Home » پہلے سے موجود علم رحمت یا زحمت؟
اسلامی فکری روایت انگریزی کتب تہذیبی مطالعات

پہلے سے موجود علم رحمت یا زحمت؟

ڈاکٹر وقاص احمد

علم اور علم کے مسائل پر غورو فکر کرنا اور اس کے متعلق  سوچنا ، مجھے انتہائی محبوب ہے ۔ کئی کئی گھنٹے بعض اوقات اس پر سوچتے گزر جاتے ہیں ۔فرانسس بیکن کی معرکۃ الآرا کتاب Novum Organum  کا ترجمہ “منہاج جدید “،نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد پڑھ رہا تھا ۔اس میں فرانسس بیکن چار قسم کے ایسے بتوں/ اغلاط کا ذکر کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان حقیقت کو جاننے سے قاصر رہتا ہے . ان بتوں کا گہرا تعلق اور واسطہ علم اور حقیقت کے ساتھ ہے ۔اس لیے کتاب میں میری دلچسپی بڑھ گئی ۔بیکن اپنی اس کتاب میں جن بتوں کا ذکر کرتا ہے وہ یہ ہیں:

1_قبیلے کے بت

2_پناہ گاہ کے بت

3_باہمی میل جول کے بت

4_تھیٹر کے بت

بظاہر تو مسلم معاشرے میں بتوں کا لفظ انتہائی معیوب اور منفی سے معنی رکھتا ہے اور کتاب میں بت کا لفظ پڑھتے ہی دھیان بھی اسی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن جلد ہی یہ تاثر رفو چکر ہو جاتا ہے ۔ بیکن نے بھی ان بتوں کو علم کے لیے کوئی ایجابی چیز قرار نہیں دیا ہے ۔ بیکن کے بت درج ذیل معانی و مفاہیم کے حامل ہیں ۔

1_قبیلہ کے اغلاط یا بتوں میں وہ ایسے بتوں کا ذکر کرتا ہے جو کہ تمام انسانوں میں مشترکہ طور پر موجود ہیں اور ان کو شاید ذہن سے مکمل طور نکالنا مشکل ہے ۔ مثال کے طور پر حواس خمسہ کے محدود ،کمزور اور دھوکہ دینے کا بت ۔فطری طور پر تمام انسانوں کا یہ نظریہ کہ وہ درست سچائی رکھتے ہیں جبکہ اس کو پھر دوسروں کو منوانے کا بت ،جلد بازی سے پری میچور فیصلے اور ججمینٹ کرنے کا بت،سوسائٹی کیا کہے گی، کا بت ۔

2_پناہ گاہ کے بت وہ ہیں جس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے اور یوں ہر فرد کے بت دوسرے فرد کے بت سے جدا ہوتے ہیں ۔عموما طور پر فیملی کے الگ الگ بیک گراؤنڈ کی وجہ سے ،بچپن کے کسی تجربے کی وجہ سے ، تعلیم فرد کی وجہ سے، پسند و نا پسند کی وجہ سے ، ٹریننگ ، مذہب ، یا کسی ایک مخصوص قسم کے علم رکھنے کی وجہ سے ،تعصب وغیرہ کی وجہ سے یہ بت پیدا ہوتے ہیں۔

3_باہمی میل جول یا مارکیٹ کے بت ،عموما ان کا تعلق زبان سے ہے ۔یہاں لفظ میں مبالغہ منفی و مثبت ، لفظ کا صحیح استعمال نہ ہونا اور زبان کو ڈی گریڈ کرنے کی وجہ سے یہ بت پیدا ہوتے ہیں اور کنفیوژن اور اختلاف کو جنم دیتے ہیں ۔

4_ تھیٹر کے بتوں کا تعلق حقیقت میں پہلے سے موجود علم سے ہے ۔انسان اسی پہلے سے موجود علم کی بنیاد پر انفرادیت کو نمایاں کرنے سے قاصر رہتا ہے اور یوں وہ کیا کہتے اور کہتے رہے ہیں اس میں الجھ جاتا ہے ۔پہلے سے موجود کے مطابق اپنی شخصیت متعلق ہر ہر معاملے میں بنا لیتا ہے ۔پھر اس میں توہم پرستی کو حقیقت سمجھ کر پیروی کرنے کا بت اور مصنوعی سچائی جو ڈراموں اور فکشن وغیرہ میں بتائی جاتی ہے کو فالو کرنے کا بت شامل ہے۔۔

بنیادی طور پر فرانسس بیکن یہ چاہتا ہے کہ فطرت و سچائی کا صحیح فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ذہن میں سے ان بتوں کو مع ان کی باتوں کے نکالیں ۔

میں نے ان چار بتوں کا کلی نام پہلے سے موجود علم رکھا ہے ۔یوں پہلے سے موجود علم میں مذہب اور مذہب سے متعلقہ ہر قسم کی اشیاء ،سیاست ، معاش ، نظام ،نظریات ،کلچر اور تہذیبیں وغیرہ شامل ہیں کیونکہ علم انہی سے متعلق ہوتا ہے ۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ علم ان سے متعلق ہو کر بھی غیر متعلقہ رہتا ہے یا واقعی ہی ان کے حصار میں ہی ممکن ہے یا پھر یہ کہ مذہب ، سیاست ، معاش وغیرہ علم کے حصار میں آتے ہیں جبکہ علم کا دائرہ کار ان سے بھی وسیع ہے ؟

اب اگر فرانسس بیکن کے مطابق ذہن سے ان سب بتوں مراد پہلے سے موجود نالج کو نکال دیا جائے تو ذہن کورے کاغذ کی مانند ہو گا ،دوسرے الفاظ میں ذہن مردہ ہو گا اور مردہ ذہن سے ترقی ،ارتقا اور تغیر سرے سے ناپید ہو جائیں گے ۔دوسرا وہ تجربی فلسفی جو کہتے ہیں اور جن کا ماننا ہے کہ ذہن بوقت پیدائش کورے کاغذ کی مانند تھا، بیکن کا نظریہ بھی اسی ضمن میں انہی کا پیش رو بن جاتا ہے۔چونکہ ابھی تک کی ساری انسانی ترقی انہی علوم یا پہلے سے موجود علم کی وجہ سے ہے ۔حتی کہ انسان کا ابلاغ چاہے وہ تحریر کی شکل میں ہو یا تقریر جیسی کسی چیز /شکل کا حامل ہو ، اسی پہلے سے موجود علم کی مرہون منت ہے ۔

جبکہ دوسری طرف اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ تمام انسانی جھگڑے ،جنگیں ،ناانصافیاں ،میں درست تو غلط ، یہ نیکی وہ بدی وغیرہ کی ساری بحثیں بھی اس پہلے سے موجود علم کی وجہ سے ہیں ۔اور یہ باتیں کسی زحمت سے کم نہیں۔

ذہن انسانی کا کورے کاغذ مراد مردہ ہونے نہ ہونے کو رحمت کہوں یا زحمت ؟ یہ الجھن بھی پہلے سے موجود اس علم یا بتوں کی وجہ سے ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ پہلے سے موجود علم نہ ہوتا تو آج مندرجہ بالا قباحتیں ، بدیاں ، برائیاں اور گناہ بھی نہ ہوتے ۔ نفرت نہ ہوتی ،دنیا پر امن اور سکون کا گہوارہ ہوتی ۔جبکہ اسی پہلے سے موجود علم کی وجہ ہم یہ تک جان رہے ہوتے ہیں کہ کیا واقعی ہی نفرت کو جانے بغیر کوئی نفرت کر رہا ہوتا یا نفرت کا وجود تک ہوتا ؟

الغرض پہلے سے موجود علم سے جان چھڑائیں تو نظام ،مذاہب اور  دیگر بے شمار چیزوں سے الگ ہونا پڑے انسان کو۔ دوسرا جب ان سے الگ ہو، تو انسان ان کے مطابق نہیں سوچے گا ۔البتہ الگ ہو کر وہ سوچنے ،بولنے اور سمجھنے پر بھی قادر ہو گا کہ نہیں ؟ یہ بحث ایک نئی رحمت یا زحمت میں انسان کو مبتلا کر دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر وقاص احمد پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز ہیں۔آپ وائٹل گروپ آف کالجز گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات اور اردو کے ہیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس میں وزٹنگ اے پی ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں