عمران شاہد بھنڈر
ارسطو کے لاجک کا پہلا قانون ہے کہ کوئی بھی شے صرف اپنے برابر ہوتی ہے۔ جیسا کہ اے برابر اے۔
لاجک کا دوسرا قانون یہ ہے کہ اے کبھی بھی ناٹ اے نہیں ہوتا۔
ان دونوں قوانین پر ارسطو نے اپنی کتاب “میٹافزکس” کی کتاب ِچار میں بحث کی ہے۔ ارسطو نے پہلے اور دوسرے قانون کی وضاحت کے لیے انسان کی مثال پیش کی ہے کہ انسان صرف انسان ہوتا ہے، وہ غیر انسان نہیں ہو سکتا۔ ظاہری یا تجریدی سطح پر ان قوانین میں سچائی موجود ہے۔ لیکن جونہی ہم زیادہ پیچیدہ مراحل میں داخل ہوتے ہیں تو یہ قوانین ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتے۔ ہیگل نے ارسطو کے ان قوانین پر تفصیل سے کام کیا ہے اور دونوں قوانین کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
ارسطو کے مطابق اے برابر اے ہوتا ہے، لیکن اے، ناٹ اے کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ناٹ اے سے یہاں مراد ہر اس شے سے ہے جو اے نہیں ہے۔ مثلا انسان صرف انسان کے برابر ہوتا ہے، وہ کبھی ناٹ انسان کے برابر نہیں ہوتا۔
ہیگل کے مطابق اے برابر ہے ناٹ اے۔ ہیگل کے مطابق تجریدی یا یونیورسل یا وجود ِمحض انسان، گھوڑا، بلی وغیرہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور تجریدی سطح پر جہاں انسان ناٹ انسان کے برابر ہوتا ہے وہاں بلی، ناٹ بلی کے برابر ہوتی ہے۔ کیونکہ تجریدی سطح پر دونوں کے ہی خصائص کا تعین نہیں کیا گیا۔ لہذا ان معنوں میں اے برابر ناٹ اے ہوتا ہے۔ اس طرح ہیگل نے ارسطو کے پہلے دو قوانین کو ایک ہی جگہ پر تشکیل دے دیا ہے۔
ارسطو کے قانونِ شناخت کے مطابق کوئی بھی شے (اے) صرف اپنے برابر ہوتی ہے اور دوسری شے (بی) بھی صرف اپنے برابر ہوتی ہے۔ لیکن اے اور بی کے درمیان فرق قائم کرنے کے لیے دونوں کا ’ہونا‘ ضروری ہے، بصورتِ دیگر اے کی شناخت بھی ممکن نہیں ہو گی، یا یوں کہیں کہ اے کی شناخت تجریدی ہوگی، جبکہ ’فرق‘ ایک ایسا مقولہ ہے جو اے کے بی سے ربط (Mediation) سے پیدا ہوتا ہے۔ ہیگل یہ تسلیم کرتا ہے کہ جب تک اے ’دوسرے‘ سے ربط میں نہ آئے اس وقت تک وہ ایک ”مطلق شناخت“ رکھتا ہے جس کو ’ممیز‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ہیگل کے الفاظ دیکھیے،
It is possible to define being as A=A, as ‘Absolute Indifference’ or Identity and so on. SL, Section, 86
یہاں پر ہیگل ارسطو سے متفق ہے، اس اضافے کے ساتھ کہ یہ ایک ’شناخت‘ ہے، یا اسے ایسی شناخت کہہ سکتے ہیں جو ”مطلق عدم افتراق“ کی بنیاد پر تجریدی نوعیت کی ہے۔ تاہم دوسرے سے ’ربط‘ کے بعد جو فلسفیانہ مقولہ مستخرج ہوتا ہے وہ ’افتراق‘ ہے جو اے اپنے دوسرے سے رکھتا ہے۔ آئیے اس مقولے کو تھوڑا قریب سے دیکھتے ہیں۔ پہلے ہیگل کے الفاظ ملاحظہ کیجیے،
ؑEverything is identical with itself, A=A: and, negatively, A cannot at the same time be A and not A. This maxim, instead of being a true law of thought, is nothing but the law of abstract understanding. Logic, Section, 115
اے برابر اے ایک مطلق عدم افتراق ہے، جو کہ فہم کا قانون ہے نہ کہ حسیات کا۔ تجریدی فہم کے یونیورسل قانون کی نفی جزئی یا حسی سے ہوتی ہے اور فہم کا تجریدی قانون جزئی یا پارٹیکولر میں تبدیل ہوتا ہے۔ نکتے کو سمجھنے کی غرض سے اے اور بی کی مثال کو ذہن میں رکھیں۔ جب اے ’دوسرے‘ سے ربط میں آتا ہے تو (بی) سے ربط میں آکر افتراق کا مقولہ پیدا ہوا۔ لیکن اہم ترین سوال یہاں پر یہ ہے کہ ’فرق‘ کا مقولہ کہاں سے اخذ ہوا یا یہ کہاں واقع ہے؟ اے میں عدم افتراق اور بی کے ساتھ افتراق اخذ ہوا، تو کیا افتراق بی کے اندر واقع ہے؟ لیکن اگر ہم اے کو ہٹا لیں اور اے کی جگہ بی کو لاکر تجزیہ کریں تو بی میں بھی اسی طرح عدم افتراق ہوگا اور دونوں ہی ربط میں آنے سے قبل فہم کے تجریدی قانون کے پابند ہوں گے۔ لہذا اے کے سامنے آنے سے بی کے عدم افتراق کا خاتمہ ہوا، دونوں کا عدم افتراق فرق میں بدل گیا۔ خود ہیگل یہ واضح کرتا ہے کہ جب تک ’دوسرا‘ نہ ہو، شناخت تجریدی ہی رہتی ہے اور صرف فرق کی بنیاد پر ہی ”حقیقی“ شناخت قائم ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ یہ افتراق دراصل ہے کہاں جو کہ ’دوسرے‘ سے ارتباط کے بعد نمایاں ہوا ہے؟ اگر تو یہ افتراق اے اور بی دونوں میں ہے تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اے کا فرق اے کے اندر اور بی کا فرق بی کے اندر ہے۔ لہذا اے ہی ہے جو کہ خود میں ناٹ اے کو رکھتا ہے، اور بی ہی ہے جس میں ناٹ بی موجود ہے۔ یہ جو خارجی ہمیں دکھائی دیتا ہے یہ دراصل اس تجریدی اے اور بی کے اندر ہے۔ ہیگل لکھتا ہے،
Essence is mere identity and reflection in itself only as it is self relating negativity, and in that way self repulsion. It contains therefore essentially the characteristic of Difference. SL, Section, 116
مطلب یہ کہ اے کا جوہر اے کے خود سے متعلق ہونے اور خود میں منعکس ہونے میں ہے۔ یہ نفی کسی خارجی وجود کی نہیں بلکہ اے کے اندر اے کی نفی ہے، جسے کہ ناٹ اے کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر وضاحت کی ہے کہ فہم کا تجریدی، یونیورسل اے جب حسی پارٹیکولر سے خود کی نفی کرتا ہے تو وہی جزئی ہے جو کہ ناٹ اے کہلاتا ہے۔ لہذا افتراق کا مقولہ ارسطوئی منطق کے مفہوم میں خارج میں نہیں بلکہ اے کے اندر ہے۔ جبکہ ارسطو کے پہلے دونوں قوانین کے تحت اے اور بی ایک دوسرے کو خارج کرتے ہوئے ”مطلق عدم افتراق“ کی بنیاد پر تجریدی شناخت کے حامل ٹھہرتے ہیں۔ لہذا ہیگلیائی منطق کے تحت ارسطو اے کے اندر اے کا فرق اور بی کے اندر بی کے فرق کو نہ دیکھ سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب فلسفہ کے استاد اور اسی موضوع کی کئی کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے