Home » جب حساب آخرت میں تو دنیا میں سزا کیوں ؟
اسلامی فکری روایت کلام

جب حساب آخرت میں تو دنیا میں سزا کیوں ؟

ابوبکر المشرقی

معروف کالم نگار یاسر پیر زادہ نے حال ہی میں ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے اس نقطہء نظر کو بیان کیا ہے کہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف قدرتی آفات جیسا کہ زلزلے اور سیلاب وغیرہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بطور سزا نہیں ، بلکہ خالص سائنسی چیزیں ہیں ، ان کا مذہب اور اس کے عذاب و عتاب میں شمار نہیں ہوتا ۔ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ عذاب صرف آخرت میں ہوگا حالانکہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں یہ مضمون مفصّل طور پر بیان ہوا ہے کہ بعض اعمال کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دے سکتا ہے۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ گناہ کے بعد تفتیش کی جاتی ہے پھر سزا سنائی جاتی ہے اور پھر سزا دی جاتی ہے ۔ تو جب یہ بات مسلّم ہے کہ حساب وکتاب آخرت میں ہوگا تو سزا بھی اس کے بعد ہو گی؟ اس مضمون میں ہم تفصیل سے اس پر بات کریں گے ۔ اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے چند تمہیدی باتیں جاننا ضروری ہیں ۔
انسان اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کی غرض سے پیدا کیا گیا، یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، اصلی ٹھکانہ آخرت ہی
اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل فرمائی اس میں مادی وروحانی اشیا کی حقیقتوں کو بیان کیا ، ان کے احکام کو بیان کیااور ساتھ ہی ساتھ انجام کو بھی بیان کردیا اور یہ اللہ کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں کہ مادی و روحانی حقائق قطعیہ کو بیان کرے اور اس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں پیش آنے والے اچھے یا برے انجام کو بھی بیان کرے، اس لیے کہ ان امور کے لیے علمِ محیط، بصارت وبصیرتِ کاملہ، حکمتِ بالغہ، قدرتِ تامہ جیسے عظیم اوصاف کا ہونا ضروری ہے اور یہ اوصاف صرف اور صرف ایک ذات یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ میں بیک وقت یا اس جیسے بے شمار اوصاف اپنی کاملیت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، تو آئیے! ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں گناہ کے انجام کو جاننے کی کوشش کریں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آج کل لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دنیا دار العمل اور آخرت دارالجزاء ہے ، لہٰذا اچھائی برائی کی جزا وہیں ہوگی، دنیا میں اس سے کچھ نہیں ہوتا، حالاں کہ یہ سوچ بالکل بے بنیاد اور حقیقتِ واقعہ سے عاری ہے ، کیوں کہ یہ مشاہدہ ہے اور تاریخ اس پر شاہد عدل ہے کہ برائی کا انجام بہرحال دنیا میں بھی برا ہوا ۔(مستفاد:جزاء الاعمال مع ترمیم و اضافہ)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے :پانچ چیزوں سے میں پناہ مانگتا ہوں، تم بھی اس سے پناہ مانگو۔
جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوئی ہے تو طاعون اور طرح طرح کی بیماریاں ان میں پھیل جاتی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔
جب ناپ تول میں کمی ہوتی ہے تو وہ قوم قحط اور تنگی کے ساتھ ظالم حکمرانوں کے تسلط میں مبتلا ہوگی ۔
جو قوم زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرے گی اس پر بارش کم کردی جائے گی ۔
جو لوگ عہد شکنی کریں گے تو اللہ غیر قوم کو ان پر مسلط کردیں گے۔
جو قوم شراب پینے اور موسیقی ومیوزک سننے میں مبتلا ہوگی تو ان پر زلزلے آئیں گے۔ (ابن ماجہ وابن ا بی الدنیا )
یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث دنیا میں گناہ کی سزا اور نقصانات پر دال ہیں۔
خلاصہ یہ نکلا کہ عام طور پر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ اور برائی کی سزا دنیا میں نہیں ہوتی، آخرت میں ہوتی ہے، غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں بھی اس کی سزا ہوتی ہے ،
گناہ کے دنیوی نقصانات اور سزائیں
گناہوں کی کثرت سے علم کا نور سلب ہوجاتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ میں تمہارے قلب میں نور محسوس کررہاہوں، کہیں گناہ کرکے تم اسے ضائع نہ کردینا۔
ارشاد خداوندی ہے: واتقوا اللہ لعکم تفلحون۔(سورہٴ آل عمران:200)
“جب تقوی آئے گا (یعنی گناہوں سے بچنا) تب علم کا نور حاصل ہوگا”
حدیث میں ہے : ”وإن الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ“۔ (ابن ماجہ)
“آدمی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتاہے”
گناہ کی نحوست سے ملک کاامن وامان غارت ہوکررہ جاتاہے۔ اللہ کاارشاد ہے: ظہرالفساد فی البر و البحر بما کسبت أیدی الناس
“خشکی اورتری میں فسادبرپاہوگیا، لوگوں کے(برے)کرتوتوں کے سبب، یعنی گناہ کی وجہ سے” (سورہٴ روم:41)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابوبکر المشرقی صاحب  ماہنامہ فکر بھاولپور کے   چیف ایڈیٹر  ہونے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ گونج اور نوائے وقت کے مستقل لکھاری ہیں ۔ آپ کی دلچسپی کا میدان علم کلام  ہے ۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • جب تم میں روح پھونکی جاتی ہے تو تم اک عورت کے رحم میں ہوتے ہو۔ جب روتے ہو تو اک عورت کی بانہوں میں ہوتے ہو، عشق میں مبتلا ہوتے ہو تو اک عورت کے دل میں ہوتے ہو۔ اس لئے اس سے اچھی طرح پیش آؤ۔

    ترکش رائیٹر طاہرے گونیش