پیدا ہو چکے ہیں جو اپنی دقیانوسی مذہبیت کی تسکین کے لیے میرے افکار کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
میں: کانٹ صاحب، آپ کی ساری فلسفیانہ انکوائری عقل کی فوق تجربیت پر مبنی ہے۔ آپ عقل کو اس دنیا میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے، مطلب ان معنوں میں کہ عقل کو تجربہ متعین کرے، بلکہ آپ عقل سے تجربے کی تعیین کا کام لیتے ہیں۔ اور بعد ازاں آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ عقل تجربی مشاہدے تک فعال نہیں ہوتی۔اگر عقل تجربی مشاہدے تک فعال نہیں ہوتی تو پھر اس کا مقصد کیا ہے؟
کانٹ: جیسا کہ آپ خود اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں جو کہ درست بھی ہے کہ عقل تجربی مشاہدے کے لیے تصورات کی تشکیل کا کردار ادا نہیں کرتی، اور فلسفے کی تاریخ میں وہ پہلا فلسفی ہوں جس نے فہم (انڈرسٹینڈنگ) کو عقل (ریزن) سے الگ کیا تھا۔ فہم کو میں نے معروضات کی تشکیل کا کام سونپ دیا۔ فہم زمان و مکان کی اے پرائیورائی کنڈیشن کے تحت جو مواد حاصل کرتی ہے، انہیں قواعد کے تحت ترتیب میں لاتی ہے، اور ان پر مقولات (کیٹیگریز) کا اطلاق کرتی ہے، اس طرح علم کا معاملہ حل ہوتا ہے۔ چونکہ حسی مواد زمان و مکان کی اے پرائیورائی کنڈیشن کے تحت حاصل ہوتا ہے، جس پر مزید فہم کے تصورات کا اطلاق ہوتا ہے، اس لیے براہِ راست حسی مشاہدات عقل کا معروض نہیں ہوتے۔ عقل کا معروض فہم ہوتی ہے، ا س وقت جب وہ اپنا کام مکمل کر لیتی ہے۔ عقل پھر ان قواعد کا جائزہ لیتی ہے اور ان سے اصول اخذ کرتی ہے۔
میں: تو کیا میں اس سے یہ سمجھوں کہ عقل جس کو خود آپ نے سب سے بڑی انسانی صلاحیت کہا ہے، اس کا کوئی تجربی استعمال نہیں ہے؟
کانٹ، دیکھیں بھائی، خارجی دنیا اپنے مخصوص قوانین کے تحت عمل آرا ہے، اور ان قوانین کی حیثیت میکانکی ہے۔ اگر عقل کو ان میکانکی قوانین کا پابند کر دیا جائے تو پھر انسان کی فعلیت کا قضیہ کیسے حل ہو گا؟ میرے نزدیک عقل کا کردار خارجی دنیا کو منعکس کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنی فعلیت کو خارجی دنیا سے آزاد کرا کے اپنے عمل کے ذریعے دنیا میں داخل ہونا ہے۔ میرے فلسفے میں عقل کا سارا کردار عملی نوعیت کا ہے، اور ساری فلسفیانہ انکوائری عقل کے اسی فعال کردار کی کھوج لگانا ہے۔ جبکہ عقل کی ابتدائی صورت فہم ہے، جو تجربی معاملات سے سروکار رکھتی ہے۔
میں: تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ عقل کی عینیت پسندانہ شکل مذہب ہی کی ایک اور صورت ہے؟
کانٹ: ایسا بالکل نہیں ہے۔میرے فلسفے میں الٰہیاتی تصورات (خدا، ارادے کی آزادی، بقائے روح) کا کردار ان معنوں میں فیصلہ کن نہیں ہے جن معنوں میں مذہب میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں اعیان جو کہ عقلی اعیان ہیں، وجدانی نہیں، یہ میرے اخلاقی پروجیکٹ کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ میرے فلسفیانہ پروجیکٹ میں ’مقصدیت‘ کا پہلو بہت نمایاں ہے، اور عقل یہ کام سر انجام دیتی ہے کہ وہ ان اعیان کو بروئے کار لائے، ان کو ترتیب دے، اور جو کام ان کو سونپا جاتا ہے، اسے صحیح طریقے سے ان اعیان سے ظہور کرتا ہوا دکھائے۔ آپ نے ”تنقید عقلِ محض“ کے آخری باب میں پڑھا ہو گا کہ اس میں، میں نے عقل کے اعیان کے حوالے سے اسی تشکیلی کردار کی تفصیل پیش کی ہے جو تجربی عمل میں فہم کے تشکیلی کردار کے حوالے سے کی تھی۔ کیونکہ عقل اگر اپنے اعیان کی تشکیل نہیں کرے گی، ان کو سمت نہیں دے گی تو سب سے بڑی قوت نہیں کہلا سکتی۔ جبکہ مذہب میں اس سے یکسر الٹ بات کی جاتی ہے۔ اس میں الٰہیات عقل کی نگہبان ہے، جبکہ میرے فلسفے میں الٰہیات پابند ہے عقل کی! اسی لیے میرے اخلاقی فلسفے کو ”عقلی مورل تھیولوجی“ کہا جاتا ہے۔
میں: تو کیا آپ مابعد الطبیعیات کا انکار نہیں کرتے؟
کانٹ: ہرگز نہیں!
میں: کیا آپ مابعد الطبیعیات کا اثبات کرتے ہیں؟
کانٹ: میں صرف اثبات ہی نہیں کرتا بلکہ مابعد الطبیعیاتی تصورات کو اپنے عقل پر مبنی اخلاقی فلسفے میں بروئے کار بھی لاتا ہوں۔ وہ مابعد الطبیعیاتی اعیان جو عقل نظری مجھے فراہم کرتی ہے، میں ان کا عملی استعمال کرتا ہوں۔
میں: تو پھر مسئلہ کہاں پر پیدا ہو رہا ہے؟
کانٹ: میرے مکمل فلسفیانہ پروجیکٹ کو توجہ سے پڑھ لیا جائے تو مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ میری تنقید مابعد الطبیعیات پر نہیں، بلکہ مابعد الطبیعیات کے اس تصور پر ہے، جس کی بنیاد جرمنی میں لائیبنز اور وولف جیسے بڑے فلسفیوں نے رکھی تھی۔ ان دونوں فلسفیوں کا خیال تھا کہ عقل اور الٰہیات کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔اس بنیاد پر ان دونوں نے الٰہیاتی بنیادوں پر ایک پورا عقلی نظام کھڑا کر دیا، جسے ”لائبنیز، وولفین“ پروجیکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ فطرت کا میکانکی ماڈل دراصل ایک الٰہیاتی پروجیکٹ ہے اور فطرت کو جاننا ہی مابعد الطبیعیاتی تصورات کو جاننا ہے۔ میں نے جب جرمنی میں آنکھ کھولی تو میرے سامنے انہی دو فلسفیوں کا یہی جناتی فلسفہ موجود تھا۔
میں: تو پھر آپ نے ان دونوں فلسفیوں کے تصورِ مابعد الطبیعیات کو کیسے رد کیا؟
کانٹ: ایک بات تو یہ واضح رہے کہ میں مابعد الطبیعیات کا انکار نہیں کرتا، بلکہ مابعد الطبیعیات کے اس تصور کا انکار کرتا ہوں جس پر لائبنیز اور وولف کے فلسفیانہ پروجیکٹ کی بنیاد کھڑی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ میرے نزدیک مابعد الطبیعیات ممکن نہیں ہے، سراسر میرے فلسفے کی عدم تفہیم پر مبنی ہے۔ میرا دعویٰ تھا کہ خدا کوئی مادی وجود کی حامل شے نہیں ہے کہ جس کا اظہار کیا جا سکے، یا جس کو ثابت کیا جا سکے۔ کیونکہ ثابت اسی شے کو کیا جاتا ہے جو وجود رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر میرے سامنے ایک درخت موجود ہے، تو میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ درخت موجود ہے، اور اس کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جو شے موجود نہیں ہے، مادی وجود نہیں رکھتی اس پر’ایمان‘ تو رکھا جا سکتا ہے، لیکن اسے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا یہاں سے میں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مابعد الطبیعیات کا علمیاتی پہلو ناقابلِ ثبوت ہے۔ اسے منطقی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی اور بنیاد پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔
میں: نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو مانیں یا نہ مانیں، ایک ہی بات ہے۔
کانٹ: میں نے کہا کہ یہ ایمان یا عقیدے کا معاملہ ہے، منطق کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہے، اور نہ ہی اپنے سامنے موجود مادی دنیا کے کسی مظہر کو ثابت کرکے یہ کہنا معقول ہے کہ خدا کو جان لیا گیا ہے۔ کیا اس بات کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ درخت حقیقت میں خدا ہے؟ اگر درخت صرف درخت ہے اور اسے جانا بھی جا سکتا ہے تو اس پر خدا کا ٹھپہ لگانا عقیدے کا معاملہ ہے، نہ کہ علمیات یا منطق کا کوئی قضیہ ہے۔ یہی میرا دعویٰ تھا کہ مظاہر کو جاننے کے لیے کسی بھی مابعد الطبیعیاتی تصور کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں: جس شے کو ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا تو اس پر ’ایمان‘ رکھنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ لیکن آپ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خدا ایک اہم اور لازمی تصور ہے، اور اسی پر آپ نے اپنے اخلاقی فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔
کانٹ: یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ میں نے اپنے اخلاقی فلسفے کی بنیاد خدا کے تصور پر رکھی ہے۔ میں نے اپنے اخلاقی فلسفے کی بنیاد عقل اور منطق پر رکھی ہے۔ کیا آپ اس اصول کو نہیں جانتے جسے میں نے ”یونیورسل“ کہا ہے؟ اس میں خدا کا کوئی کردار ہے؟
میں: سر، میں تو اس نکتے سے آگاہ تھا، صرف آپ سے سننا چاہتا تھا۔ میں نے تو یہی محسوس کیا ہے کہ آپ کا اخلاقی فلسفہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ’آزادی‘ کا تصور ممکن نہیں ہے۔
کانٹ: آزادی سے میری مراد کوئی مادر پدر آزادی نہیں ہے، بلکہ فطرت کے میکانکی قوانین سے آزادی ہے، جس سے عقل بہت باریکی اور گہرائی سے اپنے ان تصورات کو بچا کر نکل جاتی ہے جن پر فطرت کا میکانکی ماڈل گرفت کرنا چاہتا ہے، اور بعد ازاں عقل انہیں استعمال کرتی ہے۔ میں نے جو کام فہم کو سونپا تھا، یعنی یہ کہ وہ اپنے معروض کی تشکیل کرے، اسے قواعد میں لائے، اس پر مقولات کا اطلاق کرے۔ بحیثیت مجموعی جو فہم کا تشکیلی (کونسٹیٹیوٹو) کردار تھا، وہی تشکیلی کردار عقل اخلاقیات میں اس وقت ادا کرتی ہے، جب وہ فطرت (یعنی خارجی دنیا کے میکانکی قوانین) سے آزاد ہو جاتی ہے، اسی لیے میں نے یہ الفاظ لکھے تھے کہ ”عقل قانون ساز ہے“ نہ کہ کوئی ایسی شے جس پر کسی ماورائی قانون کا اطلاق کر دیا جائے۔
میں: تو پھر خیر اور شر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
کانٹ: اگر آپ نے میری کتاب ”تنقید عملِ محض“ پڑھی ہے تو پھر جانتے ہوں گے کہ میں نے خیر اور شر کو پہلے سے تصور کر کے ان کے مطابق اپنا کوئی فلسفہ پیش نہیں کیا، کیونکہ یہ عقل کی شان کے خلاف ہے کہ اسے گھڑا گھڑایا تصور دے دیا جائے، اور اسے اس کے استعمال سے روک دیا جائے۔ میں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ خیر و شر وہی ہے جو عقل کے آفاقی قانون سے مطابقت رکھتا ہے۔ عقل کے قوانین کی تشکیل سے پہلے نہ کوئی خیر ہے اور نہ کوئی شر!
میں: اگر آپ نے اپنے علمی اور عملی فلسفے کی بنیاد عقل پر رکھنی تھی تو پھر خدا اور بقائے روح کے دُم چھلے ساتھ لگانے کی ضرورت کیا تھی؟
کانٹ: دلچسپ سوال ہے کہ جن کا استعمال ہی کچھ نہیں اس کو بروئے کار بھی کیوں لایا جائے؟ دیکھیے بھائی، خدا اور روح اس دنیا میں ناممکن ہیں۔ وجہ پہلے بتا دی کہ جو (حسی اور مادی) وجود نہیں رکھتا، اسے جانا نہیں جا سکتا، اور جو وجود رکھتا ہے، اسے جاننے کے لیے خدا کی ضرورت نہیں! اب میرا عقلی اخلاقی فلسفیانہ پروجیکٹ جو لوگ ا س دنیا میں بروئے کار لانا چاہتے ہیں، ان کا فائدہ ہے۔ وہ ’مسرت‘ سے ہمکنار ہوں گے۔ اور جو لوگ بقائے روح اور خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس کا استعمال بعد از ممات کر لیں گے۔ کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ جو عقلی اخلاقی پروجیکٹ میں نے پیش کیا ہے وہ کسی ’یونیورسل‘ خدا کی عقل کے منافی ہو۔
میں: خدا کا تصور یا تو عقلی اور منطقی تشکیل ہے، یا پھر سماجی، اور یا پھر اسے انسان کی فطرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دریافت کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ”تنقید عقلِ محض“ میں ایک جگہ آپ نے لکھا ہے کہ ”ہم نے مابعد الطبیعیاتی اعیان کو انسانی فطرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دریافت کیا ہے۔“ دوسری طرف آپ اس تصور کو فرض کر کے، خواہ لائیبنز اور وولف کے فلسفیانہ پروجیکٹ ہوں، اس کا ابطال بھی کررہے ہیں۔ اور آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ عقل اس تصور کا اثبات کرتی ہے۔ عقل کا اثبات عقلی یا منطقی ہوتا ہے۔ اور جس چیز کو فرض کر لیا جائے وہ اس وقت تک منطقی نہیں ہوتی جب تک وہ منطقی طور پر ثابت نہیں ہوتی۔ تو کیا آپ مابعد الطبیعیاتی اعیان کو منطقی طور پر ثابت کرتے ہیں؟ جبکہ آپ خود ہی کہہ چکے ہیں کہ جو شے مادی وجود نہیں رکھتی، اس کا علم بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
کانٹ: اگر آپ نے میرا منطقی مغالطوں کا باب پڑھا ہوتا تو شاید آپ یہ سوال نہ کرتے۔ میں نے وہ باب شروع ہی ان الفاظ سے کیا تھا کہ منطقی مغالطہ”صورت“ کے لحاظ سے ہوتا ہے، نہ کہ اس کے مافیہا یا مشمول کے لحاظ سے! کیا آپ کو کچھ سمجھ آئی یا میں مزید وضاحت کروں؟
میں: مجھے تو سمجھ آگئی ہے، لیکن میں پھر بھی یہ چاہتا ہوں کہ آپ مزید وضاحت کریں۔
کانٹ: میں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کائنات کی تفہیم کے لیے مابعد الطبیعیات کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہے، اور نہ ہی ان تصورات کا استعمال کر کے کائنات کے کسی مادی شے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کائنات کو سمجھ کر اسے کسی مابعد الطبیعیاتی تصور سے منسوب کرنا مذہبی ذہن کا عمومی المیہ ہے، اور انہیں اس کام سے روکا نہیں جا سکتا، جبکہ خود مابعد الطبیعیاتی تصورات کاکائنات کی تفہیم میں استعمال صفر ہے۔ میرا دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ جب مابعد الطبیعیاتی تصورات کا علمیات و منطق میں کوئی استعمال نہیں ہے تو کیا ان کا کوئی استعمال سرے سے ہی نہیں ہے؟ اس کا جواب میں نے نفی میں دیا تھا۔
میں: لیکن آپ نے اپنے اخلاقی پروجیکٹ میں بھی ان غیر مرئی تصورات کا استعمال اسی دنیا میں کیا ہے جسے ثابت نہیں کیا جاسکتا، یعنی بعد از ممات۔ تو کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ جو لوگ بقائے روح پر یقین رکھتے ہیں وہ آپ کی عقلی اخلاقیات کو بقائے روح کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟ یعنی اخلاقیات کا استعمال ایک ایسی غیر مرئی دنیا میں، ایک غیر مرئی تصور کے تحت کہ جنہیں ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا، کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے دو ٹوک یہ کہہ دیا ہے کہ تجربی دنیا میں مابعد الطبیعیات ممکن نہیں ہے، کیونکہ مابعد الطبیعیاتی اعیان کو ثابت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان کے جوڑ کا مشاہدہ ہی تجربی دنیا میں موجود نہیں ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ان کے جوڑ کا کوئی مشاہدہ موجود نہیں ہے تو ا س کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کے ذہن میں صورت جو کہ منطق کا خاصہ ہے، اس کا ایک تصور موجود ہے، اور اسی تصور کا جوڑ آپ کو مل نہیں رہا، اور تصور ایسا جس کو دیکھا نہیں جا سکتا، وہ مادی شکل میں موجود نہیں ہے تو پھر کیا آپ کا مابعد الطبیعیاتی اعیان کا تصور تجربی کے برعکس منطقی ہے؟ کیونکہ صورت کو آپ نے مافیہا سے عاری منطق کا جزوِ لاینفک کہا ہے؟ میرا آپ کے فلسفے پر یہ اعتراض ہے کہ آپ کی سائنس آپ کی منطق سے مطابقت نہیں رکھتی۔سائنس مافیہا سے تعلق رکھتی ہے، اور منطق صرف صورت سے۔ اور میرے خیال میں یہی وہ مقام ہے کہ جہاں آپ کا فلسفہ سائنس اور منطق کے تضاد کی تحلیل کیے بغیر ”دوئی“ کا شکار ہوتا ہے۔
کانٹ: آپ کا سوال قابل غور ہے۔ مجھے اس میں کوئی نئی بات شامل نہیں کرنی، بلکہ انتقاد کی پہلی کتاب سے آپ کی توجہ اپنے بنیادی فلسفیانہ پروجیکٹ کی جانب مبذول کرانی ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ فلسفے کی تاریخ میں فلسفیوں نے خدا کے تصور کو ایک لازمی تصور کے طور پر قبول کیا ہے۔ آپ فلسفے کی ساری تاریخ پلٹ کر دیکھ لیں، اس میں نظری عقل سے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے صرف تین طریقے استعمال کیے گئے ہیں۔ان طریقوں میں سے ایک تجربی یا حسی ہے، یعنی حس کے متعین تجربے سے خدا کے وجود کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کو سترھویں صدی میں لائبنز اور وولف نے استعمال کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مابعد الطبیعیات کے بغیر کائنات کی تفہیم ممکن نہیں ہے۔
میں: ایک منٹ رُکیے، یہ صرف لائبنز اور وولف کا دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ بعض مذہبی کتابوں میں بھی یہ درج ہے کہ کائنات پر غور و فکر کرو کہ اس میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ یعنی خدا کو کائنات میں موجود نشانیوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کی ”میٹافزکس آف نیچر“ پر تنقید ان پر بھی صادق آتی ہے؟
کانٹ: میری تنقید ہر اس فکر پر صادق آتی ہے جو فطرت سے خدا کو تلاش کرنے کے متلاشی ہیں۔ خدا کی نشانی خدا سے الگ نہیں ہے۔ اور جب خدا یہ کہتا ہے کہ میری نشانی کو دیکھ کر مجھے پہچانو تو وہ اس نشانی کے ذریعے خود کی شناخت کا اثبات کرانا چاہتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات آپ ذہن میں رکھیے کہ جب تک خدا کا کوئی بھی تصور ذہن میں پہلے سے موجود نہ ہو اس وقت تک یہ جاننا ناممکن ہے کہ جو ’نشانی‘ ہمارے سامنے موجود ہے وہ واقعی خدا کی نشانی ہے۔ جب خدا سپرٹ ہے، تو اس کو ایک مقرونی (کنکریٹ) نشانی سے جانا ہی نہیں جا سکتا۔ جب سپرٹ کو دیکھا ہی نہیں جا سکتا، اسے چھوا نہیں جا سکتا، تو پھر کوئی نشانی اسی کی نشانی ہے، یہ ایک طفلانہ دعوے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر آپ نے انتقاد کی پہلی کتاب کو توجہ سے پڑھا ہے تو شاید آپ کو یہ سوال پوچھنے کی نوبت ہی پیش نہ آتی، کیونکہ یہی میری ”میٹافزکس آف نیچر“ پر تنقید ہے۔
میں: میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس نکتے کی مزید وضاحت کریں۔
کانٹ: میں نے جہاں یہ بحث کی ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے اس سوال کو صرف لائبنیز اور وولف کی الٰہیات کا ابطال کر کے ہی حل نہیں کیا، بلکہ میں نے اس سوال کا خاتمہ اس وقت تک کر دیا ہے، جب تک بنی نوع انسان کی نسل برقرار ہے۔
میں: سر، نشانی پر آئیں ذرا۔ دن ہوتا ہے، پھر رات ہوتی ہے، پھر بارش ہوتی ہے، زمین اور سورج گردش کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی تصور اے پرائیورائی بنیادوں پر ذہن میں موجود ہے کہ جو ان ”نشانیوں“ کو دیکھ کر تصدیق کر سکے کہ یہ فلاں شے کی نشانی ہے؟
کانٹ: ان میں سے کوئی بھی تصور ایسا نہیں ہے کہ جس سے کسی بھی اے پرائیورائی یا قبل تجربی تصور کو تلاش کیا جائے۔ اور نہ ہی فطرت کے اس عمل کو دریافت کر کے اس میں سے کوئی نشانی تلاش کی جا سکتی ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ اس سارے عمل میں خدا کے وجود کے لیے نشانیاں ہیں تو وہ ایک ”غیر عقلی“ عمل ہوگا، عقل جس کی نفی کرتی ہے۔ اور عقل کا اس حقیقت کو دریافت کر لینا کہ کائنات میں موجود حقائق کا کسی ماورائے تجربہ خدائی نشانی سے کوئی تعلق نہیں ہے، حقیقت میں عقل کی ناکامی نہیں بلکہ عقل کی فتح ہے۔ عقل یہی دریافت کر کے اپنی مرکزیت کے تصور کا اثبات کراتی ہے۔ اور میں یہ سب منطقی طور پر ثابت کر چکا ہوں کہ خارجی دنیا کا حسی تجربہ فزیکل حقیقت کو تو جانتا ہے، لیکن”مابعد الطبیعیاتی حقیقت“سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔جن مذہب پرستوں کا یہ دعویٰ ہے کہ خارجی دنیا کے حسی تجربات سے ماورائے تجربہ کسی شے کے وجود کو ثابت کیا جاسکتا ہے، تو یہ انہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کر کے دکھائیں۔ میں نے عقل کو تخت پر بٹھانا تھا، وہ میں نے بٹھا دیا۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے عقل کو ”ملکہ“ کا خطاب دیا تھا۔ عقل کے اسی ماورائے تجربات تصورات کی تصدیق سے عقل کو الگ کرکے فطرت کی دریافتوں کا ذمہ سونپ دیا تھا۔عقل کے لیے کائنات میں کسی ”ماورائی تصور“ کی تصدیق کے لیے کوئی نشانی موجود نہیں ہے۔ یہ میرا پہلا اعتراض تھا جو میں نے ”عقلی الٰہیات“ کے مبلغوں پر کیا تھا۔
میں: آپ نے بہت تفصیل سے بہت بنیادی نکات کی وضاحت کردی ہے۔ اور میں آپ کی اس بات کو سمجھ بھی چکا ہوں کہ کس طرح آپ نے عقل کو الٰہیات کے چنگل سے نجات دلائی۔ آپ اپنے دیگر دو نکات پر بھی روشنی ڈال دیں، اس کے بعد پھر آپ سے میرے سوال کی مزید وضاحت کی استدعا کی جائے گی۔
کانٹ: فلسفیوں کا دوسرا مقدمہ، جو دراصل پہلے ہی کا تسلسل ہے، وہ یوں ہے کہ فلسفی تجربی حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے علت و معلول کو بروئے کار لاتے ہیں، جسے علیت (کازیلیٹی) کہا جا تا ہے۔ یہ کوئی متعین تجربے پر مبنی دلیل نہیں ہے، اگرچہ اس کی حیثیت بھی تجریدی اور ماورائی ہے، کہ تجربے یعنی ایک مشروط و متعین حسی تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی غیر مشروط ”مطلق“ تک پہنچ جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ عمل بھی کسی حسی تجرباتی شہادت پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اس میں بھی ”مطلق ہستی“ کے ایک اے پرائیورائی تصور کو ہی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ یعنی ایک ایسا غیر مشروط جو ہر طرح کے مشروط کی بنیاد ہے، لیکن وہ خود مشروط نہیں ہے، مطلب یہ کہ اس کی اپنی کوئی علت نہیں ہے۔ یہ سارا عمل بھی اے پرائیورائی بنیادوں پر طے پاتا ہے، اس میں بھی ایک تجریدی تصور، جو غیر مشروط ہے وہ تمام مشروط کی بنیاد کیسے بنتا ہے اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاتی۔ جب ایک تصور متعین ہی نہیں ہے، تو وہ متعین تجربات کا محرک بن ہی نہیں سکتا۔ لہذا فلسفیوں کی پیش کردہ علیت کے تصور کی تمام وضاحتیں دلائل سے عاری ہیں۔
میں: بالکل واضح ہوا کہ جو تصور مشمول سے عاری ہے، نہ ہی اس کی شناخت ممکن ہے اور نہ ہی ا س کے کسی متعین وجود کی تصدیق ہی کی جا سکتی ہے۔ اب ہم چاہیں گے کہ آپ اپنا تیسرااعتراض پیش کریں۔
کانٹ: اب تک میں نے دو تصورات کا ابطال کیا ہے: ایک میٹافزکس اور نیچر اور دوسرا اسی کا تسلسل ایک طرح کی کونیاتی دلیل ہے۔ ان دونوں سے ہی خدا کے وجود کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کا ایک تیسرا طریقہ بھی ہے، جو ماورائیت پسندی پر مبنی ہے، اور داخلی تجربے سے خدا کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ داخلی سطح پر کوئی بھی ایسی دلیل نہیں دی جا سکتی کہ جس سے خدا کے وجود کو ثابت کیا جا سکے۔ متصوفانہ فکر اسی باطل تصور پر موجود ہے، عقل جس کا انکار کرتی ہے۔
میں: کہیں ایسا تو نہیں کہ عقل خود خدا کے تصور کو ثابت نہیں کر سکتی اس لیے اس کا انکار کر دیتی ہے؟
کانٹ: کسی بھی طرح کا خدائی تصور عقل کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ عقل صرف پہلے سے موجود تصورات کا ابطال کرتی ہے۔ اور خدا کے وجود کو عقل اپنے برعکس صرف عقیدے کا معاملہ قرار دیتی ہے۔ اصل چیلنج میرے لیے نہیں ہے کہ میں خدا کے وجود کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کروں، بلکہ اصل مسئلہ ان مذہب پرستوں کا یہ ہے کہ جس تصور پر انہوں نے عقیدے کی بنیاد رکھی ہے، ا س کے وجود کے حق میں دلائل بھی وہ خود ہی پیش کریں۔ عقل جب اس قسم کے دلائل کا ابطال کرتی ہے تو وہ دراصل اپنی اس برتری کی جانب مُڑتی ہے جو اٹھارویں صدی کی روشن خیالی کا خاصا ہے۔ آپ بس یہ بات ذہن میں ر کھیں کہ عقل نے خدا کے وجود کے لیے پیش کیے گئے تینوں دلائل کی تنسیخ کر دی ہے۔
میں: لیکن آپ نے خدا کے تصور کا انکار تو کہیں نہیں کیا؟ آپ نے یہ تو کہیں نہیں کہا کہ خدا موجود نہیں ہے اور عقل نظری بھی آپ کے اسی تصور ِ خدا کا اثبات کرتی ہے، اور اس کے استعمال کے لیے عملی میدان کا انتخاب کرتی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا یہ سوال سائنس اور منطق میں دوئی والے سوال کا ہی تسلسل ہے جس کی وضاحت تو آپ نے بہت بہتر کر دی ہے، لیکن ابھی اس سوال کی تفصیل میں جانا باقی ہے کہ جب آپ نے میٹافزکس آف نیچر کی جڑیں اکھاڑ دیں، تو پھر میٹافزکس آف مورل، جو کہ آپ کی کتاب کا عنوان بھی ہے، وہ کیسے ممکن ہوتی ہے؟ کیونکہ اگر عقل نظری خدا کے تصور کا اثبات نہ کرے تو عملی، اخلاقی مقاصد میں جس خدا کے تصور کا استعمال آپ نے کیا ہے، وہ کہاں سے وارد ہوتا ہے۔
کانٹ: اب آپ نے میری مورل تھیالوجی میں قدم رکھ دیا ہے۔ اب ذرا ساتھ ہی رہیے، سلسلہ بہت دلچسپ ہو گیا ہے۔
میں: اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، میں چاہتا ہوں کہ مابعد الطبیعیات کے لیے آپ کے پیش کیے گئے دلائل کو مختصر بیان کر دوں۔
کانٹ: اسی صورت گفتگو آگے بڑھ سکتی ہے جب میرے پیش کیے گئے خیالات واضح ہو چکے ہوں۔
میں: آپ نے فلسفے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مابعد الطبیعات (خدا، روح) کے تصور کو ثابت کرنے کے لیے دلائل موجود نہیں ہیں۔ دلائل کے لیے ضروری ہے کہ مابعد الطبیعیاتی تصورات کا دائرہ فوق تجربی سے تجربی تک وسیع کیا جائے، اور ایسا کرنا ممکن نہیں ہے، اور جہاں تک فوق تجربیت میں مابعد الطبیعات کو ثابت کرنے کا قضیہ ہے، تو وہ بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ تجربے سے فوق تجربی اعیان کے جوڑ کے مشاہدات پیش نہیں کیے جا سکتے۔ مابعد الطبیعیاتی تصورات عقل کے اعیان ہیں، جنہیں آپ فہم کے تصورات سے الگ کرتے ہیں۔ فہم کے تصورت کا اطلاق پہلے ہی سے حسی معروضات پر ہو چکا ہوتا ہے، ا س لیے عقل کے فوق تجربی اعیان تک حسی مشاہدہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ ان کی سچائی کو جانچا جا سکے۔ دوسری طرف آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے تصورات ’موجود‘ ہیں کہ جن کے جوڑ کا مشاہدہ تلاش کر کے ان کو ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے باوجود ان تصورات کو سوچا جا سکتا ہے، یعنی وہ اعیان کی شکل میں عقل کا موضوع بنتے ہیں۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟
کانٹ: آپ بالکل ٹھیک سمت میں جا رہے ہیں۔
میں: جس شے کو سوچا جا سکتا ہے وہ شے طبعیاتی طور پر موجود ہے، یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس شے کو تجربی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا تو کیا اس شے کو فوق تجربی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے؟
کانٹ: اسے تجربی اور فوق تجربی دونوں سطوح پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن فوق تجربی سطح پر سوچا جا سکتا ہے۔ میں اس کے تصور کا انکار نہیں کرتا، اس تصور کے مشمولات کی موجودگی کا انکار کرتا ہوں۔
میں: مطلب یہ کہ مابعد الطبیعیاتی تصور (خدا) فوق تجربی سطح پر موجود ہے۔
کانٹ: درست کہا۔ آپ کو یہاں اس نکتے پر زور دینا ہوگا کہ خدا کا تصور فوق تجربی سطح پر موجود ہے۔
میں: یہاں مجھے آپ سے طویل گفتگو کرنی ہے۔ جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ آپ نے خارجی حقیقت اور تصور میں ناقابل عبور خلیج پیدا کر دی ہے۔ یعنی دنیا ایک نہیں بلکہ دو دنیائیں ہیں: ایک صرف تصور ہے اور دوسری حقیقت۔اور دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
کانٹ: عقل کی یہ خاصیت ہے کہ وہ محض امکانی تجربے تک محدود نہیں رہنا چاہتی، بلکہ امکانی تجربے کی حدود سے ماورا چلی جانا چاہتی ہے۔ جب عقل کو خارجی تجربے تک محدود کر دیا جائے گا، تو اس کا کردار صرف باقاعدگی (ریگولیٹ) کرنا رہ جائے گا۔ اور جب عقل کا استعمال فوق تجربی ہو تو عقل کا کردار تشکیلی (کونسٹی ٹیوٹو) ہوتا ہے۔ عقل جب اپنے تصورات پر غور کرتی ہے تو محض ان پر غور ہی نہیں کرتی بلکہ ان کا ایک نہایت اہم استعمال بھی کرتی ہے۔ اور مابعد الطبیعات کا یہی استعمال جسے میں نے عقل کا ”مثبت“ استعمال کہا ہے، وہ عقل کے ہی تشکیل کردہ عملی محرکات کے تحت عقل کو تجربی دنیا کا حصہ بنایاہے۔
میں: مطلب یہ ہوا کہ جن مابعد الطبیعاتی تصورات کو ہم نے ثابت نہیں کیا، ان کے عقلی استعمال سے انسان (سبجیکٹ) کو بطورِ مظہر دیکھتے ہوئے تجربی دنیا میں شامل کیا جائے۔ مختصر یوں کہ آپ نے فوق تجربی عقلی اعیان کو استعمال کر کے ایک طرف تو عقل کی برتری کو تسلیم کیا اور دوسرا عمل کو علم پر فوقیت دی۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟
کانٹ: آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ میں نے علم کو عمل کے ما تحت رکھا ہے اور باقاعدہ یہ ثابت کیا ہے کہ صرف عمل ہی عقل کو ان تضادات سے نجات دلا سکتا ہے، جن میں وہ خود اپنی فعلیت کے دائرے سے باہر جاتے ہوئے پھنستی ہے۔ اور جب عقلی نظری، عقل عملی کے ماتحت ہو تو کوئی تضاد نہیں ابھرتا۔
میں: ظاہر ہوا کہ آپ خدا کے تصور کا انکار نہیں کرتے، بلکہ اس کا اقرار کرتے ہیں۔ خداکو ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو سوچا جا سکتا ہے، اور جب تک کسی تصور کو سوچا نہیں جا سکتا اس وقت تک اس تصور کا استعمال بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میرا اگلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ منطقی طریقے سے خدا تک پہنچے ہیں یا خدا کا تصور محض ایک مفروضہ ہے جس پر آپ نے اپنی ساری عملی، اخلاقی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے؟
کانٹ: میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ استقرائی منطق سے خدا کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔ میں استقرائی منطق کے برعکس استخراجی منطق کا قائل ہوں۔ استقرائی منطق میں ایک تصور ہوتا ہے اور پھر وہ محمول ہوتا ہے جس پر ا س تصور کو ثابت کیا جاتا ہے۔ یعنی خدا اگر ہے تو اسے تجربے سے ثابت کیا جائے۔ جبکہ میرے نزدیک خدا کو تجربے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے خدا کے ثبوت سے زیادہ اس کے تصور کے استعمال سے دلچسپی ہے۔ میں نے خدا کے صرف ”ہونے“ کا تصور استخراجی منطق کے تحت تشکیل دیا ہے۔ کیا آپ میرا یہ لکھا ہوا فراموش کر گئے ہیں کہ
A logical Predicate may be what you please, even the subject may be predicated of itself, logic pays no regard to the content of a judgement.
میں: واضح ہوا کہ آپ کا قائم کیا گیا تصور ا س لیے جائز ہے کہ وہ استخراجی منطق کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ پھر آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچ جاتے ہیں کہ استخراجی منطق کے تحت خدا کا جو تصور آپ کے ذہن میں موجود ہے وہ خیر کا سرچشمہ ہی ہے، اور اس کا شر سے کوئی تعلق نہیں ہے؟
کانٹ: میں نے خدا کے تصور سے دو اور تصورات برآمد کیے ہیں، اور ان دونوں کا استعما ل خدا سے ربط میں رہتے ہوئے کیا ہے۔ جیسا کہ منطق میں ہوتا ہے کہ ایک فرضیے سے مزید تصورات برآمد کیے جاتے ہیں۔میں نے جو ایک اور مابعد الطبیعیاتی تصورقائم کیا ہے اس کی ترتیب عقل کے عملی مقاصد کے تابع ہے، نہ کہ عقل کا عملی فلسفہ ان تصورات کی رہنمائی میں آگے بڑھتا ہے۔ ارسطو کی منطق جسے میں آج کے دن تک متعلقہ سمجھتا ہوں، اسی کی پیروی میں میں نے مابعد الطبیعیاتی تصورات کا استخراج کیا ہے۔اگر خدا ہے تو مقصدیت ہے، اور اگر مقصدیت ہے تو وہ علم کے برعکس عمل کے تابع ہے، اور پھر عمل جو کے بقا تک لے جاتی ہے۔
میں: تھوڑی وضاحت کریں، بات ذرا پیچیدہ ہوگئی ہے۔
کانٹ: منطق کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اس میں کسی تصور سے آغاز کیا جاتا ہے، اور بعد ازاں اس سے ایک اور تصور کے استخراج کا عمل طے پاتا ہے۔ میں نے ”تنقید عقلِ محض“ میں بیشتر جگہوں پر یہ کہا ہے کہ عقل کے اعیان کا استخراج اور استعمال منطق سے ’مشابہت‘ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر میں نے خدا کا ایک تصور قائم کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ارسطو کی منطق میں یہ کہا جاتا ہے کہ ”تمام انسان فانی ہیں۔“ پھر ا س سے دوسرا تصور وابستہ کیا جاتا ہے کہ ”سقراط ایک انسان ہے۔“ اب اس میں سے تیسرا تصور جو ایک لازمی نتیجے کے طور پر برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ”لہذا سقراط بھی فانی ہے۔“ بالکل ایسے ہی میں نے خدا، عمل اور بقائے انسان کے تصورات کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے۔
میں: اس منطق کا اطلاق آپ نے خدا کے تصور پر کیسے کیا ہے؟ اس سوال کا جواب درکار ہے۔
کانٹ: میں اسی طرف آرہا ہوں۔ اب آپ اس مفروضے سے آغاز کریں کہ ”خدا کا تصور موجود ہے۔“ اگر یہ مفروضہ استقرائی منطق میں بروئے کار لایا جائے تو خارجی دنیا سے شہادت تلاش کرنی پڑے گی یعنی خدا کا محمول حقیقی دنیا ہو گی۔جبکہ استخراجی منطق میں خدا کے تصور کا محمول اس تصور کا ”ہونا“ ہی ہوگا، یعنی خود تصور ہی اپنا محمول ہوگا۔ میں نے تنقید عقلِ محض کے سیکشن چھ سو اڑتیس میں لکھا تھا کہ عقلِ محض ”مطلق ہستی“کی موجودگی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس کے تصورات کی تصحیح کرتی ہے، یعنی مابعد الطبیعیاتی تصورات کا ”درست“ استعمال کرتی ہے، اور ان میں سے بنیادی مابعد الطبیعیاتی تصور یعنی خدا استخراجی منطق سے ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن استقرائی منطق سے نہیں، اور یہ تصور ”فائدہ مند“ ہے۔ میں نے خدا کے تصور کی تصحیح کی، اسے اخلاقیات میں قابلِ عمل بنایا۔ اگر خدا کے تصور کا استعمال اس لیے ہے کہ ہمارے اعمال کی تصحیح کی جائے تو پھر لازم ہے کہ ان اعمال کا بھی کوئی مقصد ہو، اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جسے میں بقا یا لافانیت کے مابعد الطبیعیاتی تصور کو خدا کے تصور کے لازمی نتیجے کے طور پر ظاہر کرتا ہوں۔ چونکہ یہ مابعد الطبیعیاتی تصورات عقل کے فوق تجربی تصورات ہیں اور عملی مقاصد کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے کہا کہ مابعد الطبیعیات ممکن ہے، لیکن صرف عملی مقاصد کے لیے، نہ کہ یہ کہ ان کا علم حاصل کیاجائے۔
میں: لیکن آپ نے تو انتقاد کی دوسری کتاب میں یہ لکھا ہے کہ ”خدا کا علم ممکن ہے۔“
کانٹ: بالکل لکھا ہے، لیکن اگلے ہی فقرے میں یہ بھی درج ہے کہ صرف عملی مقاصد کے لیے۔
میں: کیا آپ کے عملی، اخلاقی عقلی پروجیکٹ کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ مابعد الطبیعاتی تصورات عقل کا استعمال کرتے ہیں، اور حقیقت میں آپ کا عقلی الٰہیاتی پروجیکٹ انہی مابعد الطبیعاتی اعیان کے زیرِ اثر ہے؟
کانٹ: میں نے خدا کے تصور کو استخراجی منطق کے تحت قبول کیا ہے۔ استخراجی منطق مابعد الطبیعیاتی نہیں، بلکہ عقلی ہے۔اس حد تک عقلی کہ وہ مابعد الطبیعیاتی تصورات کو بھی اپنا محمول بنا سکتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ میرے عقلی،عملی اخلاقی فلسفیانہ پروجیکٹ میں تمام تصورات کا استعمال عقلی و منطقی ہے۔ جہاں تک اس دنیا میں عمل کا تعلق ہے تو ا س میں کسی بھی فوق تجربی تصور کی ضرورت نہیں ہے۔لہذا میرے عملی اخلاقی فلسفے کو عقلی بنیادوں پر کوئی بھی شخص قبول کر سکتا ہے۔ لیکن جونہی بقائے روح کا قضیہ ایک مابعد الطبیعیاتی قضیے کے طور پر اٹھے گا تو ان مابعد الطبیعاتی تصورات پر یقین رکھنے والا میرے عملی، اخلاقی پروجیکٹ سے استفادہ کر سکتا ہے۔ خیر اور شر،ذمہ داری اور احساسِ فرض، یونیورسل قانون وغیرہ سب تصورات عقل کے تشکیل کردہ ہیں۔ ان سے مقصدیت وابستہ کر دیں تو ان کا ایک مابعد الطبیعیاتی تصور بھی قائم ہو جاتا ہے۔
میں: خوشی ہوئی یہ سمجھ کر کہ آپ کا اخلاقی عملی پروجیکٹ حقیقت میں ایک ”سیکولر“ اخلاقی پروجیکٹ ہے، جو کہ عقل کا تابع ہے، لیکن اس میں مابعد الطبیعیاتی تصورات کی علامتی موجودگی آپ کے اس مقدمے کو ثابت کرتی ہے کہ جس کے تحت آپ نے عقل عملی کی حدود متعین کر کے عقیدے کے لیے راستہ کھول دیا۔
کمنت کیجے