Home » بیٹے کی قربانی پر شبلی و فراہی کی رائے
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث

بیٹے کی قربانی پر شبلی و فراہی کی رائے

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے واقعے پر علامہ شبلی نعمانی صاحب اور علامہ حمید الدین فراہی صاحب کی رائے پر گفتگو جاری ہے۔ یہاں اس کی نوعیت پر اس لحاظ سے گفتگو کی جاتی ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اقدام مامور بہ تھی یا نہیں؟

اس واقعے کی تفسیر میں جو حقیقت ایک سوال بن کر مفسرین و اصولیین کے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ حضرت ا سمعیل علیہ السلام ذبح نہیں ہوئے۔ چنانچہ یہاں جو معاملہ باعث اختلاف بنا وہ یہ تھا کہ کیا ذبح کرنے کے حکم میں بیٹے کا ذبح ہونابھی شامل تھا یا نہیں؟ مثلا نماز میں سجدہ کرنا لازم ہے کہ اس کے بغیر حکم کی تعمیل نہ ہوگی، تو کیا بیٹاذبح ہونا بھی ابتدائی حکم کی تعمیل کا حصہ تھا؟ اس پر دو آراء ہیں: ہاں اور نہیں۔ ہر دو رائے کی دو اقسام بنتی ہیں، یوں کل ملا کر چار صورتیں بنیں:

جنہوں نے کہا “ہاں” ان کے سامنے یہ سوال آیا کہ بیٹا ذ بح ہوئے بغیر حکم کی تعمیل کیسے ہوئی؟ اس کا جواب دو طرح دیا گیا:

1۔ اللہ نے ابتداء بیٹا ذبح کرنے ہی کا حکم دیا اور مقصد آزمائش تھی،البتہ بعد میں حکم کو منسوخ کرکے مینڈھا قربان کروایا۔ یہ ان کا قول ہے جن کے مطابق حکم کی ادائیگی کے وقت سے قبل حکم منسوخ کرنا جائز ہے

2۔ اللہ نے ابتداء بیٹا ذبح کرنے ہی کا حکم دیا اور مقصد آزمائش تھی، البتہ اس کے بدل کے طور پر مینڈھا مقرر کردیا۔ یوں نسخ کے بجائے بدل کے اصول پر سوال حل ہوا۔ یہ ان کا قول ہے جن کے مطابق حکم کی ادائیگی کے وقت سے قبل حکم منسوخ کرنا جائز نہیں (اس بحث کا تعلق بالاخر مسائل حسن و قبح پر فریقین کے مواقف کے ساتھ ہے)

وہ جن کا جواب “نفی ” میں ہے (یعنی یہ کہ بیٹا ذبح ہونا مامور تھا ہی نہیں تاکہ اس سوال سے بچا جائے جو بیٹا ذبح نہ ہونے سے پیدا ہوا)، ان کی رائے کو دو قسم پر رکھا جاسکتا ہے:

3 ۔ بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صرف مقدمات ذبح کا حکم دیا گیا تھا نہ کہ ذبح کردینے کا، یعنی خواب میں انہوں نے خود کو بیٹا ذبح کرتے ہوئے دیکھا اور اتنا ہی حکم تھا۔ رہا بیٹے کا فی الواقع ذبح ہوجانا تو یہ ابتداء حکم میں شامل نہ تھا۔ لہذا جب آپ نے ذبح کے تمام مقدمات پورے کردئیے اور گلے پر چھری رکھ دی تو حکم اور اس کا مقصد یعنی آزمائش پورے ہوگئے۔ یوں نسخ و بدل کی بحث پیدا نہ ہوئی (اگرچہ اس رائے پر چند دیگر سوالات پیدا ہوتے ہیں لیکن فی الوقت ہمارا مدعا یہ طے کرنا نہیں کہ کونسی رائے برحق ہے)۔ یہ قول بھی ان کے ہاں معتبر ہے جن کے نزدیک عمل سے قبل حکم منسوخ کرنا جائز نہیں۔

تنیوں آراء میں متفق علیہ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ہی ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور انہوں نے خواب سے جو سمجھا وہ درست تھا (اس اختلاف کے ساتھ کہ کیا بیٹا ذبح ہوجانا ابتداء مراد تھی یا نہیں)۔

4۔ چوتھی رائے یہ ہے کہ خواب کی اصلی تعبیر کچھ اور تھی۔ یہ علامہ شبلی و فراہی صاحب کی وہ رائے ہے جو زیر بحث ہے۔ کیا اس رائے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹا ذبح کرنے کے حکم پر بالکیہ مامور نہ تھے اور انہوں نے ایسا سمجھ کر اجتہادی خطا کی؟ اگر ہاں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گمان غالب کی بنیاد پر ایک نبی ایسے کام کا ارادہ کرسکتا ہے جو حرام تھا؟ نیز اس واقعے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدح کا پہلو کیا ہوا؟

فراہی صاحب و اصلاحی صاحب کے اقوال میں اجتہادی خطا کا ذکر موجود نہیں نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے اس اقدام پر ان کی مدح و ستائش کا بھی ذکر ہے۔ فراہی صاحب نے لکھا ہےکہ اللہ کی شریعت کا یہ مزاج نہیں کہ صراحتاً بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا جائے (انہوں نے عقل وفطرت کے تقاضوں کی بناپر اس حکم کے ممنوع ہونے کا ذکر نہیں کیا بلکہ شریعت کے عام مزاج کی بات کی ہے) البتہ خواب میں ایسا حکم دیا جاسکتا ہے کیونکہ خواب محل تاویل ہوتا ہے۔ ان کی اس عبارت سے یہ پہلو نکلتا ہے کہ خواب پہلو دار تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے جو سمجھا اس کی بھی گنجائش موجود تھی۔ اس توجیہہ کی رو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹا ذبح کرنے پر مامور بنتے ہیں اور آپ نے جو کیا وہ اجتہادی خطا نہیں تھی بلکہ حکم کے ایک پہلو پر عمل تھا۔ تاہم چونکہ یہ خواب تھا اس لئے اس کی بالاخر تاویل کچھ اور تھی اگرچہ آزمائش کا وہ پہلو بھی مراد تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا۔ اس توجیہہ سے وہ دونوں اعتراض رفع ہوجاتے ہیں جو چوتھی تشریح پر اٹھتے ہیں۔ فراہی صاحب کی دیگر کتب (بالخصوص سورہ کوثر کی ان کی تفسیر) میں مذکور امور کے پیش نظر یہ توجیہہ مراد لینا قرین از قیاس ہے۔ اس اعتبار سے یہ چوتھا قول اسی سوال کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہے جو مفسرین و اصولیین کے پیش نظر رہا کہ بیٹا ذبح ہوئے بغیر حکم کی تعمیل کیسے ہوئی؟ یہ بات کہ یہ قول ان حضرات کے نزدیک اس سوال کو حل کرنے کا طریقہ تھا، اس کی تائید اصلاحی صاحب کی تفسیر میں منقول ان الفاظ سے ہوتی ہے:” جن لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم عمل سے پہلے ہی منسوخ کر دیا انھوں نے ایک غیر ضروری تکلف کیا ہے۔”

یہاں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا عنداللہ دونوں چیزیں حق تھیں، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب سے جو سمجھا کہ بیٹا ہی ذبح کرنے کا حکم ملا ہے اور خواب کی بالاخر تعبیر کہ بیٹا نذر کرنا ہے؟ اگر ہاں تو کیا فراہی صاحب کے اصول پر یہ جائز ہے کہ عند اللہ حق ایک سے زائد ہوسکتے ہیں؟ فراہی مکتب فکر کے اصولوں کی رو سے ہمارے ذہن میں اس کی یہ توجیہہ بنتی ہے کہ ان دونوں میں تضاد کا تعلق نہیں کہ دونوں مراد نہ ہوسکیں، یعنی یہ بات بھی عند اللہ مراد ہوسکتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹا ذبح کریں اور یہ بھی کہ بالاخر تعبیر کچھ اور ہوگی۔ اس توجیہہ کے ساتھ یہ ماننا ہوگا کہ اللہ نے اس دوسرے پہلو کو ابتداء مخفی رکھا۔

رہا شبلی نعمانی صاحب کا اس عمل کو اجتہادی خطا قرار دینا تو یہ اس فعل کو غیر مامور بہ بنادیتا ہے۔ تاہم یہاں بھی یہ پہلو قابل غور ہے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اقدام کو قابل مذمت قرار نہیں دیا ہے بلکہ لائق تحسین کہا۔ بسا اوقات ایک فعل اگرچہ کسی پہلو سے خلاف اولی یا خطا ہو لیکن کسی دوسرے پہلو (مثلا کسی جذبے) کے لحاظ سے قابل تعریف ہوسکتا ہے، اس کی مثالیں اہل علم سے مخفی نہیں۔ چنانچہ ان کی مراد یہ کہنا ہے کہ عند اللہ بالاخر خواب کی جو مراد تھی اس کے لحاظ سے یہ اجتہادی خطا تھی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ عمل لائق تحسین تھا۔ تاہم کہنا پڑتا ہے کہ علامہ شبلی کا یہ قول آیات میں مذکور الفاظ کی رو سے سب سے کمزور ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں