Home » آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا نظام قضا وشہادت میں مقام :فقہ کی روشنی میں (۲)
فقہ وقانون

آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا نظام قضا وشہادت میں مقام :فقہ کی روشنی میں (۲)

مشرف بیگ اشرف

پیچھلی قسط میں ہم نے اسلامی فقہ کی روشنی میں یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے جدید آلات کا قضا وشہادت میں کیا مقام ہونا چاہیے۔ ذیل میں ہم پاکستان کی عدالت عظمی کی طرف سے طے کردہ ایک فیصلے کا اس کی روشنی میں جائزہ لیں گے!

صوتی اور ویڈیو ثبوت کے حوالے سے عدالت عظمی کا مقرر کردہ معیار:
أ———————-

عدالت عظمی نے ۲۰۱۹ ءمیں محترم جج محمد ارشد ملک صاحب کے حوالے سے ایک معاملے کو دیکھنے کے ضمن میں قانون شہادت آرڈر، ۱۹۸۴ءکی متعلقہ شق میں دیے گئے اختیار کے تحت ویڈیو کی استنادی حیثیت کے حوالے سے معیار طے کیا اور اس کے لیے مختلف نظاہر بھی پیش کیں ۔اس معیار میں یہ امور خاص طور سے شامل ہیں کہ:

۱: جس نے اسے محفوظ کیا وہ عدالت میں پیش ہو کر ریکارڈنگ خود پیش کرے،

۲: نیز اس کا مصدر ضرور ظاہر کیا جائے،

۳: نیز اسے محفوظ کرنا اس کی معمول کی ذمے داریوں میں سے ہواور وہ ایسا نہ ہو جس نےحیلے سے ریکارڈنگ خاص اسی مقصد کے لیے کی ہو کہ بعد میں اسے عدالتی ثبوت کے طور پر استعمال کر سکے۔(اس پر تفصیلی تبصرہ کرنا ہے۔)

معیار میں مقرر کردہ تین شرائط کا جائزہ:
أ———————-

اوپر دی گئی تفصیل کی روشنی میں غور کیجیے کہ ویڈیو کی استنادی حیثیت کو عمومی طور سے، ان شرطوں سے باندھ دینا کس طرح فقہ وقانون کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے جبکہ میسر ذرائع سے اس کی تصدیق ہو جائے اور زندگوں کے مختلف شعبوں میں اس تصدیق کی بنیاد پر مختلف فیصلے ہو رہے ہوں۔ پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر جن معاملات میں شبہے ہی کی بنیاد پر فیصلہ کر دیا جاتا ہو، وہاں پر محض شبہے کی بنیاد پر کیوں اس ثبوت کو مسترد کر دیا جائے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف محض شبہے کی وجہ سے نااہلی کر دی جائے یا تادیبی کارروائی کی جائے، اثاثے ظاہر کرنے میں کمی بیشی سے جومالی خوردبورد کا شبہ پیدا ہو اس کی بنیاد پر نااہل کر دیا جائے اور دوسری طرف اسی معاملے میں ایک امر کو ، جو اس وقت کے مقامی اور بین الاقوامی عرف میں اپنا مقام منوا چکا ہو، محض شبہے کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے۔(اور یہ ان امور میں سے ہے جن میں عرف بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔)

چنانچہ اسی فیصلے میں دیکھ لیا جائے کہ فیصلہ نگار نے جج محمد ارشد ملک صاحب پر شدید تنقید کی اور سخت سست کہا کہ انہوں نے اپنے اعلامیے اور بیان حلفی میں تسلیم کیا کہ:

” جس وقت میاں نواز شریف صاحب کا مقدمہ ان کے ہاں زیر سماعت تھا اس وقت ان کے طرفدار ان کے ساتھ ان کی خفیہ ملاقاتیں ہوتی رہیں، انہیں اس مقدمے کے فیصلے کے حوالے سے ترغیب وترہیب کا بھی سامنا رہا۔اسی طرح، ان کے اپنے اعتراف کے مطابق ،وہ میاں نواز شریف صاحب سے اور ان کے بیٹے سے ملے اور اپنے ہی فیصلے کے خلاف اپیل میں ان کی رہنمائی کی۔لیکن انہوں نے اپنے سے اوپرکسی مجاز کو اس سے باخبر کیا نہ جانبداری کی تہمت سے بچتے ہوئے اپنے آپ کو اس مقدمے سے الگ کیا”۔

ان امور کی وجہ سے فیصلے میں کہا گیا کہ انہیں فورا واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجا جائے جہاں ان کے خلاف ادارہ جاتی تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
لیکن جن باتوں کا اوپر تذکرہ کیا گیااس کی وجہ سے ان کے دیے گئے فیصلے کو کالعدم نہیں قرار دیا گیا۔ بلکہ فیصلہ نگار جب اس سوال کی طرف آئے کہ جو ویڈیو زیر بحث ہے اگر وہ واقعی فیصلے میں قابل استناد ثابت ہوگئی تب بھی ہائی کورٹ یہ جانچے گی کہ آیا اس سے فیصلے میں جانبداری ثابت بھی ہوئی یا نہیں۔ یہ بات دراصل اس اصول سے متعلق ہے جو ویڈیو ریکارڈنگ کے قابل استناد ہونے کے لیے فیصلے ہی میں طے کیا گیا کہ وہ ثبوت زیر نزاع مسئلے سے متعلق ہونا چاہیے:

The evidence sought to be produced through an audio tape or video has to be relevant to the controversy and otherwise admissible.

نیز ایک اور پہلو پر غور کیجیے: فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ فاضل جج کے اعلامیے اور بیان حلفی ہی کے مطابق ان کا ماضی داغدار تھا جس پر وہ اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوئے اور انہیں خدشہ ہواکہ کہیں یہ ان کے خلاف استعمال نہ ہو جائے ( اللہ تعالی سب کے عزتوں کی حفاظت فرمائےاور عیبوں کی پردہ پوشی کرے!):

He had unabashedly admitted in the press release and the affidavit that he had a shady past and had skeletons in his cupboard for which he was vulnerable to blackmail

سوال یہ ہے کہ

۱: جس وقت قاضی کسی مقدمے کی سماعت کر رہا ہو اور اس وقت اس کے کردار میں تاریک پہلو ہے ،
۲: نیز اس مقدمے کی سماعت کے دوران میں اور بعد میں فاضل جج کے ایسے بعض اقدامات ہوں جو اس مقدمے سے وابستہ ہوں اور فیصلے پر اثر انداز ہونے کا پہلو رکھتے ہوں اور ان کے فرض منصبی سے جوڑ نہ کھاتے ہوں ،
۳: اور عدالت میں یہ سب باتیں تسلیم بھی کر لی گئی ہوں،
تو کیا وہ فیصلہ اپنی بنیاد کھو نہیں دیتا؟

چونکہ اسلامی قانون کا بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی مسلمان اورخاص طورسے مسلمان قاضی کے ساتھ حسن ظن رکھا جائےاور اس کی بات کا اچھا پہلو تلاش کیا جائے، اس لیے ہم یہاں ان سے بدگمانی نہیں کرتے۔ بلکہ اس فرق کی یہی فقہی توجیہ ہے کہ عدالت کے مطابق اعلامیے اور بیان حلفی سے ثابت ہونے والے امور اگرچہ اس درجے کا قرینہ تھے کہ اس کی بنیاد پر فاضل جج کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے لیکن ایسے نہ تھے کہ میاں نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلے میں ان کی جانبداری یقینی طور سے ثابت ہواور فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔(ویسے بھی فیصلہ ہو جانے کے بعد اسے توڑنے یا کالعدم کرنے کو ہمارے فقہا کم سے کم کرتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ یہ نہ ہو) غالبا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلام آباد کی عدالت عالیہ کو ، جن کے سامنے میاں نواز شریف صاحب کی ناہلی کی اپیل ہے، اس طرف متوجہ کیا کہ زیر بحث ویڈیو کو فیصلے میں مذکور اصولوں کی روشنی میں پرکھنے سے اگر ثابت ہو جائے کہ یہ قابل اعتراض ہے تو وہ اس پہلو کو دیکھیں کہ آیا اس ویڈیو سے ثابت ہو نے والے امور سے فیصلے میں جانبداری ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔

تاہم کیا اس فرق کے ماننے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں کہ انہوں نے خود تسلیم لیا کہ ایک ثبوت یا قرینہ ایک معاملے میں قابل حجت ہو سکتا ہے لیکن دوسرے میں نہیں۔ پھر کیسے “عمومی طور سے “یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ویڈیو ایسے بندے نے بنائی جس کے پاس رسمی اختیار نہ تھا اور جس نے بنائی وہ خود سامنے نہیں آیا، تو وہ “سرے ہی سے “قابل استناد نہیں؟فقہ کے طالب جانتے ہیں کہ بہت ہی کم معاملات ہوتے ہیں جہاں ایک عمومی اصول دے دیا جاتا ہے۔ ورنہ اکثر وبیشتر “تفصیل” سے کام لینا پڑتا ہے ۔شاید قانون شہادت آرڈر، ۱۹۸۴کے رقم کرنے والوں کے سامنے یہی پہلو تھا۔ اس لیے، انہوں نے متفرقات میں بس یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ عدالت مناسب سمجھے، تو وہ جدید آلات پر مبنی ثبوت کو تسلیم کر سکتی ہے اور عدالت کے اختیار میں معاملہ دے دیا۔ اس پر اس سے زیادہ حد بندی نہیں کی۔ اور حقیقت میں، “قرائن” کا معامہ ہی ایسا ہے کہ انہیں ریاضی کی طرح چند امور میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ فیصلہ کنندہ کی ذہانت پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ایک پہلو سے دوسرے پہلو تک پہنچ جاتا ہے۔(جاسوسی ناولز سے اگر کوئی کام کی بات معلوم ہوتی ہے، تو وہ یہی ہے۔)

فیصلے میں پیش کردہ ایک نظیر:
أ———————–

فیصلے میں ویڈیو ریکارڈ کے قابل حجت ہونے کے حوالے سے اچھے خاصے نظائر پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض میں وہ شرائط مذکور ہیں جنہیں فیصلے میں تسلیم کیا گیا ہے۔(اس لیے، اس فیصلے پر اس بد گمانی کا جواز باقی نہیں رہتا کہ یہ تمام شرائط سیاسی طور سے سلگتے ہوئےمقدمے کے ایک فریق کی طرف داری کے لیے عائد کی گئیں۔ بلکہ یہ تمام امور اس سے پہلے بھی مختلف عدالتیں کہتی آئی ہیں اور جب قاضی اپنے سے پہلے کسی نظیر کو تھام رہا ہے تو اس پر سے تہمت کی وجہ جاتی رہنی چاہیے الا یہ کہ کوئی دلیل سے اس کے برعکس ثابت کرے) ۔ ان فیصلوں میں سے ایک بریطانیا کے فیصلے کا اقتباس بھی نقل کیا گیا۔ فیصلہ جو دراصل ایک اپیل پر لکھا گیا اسی بابت تھا کہ آیا ٹیپ کی گئی آواز قابل حجت ہے؟عدالت نے اس کی حجیت مانی ۔اس اقتباس کا ہمارے گفتگو سے متعلق اہم حصہ وہ ہے جہاں اس ٹیپ کردہ آواز کو تسلیم کرنے کی شرائط پر گفتگو کی گئی ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:

… provided the accuracy of the recording can be proved and the voices recorded properly identified; provided also that the evidence is relevant and otherwise admissible, we are satisfied that a tape-recording as admissible in evidence. Such evidence should always be regarded with some caution and assessed in the light of all the circumstances of each case. There can be no question of laying down any exhaustive set of rules by which the admissibility of such evidence should be judged.

مفہوم: (عدالت کی نظر میں یہ بات جچتی نہیں کہ قانون شہادت کوآلات نو کے ثمرات سے محروم رکھا جائے) بشرطیکہ محفوظ شدہ کی تصدیق کر لی جائے، آوازوں کی پہچان ہو جائے۔ نیزاس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ وہ محفوظ شدہ بات مقدمے سے متعلق ہو اور اس کے علاوہ (قانون شہادت کے عمومی تقاضوں پر) قابل قبول ہو، ہمیں ٹیپ کی ہوئی بات پر اطمئنان ہے کہ وہ بطور ثبوت قابل قبول ہے۔ اس طرح کے ثبوت کو ہمیشہ ذرا احتیاط سے تسلیم کرنا چاہیے اور مقدمے کے تمام حالات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔(تاہم )یہ نہیں ہو سکتا کہ اس طرح کے ثبوت کی تسلیم شدگی کے لیے اصولوں کی ایک جامع مانع فہرست تیار کی جائے جس کے مطابق ثبوت کو پرکھا جائے۔۱۲

اس فیصلے کے آخر میں جو کہا گیا وہی دراصل کلیدی بات ہے کہ ایسی فہرست نہیں بنائی جا سکتی بلکہ ہر ہرمقدمے کے لحاظ سے اورقضا کے مختلف ابواب کے لحاظ سے مختلف پیمانے ہوں۔ یہ مناسب نہیں کہ عمومی طور سے اس کے استناد پر اتنی قدغن لگا دی جائے کہ اصولی طور سے اسے تسلیم کر کے بھی عملی طور سے معطل ہو جائے۔اور یہی وہ پہلو جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا کہ یہ قدیم وجدید کا مخمصہ ہے جس سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ جن کے ہاتھ میں مفتی یا قاضی کا قلم ہے جس سے وہ شرائط طے کرتے ہیں انہیں خود ان جدیدآلات کے پیچھے کارفرما فلسفے کا بھی علم ہو کہ یہ ایجادات کن مقاصد کے لیے وجود میں لائی گئیں ، صرف انہیں استعمال کرنے کا طریقہ جان لینا کافی نہیں تاکہ قانون کا وہ پہلو جو معاشرے اور عصر حاضر کے حقائق پر مبنی ہوتا ہے وہ درست عکاس ہو۔ اسلامی قانون کے سنہری دور میں جن لوگوں نے تدوین قانون کی وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوتے تھے یا ان کا ان سے گہرے تعلق ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے، ان کے قوانین میں زندگی کی لہر ملتی ہے اور وہ آج بھی چار دانگ عالم میں پھیلے مسلمانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ (بٹ کوائن کا بھی کچھ ایسا ہی حال نظر آ رہا ہے!)

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں