Home » مخاطبہء الہی کے مختلف درجات اور ابن عربی
اسلامی فکری روایت کلام

مخاطبہء الہی کے مختلف درجات اور ابن عربی

ڈاکٹر عمار خان ناصر

شیخ اکبرؒ کے تصور نبوت پر وقتاً‌ فوقتاً‌ بات چلتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر زاہد مغل صاحب نے اس پر تفصیلی کتاب بھی لکھی ہے۔ ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ شیخ کی تعبیر کو اور قادیانی تعبیر کو ایک کہنا مشکل ہے، کیونکہ ایک بہت بنیادی اور اہم فرق موجود ہے۔ البتہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے فہم کے مطابق، شیخ کی تعبیر ایک پہلو سے محدثین ومتکلمین کی عمومی تعبیر سے بھی مختلف ہے اور اس اختلاف کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کی وضاحت کے لیے ابن حزمؒ کی تعبیر کا حوالہ دیا جاتا ہےکیونکہ وہ اس فرق کی وضاحت کے لیے کارآمد ہے۔

سو جاننا چاہیے کہ لغوی مفہوم کے لحاظ سے (نہ کہ دینی اصطلاح کے لحاظ سے) اگر نبوت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی نوعیت کی راہنمائی کے معنوں میں لیا جائے جو تمام مخلوقات کے لیے عام ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔ یہ اصطلاح کا مسئلہ ہے اور ابن حزم کے ہاں بھی نبوت کی تعبیر اس وسیع تر مفہوم کے لیے مستعمل ہے جس کی وضاحت ’’الفصل’’ میں موجود ہے۔ وہ تو انسانی زبانوں اور صنعت وحرفت کے عام تجربی علوم کے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ سکھائے جانے کے قائل ہیں اور اس تعلیم کو ’’نبوت’’ ہی کی ایک شکل قرار دیتے ہیں۔ اسی سے پھر وہ اصطلاحی نبوت کا جواز اور ضرورت اخذ کرتے ہیں۔

اللہ کی طرف سے راہنمائی کا ایک خاص طریقہ کچھ انسانوں کے ساتھ براہ راست یا کسی واسطے سے کمیونیکیشن کرنا ہے۔ اس کا ایک درجہ یہ ہو سکتا ہے کہ کمیونیکیشن کے من جانب اللہ ہونے پر انسان کو تیقن نہ ہو اور اس میں غلطی کا بھی امکان ہو۔ علم کلام میں اس کے لیے ’’الہام’’ کی تعبیر اختیار کی جاتی ہے اور اس کا امکان ختم نبوت کے بعد بھی مانا جاتا ہے۔

دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ کمیونیکیشن کے مخاطب انسان کو اس کی صداقت میں کوئی تردد نہ ہو اور وہ وحی یا غیبی آواز یا فرشتے کے ذریعے سے ملنے والے پیغام کو اس یقین کے ساتھ قبول کرے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ تاہم کمیونیکیشن کی یہ صورت انبیاء کے ساتھ خاص نہیں رہی۔ حدیث کی رو سے سابقہ امم میں بھی کچھ لوگوں کے ساتھ تکریماً‌ بعض اوقات یہ ابلاغ کیا جاتا تھا اور اس امت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا امکان بیان فرمایا۔

مخاطبہ الٰہی کا سب سے کامل مرتبہ منصب نبوت پر فائز کیا جانا ہے۔ اس میں خطاب کے مصدر سے متعلق بھی تیقن ہوتا ہے اور یہ مخاطبہ احیاناً‌ یا اتفاقاً‌ نہیں ہوتا، بلکہ کچھ مقرب بندوں کا اصطفاء وانتخاب کر کے ان کے ساتھ ابلاغ کا ایک مستقل رشتہ قائم کر لیا جاتا ہے۔ علماء کی ایک بڑی جماعت کی یہ رائے ہے اور شواہد سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ اس اصطفاء وانتخاب کے ساتھ عام انسانوں کے حوالے سے تبلیغ کی کوئی ذمہ داری لازم نہیں ہوتی، یعنی یہ محض اعزاز وتکریم اور اظہار تقرب کے لیے یا ذاتی وشخصی معاملات میں راہنمائی کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ اس رائے کا ذکر کتب تفسیر میں عام ہوا ہے اور ابن حزم بھی اس کے قائل ہیں۔

’’قال مجاهد: النبي هو الذي يكلم وينزل عليه ولا يرسل، وفي لفظ: الأنبياء الذين ليسوا برسل يوحى إلى أحدهم ولا يرسل إلى أحد، والرسل الأنبياء الذي يوحى إليهم ويرسلون.’’ (فتح البیان، نواب صدیق حسن)

’’أنَّ الرَّسُولَ هو المَبْعُوثُ إلى أُمَّةٍ، والنَّبِيَّ هو المُحَدِّثُ الَّذِي لا يُبْعَثُ إلى أُمَّةٍ، قالَهُ قُطْرُبٌ.’’ (تفسیر الماوردی)

سیدہ مریم علیہا السلام کے ساتھ کلام ومخاطبہ کی جو نوعیت قرآن میں مذکور ہے، اس کی روشنی میں ابن حزم یہ کہتے ہیں کہ وہ باقاعدہ اس کے لیے منتخب کی گئی تھیں اور ان کے ساتھ مخاطبہ کا معاملہ محض وقتی نوعیت کا نہیں تھا، بلکہ ان کو مستقل بناد پر کلام ومخاطبہ کا اعزاز اور مرتبہ عطا کیا گیا تھا۔ تاہم اس انتخاب کے ساتھ چونکہ تبلیغ اور بعثت کی ذمہ داری لازم نہیں، اس لیے ابن حزم خواتین کے لیے صرف نبوت کے منصب کے قائل ہیں، رسالت کے قائل نہیں۔

اس سے آگے بڑھ کر نبوت کے ساتھ اگر تبلیغ وانذار کی ذمہ داری بھی شامل ہو جائے تو یہ وہ مرتبہ ہے جو معروف ہے اور عموماً‌ جب ہم نبی کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے یہی مراد ہوتا ہے۔ ابن حزم اور اس رائے کے دیگر اہل علم اس مرتبے کے لیے ’’رسالت’’ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔

اب غور طلب نکتہ یہ ہے کہ شیخ اکبرؒ کس مفہوم میں ختم نبوت کے قائل ہیں اور کس میں نہیں اور آیا ان کی تعبیر اور جمہور اہل علم کی تعبیر میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔

یہ عرض کیا گیا کہ نبوت کے لغوی مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسی اصطلاح وضع کرنا جس کے مفہوم میں تمام مخلوقات کی راہ نمائی اور ابلاغ شامل ہو، کوئی قابل اعتراض بات نہیں اور اس میں شیخ کا کوئی ایسا تفرد بھی نہیں۔

ظنی درجے کا الہام ہو یا صراحت کے ساتھ مخاطبہ ومکالمہ کا امکان، جس میں باقاعدہ کسی منصب کے لیے اصطفاء نہ ہو، یہ جمہور اہل علم بھی مانتے ہیں اور ابن عربی کو بھی یہ تسلیم ہے۔ یہاں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ جاوید احمد صاحب غامدی کا نقطہ نظر یہاں عام رائے سے مختلف ہے۔ وہ ظنی قسم کے الہام والقا یا خاطرات کی نفی تو نہیں کرتے جو کسی نہ کسی درجے میں ہر صاحب ایمان کو حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن تصریحی مخاطبے یا مکالمے کا باب حدیث مبشرات کی رو سے بند سمجھتے ہیں۔ اس سوال پر ہم کچھ عرصہ پہلے الگ سے معروضات پیش کر چکے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ ابن حزم اور بہت سے اہل علم رسالت اور تحدیث والہام کے مابین جو ایک درجہ ’’نبوت’’ کا بیان کرتے ہیں، جس میں تبلیغ وانذار شامل نہیں ہوتا، لیکن وہ تحدیث والہام کی طرح وقتی اور بے قاعدہ بھی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں باقاعدہ ایک منصب کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے اور رسولوں کی طرح وحی اور مخاطبہ الہٰی کی تمام صورتیں اس کے ساتھ موجود ہوتی ہیں، کیا وہ ختم نبوت کے بعد باقی ہے؟ رسالت کے متعلق تو ہم جانتے ہیں کہ جمہور اہل علم کی طرح شیخ اکبرؒ بھی اس کا دروازہ بند قرار دیتے ہیں اور یہیں سے ان کا موقف قادیانی موقف سے الگ ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا وہ رسالت کے بغیر اس مفہوم میں ’’نبوت’’ کو جاری مانتے ہیں یا نہیں جو یہاں زیر بحث ہے؟ ہمارے فہم اور مطالعے کی حد تک وہ اس کو جاری مانتے ہیں، جبکہ جمہور متکلمین اور اہل علم اس کو بھی ختم نبوت کے تحت منقطع قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن حزم نے منقولہ اقتباس میں وضاحت کی ہے۔

اگر ابن عربی کے موقف کے متعلق ہمارا یہ فہم غلط ہے تو اس کی وضاحت کے لیے ہم بہت ممنون ہوں گے اور یہ بہت ہی باعث اطمینان بات ہوگی۔ لیکن اگر ان کا موقف وہی ہے تو پھر اس کی سنگینی نہ تو نبوت کے عمومی لغوی مفہوم کا حوالہ دے کر کم کی جا سکتی ہے اور نہ قادیانی موقف سے اس کا فرق واضح کر کے اسے مین اسٹریم کلامی روایت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا موقف جتنا جمہور مسلمانوں کے عقیدے سے ہم آہنگ ہے، اتنا ہم آہنگ ہے اور جتنا مختلف ہے، مختلف ہے۔ اس پر تکفیر یقیناً‌ نہیں بنتی، لیکن وہ اتنا بے ضرر اور innocuous قسم کا موقف بھی نہیں ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں