زید حسن
4۔ معقولات کی جانب ذہنی جھکاو
عام متکلمین کے طرز پر لکھی جانے والی کتب جیسے تہافہ وغیرہ میں غزالی نے فلسفے کے بعض مسائل کی تردید کی کوشش تو کی ہے لیکن عموما انکی فکر پر معقولات کا غلبہ رہا ہے ۔ یہ اثر انکی تصنیفات میں صاف طور پر جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن تصنیفات میں غزالی نے فلسفیانہ الہیاتی نتائج کی تردید کی ہے انہیں میں فلسفہ کی دیگر شاخوں جیسے اخلاقیات وغیرہ کے متعلق ان میں ایک حسنِ ظن پایا جاتا ہے اور وہ ان ابحاث کو اصلا انبیاء کا ورثہ سمجھتے ہیں ۔ اور بعض شاخوں جیسے منطق اور ریاضیاتی بنیادوں پر استوار علوم کے متعلق درستگی کا اس حد تک یقین پایا جاتا ہے کہ انکے نتائج اور شریعت کے ظاہر سے اخذ کئے جانے والے دلائل سے ثابت ہونے والے نتائج میں تضاد در آنے کی صورت میں شرعی نصوص میں تاویل کے قائل ہیں ۔ شبلی لکھتے ہیں :
“امام صاحب کی طبیعت خود فلسفیانہ واقع ہوئی تھی ۔ عام علماء فلسفہ سے جو بدگمانی رکھتے تھے ۔تحقیقات کے بعد غلط نکلی ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ امام صاحب پر فلسفہ کا پورا رنگ چڑھ گیا ۔المنقذ اور روحِ کبیر میں روح کی حقیقت ، روح کے جوہر ہونے پر استدلال ،خرقِ عادت کی قسمیں اور عذابِ اخروی کی حقیقت جیسے مسائل میں امام صاحب نے بعینہ وہی تشریح کی جو بو علی سینا نے شفاء اور اشارات میں کی تھی ۔احیاء العلوم میں اخلاق کی ماہئیت ، اخلاق کی اقسام ،اخلاقی علوم پر مطلع ہونے کے طریقے اور اولاد کی تربیت جیسے تمام مضامین سر تا پا ابنِ مسکویہ سے ماخوذ ہیں ۔ جو نکات خود امام صاحب کی ایجاد ہیں ان کا مایہء خمیر بھی فلسفہ ہی ہے ۔
غزالی کے فلسفیانہ مذاق کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دینیات خصوصا کلام میں بھی فلسفیانہ اصطلاحات کو رائج کیا ۔ جس کا تفصیلی ذکر ما بعد بحث میں عنقریب آئے گا ۔ یہی وجہ تھی کہ جن علماء میں فلسفہ کے متعلق متعصابہ رویہ پایا جاتا تھا اس تعصب نے غزالی اور انکی تصنیفات کو بھی اس حد تک متاثر کیا کہ غزالی کو ” المنقذ ” میں اس بابت صراحت کرنی پڑی ۔شبلی لکھتے ہیں :
“اس وقت تک اسپین میں علومِ عقلیہ کا رواج نہیں ہوا تھا ۔لہذا جب غزالی کی کتب وہاں پہنچیں تو علماء نے اس شبہہ سے کہ ان میں فلسفے کی آمیزش ہے ، ان سب کو جلانے کا حکم دے دیا ۔ یہ اثر اس وقت زائل ہوا جب امام صاحب کے شاگرد ابوبکر عربی وغیرہ تحصیلِ علم کے بعد اسپین گئے ۔”
5۔کلام کی تجدید اور تصوف و کلام کا امتزاج
غزالی سے قبل اہلِ کلام کا مذاق بالکل مختلف تھا ۔ ان کے مقابل ایک طرف معتزلہ تھے جن کا اصولی موقف عقل کو ترجیح دینے کا تھا چنانچہ انکے ہاں اشیاء کا حسن و قبح بھی عقل ہی سے متعین کیا جا سکتا ہے ۔ اور دوسری طرف محدثین اور اہلِ ظواہر تھے جن کے ہاں استناد کو غیر معمولی حیثیت حاصل تھی چنانچہ جو چیز سند سے ثابت ہو جائے ان امور میں خواہ کتنا ہی عقلی استحالہ لازم آتا ہو وہ اسے نص کے ظاہری معنی ہی پر محمول کرتے تھے ۔ اشعری متکلمین نے ایک طرف نصوص کے ظاہر کو معطل ہونے سے بچانے کے لئے اور دوسری طرف عقلی استحالات سے بچنے کے لئے ایسا نظامِ فکر متعارف کروا دیا تھا جس میں اپنے نقول کے ساتھ ساتھ اسکے لوازمِ بعیدہ کو بھی مان لیا تھا جس سے انکے کلام کی حیثیت نہ عقلی رہی اور نہ ہی نقلی ۔ بلکہ اسمیں بہت سی عقلی قباحتیں در آئی تھیں ۔ شبلی نے اس ساری صورتحال کی ایک بہت واضح مثال ذکر کی ہے ۔ لکھتے ہیں :
“معجزات کو سب مسلمان تسلیم کرتے تھے البتہ یہ فرق تھا کہ محدثین اور فقہاء کا یہ خیال تھا کہ معجزات میں خدا اشیاء کی طبیعت اور خاصیت کو تبدیل کر دیتا ہے ۔ جبکہ معتزلہ کا خیال تھا کہ کسی بھی شئے کے خواص تبدیل نہیں کئے جا سکتے لہذا معجزہ اسباب ہی کے تحت واقع ہوتا ہے اگرچہ وہ اسباب نا معلوم ہوتے ہیں ۔اشاعرہ کو معلوم تھا کہ علت و معلول کی خاصیت ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے لہذا اسکا انکار ممکن نہیں اور نہ ہی نص میں خرقِ عادت واقعات کے وقوع کی اطلاع کا انکار کیا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے سلسلہء علت و معلول ہی اڑا دیا اور یہ اصول بنا لیا کہ دنیا میں کوئی چیز کسی دوسری چیز کا سبب ہی نہیں ۔”
غزالی نے علمِ کلام میں ایسی بدیہی غلطیاں دیکھی تو انہیں شدت سے مسترد کر دیا چنانچہ رائج علمِ کلام کے متعلق انکی جو رائے تھی اسے انہوں نے اپنے رسالہ ” الجام العوام ” میں ذکر کیا ہے ۔لکھتے ہیں :
” الثانية : أن يحصل بالأدلة الوهمية الكلامية المبنية على أمور مسلمة مصدق بها لإشهارها بين أكابر العلماء وشناعة إنكارها ونفرة النفوس عن إبداء المراء فيها.”
ترجمہ: یقین کا دوسرا درجہ وہ ہے جو علمِ کلام کی دلیلوں سے حاصل ہوتا ہے جو وہمی ہوتی ہیں اور صرف اس وجہ سے مسلم ہوتی ہیں کہ علماء میں مشہور ہو چکی ہیں اور ان کا انکار کرنا برا خیال کیا جاتا ہے ۔اور کوئی ان دلائل میں بحث کرے تو لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں ۔
غزالی کے نزدیک علمِ کلام کے دلائل کے وہمی ہونے کی وجہ وہی تھی جو ذکر کی گئی ۔ اس قباحت کو دور کرنے کے لئے غزالی نے باقاعدہ علمِ کلام کی تجدید کی اور ایسے تصورات جو ادلہء شرعیہ کے لوازم بنا دئے گئے تھے، سب کا انکار کر دیا ۔ اور کلام میں استدلال کے نئے طریقے متعارف کروائے اور تاویل و تفسیر کے معقول اصول وضع کئے تاکہ بدیہی البطلان نظر آنے والے دلائل سے کلام کو صاف کیا جا سکے ۔ غزالی نے کلام میں اتنی تبدیلی کی ہے کہ اگر انہیں اشاعرہ کے مقابل الگ کلامی مکتبہء فکر کا نمائندہ تصور کیا جائے تو غلط نہیں ہو گا لیکن غزالی کے بعد انکا کلام پر اثر اتنا زیادہ تھا کہ انکی اصلاحات کو ہی اشعری مذہب کے طور پر اپنا لیا گیا ۔
کلام ہی کی ایک جہت میں غزالی نے اس طرح تجدید کی کہ انکے زمانے تک کلام کے بالکل مساوی سمجھاجانے والا نظام تصوف تھا جسکا انہوں نے کلام میں انضمام کر دیا اور ایک بالکل الگ نظامِ فکر کی بنیاد رکھی ۔یہی وجہ ہے کہ بعد کے مفکرین میں غزالی کے متعلق صوفی یا متکلم ہونے کی بحث نے بھی جگہ بنا لی ۔ بعض لوگ انہیں صوفی اور بعض متکلم سمجھتے رہے ۔ جن لوگوں کی رائے کو بہت ہی صائب اور حقیقت کے قریب جانا گیا انکے خیال میں بھی غزالی ہیں تو اصلا متکلم لیکن انسان کی نفسیاتی تسکین کی خاطر انہوں نے تصوف کے استدلالات کو استعمال کیا ہے ۔ کلام اور تصوف کے اس امتزاج کی وجہ سے غزالی کو دو طرفہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ایک طرف وہ ظواہر پرست جو اہلِ حدیث کے نام سے جانے جاتے تھے اور دوسری طرف اس زمانے کے خالص تعقل پسند متکلمین ۔ڈاکٹر فضل الرحمن اپنی کتاب اسلام میں لکھتے ہیں ۔:
The synthesis thus achieved by al-Ghazali between Sufism and kalam was largely adopted by orthodoxy and confirmed by Ijma‘. Its strength lay in the fact that it gave a spiritual basis for the moral practical elan of Islam and thus brought it back to its original religious dimensions. But the balance was delicate and could be maintained only within the limits of a strictly moral ethos. Within orthodoxy, there were two groups which did not adopt al-Ghazali’s synthesis. One of these, which actually opposed al-Ghazali, was the right-wing Ahl al- Hadith, the traditionalists who considered both parts of the synthesis, the kalam and Sufism, as foreign and therefore suspect elements, and actually attacked al-Ghazali for using weak and even forged traditions to support his Sufic interpretations. The other, the more intellectualist Mutakallims, could not accept the plea for a reduced and purely practical kalam which did not satisfy demands of formal intellectualism
ترجمہ : یہ امتزاج جو غزالی نے تصوف اور کلام کے درمیان پیدا کر کے دکھایا ۔ اسے راسخ العقیدہ لوگوں نے زیادہ تر اختیار کر لیا اور اجماع نے اس کی توثیق کر دی ۔اس کی طاقت اس بات میں تھی کہ اس نے اسلام کے اخلاقی اور عملی ولوے کو ایک روحانی بنیاد مہیا کی ۔اور اس طرح اسے ابتدائی مذہبی ابعاد میں واپس لے آیا ۔لیکن یہ امتزاج بہت نازک تھا جو ایک خاص قسم کے اخلاقی مزاج کی حدود میں ہی باقی رہ سکتا تھا ۔راسخ العقیدہ لوگوں میں دو ایسے گروہ تھے جنہوں نے اس امتزاج کو نہ اپنایا ۔ان میں سے ایک جو دراصل غزالی کا مخالف تھا ،وہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اہلِ حدیث تھے ، جو روایت پسند تھے اور امتزاج کے دونوں اجزاء یعنی کلام اور تصوف کو بیرونی اور مشتبہہ عناصر سمجھتے تھے ۔ان لوگوں نے غزالی پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنی صوفیانہ تعبیرات کی تائید کے لئے ضعیف بلکہ من گھڑت حدیثوں کا سہارا لیا ہے ۔دوسرا گروہ جو زیادہ تعقل پسند متکلمین کا تھا وہ ایک تخفیف شدہ اور خالصتا عملی کلام کی عرضداشت کو قبول نہ کر سکا ، جو باضابطہ عقلیت پسندی کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا تھا ۔
کمنت کیجے