Home » مردان میں ظلم اور جہالت کی انتہا
احوال وآثار سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

مردان میں ظلم اور جہالت کی انتہا

مردان میرا شہر ہے۔ کل میں مردان ہی میں تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد اسلام آباد کےلیے نکل پڑا۔ اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس دوران میں مردان کے مضافاتی علاقے ساول ڈھیر میں جہالت نے کتنے بڑے ظلم کو جنم دیا ہے۔ رات گئے بڑے بھائی نے کچھ وڈیوز اور کچھ مقامی صحافیوں کے بیانات بھیجے۔ بعض دیگر دوستوں نے بھی کچھ چیزیں صبح شیئر کیں۔ یہ سب پڑھ کر اور دیکھ کر شدید دکھ ہوا۔ کافی دیر تک تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں اور کیا لکھوں؟ اب کچھ حوصلہ ملا ہے، تو چند نکات پیشِ خدمت ہیں۔

واقعے کی نوعیت

ہوا یہ کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی مقامی قیادت نے ایک احتجاجی ریلی منعقد کی جس سے متعدد لوگوں نے خطاب کیا اور آخر میں، جیسا کہ خیبر پختونخوا میں عام دستور ہے، دعا کےلیے ایک مولوی کو بلایا گیا۔ مولوی مقامی سطح پر معروف تھے۔ تعویذ گنڈے بھی کیا کرتے تھے، عامل کے طور پر مشہور تھے اور شعلہ بیانی ان کی خصوصیات میں سے رہی ہے۔ مولوی صاحب کو بلایا دعا کےلیے گیا تھا لیکن انھوں نے مقامی مولویوں کے عام دستور کے مطابق دعا کے موقع کو تقریر کےلیے استعمال کیا اور تقریر میں مقامی سیاسی رہنما کی خوشامد کی روش بھی اختیار کی۔ یہ بھی عام دستور کے مطابق ہی ہوا۔ جلسوں میں دعا کےلیے بلائے جانے والے مولوی عام طور پر ایسا ہی کرتے ہیں۔خوشامد میں انھوں نے مبالغے کا بھی ارتکاب کیا اور یہ بھی عام دستور کے مطابق ہی ہوا۔ خوشامد میں مولوی صاحب نے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کی مثال دی اور یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ اپنی اپنی سیاسی پارٹی کو نوح علیہ السلام کی کشتی کے ساتھ تشبیہ دینا تو ایک عام رویہ ہے اور لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اس کشتی میں سوار ہونے والے ہی نجات یافتہ ہیں اور اس کشتی یعنی سیاسی پارٹی سے باہر کے لوگ نہ صرف گمراہ ہیں بلکہ عذاب کے بھی مستحق ہیں۔ یہاں تک تو کوئی بات انوکھی نہیں تھی۔

لاکن

مولوی صاحب نے اس سے آگے بڑھ کر کچھ مزید بھی کہا اور وہ نہ صرف عام طور پر کیے گئے مبالغے سے کہیں زیادہ تھا بلکہ یقیناً قابلِ اعتراض تھا۔ ان کے الفاظ اور ان کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:

“زہ بہ تاسو لہ نور سہ نہ شم وئیلے خو زہ بہ تاسو لہ د پیغمبر مقابل صحابی بہ ئے نہ گرزوم خو زہ ویم چہ زمونگ د ساول ڈھیر دپارہ دا سڑے چہ راغلے دے نو دا ھم د پیغمبرئ د درجے نہ کم نہ دے۔ درجہ ورتہ نہ ورکوو۔ درجہ ورتہ نہ ورکوو خو بہرحال ستاسو دپارہ ڈیر محترم سڑے دے او د سرہ تاسو پہ ایڑ باندے ۔۔۔ اوکئ”

ترجمہ: “میں آپ کو اور کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں آپ کو پیغمبر کے مقابل میں صحابی بھی نہیں قرار دے سکتا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے ساول ڈھیر کےلیے یہ آدمی جو آیا ہے تو یہ بھی پیغمبری کے درجے سے کم نہیں ہے۔ درجہ ہم نہیں دیتے۔ درجہ ہم نہیں دیتے لیکن بہرحال آپ کےلیے بہت محترم آدمی ہیں اور آپ سب مل کر اس کی۔۔۔ کریں۔”

درمیان میں ایک لفظ سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید انگریزی کا کوئی لفظ استعمال کیا ہے اور شاید مراد یہ ہے کہ آپ اس کی مدد کریں۔

مولوی صاحب کے ان الفاظ پر سامعین کی جانب سے فوری رد عمل سامنے آیا، بلکہ ان کے ساتھ کھڑے سیاسی رہنما، جن کی وہ مبالغہ آرائی کے ساتھ خوشامد کررہے تھے، نے بھی اس پر اعتراض کیا اور ان سے مائیک لینے کی کوشش کی اور انھیں یہ الفاظ بولنے سے روکا۔ ان کے روکے جانے پر ہی مولوی صاحب نے اپنی بات کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ہم درجہ تو نہیں دیتے لیکن یہ آدمی آپ کےلیے بہت محترم ہیں۔

مولوی صاحب نے جو کچھ کہا، اس کی بے ہودگی اپنی جگہ لیکن یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:

  • کیا ان الفاظ سے گستاخی، بالخصوص توہینِ رسالت، ثابت ہوتی ہے، یا یہ الفاظ بولنے والا شخص مرتد ہوجاتا ہے؟
  • کسی شخص کے الفاظ سے ارتداد یا توہین کا جرم واقع ہوتا ہو، تو اس کے خلاف کارروائی کےلیے شریعت نے کیا طریقہ مقرر کیا ہے؟
  • پاکستان کا قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ اور
  • پولیس، جو موقع پر موجود تھی، حسبِ معمول ہجوم کو روکنے میں ناکام کیوں رہی؟

توہینِ رسالت اور ارتداد میں فرق

ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے سے توہینِ رسالت کے موضوع پر جو جذباتی لٹریچر وجود میں آیا ہے، اس میں توہینِ رسالت اور ارتداد کے فرق کو سرے سے انداز کیا گیا ہے اور اب عوام تو کیا، علماے کرام بھی ان میں فرق کو بھول گئے ہیں، الا ما شاء اللہ۔

یاد دہانی کےلیے مختصراً عرض ہے کہ توہینِ رسالت اور ارتداد کے درمیان لزوم کا تعلق نہیں ہے، یعنی یہ ممکن ہے کہ کوئی فعل ارتداد ہو لیکن وہ توہینِ رسالت نہ ہو، اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی فعل توہینِ رسالت ہو لیکن وہ ارتداد نہ ہو۔ مثلاً غیر مسلم نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی، تو یہ توہینِ رسالت تو ہے لیکن اسے ارتداد نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح کسی مسلمان نے مسیحیت اختیار کرلی، تو وہ مرتد تو ہوا لیکن اسے توہینِ رسالت نہیں کہا جاسکتا۔

ہاں، کسی مسلمان نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا، تو اس پر لازماً مرتد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ مسلمان کےلیے توہینِ رسالت کی کوئی ایسی صورت فرض نہیں کی جاسکتی جس میں توہینِ رسالت تو ہو، لیکن ارتداد نہ ہو۔

یہ بھی یاد رہے کہ حنفی فقہاے کرام کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان اگر توہینِ رسالت کا ارتکاب  کرے، تو اس پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے (فحکمہ حکم المرتد۔۔۔ یفعل بہ ما یفعل بالمرتد) اور اگر توہینِ رسالت کا ارتکاب کوئی غیر مسلم کرے تو اس پر ارتداد کا نہیں بلکہ سیاسہ شرعیہ کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ (اس کی تفصیل میں کئی اردو اور انگریزی مقالات میں دے چکا ہوں۔ نیز اس موضوع پر علامہ ابن عابدین الشامی کے شہرۂ آفاق رسالے کا انگریزی ترجمہ بھی میں کرچکا ہوں جس پر تفصیلی حواشی کے علاوہ ایک مبسوط مقدمہ لکھنے کی بھی اللہ نے توفیق دی۔ تفصیلات وہاں ملاحظہ فرمائیں۔)

کیا اس ملزم نے توہینِ رسالت یا ارتداد کا ارتکاب کیا تھا؟

اب جہاں تک اس مولوی کی باتوں کا تعلق ہے، میں نے انھیں بار بار بغور سنا، سیاق و سباق بھی دیکھا اور پہلے اور بعد کا طرزِ عمل بھی۔ میری سوچی سمجھی راے ہے کہ اس کے الفاظ پر توہینِ رسالت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر اس کی بات کی تاویل نہ کی جائے، حالانکہ مسلمان کی بات کی مناسب تاویل لازم ہے اور اگر سو میں ننانوے تاویلات کفر کی ہوں اور ایک تاویل اسلام کی تو اسلام والی تاویل لینا واجب ہے، تو زیادہ سے زیادہ اس کے الفاظ کو ارتداد کا موجب قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد اس کی نیت کا پوچھنا بھی لازم تھا اور اسے رجوع کا موقع فراہم کرنا بھی واجب تھا۔

پھر چونکہ اس نے فوراً ہی کہا کہ “درجہ نہیں دیتے، درجہ نہیں دیتے لیکن بہرحال آپ کےلیے بہت محترم آدمی ہیں”، تو خواہ ان الفاظ کو اس کی پچھلی بات کی توضیح قرار دیں یا ان کی تصحیح، اور خواہ اس کی نیت ابتدا سے ہی درست تھی (جیسا کہ ہر مسلمان کے بارے میں فرض کرنا لازم ہے) یا اس نے فوراً رجوع کرلیا، ہر دو صورتوں میں اس پر نہ توہینِ رسالت کی سزا کا اطلاق ہوسکتا تھا، نہ ہی ارتداد کی سزا کا۔

پھر اگر اس کی باتوں پر ارتداد اور توہینِ رسالت کے احکام کا اطلاق کرنا بھی ہو، تو ان احکام میں حکم صرف “سر تن سے جدا” ہی نہیں ہے، بلکہ کچھ اور احکام بھی ہیں۔ اپنے ایک پرانے مضمون سے کچھ حصہ یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔

توہینِ رسالت اور ارتداد کے وہ احکام جو ہم بھول گئے ہیں۔

1۔ ارتداد کے احکام میں ایک اہم حکم یہ ہے کہ ارتداد کی سزا چونکہ حد ہے، اس لیے اس کے اثبات کے لیے ایک مخصوص ضابطہ ہے۔ اس مخصوص ضابطے کے سوا کسی اور طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

2۔ حد کی سزا’’ شبهة‘‘ سے ساقط ہوتی ہے۔ اب چونکہ حد ارتداد تکفیر کے بعد ہی نافذ کی جاسکتی ہے اس لیے کسی بھی ایسے قول یا فعل کی بنیاد پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی جس کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہو۔اسی طرح اگر کسی قول یا فعل کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ان میں کوئی تعبیر ایسی ہو جس کی رو سے اسے کفر نہ قرار دیا جاسکتا ہو تو اسی تعبیر کو اپنایا جائے گا۔چنانچہ ملزم سے پوچھا جائے گا کہ اس قول یا فعل سے اس کی مراد کیا تھی، الا یہ کہ وہ کفر بواح کا مرتکب ہوا ہو۔ اگر ملزم کفر سے انکاری ہو تو اس کے انکار کو قبول کیا جائے گا خواہ اس کے خلاف گواہ موجود ہوں کیونکہ اس کے اس انکار کو رجوع اور توبہ سمجھا جائے گا۔

3۔ اگر اقرار یا گواہی کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزم کا متعلقہ قول یا فعل ارتداد کے زمرے میں آتا ہے تو عدالت اسے توبہ کے لیے تلقین کرے گی اور سوچ بچار کے لیے تین دن کی مہلت دے گی۔ اگر وہ اس کے بعد بھی اپنے اس قول یا فعل سے رجوع کرکے اس سے مکمل براء ت کا اظہار نہ کرے تب عدالت اسے سزا سنائے گی اور یہ سزا ناقابل معافی ہوگی۔ پوری امت کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس سزا کو نافذ کرے۔

4۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ چونکہ ارتداد کی سزا حد ہے اس لیے اس کا نفاذ افراد کاکام نہیں، بلکہ حکومت کا کام ہے، نہ کہ ہجوم  اور ریوڑ کا۔

ہجوم سزا نہیں دیتا، فساد کرتا ہے۔

پھر ہجوم یا ریوڑ یہ بھی نہیں کرتا کہ وہ ملزم کو پکڑ کر اس سے پوچھ گچھ کرکے، اس کے خلاف شواہد کو بنیاد بنا کر اسے سزا سنا دے اور پھر اس سزا کا نفاذ کرے، بلکہ ہجوم یا ریوڑ تو یہ کرتا ہے کہ جسے اس نے (ملزم ہی نہیں) مجرم مان لیا ہے، یہ ہجوم یا ریوڑ اس پر پِل پڑتا ہے اور پھر انتہائی وحشیانہ طریقے سے اسے قتل کردیتا ہے اور پھر اس کی موت کے بعد اس کی لاش کو بھی جانوروں کی طرح بھبھوڑتا ہے۔ یہ کہاں کی مسلمانی ہے اور یہ کیسا عشقِ رسول ہے؟

اس فساد کے متعلق شرعی احکام کی کچھ تفصیل ایک پرانے مضمون سے پیشِ خدمت ہے۔

توہین کے ملزم کو قانونی کارروائی کے بغیر قتل کرنا فساد ہے۔

اگر کسی شخص نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر حد کے مجرم کو سزا دی تو فقہا اسے افتیات سے تعبیر کرتے ہیں اور یہاں دو صورتیں ذکر کرتے ہیں:

الف۔ ایک یہ کہ اس نے حد کے بجائے کچھ اور سزا دی تو ظاہر ہے کہ وہ فساد کا مرتکب ہوا اور اس لیے مناسب سزا کا مستحق بھی ہے ؛

ب۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس نے حد کی مقررہ سزا ہی دی اور سزا کے نفاذ کی شروط کا لحاظ رکھا، تب بھی افتیات کے مرتکب اس شخص کو حق الامام کی پامالی، یا بہ الفاظ دیگر فساد کے ارتکاب، پر حکمران مناسب سزا دے سکتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ حکم وہاں ہے جہاں پہلے سے ہی ثابت ہو کہ قانون ہاتھ میں لے کر جس شخص کو سزا دی گئی اس نے حد کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اگر پہلے یا بعد میں اس کا جرم ثابت نہیں کیا جاسکا تو پھر قانون ہاتھ میں لینے والا یہ شخص اس عدوان کے لیے الگ سزا کا مستحق ہوگا جو اس نے اس شخص پر کیا تھا۔

اگر مقتول کو مقررہ ضابطے پر گستاخ رسول اور مرتد ثابت نہ کیا جاسکا تو قاتل کو مومن کے قتل عمد کا ذمہ دار ٹھہرا کر قصاصاً سزاے موت دی جائے گی۔ نیز اسے فساد کے ارتکاب کی وجہ سے بطورِ سیاسہ کوئی اور مناسب سزا بھی دی جاسکے گی۔

پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے قانون میں ارتداد کی ہر قسم پر سزا مقرر نہیں ہے، بلکہ اس کی بعض صورتوں پر ہی سزا مقرر کی گئی ہے۔

چنانچہ توہینِ قرآن کا ارتکاب اگر مسلمان کرے، تو شرعاً اس پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے اور پاکستان  میں اس پر سزا مقرر ہے لیکن یہ سزا موت کی نہیں، بلکہ عمر قید کی ہے۔ (مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-بی)

دیگر مقدسات کی توہین، یہاں تک کہ خدا کی توہین، پر بھی سزاے موت نہیں ہے، حالانکہ ان میں بھی بعض صورتوں میں شرعاً ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے۔ البتہ پاکستان میں ان پر تعزیری سزا موجود ہے۔ (دیکھیے: ایضاً، دفعات 295، 295-اےاور 298)

البتہ اگر ارتداد توہینِ رسالت کی صورت میں ہو، تو اس پر پاکستان کے قانون میں سزاے موت ہے۔ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی میں اگرچہ سزاے موت یا عمر قید کے الفاظ ہیں لیکن “یا عمر قید” کے الفاظ کو وفاقی شرعی عدالت نے اسماعیل قریشی کیس میں کالعدم کردیا ہے اور اب اس پر سزاے موت ہی دی جاسکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس فیصلے میں توہینِ رسالت کےلیے سزاے موت کو حد ہی قرار دیا ہے اور اس کےلیے بنیادی طورپر ارتداد کی سزا سے استدلال کیا ہے۔ اس فیصلے پر تفصیلی تنقید میرے مقالات اور کتاب میں موجود ہے۔

اس وقت پاکستان میں توہینِ رسالت کی سزا کا جو قانون موجود ہے، اس میں بھی شرعی لحاظ سے کئی سقم ہیں جن کی نشان دہی میں وقتاً فوقتاً کرتا رہا ہوں۔ ایک پرانے مضمون سے چند نکات پیشِ خدمت ہیں۔

توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں سقم

ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کی رو سے مسلمان اور غیرمسلم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا؛

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون میں ملزم کی نیت اور ارادے کو سرے سے غیرمتعلق قرار دیا گیا ہے؛

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون میں ملزم/مجرم کی جانب سے توبہ اور رجوع کےلیے، یا موت کے سوا کسی اور سزا کےلیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی؛

چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون میں ، باوجود اس کے کہ اس جرم کو حدود میں شمار سمجھا گیا ہے، جرم کے ثابت کرنے کےلیے حدود کے معیارِ ثبوت کو مقرر نہیں کیا گیا، نہ ہی اسلامی قانون کے تصورِ “شبہہ” کا کچھ خیال رکھا گیا ہے حالانکہ حدود کی سزائیں “شبہہ” کی بنا پر ساقط ہوجاتی ہیں ۔ (یاد رکھیے کہ شبہہ سے یہاں مراد Benefit of the Doubt نہیں بلکہ Mistake of Law کی کچھ قسمیں ہیں۔)

ان چار بنیادی مسائل کی بنا پر یہ قانون انتہائی زیادہ سخت ہوگیا ہے اور اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کےلیے یہ ایک بڑا سبب ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علماے کرام خود اس قانون کے جائزے اور ان مسائل کے حل کےلیے مل بیٹھ کر اس قانون میں بہتری کی تجاویز سامنے لے آئیں۔ اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اس قانون کا سوء استعمال اس طور پر ہوتا رہے گا کہ فرقہ وارانہ اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہوگی لیکن اس کا عدم استعمال اس طور پر جاری رہے گا کہ عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکے گی۔ یوں یہ مسئلہ جوں کا توں باقی رہے گا اور جب کبھی توہینِ رسالت کے کسی ملزم کا ماوراے عدالت قتل ہوگا تو قوم اسی طرح تقسیم ہوگی، اسی طرح چند دن بحث میں مبتلا رہے گی اور پھر کسی نئے ایشو کی طرف رخ کرلے گی۔

اس قانون کے سوء استعمال کو روکنے کی ایک کوشش جنرل مشرف کے دور میں ہوئی جب اس قانون کے بجاے اس پر عمل کے طریقِ کار ، یعنی Procedure، میں یہ تبدیلی کی گئی کہ اس قانون کے تحت ایف آئی آر کاٹنے سے قبل ایس پی کی سطح کے افسر کی جانب سے تفتیش کو ضروری قرار دیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی نے سوء استعمال کو تو نہیں روکا لیکن قانون کو غیرمؤثر ضرور کردیا ہے ۔

ہمارے نزدیک طریقِ کار کی یہ تبدیلی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ اصل حل یہ ہے کہ اس قانون میں موجود مذکورہ بالا چار مسائل  دور کیے جائیں۔اس کے بعد اس قانون کا سوء استعمال بڑی حد تک رک جائے گا۔

اس قانون کے مؤثر نفاذ کا مسئلہ

اس کےلیے ضرورت اس امر کی ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات کے فیصلے کےلیے خصوصی عدالتیں ہوں جہاں صرف انھی مقدمات کی سماعت ہو تاکہ یہ گلہ دور کیا جاسکے، جو بے بنیاد بالکل بھی نہیں ہے ، کہ صرف ماتحت عدالت میں ہی توہین رسالت کے ایک مقدمے کی سماعت میں سالہاسال لگ جاتے ہیں۔ (ملتان میں جنید حفیظ کے خلاف مقدمہ 2013ء میں دائر کیا گیا لیکن ماتحت عدالت کی جانب سے فیصلہ 2019ء میں سنایا گیا، یعنی چھے سال بعد!) سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کے مقدمات کےلیے خصوصی عدالتیں ہوسکتی ہیں، بینکوں کے تنازعات کےلیے خصوصی عدالتیں ہوسکتی ہیں، بلکہ نکاح و طلاق کے مقدمات کےلیے بھی خصوصی عدالتیں ہوسکتی ہیں، تو توہینِ رسالت کے مقدمات کےلیے خصوصی عدالتیں کیوں نہیں ہوسکتیں؟

توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام پر سزا

پہلی بات یہ ہے کہ الزام ثابت نہ کرسکنا اور الزام کا جھوٹا ثابت ہوجانا ، دو الگ باتیں ہیں۔ ملزم بری ہوجانے سے الزام لگانے والے  کا جھوٹا ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، بالخصوص جہاں ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کیا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے قانونی نظام کی رو سے الزام کا ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے، نہ کہ شکایت کنندہ کا۔ قانون کا مفروضہ یہ ہے کہ شکایت کنندہ نے تو جرم کے وقوع کی اطلاع دے کر ریاست کی مدد کی ہے۔ اب ریاستی اداروں، بالخصوص پولیس کے تفتیشی افسران، کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرم کے متعلق ثبوت اور شواہد اکٹھے کریں اور مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔ اگر پولیس اس معاملے میں کام چوری یا خیانت کرتی ہے تو اس کی ذمہ داری شکایت کنندہ پر عائد نہیں ہوسکتی۔

البتہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے خلاف جھوٹی شکایت کرے، جھوٹا مقدمہ دائر کرے یا جھوٹے گواہ بنائے یا شواہد گھڑے۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ انصاف کے نظام کو ظلم کےلیے استعمال کرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس کوشش کی مختلف قسموں پر اسے مختلف سزائیں دی جاسکتی ہیں اور اس کےلیے قانون میں پہلے ہی سے مناسب دفعات موجود ہیں۔

مثلاً مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 250 میں عدالت کو اختیار دیا گیا ہےکہ اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ شکایت کنندہ  نے جھوٹا مقدمہ دائر کیا تھا، تو وہ ملزم کو بری کرنے کے حکم کے ساتھ شکایت کنندہ کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دے سکتی ہے۔

پھر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 182 میں قرار دیا گیا ہے کہ پولیس یا دیگر حکام کو جرم کے متعلق جھوٹی اطلاع پہنچانے والے کو سات سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے، اگر اس نے ایسے جرم کے متعلق جھوٹی اطلاع دی ہو جس کے سچا ثابت ہونے پر مجرم کو سزاے موت دی جاتی۔ چونکہ توہینِ رسالت کی سزا پاکستان میں موت ہے، اس لیے اس قانون کی رو سے اس شخص کو سات سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے جس نے کسی شخص کی جانب سے توہینِ رسالت کے ارتکاب کی جھوٹی اطلاع پولیس تک پہنچائی ہو۔

مزید دیکھیے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 211 کے تحت یہی سات سال تک قید کی سزا ایسا جھوٹا مقدمہ دائر کرنے پر بھی ہے جس کے سچا ثابت ہونے پر مجرم کو سزاے موت دی جاتی۔

مزید دیکھیے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 181 کے تحت جھوٹا بیانِ حلفی دینے والے کو تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

کیا یہ سزائیں توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات کی روک تھام کےلیے کافی نہیں ہیں؟

ہاں، اگر عدالت میں یہ ثابت ہوجائے کہ شکایت کنندہ نے صرف جھوٹا مقدمہ ہی دائر نہیں کیا، یا صرف جھوٹی اطلاع ہی نہیں دی، یا صرف جھوٹا بیانِ حلفی ہی نہیں دیا، بلکہ اس نے ایسے الفاظ گھڑ کر، یا ثبوت گھڑ کر، ملزم کی طرف منسوب کیے ہیں جو توہینِ رسالت پر مبنی ہیں، تو اس صورت میں یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ شکایت کنندہ نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے خلاف توہینِ رسالت کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

اس ایک صورت کے سوا، عام طور پر ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ دینا کہ جو توہین کا الزام ثابت نہ کرسکا، اسے توہین کی سزا دی جائے، انتہائی غلط ہے۔

آخری سوال یہ ہے کہ جب جھوٹی شکایت، جھوٹے مقدمے اور جھوٹے بیانِ حلفی پر سزائیں موجود ہیں، تو پھر لوگ جھوٹے مقدمات بنا کر بچ کیسے جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف توہینِ رسالت کے جرم کا نہیں، بلکہ دیگر جرائم کا بھی ہے۔ کیا قتل کے جھوٹے مقدمات نہیں بنائے جاتے؟ جھوٹی گواہیاں نہیں دی جاتیں؟ جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج نہیں کیا جاتا؟ اس سب کچھ کا سبب یہ نہیں کہ ان کو روکنے کےلیے قانون موجود نہیں، بلکہ سبب یہ ہے کہ قانون پر عمل نہیں ہوتا اور یہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی عمومی لاقانونیت کا نتیجہ ہے۔ اس عمومی اخلاقی فساد کی موجودگی میں یہ توقع رکھنا کہ کوئی نیا قانون بنا کر آپ جرم کے سدّ باب میں کامیاب ہوجائیں گے، محض دیوانے کا خواب ہے۔

ہمارے ہاں یہ پرتشدد رویہ آیا کہاں سے ہے؟

2021ء میں جب سیالکوٹ میں اسی نوعیت کا ظلم ہوا تھا، تو اس پر میں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی خصوصی میٹنگ میں جو کچھ کہا تھا، اس کا کچھ حصہ یہاں پیشِ خدمت ہے۔

کیا اس کی جڑیں واقعی ہماری مذہبی روایت میں پائی جاتی ہیں یا یہ معاشرے میں پائی جانے والی عمومی لاقانونیت اور بے چینی کے بہت سے مظاہر میں ایک مظہر ہے؟ کیا جب قومی مفاد کے نام پر طاقت کے بل بوتے پر ملک کے آئین کو معطل کردیا جاتا ہے اور اس فعل کا ارتکاب کرنے والے عدالت اور قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں، باوجود اس کے کہ ملک کا آئین اس فعل کو سنگین غداری سے تعبیر کرتا ہے، تو کیا اس طرح ملک کا طاقتور طبقہ اپنے طرزِ عمل سے پورے معاشرے کو یہ پیغام نہیں دے رہا کہ قانون کو ہاتھ میں لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے، اگر آپ اپنے تئیں خود کو درست سمجھتے ہوں؟ کیا عوام تک یہ تاثر صاحبانِ اقتدار و اختیار کی طرف سے نہیں پہنچا؟ میرے نزدیک یہ مسئلے کی جڑ ہے اور اگر اس مسئلے کو جڑ سے پکڑنا ہے اور اس فساد کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو اس کا واحد مؤثر اور یقینی حل یہ ہے کہ معاشرے کا بالادست طبقہ قانون کی حکمرانی کا علمبردار بن جائے۔ جب تک یہ بالادست طبقہ خود قانون کی بالادستی تسلیم نہیں کرتا اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کو معمولی کام سمجھتا ہے، عوام سے قانون کی حکمرانی منوانا ممکن نہیں ہے۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ایک عام انسان جو عام حالات میں کسی چیونٹی کو بھی کچلنے سے کتراتا ہے، کیسے بھیڑ اور ہجوم کا حصہ بن کر ایسی درندگی کا ارتکاب کربیٹھتا ہے جس کا شاید وہ خود بھی تصور نہیں کرسکتا تھا؟ ہجوم کی نفسیات کے خصوصی مطالعے کی ضرورت ہے۔ کیسے ہجوم کا حصہ بن کر کسی فرد کی انفرادی شخصیت پس منظر میں چلی جاتی ہے اور گروہی شناخت، عصبیت اور نفسیات کو بالاتر حیثت حاصل ہوجاتی ہے؟ اس کے بعد اخلاقی لا تعلقی کی ڈھال تعمیر کی جاتی ہے کہ گروہ کے ہدف کو ایک ایسا غیرانسانی وجود فرض کرلیا جاتا ہے جس کے ساتھ جتنا سخت سلوک کیا جائے، کم نظر آتا ہے، اور پھر نہ صرف اسے وحشیانہ طریقے سے کچلنا جائز ہوجاتا ہے بلکہ اس کی لاش کو جلا کر بھی تسکین نہیں ملتی!

اس مسئلے کا ایک سبب کم علمی ہے، جیسے چرچ پر حملہ کرنے والے گروہ میں شامل ایک نوجوان کا موقف یہ تھا کہ وہ امریکا میں ایک پادری کے قرآن جلانے کا ‘قصاص’ لینا چاہتے تھے! اب اس بے چارے کو واقعی یہ علم نہیں تھا کہ ایک کے کیے کی سزا دوسرے کو دینا قصاص نہیں بلکہ ظلم ہے۔ تاہم یہ کم علمی ہی اس کا واحد سبب نہیں ہے۔ بسا اوقات علم کے باوجود بھی ہجوم کا حصہ بن کر انسان یہ سب کچھ کرگزرتا ہے۔ ایسے میں کیا چیز ہے جو انسان کو روک دیتی ہے، یا روک سکتی ہے؟ مثلا اس نوجوان نے بتایا کہ جب اس کا ایک ساتھی توڑ پھوڑ کرتا ہوا چرچ کی عمارت کی چھت پر پہنچا تاکہ وہاں سے صلیب گرادے، تو اچانک ہی رک گیا اور پھر واپس آگیا۔ جب اس سے پوچھا گیا، تو اس نے جواب دیا کہ وہاں انجیل کی آیت میں خدا کا نام لکھا ہوا تھا اور اس کے اوپر میں چڑھ نہیں سکتا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ خدا کے احکام پر چڑھائی کرنے والے خدا کا نام دیکھ کر رک بھی جاتے ہیں!

انسانوں کی وحشت و بربریت کا مظاہرہ جنگوں میں بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے اس موضوع پر ایک اہم تحقیق کی کہ اس وحشت وبربریت کے اسباب معلوم کیے جائیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس تحقیق کو پہلے Roots of Behaviour in War کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ بعد میں اس میں مزید اضافہ کرکے اس کو Roots of Restraint in War کا عنوان دیا گیا۔ ہم نے پاکستان کے پس منظر میں اور اسلامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں اسی نوعیت کی ایک ابتدائی تحقیق کی ہے جسے ریڈ کراس کمیٹی نے ہی شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے: Islamic Perspective on the Roots of Restraint in War: A Case Study of Pakistan۔ میری تجویز ہوگی کہ پالیسی سازی اور قانون سازی کےلیے اس طرح کی تحقیقات کو ضرور مد نظر رکھا جائے۔

پس چہ باید کرد؟

سانحۂ سیالکوٹ کے سیاق میں ایک صاحبِ علم نے مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب جاوید احمد غامدی کی راے پر انحصار کرتے ہوئے یہ تجویز دی تھی کہ ہجوم میں شامل سب افراد کو “محاربہ” کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر سورۃ المآئدۃ کی ایت 32 کا اطلاق کیا جائے اور ان کو محاربہ کی سزا دی جائے، بجاے اس کے کہ ہر فرد کی الگ فوجداری ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔ انھوں نے اس ضمن میں اہل صنعاء کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مشہور قول کا حوالہ بھی دیا جسے فقہ کی کتب میں عموما “قتل الجماعۃ بالواحد” (ایک مقتول کے کئی قاتلین کی سزاے موت) کے عنوان کے تحت ذکر کیا جاتا ہے۔

اس پر میں نے عرض کیا تھا:

محترم ۔۔۔ نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ سورۃ المآئدۃ کی مذکورہ آیت میں بھی جرم کی ایک نہیں بلکہ چار سزائیں رکھی گئی ہیں اور اگر فقہاے کرام کی تحقیق کو نظرانداز کرکے صرف مولانا اصلاحی اور جناب غامدی کی راے کو ہی دیکھا جائے، تب بھی اتنی بات تو ماننی پڑے گی کہ سزا اور جرم میں نسبت و تناسب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ یہ دیکھنا تو بہرحال ضروری ہے کہ جرم میں کس کا کتنا حصہ تھا اور کس کو کس حد تک ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے بھی یہ تو ضرور دیکھنا چاہیے کہ کیا اس گروہ نے مل کر اس ایک فرد کے قتل کی منصوبہ بندی کی یا موقع پر ہی ہجوم بنا اور کسی ابتدائی منصوبہ بندی کے بجاے بس لوگ لہر اور رو میں بہہ گئے؟ اسی سوال کے جواب کےلیے ہمارے ہاں قانون میں بھی “مشترک ارادہ” (common intention) اور “مشترک ہدف” (common object) کی اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ دیکھیے، مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 34 اور دفعہ 149۔ نیز فوجداری قانون کا بنیادی اصول فرد کی انفرادی ذمہ داری کا ہے۔ ہر فرد کو اس کے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔ ہجوم کا حصہ بننا بھی جرم ہے اور قتل بھی جرم ہے لیکن قانون بہرحال مباشر اور متسبب کا فرق دیکھتا ہے اور سببِ قریب اور سببِ بعید میں فرق کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ پولیس ، تفتیش اور پروسیکیوشن سب کی کارکردگی پر نظر رکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔

مثلا پولیس کی جانب سے ۔۔۔ نے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ تمام ملزمان گرفتار کرلیے گئے ہیں، کوئی مفرور باقی نہیں رہا، اور یہ کہ “پولیس نے صرف تعداد ہی پوری نہیں کی۔” یہ آخری جملہ خود شاہد ہے کہ پولیس پر لوگوں کو اعتماد نہیں ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ وہ صرف تعداد پوری کرنے کےلیے بہت سارے لوگوں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ ان میں سے کئی ایک بے گناہ بھی ہوسکتے ہیں۔ کئی ایک ایسے بھی ہوں گے جو اس سے قبل کسی جرم میں ملوث رہے ہوں گے اور اس بنا پر پولیس کی نظر میں مشتبہ ہوں گے لیکن اس مخصوص موقع پر اس مخصوص جرم میں ان کی شرکت کا ثبوت فراہم کرنا بہرحال پولیس، تفتیش اور استغاثہ کی ذمہ داری ہے۔ ثبوت ایسے ہوں جو ان کی جانب سے جرم کا ارتکاب اس طور پر یقینی دکھائیں کہ شک کی گنجائش باقی نہ رہے، تبھی عدالت سزائیں دے سکے گی، ورنہ پھر ہوگا یہ کہ عدالت عدمِ ثبوت کی بنا پر بری کردے گی اور لوگ عدالت کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیں گے۔

پولیس کی جانب سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ہجوم کے جرم کے متعلق نئی قانون سازی کی جائے کیونکہ پہلے سے موجود قوانین کے ذریعے ایسے جرائم سے نمٹنا مشکل ہے۔ میری راے اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ پاکستان میں مسئلہ قوانین کی عدم موجودگی یا قلت کا نہیں، بلکہ قوانین کی کثرت کا ہے اور میں قانون کے ایک طالب علم کے طور پر یقین رکھتا ہوں کہ کسی نئی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اصل ضرورت قوانین کے مؤثر نفاذ کی ہے۔ اس وقت بھی مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی جرم پر کئی قوانین کا بیک وقت اطلاق ہوتا ہے اور اس وجہ سے غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ یقین نہ ہو، تو فساد فی الارض کے متعلق مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 311 کے اطلاق کے متعلق عدالتی فیصلے دیکھ لیجیے۔ اسی طرح پولیس ہر معاملے میں دہشت گردی کی دفعات ڈالنا ضروری سمجھتی ہے کیونکہ اس طرح ملزم کی ضمانت مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوجاتی ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہر جرم کو دہشت گردی قرار دے کر دہشت گردی کی دہشت ختم کردی گئی ہے۔ نیز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔

البتہ توہینِ رسالت کی سزا کے متعلق قانون پر نظرِ ثانی کرنے اور اس میں بہتری لانے کی ضرورت یقینا ہےاور اس پر میں پہلے ہی بات کرچکا ہوں۔

ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں