شاہ صاحب کی فکر ی تشکیل میں جن عناصر کو دخل رہا انکا اظہار انکے فکری فریم ورک میں بخوبی ہوتا ہے ۔ چنانچہ انکی فکر اور اندازِ استدلال خالص معقولات ، باطنی و وجدانی کیفیات اور ظاہری علوم دینیہ میں سے کسی ایک میں منحصر یا بند نہیں ہوتا بلکہ یہ تمام چیزیں باہم اشتراک سے مساویا اس طرح چلتی نظر آتی ہیں کہ کسی ایک کو دوسری سے جدا کرنے کا مطلب انکی فکر کے مربوط نظام کو توڑ دینا ہے ۔ دیگر متکلمین کے برعکس شاہ صاحب کی فکر کے مجموعی عناصر میں سے کسی ایک کو دیگر کے لئے نقطہء آغاز نہیں بنایا جا سکتا بلکہ ان میں کا ہر واحد دوسرے پر منحصر ہو کر دوری انداز میں ایسے دلائل کو تشکیل دیتا ہے جسمیں شریعت کے عقائد اور احکام کے مصالح اور حِکَم نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شاہ صاحب کی فکری عمارت کا ڈھانچہ افلاطونی مثالیت پسندی کےستونوں پر استوار ہے ۔ جس طرح افلاطون عالمِ مادی میں موجود اشیاء کی حقیقتوں اور انکی کنہ کو عالمِ امثال اور اعیان سے جوڑتا اور مادی وجود کو انکی تمثیل کہتا ہے۔بعینہ شاہ صاحب بھی عالمِ مجردات اور مشاہدات کے درمیان ایک مثالی عالم کے قائل ہیں جسکی تفصیلات کافی طویل ہیں ۔
اپنی تصنیف “سطعات” کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
“حمد و ثناء کے بعد فقیر ولی اللہ کہتا ہے کہ یہ چند باتیں ہیں جنہیں سطعات کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ان میں ان حقائق کا بیان ہے جو مجردِ محض اور عالمِ شہادت کے درمیان رابطہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔”
سطعہ نمبر تین میں لکھتے ہیں:
” جب ہم آثار پیدا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اس حیثیت سے ہم شخصِ اکبر کو طبیعتِ کلی کہتے ہیں اور ہر نفسِ جزی کو طبیعتِ جزی ۔ان جزئیات میں سے جو مجردات کے قریب ہیں وہ ارواح ہیں ۔ اور جو مجردات سے بہت دور ہیں وہ عالمِ شہادت ہیں اور جوانکے مابین ہیں انکا نام مثال ہے۔”
لیکن شاہ صاحب کی ان تفصیلات اور تصورات پر نظر چونکہ ایک متکلم کی حیثیت سے ہے اسلئے وہ ایسے مسائل میں ظاہرِ شریعت سے استدلال کرتےہیں اگرچہ ایسے استدلالات نفسِ وجود کو تو کسی حد تک ثابت کرنے میں معاون ہوتے ہیں لیکن تفصیلی جزئیات میں سے اکثر کی بناءخالص غٖیر نقلی ہوتی ہے ۔بہرحال عالمِ مثال کو شاہ صاحب شریعت سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” واعلم أن أحادیث کثیرة علی أن فی الوجود عالما غیر عنصری تتمثل فیه المعانی باجسام مناسبة لها فی الصفتة ، و تتحقق هنالک الاشیاء قبل وجودها فی الارض نحوا من التحقق ،فإذا وجدت کانت هى هى بمعنی من معانی ھو ھو ”
جاننا چاہیے کہ بے شمار احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اس عالمِ عنصری کے علاوہ ایک ایسا عالم بھی موجود ہے جسمیں معانی اپنے متناسب اجسام کے ساتھ متشکل ہوتے ہیں اور اشیاء زمین پر ظاہر ہونے سے قبل اس عالم میں متحقق ہوتی ہیں اور جب یہ اشیاء خارج میں موجود ہوتی ہیں تو اہی معانی کے مطابق ہوتی ہیں ۔
شریعت سے عالمِ مثال کے اثبات کے بعد شاہ صاحب شریعت کے لزوم کو دوبارہ عالمِ مثال میں موجود نوعِ انسانی کی خاص ہیئتوں کے تقاضوں کے مطابق انکی مادی تمثیلات اور اجسام میں موجود قوتِ عاقلہ کی تکمیل سے جوڑتے ہیں تاکہ انسان عقلِ مفارق اور مجردِ محض بن کر حرکتِ دوری کرتا ہوا دوبارہ عنایتِ اولی کے بحرِ بے کنار میں گم ہو سکے۔ چنانچہ ہم ذیل میں حجۃ اللہ البالغہ حصہ اول کے باب نمبر سات کے چند اقتباسات کا ترجمہ اپنے ماسبق قول کی تائید کی خاطر پیش کرتے ہیں:
” پھر تم نوعِ انسانی کی طرف دیکھو کہ تم اس میں وہ تمام باتیں پاو گے جو تم درختوںمیں پاتے ہو ۔نیز وہ امور بھی پاو گے جو مختلف قسم کے حیوانات میں پاتے ہو ۔”
اس مقدمے کی تفصیل لکھنے کے بعد لکھتے ہیں :
“باوجود ان تمام امور کے اسمیں چند خاصیتیں ایسی بھی ہیں جنکی وجہ سے وہ دیگر حیوانات سے ممیز ہو جاتا ہے ۔ مثلا گفتگو کرنا، گفتگو کو سمجھنا، بدیہی مقدمات کو ترتیب دے کر یا تجربہ اور استقراء و تتبع اور حدس و فراست سے علومِ کسبیہ حاصل کرنا اور ان تمام امور کا اہتمام کرنا جنہیں وہ اپنی عقل سے اچھا سمجھتا ہے اگرچہ اپنی حس اور وہم انہیں معلوم نہیں کر سکتا مثلا تہذیبِ نفس اور اقالیم وممالک کو اپنا تا بع فرمان کر لینا۔ ۔اور یہ امور چونکہ نوعی ، خلقی اور پیدائشی ہیں اسلئے جہاں تک ان امور کے اصول کا تعلق ہے دنیا کی تمام اقوام ان میں مشترک ہیں ۔اور یہ تمام امور اس بناء پر ہیں کیونکہ یہ درحقیقت اسکی صورتِ نوعیہ کا اقتضاء ہیں ۔اور مزاجِ انسانی کا اقتضاء یہ ہے کہ اسکی عقل اسکے قلب پر غالب ہو اور قلب نفس پر حکمران ہو۔”
اس کے بعد شاہ صاحب نے نوعِ انسانی کے مذکورہ امتیاز اور خصوصیت کی وجہ بتاتے ہوئے اسمیں موجود دو قوتوں ملکیہ و بہیمیہ اور انکے تقاضوں کو ذکر کیا ہے جس میں اہم بات یہ ہے کہ شاہ صاحب کے نزدیک قوتِ ملکیہ کی موجودگی انسان میں دو خصلتوں کو جنم دیتی ہے ۔ ایک خصلت یہ ہےکہ اسمیں قوتِ عقلیہ بے حساب ہے جو ایک طرف قوتِ معاش ، وسائلِ معاشرت اور انکی باریکیوں کا استنباط کرتی ہے اور دوسری طرف اس میں علومِ غیبیہ کے حصول کی استعداد ہے ۔ جبکہ دوسری خصلت قوتِ عملیہ کی زیادتی ہے جسکی وجہ سے انسان تمام افعال ایسے اردے سے کرتا ہے کہ افعال کی روح اسکے نفس میں راسخ ہو جاتی ہے ۔ نفسِ انسانی کے افعال کی روح اخذ کرنے کی شاہ صاحب یہ دلیل دیتے ہیں کہ تمام بنی آدم مختلف قسم کی ریاضتوں اور عبادتوں پر متفق ہیں جنکے انوار اور معاصی و منہیات کی قساوت اور سیاہی انہوں نے اپنے وجدان سے معلوم کر لی ہے ۔ نوعِ انسانی کے لازمی تقاضوںکو بیان کرنے کے بعد انکے عملی طریقہء کار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
” صورتِ نوعیہ کے اقتضاء کے بموجب انسان کے مزاج میں جو اعتدال ہوتا ہے وہ ان علوم کے بغیر جو ان میں سے ذکی ترین سے ظاہر ہوتے ہیں مکمل نہیں ہوتا۔نیز اس وقت تک جب تک شریعت انکے پاس موجود نہ ہو جو معارفِ الہیہ ، تدابیرِ معاش اوران قواعد و ضوابط پر مشتمل ہوجو افعالِ اختیاریہ سے بحث کرے۔”
کمنت کیجے